-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا تعارفی سلسلہ قسط :(۱۵) شیح الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بڑی ہی مشہورو معروف اور رد عیسائیت پر لکھی گئی کتاب’’الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح‘‘کا تعارف پیش خدمت ہے :
سب سے پہلی طباعت: اس کتاب کی سب سے پہلی طباعت ۱۳۲۲ھ ،۱۹۰۵ء میں ہوئی یعنی تقریباً ۱۲۰سال پہلے ۔
سبب تالیف : شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ رسالہ بولس راہب (قبرص)کی طرف سے لکھی جانے والی کتاب ’’الکتاب المنطیقی الدولۃ خانی المبرہن عن الاعتقاد الصحیح والرأی المستقیم‘‘کے جواب میں لکھا ہے ۔
اس رسالہ کے اندر اس نے دو بڑی بے بنیاد باتیں یہ لکھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت خاص عربوں کے لیے تھی ، اور تمام کے تمام مسلمان تحریف شدہ دین پر ہیں ۔
دوسری بات اس نے دین نصاریٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کئی سمعی اور عقلی دلائل کا بھی ذکر کیا ہے ،ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان تمام دلائل کا جائزہ اپنی اس بے نظیر کتاب کے اندر لیا ہے ۔
نصاریٰ کے یہاں بولس راہب کی یہ کتاب بڑی ہی معتمد سمجھی جاتی ہے ۔اور آج بھی یہ کتاب ان کے یہاں بڑی ہی معتمد سمجھی جاتی ہے ۔نصرانیت کے اہم مصادر میں سے اس کا شمار ہوتا ہے۔اس کتاب کے اندر نصرانیت کے عقائد کا خلاصہ ہے ،اسے تلقی بالقبول ان کے یہاں حاصل ہے ،بلکہ بعض کا کہنا یہاں تک ہے کہ دین نصرانیت کو سمجھنے کے لیے صرف اسی کتاب پر ہی اکتفاء کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔اور کئی ایک نصرانی علماء نے اس کتاب کی تعریف کی ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :[الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح،تحقیق۔د ؍عبد الرحمٰن بن حسن قائد ، ص:۲۸۔۲۹]
ساتویں صدی ہجری میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے عیسائیت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے شکست فاش دے دی تو عیسائیت نے دو بدو لڑنے کے بجائے علمی اور فکری گمراہیاں پھیلانی اور اسلام پر قلمی حملے کرنے شروع کردئے جن کے جواب میں شیخ الاسلام نے مختلف ضمنی تحریروں کے ساتھ ’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘جیسی بے نظیر کتاب تصنیف فرمائی ۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی: ج:۴،ص:۱۳۵)
نسبت کتاب کی تحقیق: یہ کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ ہے ، جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے خود اپنی کئی ایک کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ بعض عبارتیں ان کی کتابوں سے اس حوالہ سے نقل کرتا ہوں ۔
’’وقد بسط ما فى كلامهم من صواب وخطأ فى الكتاب الذى سميناه ’’الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح ‘‘۔[مجموع الفتاويٰ:۱۶؍۳۶۲]
دوسری جگہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وقد ذکرت فی الرد علی النصاری من مخالفتہم للأنبیاء کلہم مع مخالفتہم لصریح العقل ما یظہر بہ من کفرہم ما یظہر، ولہذا قیل فیہ’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘۔ [مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۱۸۹]
من جملہ دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے اندر اپنی بعض کتابوں کی طرف احالہ بھی کیا ہے ۔ جیسے’’درء تعارض العقل والنقل‘‘ کا نام اس کتاب میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
۱۔ الثَّالِث: أَنْ يُبَيَّنَ فَسَادُ تِلْكَ الْحُجَّةِ الْعَقْلِيَّةِ۔ إِنْ كَانَتْ مِنْ بَابِ الْخَبَرِيَّاتِ: بُيِّنَ فَسَادُهَا كَمَا قَدْ بَسَطْنَا الْقَوْلَ فِي ذَالِكَ فِي كِتَابِ’’درْئِ تَعَارُضِ الْعَقْلِ وَالشَّرْعِ‘‘۔
[الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح لابن تیمیۃ :۵؍۱۲۹]
۲۔ وَيَظُنُّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ أَنَّ هَذَا مِنْ كَرَامَاتِ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ، وَيَكُونُ مِنْ إِضْلَالِ الشَّيَاطِينِ، كَمَا قَدْ بُسِطَ الْكَلَامُ فِي هٰذَا الْبَابِ فِي غَيْرِ هٰذَا الْكِتَابِ، مِثْلِ الْفُرْقَانِ بَيْنَ أوْلِيَائِ الرَّحْمٰنِ، وَأَوْلِيَائِ الشَّيْطَانِ وَغَيْرِ ذَلِك۔
[الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح لابن تیمیۃ:۳؍۳۴۹]
اس کے علاوہ اس کتاب کے اندر انہوں نے اپنی کئی ایک اور کتابوں کے نام جیسے ’’مسالۃ الایمان ، منھاج السنہ‘‘ وغیرہ کا ذکر کیا۔اس کے علاوہ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیں :[الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘تحقیق ۔د ؍عبد الرحمن بن حسن قائد ۔ص:۲۴۔۲۷]
اس کتاب کے مختلف اسماء :
۱۔ الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح:
اس کتاب کے مقدمہ میں کہیں بھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب کے نام کی صراحت نہیں کی ہے ، ہاں اپنے دیگر کتابوں اور فتاؤں میں اس کا ذکر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیاہے ،اسی طرح بعض مخطوطات میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے ۔
بعض عبارتیں اس حوالہ سے نقل کرتا ہوں :
وقد بسط ما فى كلامهم من صواب وخطأ فى الكتاب الذى سميناه،الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح
[مجموع الفتاویٰ:۱۶؍۳۶۲]
دوسری جگہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وقد ذكرت فى الرد على النصاري من مخالفتهم للأنبياء كلهم مع مخالفتهم لصريح العقل ما يظهر به من كفرهم ما يظهر، ولهذا قيل فيه’’الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح ‘‘
[مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۱۸۹]
اسی طرح ان کے بعض تلامذہ جیسے ابن قیم ، ابن عبد الہادی ،ابن رشیق وغیرہم نے بھی یہی نام ذکر کیا ہے ۔ ان کی سیرت پر جنہوں نے کتابیں لکھی ہیں ،انہوں نے بھی اس کاذکر کیا ہے ۔جیسے صفدی اورابن رجب وغیرہ ۔
۲۔ بيان الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح۔
بعض مخطوطات میں یہ بھی نام ملے گا ۔تفصیل کے لیے دیکھیں :[مقدمہ التحقیق للدکتور عبد الرحمن بن حسن قائد:۱۹؍۲۰]
۳۔الرد الصحيح على من بدل دين المسيح۔
ایسا ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ۔دیکھیں :[فتح الباری:۱۳؍۵۲۴،بحوالہ:مقدمہ التحقیق للدکتور عبد الرحمن بن حسن قائد:۲۰]
۴۔ الرد على النصاريٰ:
شیخ الاسلام نے اس نام کا ذکر خود اپنی بعض تحریروں میں کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’وکذلک بینا طرق الناس فی إثبات العلم بالنبوات فی شرح الأصبہانیۃ وکتاب’’الرد علی النصاری‘‘ وغیرہما۔
[الرد علی المنطقیین:ص:۲۵۴]
’’وَقد بسطنا ذَلِك فِي’’الرَّد على النَّصَارَي‘‘ وَبينا أَن الحواريين لم يَكُونُوا رسلًا فَإِن النَّصَارَي يَزْعمُونَ أَن الحواريين رسل اللّٰه مثل إِبْرَاهِيم ومُوسَي وَقد يفضلونهم على إِبْرَاهِيم ومُوسَي وَهَذَا كفر عِنْد الْمُسلمين وَقد بَينا ضلال النَّصَارَي فِي ذَلِك۔
[جامع الرسائل لابن تیمیۃ- رشاد سالم:۱؍۶۶]
وَقَدْ بُسِطَ هَذَا فِي’’الرَّدِّ عَلَي النَّصَارَي‘‘۔
[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۲۶۸]
۵۔ تخجيل أهل الإنجيل و النهج الصحيح فى الرد على من بدل دين عيسي ابن مريم المسيح:
یہ تمام باتیں اسی کتاب نقل کی گئیں ہیں[الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘تحقیق ۔د ؍عبد الرحمن بن حسن قائد :ص:۱۸۔۲۷]
کتاب کا موضوع ،ترتیب اور علمی افادیت: مؤلف نے خود مقدمہ میں کتاب کے موضوع کو واضح کیا ہے اور وہ بولس کی کتاب پر رد ہے ،نصاریٰ کے عقائد پر بھی رد ہے ۔
ترتیب کتاب: بولس نے جیسے چھ فصل میں اپنے دعویٰ کو بیان کیاہے ،اسی چھ فصل کو سامنے رکھ کرکے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس کا جواب دیا ہے ، ہاں مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیاہے مزید بعض مسائل اور قواعد کو بھی ذکر کیاہے ۔ کتاب کے شروعات میں ایک مقدمہ ہے جو چند اہم باتوں پر مشتمل ہے ، وہ یہ کہ اللہ کے نزدیک قابل قبول دین دین اسلام ہے ، تمام انبیاء کا دین وہی ہے جو اسلام کے نام سے ہے ،اس دین اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین کبھی بھی قابل قبو ل نہیں ہے ۔سبب تالیف کا بھی ذکر اس میں ہے اور بولس کی طرف سے کئے گئے دعویٰ کو رد کرنے کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے منہج کو بھی بیان کیاہے ۔
پھر ان کے سب سے پہلے شبہ کو ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف عرب کے لیے مبعوث ہوئے تھے ، انہوں نے اپنی اس بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جن دلائل کا سہارا لیا ہے ان تما م کا رد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا ہے ۔
آگے ایک فصل قائم کرکے ان کے بعض عقائد جیسے صلیب ،فداء ،اتحاد ،حلول وغیرہ پر رد کیاہے ۔
نصاریٰ کے اپنے دین کو صحیح قرار دینے والے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن نے انجیل اور ان کے حواریین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے، اور یہ کہ اللہ کے نام کا بکثرت ذکر ہے ، قرآن بھی ان کی کتاب کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے ، قرآن کی بعض آیات ان کے مدح و تعریف میں بھی وارد ہیں ،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:{مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ}[آل عمران:۱۱۳]’’بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت (حق پر)قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں‘‘۔
ایسے ہی نصاریٰ کے ضلالت کے اسباب کو بھی بیان کیاہے،اس کے علاوہ بعض نصاریٰ کے اسلام قبول کرنے کی بات اور ایسے ہی ان کے عقائد وغیرہ کا ذکر ہے ۔
اہمیت :مقارن ادیان میں یہ کتاب معلم کی حیثیت رکھتی ہے ،اس باب میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے اہم کتاب مانی جاتی ہے ، بلکہ اس کتاب کا کوئی نظیر ہی اسلامی تاریخ میں نہیں ہے ،مسیحیت پر لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے جامع ترین یہ کتاب ہے ۔
ابن عبد الہادی اس کتاب کے بعض پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں :
وهذا الكتاب من أجلِّ الكتب وأكثرها فوائد، ويشتمل على تثبيت النبوات وتقريرها بالبراهين النَّيِّرة الواضحة، وعلي تفسير آيٍ كثير من القرآن، وعلي غير ذلك من المهمَّات. العقود الدرية فى مناقب ابن تيمية‘
[ص: ۴۴ط عطاء ات العلم]
ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’یہ کتاب بڑی کتابوں میں سے ہے اور بہت سارے فوائد سموئے ہوئے ہے، واضح اور روشن دلائل کے ذریعہ نبوت کو بیان کیا گیا ہے ، قرآن کی کئی آیتوں کی تفسیر بھی اس میں موجود ہے ،اس کے علاوہ کئی ایک اہم باتیں اور بھی اس کتاب کے اندر ہیں ‘‘۔
محمود شکری آلوسی اس کتاب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’والكلام على هذا الباب مفصل فى ’’الجواب الصحيح ‘‘ لشيخ الإسلام، فعليك به، فإنه كتاب لم يؤلف مثله۔ فصل الخطاب فى شرح مسائل الجاهلية ت على مخلوف‘‘۔
[ص:۱۵۵]
محمود شکری آلوسی کہتے ہیں کہ:’’اس مسئلہ میں مفصل گفتگو’’ الجواب الصحیح‘‘کے اندر ہے ،اسے ہی لازم پکڑو ،اس جیسی کتاب نہیں تالیف کی گئی ہے ۔
نصرانی راہب کی کتاب کا جواب دینے والے دیگر علماء :
۱۔ شہاب الدین القرافی (ت:۶۸۴)نے اپنی کتاب’’الأجوبة الفاخرة عن الأسئلة الفاجرة‘‘کے اندر اس کا جواب دیا ہے۔
۲۔ محمد بن ابی طالب الانصاری الدمشقی (ت:۷۲۷ھ)نے بھی دیا ہے ۔’’کتاب فیہ جواب رسالۃ أہل جزیرۃ قبرص فی الرد علی النصاری‘‘۔
فوائد علمیہ:
۱۔ عیسائیو ں نے عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے تین خلاف عقیدہ باتیں کہیں ہیں جسے اللہ رب العزت نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔تین خلاف عقیدہ باتیں ان کی یہ ہیں ، ایک مسیح ہی اللہ ہیں ،دوسرے نمبر پر تین معبودان میں سے ایک یہ بھی ہیں ،تیسرے یہ کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔
قَالَ تَعَالٰي :{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ}
[المائدۃ:۱۷]
فِي الْمَوْضِعَيْنِ۔
وَقَالَ تَعَالٰي: {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ}
[المائدۃ:۷۳]
وَقَالَ تَعَالٰي: {وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ}
[النساء:۱۷۱]
وَقَال تَعَالٰي: {وَقَالَتِ النَّصَارَي الْمَسِيحُ ابْنُ اللّٰهِ}
[التوبۃ:۳۰]
۲۔ مخلوقات میں سب سے بدترین اور سب سے بڑا کفر کا ارتکاب کرنے والا وہ شخص ہے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے ۔جیسا کہ اللہ کا فرمان :
قَالَ تَعَالٰي: {فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاء َهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًي لِلْكَافِرِينَ ۔ وَالَّذِي جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ۔ لَهُمْ مَا يَشَاء وْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَائُ الْمُحْسِنِينَ}
[الزمر:۳۲۔۳۴]
۳۔ نجران کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ میں سے عثمان بن عفان ،عبد الرحمن بن عوف ، زبیر بن العوام ،عبد اللہ بن مسعود ،جعفر بن علی وغیرہم ہیں ۔
۴۔ اسکندریہ(مصرکا بادشاہ)کے نصرانی بادشاہ مقوقس کے پاس آپ ﷺ نے صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھوں اسلام کا پیغام بھجوایا،اس نے آپ کو دو لونڈی ہدیتا دیا اور ایک بغلہ ، جس کا نام ’’الدُّلْدُلَ‘‘تھا ،اللہ کے رسول ﷺنے اس کے ہدیہ کو قبو ل کیا ، چنانچہ ایک لونڈی آپ نے قبول کرلیا جس کانام ماریہ تھا اور انہیں کے بطن سے ابراہیم پیدا ہوئے تھے ، دوسری لونڈی آپ نے حسان بن ثابت کو ہدیۃً دے دیا تھا ، ان سے عبدالرحمن پیدا ہوئے ، بغلہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک زندہ تھا ۔
۵۔ من جملہ ان دلائل میں سے جو نبی کی نبوت کے عمومیت پر دلالت کرتی ہیں چند ایک دلائل یہ بھی ہیں:
وَقَالَ ﷺ: كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَي قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَي النَّاسِ عَامَّةً۔[صحیح البخاری:۴۳۸]
پہلے انبیاء خاص اپنی قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
وَقَالَ تَعَالٰی: {قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ }’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے‘‘۔[الأعراف:۱۵۸]
وَقَالَ تَعَالٰی:{ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا}’’ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔[سبا:۲۸]
۶۔ بعثت ِنبوی سے پہلے نصاریٰ نے اپنے دین میں تحریف اور تبدیلیاں کررکھی تھیں ،عقیدۂ تثلیث اور اتحاد وغیرہ کو عام کررکھا تھا ۔
۷۔ اللہ ر ب العزت نے رسول اکرم ﷺکو جو معجزات دئے ان کی تعداد ہزار سے زائد ہے ،جیسے شق قمر ، نزول قرآن وغیرہ ۔
۸۔ اس دنیا میں لوگوں کے بڑی بڑی گمراہیوں میں مبتلا ہونے کے تین بڑے اسباب ہیں :
(۱) صاف صریح الفاظ کو چھوڑ کرکے متشابہ مجمل الفاظ کے پیچھے پڑنا اور پھر ان سے مسائل کا استنباط اپنے عقائد و مذاہب کے موافق کرنا ۔(۲) خوارق کو اللہ کی آیات تصور کرنا حالانکہ وہ سب چیزیں شیطانی احوال ہوتے ہیں، جیسے بتوں کے اندر داخل ہوکرکے شیطان کا کلام کرنا ،بعض غیبی امور کا شیطان کا کاہنوں کو خبر دینا۔(۳)بعض منقول خبریں یہ سوچ کرکے بیان کرنا کہ یہ سب صداقت پر مشتمل ہیں ،حالانکہ وہ سب جھوٹی خبریں ہیں ۔
۹۔ صحابۂ کرام نے نبی اکر م ﷺ کی ظاہری صفات کو بھی بیان کیاہے ،اسی کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق میں سے حلم ،بہادری ، جو د سخاوت اور زہد و ورع وغیرہ کو بھی بیان کیا ہے ۔ ان میں سے بعض کو بیان کرتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وجْهًا وَأَحْسَنَهُ خَلْقًا لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ.
[صحیح البخاری:۳۵۴۹]
ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ حسن و جمال میں بھی سب سے بڑھ کر تھے اور جسمانی ساخت میں بھی سب سے بہتر تھے۔ آپ کا قد نہ بہت لمبا تھا اور نہ چھوٹا (بلکہ درمیانہ قد تھا)۔
عَنِ الْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ رضي اللّٰه عنهما قَالَ كَانَ النَّبِيُّﷺ مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شحْمَةَ أُذُنِهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ۔
[ صحیح البخاری:۳۵۵۱]
براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺدرمیانہ قد کے تھے۔ آپ ﷺ کا سینہ بہت کشادہ اور کھلا ہوا تھا۔ آپ کے (سر کے)بال کانوں کی لو تک لٹکتے رہتے تھے۔ میں نے آپ ﷺکو ایک مرتبہ ایک سرخ جوڑے میں دیکھا۔ میں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر حسین کسی کو نہیں دیکھا تھا۔
وَفِي الْبُخَارِيّ: وَسُئِلَ الْبَرَائُ:’’أَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِثْلَ السَّيْفِ، قَالَ: لَا، بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ‘‘۔
[صحیح البخاری:۳۵۵۲]
کسی نے براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ تلوار کی طرح (لمبا پتلا)تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، چہرۂ مبارک چاند کی طرح (گول اور خوبصورت)تھا۔
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَال:’’ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّي كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ۔
[صحیح البخاری:۳۵۵۲]
جب بھی نبی کریم ﷺ کسی بات پر مسرور ہوتے تو چہرۂ مبارک چمک اٹھتا، ایسا معلوم ہوتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور آپ ﷺ کی خوشی کو ہم اسی سے پہچان جاتے تھے۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّﷺ ضخْمَ الْيَدَيْنِ لَمْ أَرَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَكَانَ شَعَرُ النَّبِيِّ ﷺ رَجِلًا لَا جَعْدَ وَلَا سَبِطَ۔
[صحیح البخاری:۵۹۰۶]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ بھرے ہوئے تھے میں نے نبی کریم ﷺ کے بعد آپ جیسا (خوبصورت کوئی آدمی)نہیں دیکھا آپ کے سر کے بال میانہ تھے نہ گھونگھریالے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے۔
اس کے علاوہ نبی کی صفات سے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کئی اور حدیثیں ذکر کی ہیں۔
۱۰۔ وجود باری تعالیٰ کے دلائل اوراس کی حیات سے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کئی دلائل ذکر کی ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:قَالَ تَعَالٰی:{اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ}[آل عمران:۲] وَقَالَ تَعَالٰي: {وَتَوَكَّلْ عَلَي الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ}[الفرقان:۵۸]
نوٹ: یہ کتاب چھ جلدوں میں مطبوع ہے ، اس اعتبار سے اگر دیکھیں تو بہت سارے فوائد ذکر کئے جاسکتے ہیں ، طوالت کے خوف سے چند فوائد پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے۔
مختصرات و تحقیقات:
۱۔ مختصر الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح۔ د؍عبدالرحيم بن صمايل السلمي۔
۲۔ مختصر الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح ، محمد بن عبد الوهاب التميمي رحمه اللّٰه۔
۳۔ الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح۔ دار التأصيل۔ المحقق: عبد الرحمٰن بن حسم قائد۔ عدد الأجزاء:۵،الصفحات:۲۶۶۷۔
۴۔ الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح۔تحقيق۔ د۔سفر بن عبد الرحمٰن الحوالي
الحوار الصحيح لمن بدل دين المسيح۔ تحقيق مجدي قاسم
۵۔ الجواب الصحيح لمَنْ بَدَّلَ دِين المسيح تحقيق وتعليق:د۔علي بن حسن بن ناصر، د۔ عبد العزيز بن ابراهيم العسكر يرين۔
۶۔ الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح”تحقيق .د ؍عبد الرحمن بن حسن قائد۔
دار العاصمة۔للنشر والتوزيع۔ د۔حمدان بن محمد المحمدان
اردو میں ترجمہ: ۱۔ شیخ الاسلام کی کتاب الجواب الصحیح کے چند اوراق کا ترجمہ۔ عبد الرزاق ملیح آبادی نے کیا ہے ۔
جاری ……