Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے محاضرات کا تحریری سلسلہ ۔محاضرہ نمبر(۳)

    بر صغیر میں علماء اہل حدیث کی خدمات
    (قسط:۱)

    میرا جو موضوع ہے ،اس میں آپ نے اہل حدیث کا لفظ دیکھ کرکے حیرت کا اظہار کیا ہوگا کہ اہل حدیث کو ن ہوتے ہیں ؟آپ کو میں بتاؤں کہ کچھ نام، کچھ جگہیں اور کچھ جماعتیں ایسی ہیں کہ جن کو اتنا بدنام کیا گیاہے اور ان کے خلاف بھر پورسازشیں کی گئیں اور اسی کے ساتھ انہیں ہر طرح سے مطعون کرنے کی بھی کوشش بھی کی گئی (۱)،لیکن وہ اتنے سخت جان ہیں کہ اب تک زندہ ہیں اور ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی دعوت ایسی ہے کہ ابھی بھی پوری دنیا میں بہت ہی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے، آپ یورپ میں جائیے ،امریکہ جائیے ،افریقہ جائیے اور پورے ایشیا کے ملکو ں میں گھو م لیجئے ، اور یہ دعوت کوئی نئی دعوت نہیں ہے بلکہ اس چیز کی طرف دعوت دیناہے جو صحابۂ کرام ،تابعین ،تبع تابعین،ائمہ کرام ، محدثین اور فقہاء کا مسلک تھا ۔اس کی طرف سارے مسلمانوں کو بلانا اور غیر مسلموں کو اسی اسلام میں داخل کرنا جو اسلام صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کا تھااور کوئی مسلمان اس سے اختلاف کرنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے ،لیکن افسوس یہ ہے کہ جب یہ دعوت بارہویں صدی ہجری میں (یعنی اس کی نشاۃ ثانیہ )بر صغیر کے اندر شاہ ولی محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ ، (۱۱۴۳ھ یہ وہ سن ہے جس میں وہ حجاز کئے گئے) (۲)کے ذریعہ شروع ہوئی۔تو اس کی بڑی مخالفتیں کی گئیں ۔
    شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے دو سال کا عرصہ تقریبا یہاں(مکہ اور مدینہ)گزارا اور یہاں حدیث کادرس لیا(۳)، حدیث پڑھنے کے بعدان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ حدیثیں جن چیزوں کی طرف دعوت دے رہی ہیں وہ تو سلف صالحین کا مسلک ہے ۔عقیدہ کے باب میں ہو،تزکیۂ نفس کے باب میں ہو یا فقہی مسائل ہوں توبجائے امت ٹکڑے ٹکڑے میں بٹ جائے ، تزکیۂ نفس کے نام پر کوئی چشتی ،قادری ،نقش بندی ہوجائے(۴) ،فقہ کے نام پر کوئی حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی ہوجائے ،عقیدہ کے اندر ماتریدی ،اشعری اور معتزلی اور کچھ ہوجائیں (۵)،یہ بالکل بھی درست نہیں ہے ،انہوں نے پھر اصلاح کی راہ متعین کی ،یعنی دوسال کے بعد جب وہ ہندوستان واپس آتے ہیں تو اپنی دعوت کی شروعات کرتے ہیں ،اس وقت پورا ماحول شرک وبدعات اور غلط رسم ورواج سے پر تھا ،کہیں کسی جگہ سنت کی روشنی بھی ٹمٹماتی ہوئی نظر نہیں آتی تھی ،کہیں کہیں حدیث کی کتابیں پڑھی پڑھائی جاتی تھیں تو وہ صرف برکت کے لیے تھیں،بلائیں دور کرنے کے لیے پڑھائی جاتی تھیں ،صحیح بخاری کو تیس پاروں میں تقسیم کرکے لوگ اس وقت پڑھتے تھے جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تھی ،اللہ کے بندو! اگر اس میں سے چند حدیثوں پر عمل کرکے اللہ کے پاس جاتے تو شایدتمہاری بخشش بھی ہوجاتی اور مصیبت بھی ٹل جاتی- حد تو یہ ہے کہ لوگ جن شرک وبدعات میں اس وقت مبتلا تھے اسے لوگوں نے عین اسلام سمجھ رکھا تھا- ان سے بھی نجات مل جاتی اور سمجھ بھی جاتے کہ اصل اسلام کیا ہے اور آمیزش والااسلام کیا ہے ؟
    قرآن کے سلسلہ میں دیکھیں گے کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہے ، اگر کوئی ایک آیت کے سلسلہ میں بھی اختلاف کرتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ تم مرتد اور کا فر ہوگئے ہو،بہت خراب خراب فتوے ہر مکتب فکر والے لگائیں گے ۔ اگر لوگ جس طرح سے عقیدت و محبت اللہ کے رسول ﷺسے کرتے ہیں اسی طرح آپ کی حدیثوں سے بھی کرتے اور قرآن کی طرح حدیث کو بھی مضبوطی سے پکڑے رہتے جیسا کہ اللہ کے رسول کا حکم ہے : تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تمسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ ۔ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تم ہر گز کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے جب تک ان کو مضبوطی سے تھام رکھوگے، وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
    [موطأ مالک ،روایۃ یحیی:۵؍۱۳۲۳، ت الأعظمی]
    کہنا یہ تھا ۱۱۴۵ھ میں جب وہ واپس آئے اور حالات کا جائزہ لیا تو بڑی ہی حکمت کے ساتھ انہوں نے ایک تحریک شروع کی کہ سلف صالحین کے مسلک کی طرف کیسے رجوع کیاجائے ،چنانچہ انہوں نے حدیث کی کتابوں کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ،ابن ماجہ اور ترمذی وغیرہ کے پڑھنے کا بالکل رواج نہ تھا ،لوگ صرف مشکاہ پڑھتے تھے یا پھرمشارق الانوار پڑھی جاتی تھی ،انہوں نے ان چھ کتابوں کے پڑھنے پڑھانے کاسلسلہ شروع کردیا اور پھر بڑی حکمت کے ساتھ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مؤطا امام مالک کو منتخب کیا(۶)،وہ یہ کہہ کر کے کہ امام مالک رحمہ اللہ جو تھے وہ مدینہ کے بڑے عالم اور اپنے وقت کے امام تھے اور انہوں نے جومؤطا لکھی ہے وہ سب سے قدیم صحیح ترین کتاب ہے اور مؤطاامام مالک کے اندر حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی سارے مکاتب فکر مل جاتے ہیں ۔مالکی اس لیے کہ وہ ان کے امام ہیں ، شافعی اس لیے کہ یہ ڈائرکٹ امام مالک کے شاگرد ہیں جیسے امام شافعی وغیرہ ،حنفی اس وجہ سے کہ حنفی فقہ مدون کرنے والوں میں جو بڑ ے عالم ہیں ان میں سے ایک ہیں محمد بن الحسن الشیبانی یہ بھی ڈائریکٹ امام مالک کے شاگرد ہیں ،اور امام احمد بن حنبل کا حال یہ ہے وہ امام مالک کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ،تو اس طرح سے چاروں مذاہب فقہیہ امام مالک اور ان کی مؤطا کو ماننے کے لیے تیا ر ہیں ۔اوران پر سب کا اتفاق ہے ،گویاکہ پوری امت اسلامیہ کو مؤطا امالک پر جمع کیاسکتا ہے ،چنانچہ انہوں نے مؤطا کی دو شرحیں لکھیں ۔چونکہ اس زمانہ میں فارسی میں پڑھنے پڑھانے کا ماحول تھا اس وجہ سے انہوں نے فارسی میں بڑی مفصل شرح’’المصفیٰ‘‘کے نام سے لکھی اور عربی میں ایک مختصر شرح’’المسوی‘‘کے نام سے لکھی اوردونوں شرحیں چھپی ہوئی ہیں ،افسوس کہ اب برصغیر میں فارسی کا چلن نہیں رہا ،دو تین مرتبہ وہ چھپی پھر اس کے بعد وہ مارکیٹ سے غائب ہوگئی ابھی اس وقت میرے دوست ڈاکٹر محمد ادریس زبیر جو محترمہ فرحت ہاشمی کے شوہر ہیں ،انہوں نے اس کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیاہے ،اور کتاب الصلاہ کے خاتمہ تک تقریباً پہنچ گئے ہیں ،یہ اردو شرح جب چھپ کرکے آئے گی تو لوگو ں کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح سے آسان انداز میں اور اکثر مسئلہ میں صحیح مسلک، حدیث کے مطابق کیا ہے اور حدیث کے بر خلاف کیا ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کسی خاص مکتب فکر سے وابستہ تھے ان لوگوں کو المصفی پڑھنا چاہیے تاکہ صحیح سے اندازہ ہوسکے کہ وہ کس مکتب فکر سے وابستہ تھے ۔او ر جو لوگ اپنا انتساب شاہ ولی اللہ کی طرف کرتے ہیں ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی وہ شاہ ولی اللہ کے طریقے پر ہیں ،شاہ ولی اللہ نے اس کتاب کے اندر تقریبا ۸۵فیصد مسائل میں حنفی مسلک کے خلاف شافعی مسلک کو یا محدثین کے مسلک کو راجح قرار دیا ہے۔(۷) اب اگر کوئی شخص صرف انتساب کرتا فقہ حنفی کی طرف ، یا جیسے ندوی اور قاسمی وغیرہ تو کوئی معنی نہیں رکھتا ہے لیکن اگو کوئی شخص جم جائے اور اس کی بنیاد پر تفرقہ پیداکرے تویہ درست نہیں ہے ۔تو شاہ ولی اللہ نے حدیث کے پڑھنے پڑھانے کی بنیاد رکھی پھر ان کے خاندان میں لوگ اسی راستے پر چل پڑے ،ان کے بیٹے عبد العزیز بھی اسی راستے پر رہے ان کے بیٹے نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ ان کے زمانہ میں شیعیت کا زور تھا ،شیعہ افکار اور مذہب بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا ، تو ان پر قدغن لگانے کے لیے (شاہ ولی اللہ نے بھی شیعہ پر رد کرنے کے لیے کتابیں لکھیں قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین ،إزالۃ الخفاء عن خلافۃالخلفاء ۔یہ دونوں کتابیں فارسی میں ہیں )شاہ عبد العزیز نے مستقل ان پر’’تحفہ الإثنا عشریۃ فی الرد علی الشیعۃ‘‘(۸) کے نام سے کتاب لکھی۔جس کے بارے میں اگر کہا جائے کہ پوری تاریخ اسلامی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ (۹)کے بعد اس سے شاندار کوئی اور کتاب نہیں ہے ،اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔شاہ عبد العزیز کے شاگردوں میں بہت مشہور شاگرد ان کے نواسے شاہ محمد اسحاق ہیں جو ان کے بعد مسند درس سنبھالتے ہیں ، ان سے استفادہ کرنے والوں میں دو عالم دین بہت مشہور ہیں ،ایک میاں نذیر حسین محدث دہلوی ( ۱۹۰۲؁ء) دوسرے شاہ عبد الغنی مجددی رحمہ اللہ ،جتنے علماء احناف ہیں ان کاسلسلہ شاہ عبد الغنی مجددی سے ملتا ہے ،اور شاہ ولی اللہ تک پہنچتا ہے۔اور جتنے علماء اہل حدیث ہیں ان کا سلسلہ میاں صاحب سے جاکر ملتاہے ،غیر علماء اہل حدیث بھی اس میں شامل ہیں ۔
    کہنا یہ تھا کہ اہل حدیث کی جو دعوت ہے وہ صرف اور صرف حدیث کی طرف دعوت ہے ۔اہل حدیثوں کو جو بہت زیادہ رغبت ہے وہ قرآن، حدیث اور ان سے ملے علوم کو پھیلانے اور عام کرنے سے ہے ۔
    آج پورے بر صغیر میں حدیث پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے یا جو ہم لوگ پڑھ رہے ہیں اس کی سندیں شاہ ولی اللہ تک پہنچ کر حجاز میں چلی جاتی ہیں ۔
    شاہ ولی اللہ سے شاہ عبد العزیز ،شاہ عبد العزیز سے شاہ محمد اسحاق ،شاہ محمد اسحاق سے میاں نذیر حسین محدث دہلوی ، میاں صاحب تک ہم لوگ دو واسطہ سے پہنچتے ہیں اب جو لوگ پڑھتے ہوں گے وہ تین واسطہ سے پہنچتے ہوں گے ۔
    میاں صاحب کے شاگر د ہزاروں میں ہیں ، بلکہ عرب اوردیگر ممالک سے بھی ان سے لوگ پڑھنے آتے تھے ، ریاض میں سعد بن حمد بن عتیق ،(۱۰) میاں صاحب کے شاگرد تھے،یہ خاندان آل عتیق کے نام سے مشہور ہے ۔ یہی نہیں اسحاق بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب،یعنی محمد بن عبد الوہاب کے پڑ پوتے ،میاں صاحب کے شاگرد تھے ،میاں صاحب سے ایک سال پہلے ان کی وفات ہوئی ،دہلی میں جاکرکے انہوں نے حدیث پڑھی ،ایک شخص جن کے واسطے سے سارے عرب علماء میاں صاحب تک پہنچتے ہیں وہ علی بن ناصر ابو وادی ہیں(۱۱)،یہاں آج عرب میں جتنے بھی بڑے بڑے علماء سند دینے والے ہیں دیکھیں یہ نام آپ کو ضرور ملے گا۔تو کہنا یہ ہے کہ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے ذریعہ ہر جگہ عرب وعجم میں حدیث کی نشر و اشاعت اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے شاگردوں میں دیکھیں گے کسی نے حدیث کی شرح کی جیسے علامہ شمس الحق عظیم آبادی ہیں ،انہوں نے ابو داؤ د کی شرح عون المعبود اور غایہ المقصود لکھی ،دوسرے شاگردمولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری ہیں انہوں نے تحفہ الاحوذی کے نام سے ترمذی کی شرح لکھی ،اسی طرح سے مولا نا احمد حسن دہلوی ہیں انہوں نے مشکاہ کی شرح تنقیح الرواۃ کے نام سے لکھی(۱۲)،اسی طرح بڑے بڑ ے علماء ہیں کسی نے ادارے قائم کئے، کسی نے حدیث کی نشر واشاعت کے لیے مطبع قائم کیا اور کتابیں چھاپیں اور کسی نے حدیث کی کتابوں کے ترجمہ کئے ،مولانا وحید الزماں حیدرآبادی جو اصلاً لکھنؤ کے تھے ، انہوں نے بخاری، مسلم ابو داؤد،نسائی ،ابن ماجہ اورمؤطا امام مالک وغیرہ کا ترجمہ کیا ، ترمذی کا ترجمہ ان کے بھائی نے مولانا بدیع الزماں صاحب نے کیا ،مولانا وحید الزماں کو مشورہ علامہ نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ نے دیا تھا ،پھر انہوں نے ان کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ان تمام کتابوں کا ترجمہ کرکے اردو طبقہ کے لیے مہیا کردیا ،علامہ وحید الزماں حیدرآبادی نے حدیث کی لغت کی بھی کتاب تیا ر کی جو’’ لغات الحدیث‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں مطبوع ہے ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ جس نے بھی چھاپا عموماً کچھ نہ کچھ تبدیلیاں کرکے چھاپی ہیں ۔پوری ایمانداری کا ثبوت نہیں دیا ۔
    نوٹ : (ابویوسف آفاق احمد السنابلی المدنی)
    بر صغیر میں جماعت اہل حدیث نے تبلیغ دین اور خالص کتا ب وسنت کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا ،تبلیغ دین کا کوئی ایسا پہلو نہیں جو تشنہ رہ گیا ہو ۔سرسری طور پر شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ نے کچھ خدمات کا جائزہ لیا ہے ورنہ تو تفصیلی طورپر اس جماعت کی خدمات اور کا رگزاری کو بیان کرنے کے لیے کئی مجلدات کی ضرورت ہے ،پھر بھی یاد رکھیں کہ جب بھی کسی باطل فرقہ او رتحریک نے سر اٹھایا تو اس پر اسی جماعت نے رد کیا ، جیسے شیعیت ،صوفیت ، بریلویت ،قادیانیت ،نیچریت ،تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اورتحریک اخوان المسلمین وغیرہ ۔ ان کے علاوہ دیگر گمراہی کی جو بھی شکلیں تھیں سب کا اس جماعت نے جائزہ لیا ۔اس جماعت نے سنت کی نشروشاعت کی خاطر اساطین علم و فن او راپنے اپنے میدان میں مہارت رکھنے والے ایسے چوٹی کے رجال پیدا کیا کہ جن کے کارنامے رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو ں گے ان شاء اللہ ۔
    آخری بات یہ کہ آج پورے بر صغیر میں جہاں بھی کتاب وسنت کے تئیں بیداری پائی جاتی ہے وہ اسی جماعت کی مرہون منت ہے ۔اور اس کا اعتراف بیرون ملک کے علماء میں سید رشید رضا مصری اورعبد العزیز خولی جیسی کئی اہم شخصیات کے اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ملک ہندوستان کے دیگر مسالک کے علماء نے بھی کیا ہے ۔ مختصراً پڑھنے کے لیے رجوع کریں ۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ :ج:۳، ص:۱۱۔۴۴)
    کچھ باتیں عناوین کی شکل میں ذکر کرہا ہوں جن سے اس جماعت کی خدمات کا اندازہ قارئین کو ہوگا۔اور ان میں سے کوئی بھی ایسا عنوان نہیں ہے جس پر کتاب موجود نہ ہو ۔
    علماء اہل حدیث کی خدمات: (۱) علماء اہل حدیث کی تفسیری خدمات۔(۲) علماء اہل حدیث کی تدریسی خدمات۔(۳)جماعت اہل حدیث کی تصنیفی و تالیفی خدمات۔(۴)علماء اہل حدیث ہند کی خدمات حدیث ۔(۵) کتب ستہ کی شروح اور تعلیقات و حواشی کے تئیں علماء اہل حدیث کی خدمات۔(۶) ترجمہ کے باب میں جماعت اہل حدیث کی خدمات۔(۷)جماعت اہل حدیث کے مطابع وناشران۔(۸)جماعت اہل حدیث کے مدارس ۔ (۹)جماعت اہل حدیث کے مراکز۔ (۱۰) مذاہب باطلہ اور دین سے منحرف تحریکات کی تردید میں علماء اہل حدیث کی جہود۔جیسے مرزائیت کی تردید، مسیحیت کی تردید،آریت اور سناتن دھرم وغیرہ۔ باطل تحریکات:تحریک جماعت اسلامی ہند۔ تحریک اخوان المسلمین ۔(۱۱)جماعت اہل حدیث کے اخبارات،مجلات (صحافتی خدمات)۔(۱۲)تقسیم ہند سے قبل اور بعد جماعت اہل حدیث کے چند بڑے تدریسی مراکز۔(۱۳)جماعت اہل حدیث کی اردو زبان کی تئیں خدمات ۔(۱۴)جماعت اہل حدیث کی عربی زبان کی تئیں خدمات۔(۱۵)جماعت اہل حدیث کی فروغ سنت کی تئیں خدمات۔(۱۶)جماعت اہل حدیث کے اردو اور عربی زبان کے ادباء و شعرا۔(۱۷) قومی و ملی تحریکات میں علماء اہل حدیث کی شرکت۔(۱۸)فتاویٰ کے باب میں علماء اہل حدیث کی خدمات۔(۱۹)منکرین سنت اور ان پر علماء اہل حدیث کا تعاقب ۔(۲۰) کئی فقہی اور فروعی مسائل پر اہل تقلید کے لیے مستقل کتابوں کی تالیف مثلاً طلاق ، صلاہ تراویح ،فاتحہ خلف الامام اور رفع الیدین وغیرہ ۔
    حواشی:(ابویوسف آفاق احمد السنابلی المدنی)
    ۱: جماعت اہل حدیث پر بے جاالزامات اور ان کے فتویٰ کے لیے ۱۳۰۰ھ کے قریب، شروعات کی دونوں کتابیں لکھی گئیں ۔
    (۱) جامع الشواہد فی اخراج الوھابین عن المساجد، شیخ المحدثین علامہ مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ۔
    فائدہ کے طور پر ذکر کردوں کہ جماعت اہل حدیث کی طرف سے اس کتاب کا جواب چار علماء نے دیا ۔(۱) عمارۃ المساجد مؤلف ملانا محمد سعید بنارسی۔(۲) جامع الفوائد مؤلف:مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ۔(۳)کاشف المکائد مؤلف مولانا عبد الغنی صاحب جونا گڑھی۔(۴) ابراء اہل الحدیث و القرآن مولانا حافظ عبد اللہ غازیپوری۔
    (۲) انتظام المساجد بإخراج أہل الفتن و المفاسد۔تالیف :حضرت مولانا محمد ولد مولانا عبد القادر لدھیانوی
    (۳) اہل حدیث اور سیاست ،علامہ نذیر احمد رحمانی املوی رحمہ اللہ ۔
    (۴) جماعت اہل حدیث پر الزامات کا جائزہ:شیخ ابو زید ضمیر حفظہ اللہ
    ۲: حجاز میں جن علماء سے انہوں نے علم حدیث حاصل کیا ، ان میں سے ایک شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم بن حسن الکردی (۱۱۴۵ھ)ہیں ۔ابو طاہر سلفی العقیدہ تھے ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا دفاع بھی کرتے تھے ۔
    دوسرے ان کے استاذ ہیں شیخ محمد حیاۃ سندی رحمہ اللہ (۱۱۶۲ھ)ہیں ، شیخ سندی کی سیرت اور ان کے علمی دائرے کار کو دیکھنے کے بعد بخوبی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے بے حد متاثر تھے ،۔دیکھیں: (دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ و أثرہا علی الحرکات الاسلامیۃ المعاصرۃ و موقف الخصوم منہا،للشیخ صلاح الدین مقبول احمد المدنی :ص:۱۶۶)
    ۳: نام احمد بن عبد الرحیم ہے معروف ’’شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۱۱۱۴ھ؍۱۷۰۳ء ۔۔۔۔۱۱۷۶ھ؍۱۷۶۲ء ) سے ہیں ۔پورا گھرانا علمی تھا ، سنہ ۱۱۳۱ھ میں والدصاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے سترہ سال کی عمر میں مدرسہ رحیمیہ میں مسند درس سنبھالا اور بارہ سال تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے ۔دو شادیا ں انہوں نے کی تھیں۔ بر صغیر میں ایک مجدد کی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اس ماحول میں پرورش پائی جب اورنگزیب عالم گیر کی وفات (۱۷۰۷ء)کے بعد مغلیہ سلطنت زوال کا شکا رہوچکی تھی ۔اس وقت سیاسی حالات تو ابتر تھے ہی ساتھ میں دینی اعتبارسے بھی ماحول بے انتہاخراب تھا ۔لیکن پھر بھی شاہ صاحب نے اللہ کی توفیق سے ان حالات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ، تقریبا تیس سال تک انہوں نے دین کی خدمت کی اور دین کے کئی پہلوؤں او رگوشوں پر اصلاحی کا م بھی انہوں نے کیا ،جن اصلاحی کاموں اور خدمات کو درج ذیل نقاط کی شکل میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
    ۱۔ اصلاح عقائد و دعوت الی القرآن۔
    ۲۔ حدیث و سنت کی اشاعت و ترویج اور فقہ وحدیث میں تطبیق کی دعوت و سعی ۔
    ۳۔ شریعت اسلامیہ کے اسرار اور مقاصد حدیث کی نقاب کشائی ۔
    ۴۔ نظام خلافت کی ضرورت و افادیت اور خلفاء راشدین کی خلافت کا ثبوت۔
    ۵۔ سیاسی انتشار اور حکومت مغلیہ کے دور زوال میں رہنمائی ۔
    ۶۔ امت کے مختلف طبقات کا احتساب اور ان کی دعوت اصلاح و انقلاب ۔(ریخ دعوت و عزیمت: ج:۵،ص:۵۔۷ بحوالہ :بر صغیر کے علماء اہل حدیث کی کتب فتاوی تعارفی و تحقیقی مطالعہ :ص:۶)
    مؤطا کی دو شرحوں کے علاوہ ان کی کئی ایک او رکتابیں ہیں جیسے ، شرح تراجم ابواب صحیح بخاری ، الإنصاف فی بیان أسباب الاختلاف للدہلوی، الفوز الکبیر فی أصول التفسیر، حجۃ اللہ البالغۃ، عقد الجید فی أحکام الاجتہاد والتقلید ،وغیرہ ۔
    ۴: حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ نے ذکر و مُراقَبہ کے جس طریقہ کو تجویز کیا اس کے مطابق ذکر و مُراقَبہ کرنے والوں کو نقشبندی کہا جانے لگا۔ اسی طرح حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے تجویز کردہ طریقہ پر چلنے والوں کو سہروردی، حضرت معین الدین چشتی ؒ کے طریقہ پر چلنے والوں کوچشتی اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے طریقے پر چلنے والوں کو قادری کہا جانے لگا۔ عمومی طور پر ہمارے علاقوں میں یہی چار بہت مشہور ہوئے ہیں ۔ سِلسلہ نقشبندیہ ،سلسلہ چِشتیہ، سلسلہ قادریہ ،سلسلہ سہَرو ردیہ۔
    ۵: عقا ئد کے باب میں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے فرقوں میں سے اشعری ،ماتریدی اور معتزلہ وغیرہ ہیں ۔ ماتریدی فرقہ کی نسبت ’’ابو منصور ماتریدی ‘‘کی جانب ہے ۔ اشعری فرقہ کی نسبت ابوالحسن الاشعری (تھ)کی طرف ہے۔معتزلہ کی نسبت واصل بن عطاء کی جانب ہے ۔ ان تمام فرقوں پر تفصیلی طور پر پڑھنے کے لیے دیکھیں :
    1 -الموسوعة الميسرة فى الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة” (1/ 95-106) 2. – “الماتريدية” ، رسالة ماجستير، أحمد بن عوض الله اللهيبي الحربي. 3- “الماتريدية وموقفهم من توحيد الأسماء والصفات” ، رسالة ماجستير، لشمس الأفغاني السلفي. 4- “منهج الماتريدية فى العقيدة” د. محمد بن عبد الرحمن الخميس . 5- “الاستقامة” شيخ الإسلام ابن تيمية .6 – “مجموع فتاوي ورسائل العثيمين” (3/ 307-308) 7. ۔منهج الأشاعرة فى العقيدة لسفر الحوالي.8 ـ موقف ابن تيمية من الأشاعرة، د.عبد الرحمٰن صالح المحمود. 9ـ منهج أهل السنة والجماعة، ومنهج الأشاعرة ـ خالد بن عبد اللطيف بن محمد نور.10۔الفَرق بين الفِرَق للبغدادي ۔11۔المِلَل والنِّحَل للشَّهْرَسْتانيِّ۔12۔المُعتزِلة وأصولهم الخمسة لعوَّاد المُعتق۔
    ۶: مؤطا امام مالک بن انس کی لکھی ہوئی کتاب ہے ۔۹۳ھ میں ان کی پیدائش ہوئی ۔(یہی سال صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ کے انتقال کا بھی ہے )’’امام دارالھجرہ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔قرآن حفظ کرنے کے بعد حصول علم کی طرف متوجہ ہوئے ، ان کے تعلق سے سیرت نگار ذکر کرتے ہیں کہ تقریبا ًایک ہزار یا نو سو اساتذہ سے علم حاصل کیا ،ایک لمبی مدت تک انہوں نے حدیث کا درس مسجد نبوی میں دیا ہے ۔امام مالک رحمہ اللہ کے دو بیٹے (یحییٰ ، محمد )اور ایک بیٹی(فاطمہ)تھی ،مؤطا کی ایک روایت یحییٰ بن مالک سے بھی ہے ۔سنہ ۱۷۹ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
    ۷: تفصیل کے لیے دیکھیں ڈاکٹر مظہر بقاء کی کتاب شاہ ولی اللہ اور اصول فقہ۔
    ۸: یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی ہے۔جس زمانہ اور ماحول میں یہ کتاب لکھی گئی ہے وہ بڑانازک وقت تھا ،اسی وجہ سے شاہ صاحب نے کتاب پر اپنا تاریخی نام غلام حلیم تحریر فرمایا ہے ،اس کتاب کا جواب دینے کے لیے بہت سے لوگوں نے کو شش کی ،لکھنؤ کے شیعہ علماء میںسب سے ممتاز نام مولوی دلدار علی مجتہد اول کا ہے ،جنہوں نے اس کی تردید میں چھ کتابیں لکھیں اور رسالہ لکھے ،ان کے علاوہ بعض شیعوں نے تو اپنی پوری عمر ہی اس کے جواب لکھنے میں صرف کردی نواب آر کاٹ نے اس کا عربی ترجمہ کراکر عرب میں بھیجا تھا، اردو میں اس کا ترجمہ مولانا خلیل الرحمن نعمانی مظاہری نے کیا ہے اورعربی میں اس کا ترجمہ حافظ غلام محمد بن محیی الدین الاسلمی نے منتقل کیا ہے ،اور اس کی تہذیب علامہ عراق سید محمود شکری الآلوسی نے کی ہے۔(دعوۃ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ و أثرہا علی الحرکات الاسلامیۃ المعاصرۃ و موقف الخصوم منہا۔ص:۱۷۱)۔بہت ساری معلومات اردو والے ترجمہ ۶۔۷سے لی گئی ہیں ۔
    ۹: منہاج السنہ النبویہ۔
    ۱۰: یہ جنوبی نجد کایہ ایک فاضل گھرانا ہے ،فیصل بن ترکی کی طرف سے اس خاندان میں قاضی بھی گزرے ہیں ،یہ پورا خاندا آل عتیق کے نام سے مشہور ہے ،سعد بن حمد بن عتیق کی والدہ حافظ قرآن تھیں ، ۱۳۰۱ ھ میں یہ ہندوستا ن آتے ہیں ،چھ سال یا آٹھ سال یہاں گزارتے ہیں اور یہاں پر انہوں نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی، صدیق حسن خاں قنوجی سے علم حاصل کیا، ۱۳۴۹ھ میں ۸۲سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا ۔دیکھیں:(المجموع المفید من رسائل وفتاوی الشیخ سعد بن حمد بن عتیق: ص:۹۔۱۵)۔ان کی کئی ایک کتابیں ہیں جیسے ، حجۃ التحریض علی النہی عن الذبح عند المریض،عقیدۃ الطائفۃ النجدیۃ فی توحید الألہیۃ۔
    ۱۱: علی بن ناصر ابو وادی کے خاندا ن کا تعلق اصلا بریدہ سے تھا،بعد میں یہ عنیزہ منتقل ہوگئے ،علی بن ناصر ابو وادی کی ولات ۱۲۷۳ ھ میں ہوئی ،قرآن وہیں پر انہوں نے حفظ کیا ،یہ نجد کے ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے حصول علم اور سند عالی کی خاطر۱۲۹۹ ھ میں ہندوستا ن کاسفر کیا ،باوجود کہ ہندوستان کا سفر دیگر ممالک کے مقابل میں مشکل ترین تھا ، یہاں ہندوستان پہنچ کرکے انہوں نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے سند اجازہ حاصل کیا ،اس کے بعد نواب صدیق حسن خاں قنوجی کے پاس گئے اور ان سے بھی علم حدیث اور سند اجازہ حاصل کیا ۔ساٹھ سال تک انہوں نے عنیزہ کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دئیے ۔کئی اہم شخصیات نے ان سے سند اجازہ حاصل کیا ،جیسے عبد الرحمن بن سعدی،محمد امین شنقیطی ،حرم نبوی کے امام عبد اللہ المحدالمطرودی وغیرہم ہیں ۔۳۶۱ ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ دیکھیں:
    (علماء نجد خلال ثمانیۃ قرون)، عبداللہ البسام. – (تسہیل السابلۃ لمعرفۃ الحنابلۃ)، صالح العثیمین. – (روضۃ الناظرین عن مآثر علماء نجد وحوادث السنین)، محمد القاضی. – (علماء آل سلیم وتلامذتہم وعلماء القصیم)، صالح العمری. – (الحنابلۃ خلال ثلاثۃ عشر قرنًا)، عبداللہ الطریقی. – (الثبت العالی الرفیع فی إسناد أہل العلم والتوقیع)، و(تراجم العلماء المعاصرین)، سلیمان الصنیع. – (النجدیون فی الہند)، إبراہیم المدیہش. الکتاب: معجم أسر بریدۃ، المؤلف: محمد بن ناصر العبودی، عدد الأجزاء :۲۳
    ۱۲: میاں نذیر حسین محدث دہلوی او ران کے بعض تلامذہ پرعلماء نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں ۔ ان کی سیرت پر سب سے مشہور کتاب ان کے شاگرد افضل حسین بہاری کی ’’الحیاۃ بعد الممات‘‘ہے ۔دوسری کتاب’’دبستان حدیث‘‘مؤلف اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۔ اس کتاب کے اندر میاں صاحب کے علاوہ ان کے کئی ایک تلامذہ کی بھی سیرت موجود ہے۔
    جاری ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings