Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • جن و شیاطین کی حقیقت

    جن و شیاطین ایسی مخلوق ہیں جو ہمارے ساتھ رہتی اور بستی ہیں، اور زندگی کے ہر موڑ پر ان سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ وہ ہم سے اتنے قریب ہیں کہ ہماری رگوں میں دوڑنے والے خون کے ساتھ ساتھ وہ بھی ہمارے اندر آباد ہیں۔ ہمارے نفسوں پر سوار، دماغوں اور خیالوں میں رچے بسے، کھانوں میں شریک، معاملات میں دخیل ، بیوی بچوں میں حائل، کہیں دشمنوں کی شکل میں تو کہیں دوست کی شکل میں۔ غرض اس انسانی بستی میں جہاں انسان آباد ہیں وہیں جن و شیاطین بھی ہیں۔ مسجد سے میخانے تک اور بازار سے تختِ حکومت تک ہر جگہ یہ انسانوں کے دوش بدوش ان کے راز حیات میں بر سر پیکار ہیں۔
    ۱۔ جن کی لغوی تعریف: ابن فارس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’(جِنٌّ) الْجِيمُ وَالنُّونُ أَصْلٌ وَاحِدٌ، وَهُوَ (السَّتْرُ وَ) التَّسَتُّرُ‘‘۔’’جن کی اصل ’’جیم ، نون ہے جس کا معنیٰ ہوتا ہے چھپانا ، پردہ ڈالنا ‘‘۔
    [مقاییس اللغۃ:۱؍۴۲۱، ابن فارس (ت:۳۹۵)]
    امام راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ:’’أصل الجِن:ستر الشیء عن الحاسۃ‘‘۔’’جن کی اصل یہ ہے کہ کسی چیز کا حاسہ سے پوشیدہ ہونا ‘‘۔ [المفردات فی غریب القرآن :۱؍۲۰۳]
    ۲۔ جن کی اصطلاحی تعریف: امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’ هُمْ أَجْسَامٌ عَاقِلَةٌ خَفِيَّةٌ تَغْلِبُ عَلَيْهِمُ النَّارِيَّةُ وَالْهَوَائِيَّةُ، وَقِيلَ: نَوْعٌ مِنَ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ، وَقِيلَ: هِيَ النُّفُوسُ الْبَشَرِيَّةُ الْمُفَارِقَةُ لأبدانها ‘‘۔
    [فتح القدیر للشوکانی:۵؍۳۶۳ الشوکانی :(ت:۱۲۵۰)]
    ترجمہ: جنات ایسے خفیہ عقلی اجسام ہیں جن کا آگ وہوا پر قبضہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مجرد روح کی ایک قسم ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ایسے بشری نفوس جو اپنے جسموں سے جدا ہوتے ہیں۔
    ۳۔ جن کی وجہ تسمیہ: جن کا نام جن کیوں پڑا، ابن عقیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ’’إِنَّمَا سمي الْجِنّ جنا لاستجنانهم واستتارهم عَن الْعُيُون ، مِنْهُ سمي الْجَنِين‘‘۔ ’’نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے جن کا نام جن پڑا ، اور اسی سے رحم مادر میں موجود بچے کو جنین کہتے ہیں (کیونکہ وہ بھی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ) ‘‘۔[آکام المرجان فی أحکام الجان:۱؍۲۳ الشبلی (ت:۷۶۹)]
    ۴۔ جن اور شیطان میں فرق ؟ ابو ہلال عسکری جن و شیاطین کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
    ۱۔ شیطان اور جن میں فرق یہ ہے کہ شیطان جنات میں سے وہ ہوتا ہے جو شر پسند ہو، اسی لیے کسی انسان کو اگر وہ شریر ہو تو شیطان کہا جاتا ہے، لیکن اسے جِن نہیں کہا جاتا، کیونکہ’’شیطان‘‘کا لفظ شرارت کا مفہوم دیتا ہے، جبکہ ’’جن‘‘کا لفظ صرف مخفی اور پوشیدہ ہونے کا معنیٰ دیتا ہے۔ اسی لیے عمومی طور پر کہا جاتا ہے:’’اللہ شیطان پر لعنت کرے‘‘، مگر’’اللہ جن پر لعنت کرے‘‘نہیں کہا جاتا۔’’جن‘‘ایک جنس( Category) ہے، جبکہ’’شیطان‘‘ایک صفت ہے۔
    ۲۔ شیاطین ایک الگ جنس ہیں اور جن ایک الگ جنس، جیسے انسان اور گھوڑے دو مختلف اجناس ہیں۔
    ۳۔ جنوں میں اچھے اور برے دونوں طرح کے ہوتے ہیں، جبکہ ’’شیاطین‘‘صرف بُرے اور سرکش جنوں کو کہا جاتا ہے۔[الفروق اللغویۃ للعسکری:۱؍۲۷۷ العسکری، أبو ہلال (ت:۳۹۵)]
    لیکن فی الحقیقت جن اور شیاطین میں تخلیق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے البتہ صفات و اعمال کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ اسْجُدُوا لِـآدَمَ فَسَجَدُوٓا إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِٓ } [الکہف:۵۰] ترجمہ: ’’یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ، تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ جنات میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی ‘‘۔
    امام طبری رحمہ اللہ اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ : ’’ما كان إبليس من الملائكة طرفة عين قط، وإنه لأصل الجن كما أن آدم أصل الإنس‘‘۔
    ترجمہ: ’’ابلیس پلک جھپکنے کے برابر بھی فرشتوں میں سے نہیں تھا ( حقیقت یہ کہ ) وہ اصلاً جن تھا جس طرح آدم علیہ السلام اصلاً انسانوں میں سے تھے‘‘۔[تفسیر الطبری جامع البیان:۱۵؍۲۸۹، أبو جعفر ابن جریر الطبری (ت:۳۱۰)؍ تفسیر الماوردی = النکت والعیون:۳؍۳۱۳ الماوردی (ت:۴۵۰)؍تفسیر ابن کثیر- ت السلامۃ:۵؍۱۶۷، ابن کثیر: (ت:۷۷۴)]
    ۵۔ جنات کی تخلیق کب ہوئی : ویسے تو یہ طے کر پانا ایک مشکل امر ہے، البتہ قرآن و حدیث سے جو معلوم ہوتا ہے کہ جنات کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسٰـنَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإ مَّسْنُوْنْ وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُومِ}
    [الحجر:۲۶۔۲۷]
    ترجمہ:’’ اور بے شک ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی خشک مٹی سے پیدا کیا جو کہ سڑے ہوئے کیچڑ سے بنی تھی، اس (انسان) سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا‘‘۔ (احسن البیان)
    مقاتل بن سلیمان کہتے ہیں کہ :’’خلقناه من قبل، أى آدم‘‘۔ اور جنات کو ہم نے ان سے پہلے پیدا کیا یعنی آدم علیہ السلام سے۔
    اور قتادۃ بن دعامۃ ،سعید کی طریق سے روایت کرتے ہیں کہ:’’والجآن خلقناه من قبل،وهو إبليس، خُلِق قبل آدم الجان‘‘ سے مراد ابلیس ہے ، جسے آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیا گیا ۔ [موسوعۃ التفسیر المأثور :۱۲؍۳۵۸ ]
    ۶۔ جنات کا مادۂ تخلیق : اللہ تعالیٰ نے جنات کو آگ سے پیدا کیا ہے جیسا کہ خود وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
    {وَالْجَآنَّ خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ} [الحجر:۲۷]
    اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:{وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِن مَّارِج مِّن نَّارْ}[الرحمٰن: ۱۵] ’’اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا‘‘۔
    رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ ‘‘۔[صحیح مسلم – ت عبد الباقی:۴؍۲۲۹۴، مسلم (ت:۲۶۱)]’’فرشتے نور سے، جنات آگ سے اور آدم علیہ السلام اس چیز سے پیدا کیے گئے ہیں جو تمہارے لیے بیان کیا گیا (یعنی مٹی سے )‘‘۔
    ۷۔ جنات کی تخلیق کا مقصد : جنات کی تخلیق کا بنیادی مقصد خالص اللہ کی عبادت کرنا ہے، اللہ کا فرمان ہے:{وَمَا خَلَقْتُ لْجِنَّ وَلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}[الذاریات:۵۶] ’’میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے‘‘۔
    ابن قیم رحمہ اللہ ابلیس اور اس کے لشکر کی تخلیق کی حکمت کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کی تفصیل کا احاطہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوا کوئی نہیں کرسکتا ہے ۔ چند حکمتیں ذکر کرتے ہیں:
    ۱۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں سے جہاد کرنے کے نتیجے میں بندگی کے درجے مکمل ہوتے ہیں۔۲۔ بندوں کا گناہ سے ڈرنا۔ ۳۔ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے باعث عبرت ہے۔۴۔ بندوں کے امتحان و آزمائش کا ذریعہ ۔۵۔ اضداد کی تخلیق کے ذریعے کمال قدرت کا اظہار ۔۶۔ مخالف اپنے مخالف کے حسن کا اظہار کرنے والا ہوتا ہے۔ ۷۔ آزمائش کا مقصد شکر کو حاصل کرنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ [شفاء العلیل فی مسائل القضاء والقدر والحکمۃ والتعلیل – ط عطاء ات العلم:۲؍۲۴۵، ابن القیم (ت :۷۵۱)]
    ۸۔ جنوں کے اقسام : بعض اہل علم نے جنوں کی چند قسمیں ذکر کی ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:
    ۱۔ اصلی جن کو جتنی کہتے ہیں۔ ۲۔ وہ جن جو لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اسے ’’عامر‘‘کہتے ہیں۔ ج: عمار ۳۔ جو جن بچوں کو پریشان کرتا ہے اسے’’ارواح‘‘کہتے ہیں۔ ۴۔ سب سے زیادہ پریشان کرنے والے جن کو شیطان کہتے ہیں۔ ۵۔ جس جن کی شرارت حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کی گرفت مضبوط تر ہو جائے تو اسے عفریت کہتے ہیں۔ [ التمہید – ابن عبد البر:۷؍۲۶۷: ابن عبد البر (ت:۴۶۳)
    اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ اَلْجِنُّ عَلَي ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ: صِنْفٌ كِلَابٌ وَحَيَّاتٌ وَصِنْفٌ يَطِيرُونَ فِي الْهَوَاء ِ وَصِنْفٌ يَحُلُّونَ ويظعنون ‘‘۔[التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان:۹؍۱۵ ناصر الدین الألبانی (ت :۱۴۲۰)]
    جنات کی تین قسمیں ہیں ایک قسم جو کتوں اور سانپوں کی شکل میں ہوتے ہیں، ایک قسم وہ جو ہوا میں اڑتے ہیں، اور ایک قسم وہ جو منزل میں اترتے ہیں اور کوچ کر جاتے ہیں۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَالْجِنُّ يَتَصَوَّرُونَ فِي صُوَرِ الْإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ فَيَتَصَوَّرُونَ فِي صُوَرِ الْحَيَّاتِ وَالْعَقَارِبِ وَغَيْرِهَا وَفِي صُوَرِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالْبِغَالِ وَالْحَمِيرِ وَفِي صُوَرِ الطَّيْرِ وَفِي صُوَرِ بَنِي آدَمَ كَمَا أَتَي الشَّيْطَانُ قُرَيْشًا فِي صُورَةِ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ لَمَّا أَرَادُوا الْخُرُوجَ إلَي بَدْرٍ‘‘۔ [مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۴۴، ابن تیمیۃ (ت :۷۲۸)]
    جنات کے کئی روپ ہوتے ہیں وہ کبھی انسانوں اور حیوانوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی سانپوں اور بچھوؤں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، وہ اونٹ، گھوڑا، بکری، گائے، گدھا، پرندہ اور ابن آدم کی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں جیسا کہ شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی شکل میں اہل قریش کے پاس اس وقت آیا تھا جب انہوں نے جنگ بدر کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا تھا ۔
    ۹۔ جنات کو قیامت تک کے لیے مہلت دینے کی حکمت : امام ابن الہیثم رحمہ اللہ نے چند ایک حکمتیں ذکر کی ہیں :
    ۱۔ بندوں کی آزمائش ۔ تاکہ اس کے ذریعے طیب کو خبیث سے اور اپنے دوستوں کو دشمنوں سے الگ کر دے۔ ۲۔ اسے سابقہ نیک عمل کے بدلے برقرار رکھا۔ تاکہ اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا کے اندر ہی اسے مل جائے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ۳۔ اسے مہلت دی گئی تاکہ وہ گناہ میں اور زیادہ بڑھ جائے۔ ۴۔ تاکہ وہ مجرموں کا ساتھی بن جائے وغیرہ ۔ [شفاء العلیل فی مسائل القضاء والقدر والحکمۃ والتعلیل – ط عطاء ات العلم:۲؍۲۵۶، ابن القیم (ت:۷۵۱)]
    ۱۰۔ جنات کی قیام گاہیں : جنات بالکل انسانوں کی طرح زمین پر چلتے پھرتے ہیں، زمین پر ان کی رہائش گاہیں ہیں، درج ذیل سطور میں ان مقامات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جہاں جنات کا اکثر آنا جانا ہوتا ہے:
    ۱۔ بیابان، صحرا، درے ، جنگل اور وادیاں وغیرہ۔
    ۲۔ کوڑا کرکٹ اور گندگی و غیرہ پھینکنے کی جگہیں اور جہاں انہیں اپنا کھانا میسر ہوتا ہے۔
    ۳۔ غسل خانوں اور بیت الخلاء وغیر ہ میں، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ إِنَّ هَذِهِ الْحُشُوشَ مُحْتَضَرَةٌ فَإِذَا أَتَي أَحَدُكُمُ الْخَلَاء َ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ‘‘۔[سنن أبی داؤد:۱؍۶، أبو داؤد (ت:۲۷۵) ، کتاب الطہارۃ باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء ، صحیح أبی داؤد:۶]
    ترجمہ: بے شک یہ بیت الخلاء جنات کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء کو آئے تو یہ دعا پڑھے:’’أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِث‘۔’’(اے )اللہ !میں تیری پناہ میں آتا ہوں خبیث جنوں اور جنیوں (کے شر) ہے‘‘۔
    ۴۔ غار، شگاف، بل اور زمینی سوراخ وغیرہ :
    حضرت عبداللہ بن سر جس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي جُحْرٍ.قَالُوا لِقَتَادَةَ: وما يُكْرَهُ مِنَ الْبَوْلِ فِي الْجُحْرِ؟ قَالَ: يُقَالُ إِنَّهَا مَسَاكِنُ الْجِنِّ ‘‘۔ ’’تم میں سے کوئی کسی سوراخ میں ہر گز پیشاب نہ کرے، انہوں نے سید نا قتادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:سوراخ میں پیشاب کرنا کیوں نا پسند کیا گیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ جنات کی قیام گاہیں ہیں‘‘۔[سنن النسائی:۱؍۳۳، النسائی :(ت۳۰۳)کتاب الطہارۃ:۳۰،کراہیۃ البول فی الجحر]
    لیکن مذکورہ روایت کو امام البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں: [ضعیف الترغیب :۱۲۰، إرواء الغلیل:۵۵، تمام المنۃ:۶۱]
    ۵۔ اونٹوں کے باڑے بھی جنات کی قیام گاہیں ہیں، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ، فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنَ الشَّيَاطِينِ‘‘۔ ’’بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرو لیکن اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان میں سے پیدا کیے گئے ہیں‘‘۔[سنن ابن ماجہ – ت عبد الباقی :۱؍۲۵۳، ابن ماجہ (ت :۲۷۳)کتاب المساجد والجماعات:۱۲،باب الصلاۃ فی أعطان الإبل ومراح الغنم ، صحیح ابن ماجہ للألبانی :۶۳۰]
    ۱۱۔ جنات کے متعلق لوگوں کے عقائد :
    ۱۔ اہل سنت و الجماعت: تمام اہل سنت والجماعت کا اعتقاد ہے کہ جنات بھی انسان کی طرح ایک ذی عقل مخلوق ہیں جو کھاتے پیتے اور نکاح بھی کرتے ہیں ،ساتھ ہی شرعی احکام کے مکلف بھی ہیں۔
    شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لَمْ يُخَالِفْ أَحَدٌ مِنْ طَوَائِفِ الْمُسْلِمِينَ فِي وُجُودِ الْجِنِّ وَلَا فِي أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَ مُحَمَّدًا إلَيْهِمْ…‘‘۔’’ اہل سنت و الجماعت میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کی مخالفت کی اور نہ ہی محمد ﷺ کے ان کی جانب بھیجے جانے کی‘‘ ۔[مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۱۰، ابن تیمیۃ: (ت:۷۲۸)]
    اور ابن حجر الہیثمی فرماتے ہیں:’’وأما الجان فأهل السنة والجماعة يؤمنون بوجودهم ‘‘۔ ’’اور جہاں تک بات ہے اہل سنت و الجماعت کی تو وہ جنات کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔[الموسوعۃ العقدیۃ – الدرر السنیۃ:۸؍۳۳۴]
    ۲۔ جمہور کفار: جمہور کفار بھی جنات کے وجود کا اقرار کرتے تھے لیکن ان کے ہاں کچھ انحراف تھا، مثلاً ان میں سے بعض کا اعتقاد تھا کہ جنات پیدا کرنے اور تدبیر کرنے میں اللہ کے شریک ہیں، ایسے ہی ان میں سے بعض کا اعتقاد تھا کہ جنات عالم الغیب ہیں وغیرہ۔[مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۱۰ ،ابن تیمیۃ: (ت:۷۲۸)]
    ۳۔ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ): اہل کتاب جنات کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’أما أهل الكتاب من اليهود والنصاري فهم مقرون بهم كإقرار المسلمين وإن وجد فيهم من ينكر‘‘ ۔’’جہاں تک اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی بات ہے تو وہ لوگ بھی مسلمانوں کی طرح جنات کے وجود کا اقرار کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض منکر ہیں‘‘۔[مجموع الفتاویٰ:۱۰؍۱۹ ابن تیمیۃ (ت:۷۲۸)]
    اور امام طبری رحمہ اللہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے اللہ کے قول:{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ }[الصافات:۱۵۸] کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:’’ قالت اليهود: إن اللّٰه تبارك وتعالٰي تزوج إلى الجن، فخرج منها الملائكة، قالوا:من بنات اللّٰه‘‘۔ یہودیوں نے کہا (نعوذ باللہ) اللہ نے ایک جنی سے شادی کی، جس سے فرشتوں کی پیدائش ہوئی، انہوں نے کہا لہٰذا فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ [تفسیر الطبری جامع البیان:۲۱؍۱۲۱، أبو جعفر ابن جریر الطبری (ت:۳۱۰)]
    ۴۔ مجوس: دیگر ادیان و فرق کی طرح یہ بھی جنات کے وجود کا اقرار کرتے ہیں لیکن جنات کو خلقت و تدبیر وغیرہ کے معاملے میں ساتھی و شریک مانتے ہیں۔
    امام فخر الدین رازی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے قول: { وَجَعَلُوا لِلّٰهِ شُرَكَآء الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَـٰتِ بِغَيْرِ عِلْم سُبْحَـٰنَهُ وَتَعَـاليٰ عَمَّا يَصِفُونَ} [الأنعام:۱۰۰] کے سلسلے میں فرمایا کہ یہ آیت ’’زنادقہ‘‘کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے کہا کہ اللہ اور ابلیس دونوں بھائی ہیں (نعوذ باللہ)، پس اللہ نے لوگوں، جانوروں اور بھلائیوں کو پیدا کیا، اور ابلیس نے درندوں، حیوانوں، سانپ بچھوؤں اور برائی کو پیدا کیا۔ [تفسیر الرازی ،مفاتیح الغیب أو التفسیر الکبیر :۱۳؍۸۸ الفخر الرازی (ت :۶۰۶)]
    ۱۲۔ جنات کے متعلق پھیلی ہوئی چند بد گمانیاں :
    ۱۔ جنات کا وجود نہیں ہے: کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو جنات کے وجود کے منکر ہیں جبکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا:{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}[الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ‘‘۔
    یہ آیت کریمہ جنات کی تخلیق کی واضح دلیل ہے ۔
    ۲۔ جن و شیاطین کے پاس غیب کا علم ہوتا ہے : علم غیب اللہ ذو الجلال کا خاصہ ہے ، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:{قل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَـٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللّٰهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ}[النمل:۶۵]’’کہہ دیجیے کہ آسمان وزمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا‘‘۔
    اس باطل عقیدے کی تردید خود اللہ تعالی نے جنات کی زبانی کر دیا ہے ۔
    ۳۔ جنات خلقت میں اللہ کے شریک ہیں: یہ مجوس کا اعتقاد ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس طرح کر دی ہے، فرمایا:{وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدُ}[الإخلاص:۴]’’کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے‘‘۔
    ۴۔ اللہ اور ابلیس دونوں بھائی ہیں: بعض زنادقہ کا اعتقاد ہے کہ اللہ اور ابلیس دونوں بھائی ہیں (نعوذ باللہ)، قرآن وسنت بالکلیہ رد کرتے ہیں، فرمان الہٰی ہے: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص:۱]
    کہہ دیجیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ایک ہے۔
    ۵۔ جن و شیاطین کو آگ کا عذاب کیسے ہو گا؟ بعض لوگ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ہے تو اسے کس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا، اس کے کئی جوابات دیئے گئے ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
    ۱۔ ایسا کتاب و سنت سے وارد ہے اس لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
    ۲۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی اصل مٹی ہے ورنہ انسان حقیقت میں مٹی نہیں ہے ، بلکہ گوشت پوست کا ہے۔ ایسے ہی جن و شیاطین اور ابلیس کی اصل بھی آگ ہے لیکن اب وہ حقیقت میں آگ نہیں۔
    ۳۔ ’’إن الله على كل شيء قدير‘‘۔ لہٰذا آگ کی مخلوق کو اللہ عذاب دینے پر قادر ہے۔
    مسلم سماج میں ان جیسے اور بھی بہت سارے باطل اعتقادات پائے جاتے ہیں، ان بد اعتقادیوں کے کئی اسباب ہیں :
    ۱۔ کتاب و سنت سے دوری: نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘۔[موطأ مالک – روایۃ یحییٰ – ت عبد الباقی:۲؍۸۹۹ مالک بن أنس (ت :۱۷۹) حسنہ الألبانی : ہدایۃ الرواۃ:۱۸۴] میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو گے :کتاب اللہ، سنت رسول اللہ ۔
    ۲۔ علماء سے دوری: اعدائے اسلام اور کچھ نام نہاد مسلمانوں کی سازشوں کی بنیاد پر عوام نے علماء سے دوری اختیار کرلی جس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں، بد گمانیاں اور بگاڑ و فساد نے معاشرے میں جنم لیا۔
    ۳۔ حصول علم میں احتیاط نہ کرنا: اگر کسی کو مرض لاحق ہوتا ہے تو وہ نیم حکیم ڈاکٹر سے اجتناب کرتا ہے، چونکہ وہ خطرہ جاں ہوتا ہے ،لیکن دین اتنا ارزاں اور سستا ہو گیا ہے کہ یہ امت ہر کس وناکس سے حاصل کرتی چلی جارہی ہے۔
    ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم‘‘۔
    ’’یہ علم دین ہے لہٰذا اس شخص کی تحقیق کر لو جس سے تم علم حاصل کر رہے ہو‘‘۔ [صحیح مسلم:۱؍۱۴،الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی:۱؍۲۵۴]
    امام مجالد کہتے ہیں کہ:’’لا يؤخَذُ الدِّين إلَّا عن أهلِ الدِّين ‘‘۔’’یہ علم اہل دین سے ہی حاصل کیا جائے گا ‘‘۔ [المحدث الفاصل:۱؍۴۳۴، الرامہرمزی (ت:۳۶۰)]
    جن و شیاطین کے متعلق پھیلے ہوئے باطل عقائد اور شکوک و شبہات کا علاج یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا کوئی شبہ ذہن میں پیدا ہو تو ہمیں چاہیے کہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، علماء کے سامنے مسئلے کو رکھیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{فَسْـَلُوٓا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}[الأنبیاء:۷]’’اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو‘‘۔
    اللہ ہم سب کو جن و شیاطین کے شر سے بچائے، دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے ، آمین ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings