-
معیار الحق: مشمولات واثرات (قسط ثالث) حديث قُلَّتَين:
حدیث میں صراحت ہے کہ:(إذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث)اگر پانی ایک خاص مقدار یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو تو اس میں نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا، جب تک کہ نجاست کے اثرات (رنگ، بو، ذائقہ نہ بدلے) ظاہر نہ ہوں، اگر پانی دو قلہ سے کم ہو اس میں نجاست گرجائے تو وہ پانی ناپاک ہوجائے گا خواہ رنگ، بو اور مزہ نہ بدلے۔
جمہور اہل علم کا یہی خیال ہے، حنفیہ نے حدیث قلتین کو تسلیم نہیں کیا ہے، ان کے یہاں پاکی اور ناپاکی کا معیارپانی کا دو قلہ ہونا نہیں، بلکہ محض تغیر ہے۔ یہاں مؤلف تنویر نے قلتین سے متعلقہ تمام احادیث کو متعارض قراردیا ہے، اور ساتھ ہی ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، اس لیے (بشمول دیگر اسباب وعلل)یہ حدیث ناقابل عمل ہے۔ شیخ الکل رحمہ اللہ نے ان تمام باتوں کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ان احادیث کے درمیان بنیادی طور پر کوئی تعارض ہے ہی نہیں، ساتھ مؤلفِ تنویر کی اپنے موقف کی تائید میں پیش کردہ بعض ضعیف احادیث پر محدثانہ کلام کیا ہے خصوصا زمزم والی حدیث پر (ص: ۳۲۱)۔ آپ نے تقریب التہذیب از حافظ، مدخل ا ز بیہقی، المراسیل از ابن ابی حاتم، فتح الباری اور اصول کی دیگر کتابوں سے اس بحث کو مزین کیا ہے۔ حدیث قلتین کو جو مؤلف تنویر نے ضعیف کہا اس پر شیخ الکل فرماتے ہیں:
أقول: یہ حدیث صحیح ہے، اور ضعیف کہنا اس کو بے وجہ معقول اور بے دلیل، نا مقبول ہے، پس اولا صحت ثابت کی جاتی ہے، بعد میں اس کے مضعفین کے کلام سے جواب دیا جائے گا۔ سنو ! کہ روایت کیا ہے اس حدیث کو ترمذی اور ابوداؤد اور نسائی اور ابن ماجہ اور ابن خزیمہ وغیرہم نے، اور سب کی اسانید قوی اور جید ہیں۔ (ص:۳۵۵)
اس کے بعد شیخ الکل رحمہ اللہ نے ہر ایک کی اسناد ذکر کرکے اس پر کتب رجال وطبقات مثلاً تقریب وتہذیب از ابن حجر وغیرہ سے ناقدانہ ومحدثانہ کلام کیا ہے، مثلاً کہتے ہیں:
ترمذی کی اسناد یہ ہے۔ (پھر سند ذکر کرکے فرمایا): اور راوی اس کے سب ثقہ اور صادق ہیں، أما الأول فهو ثقة، وأما الثاني فهو ثقة ثبت، والثالث صدوق، والرابع ثقة، والخامس ثقة، والسادس هو ابن عمر، وهو أحد المكثرين من الصحابة۔كل ذلك فى تقريب التهذيب۔ (ص:۱۸۲)۔
اس کے بعد اسی طرح بقیہ تمام محولہ کتب احادیث سے اسانید ذکر کرکے ان کا فنی جائزہ پیش کرکے اس حدیث کو صحیح اور قابل حجت قرار دیا ہے اور اس طرح حنفیہ کی علمی تردید کی ہے۔آخر میں ابن خزیمہ کی اسناد ذکر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث جتنے طریقوں سے مروی ہے، سب کے سب ثقات ہیں، اور اگر بالفرض کسی ایک راوی میں کچھ عیب نکالو گے تو اس کی تقویت دوسرے راوی سے قائم مقام اس کے ہوجائے گی۔
غرض کہ روایت کی جہت سے حدیثِ قلتین میں ضعف کانام نہ لے سکو گے، اور حدیث کی صحت، سقم، قوت اور ضعف کامدار راویوں پر ہوتا ہے، اس لیے اسی قدر تعدیل رواۃ سے حدیث قلتین کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا۔ تاہم ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوال جو اس حدیث کی صحت کے متضمن ہیں، بھی سن لو!واضح ہو کہ اس حدیث پر عمل ہے امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ، امام اسحاق رحمہ اللہ، امام ابوعبید رحمہ اللہ، امام ابوثور رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا محدثین میں سے، اور تمام ائمہ شافعیہ کا سوائے غزالی رحمہ اللہ اور رویانی رحمہ اللہ کے اس کے بعد شیخ الکل نے حدیث سے متعلق علماء کی تصحیحات اورآراء نقل کی ہیں، ان میں:امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام حاکم، امام ابن معین، امام بیہقی، امام منذری، امام طحاوی رحمہم اللہ وغیرہم جیسے ناقدین حدیث قابل ذکر ہیں۔ (ملاحظہ ہو:معیار :ص:۳۳۵۔۳۴۷)
مؤلف تنویر نے حدیث قلتین کی بابت حدیث زنجی سے استدلال کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حدیث قلتین اجماع صحابہ کرام کے مخالف حدیث ہے۔ شیخ الکل نے اس مغالطہ آمیز دعوی کا تین طرح سے جواب دیا ہے، پہلے جواب کا تعلق نقل سے ہے اور دوسرے وتیسرے جواب کا عقلی جواب دیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ:اس قصہ کے ثبوت میں ہی کلام ہے، حدیث زنجی سے امام شافعی رحمہ اللہ کا انکار، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا انکار، اور انکار ابو عبید رحمہ اللہ کا اس قصہ کے وقوع سے بضمن عبارت سنن کبری اور محلی کے گزرا۔ (ص:۳۴۸) اسی طرح مختلف اقوال اور نقد وفحص کے ذریعہ اسے غلط ثابت کیا۔ پھر اس حدیث میں مؤلف ِتنویر نے اضطراب کی جو دو وجہیں بیان کی ہیں ان پر ناقدانہ کلام کیا ہے، اور اس کے بعد ایک اعتراض یہ بھی اس حدیث پر کیا گیا کہ قلہ کا معنیٰ کئی چیزوں میں مشترک ہے، یعنی اس کا معنی واضح نہیں، شیخ الکل نے اس کا جواب بھی تین نکات علمیہ بدیعہ کی روشنی میں دیا۔ ملاحظہ ہو:(ص:۳۶۱۔ ۳۶۶) ۔
الحاصل: اس کے علاوہ حدیث قلتین پر عمل نہ کرنے اور اسے حجت تسلیم نہ کرنے کے جتنے بھی حیلے اور اعتراضات تھے، شیخ الکل نے کمال بصیرت اور ذہانت ووسعت اطلاع کی بنیاد پر حل کردیا ہے، تاکہ حدیث کے بجائے امام صاحب کے قول پر عمل کرنے کے سارے بہانے ختم ہوجائیں، لیکن افسوس کہ ایک خوگر تقلید کے لئے یہ اتنا آسان نہیں کہ قول امام کو ترک کرے اور حدیث رسول سے تمسک کرے۔ کسی بھی حدیث پر عمل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ صحیح ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں، سند متصل ہے، کہیں کوئی شذوذ وعلت نہیں، یہ کافی ہے، لیکن یاران تقلید نے قول امام کو ترجیح دینے کے لیے نہ جانے کیسے کیسے حیلے تراش لیے، ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ یہ سب کچھ شعوری طور پر ہورہا ہے، ممکن ہے یہ غیر شعوری ہو، کیونکہ ایک مسلمان کو حدیث رسول ﷺ سے کیا بیر، لیکن یہ کہتے ہیں یہ سب کچھ ہورہا ہے، جو قطعاً نہیں ہونا چاہئے، کہ حبِ رسول ﷺکے تقاضے کے قطعی منافی ہے، اللہ ہی امت اسلام کی اصلاح کرنے والا ہے۔
حدیث غلس:
نماز فجر کا اصلی اور بہتر وقت کون سا ہے، غلس (تاریکی میں نماز ختم کرلینا) یا اسفار (ختم ہوتے کچھ روشنی آجائے)؟ اس حوالے سے اہل علم کا اختلاف ہے اور بنیادی اختلاف اہل الحدیث اور اہل الرائے کا ہے۔ اہل الحدیث کہتے ہیں: نماز فجر کا اصل وقت غلس ہے، جبکہ اہل الرائے یعنی حنفیہ کا کہنا ہے:اصل مستحب ومسنون وقت اسفار ہے۔ مؤلف تنویر نے اس مسئلہ کو بھی اٹھایا ہے، شیخ الکل رحمہ اللہ نے اہل حدیث موقف کو بڑے دلائل اور منطقی شواہد سے ثابت کیا ہے۔
شیخ الکل رقم طراز ہیں:
ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺسے یوں ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر نماز فجر کی غلس میں پڑھا کرتے تھے، اور یہ تغلیس مروی ہے بہت سے صحابہ سے، جو رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں۔ ان میں سے ہیں:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ، حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا ۔ کما قال فی المحلی والجامع للترمذی۔ اور بہت سے طرق واسانید یہ تغلیس ثابت ہے، اور حدیثیں اس مضمون کی وارد ہیں، ازاں جملہ یہ کہ روایت ہے حضرت عائشہ سے(اس کے بعد شیخ نے حدیث عائشہ جو صحیح بخاری (۸۷۲)اور صحیح مسلم (۶۴۸) میں ہے نقل کی، جس میں ہے:
…كَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ بِغَلَسٍ، فَيَنْصـَرِفْنَ نِسَائُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ، أَوْ لَا يَعْرِفُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا۔ نماز فجر سے واپسی پر تاریکی کی وجہ سے ان خواتین اسلام کو کوئی پہچان نہ سکتا تھا۔[البخاری:۸۷۲]
اس کے بعد فرماتے ہیں:روایت کی یہ حدیث بخاری اور مسلم اور امام مالک اور ترمذی اور ابوداود اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہم نے، ساتھ اسانید صحیحہ کے، باتفاق معانی کے، اگرچہ لفظوں میں بعض روایتیں مختلف ہیں، مثلاً بعض روایتوں میں (ينقلبن)ہے اور بعض میں (يرجعن)اور بعض میں (ينصـرف النساء)،علي هذا القياس۔ غرض اس حدیث میں کسی طرح کا ضعف نہیں۔ (ص:۳۸۸۔۳۸۹)
اس کے بعد اس حدیث کے معنیٰ کی تعیین میں متعدد علماء وشارحین حدیث کے اقوال نقل کئے ہیں، (كن يشهدن) کے لفظ اور دیگر قرائن سے آپ رحمہ اللہ نے اس عمل کے دوام اور استمرار پر استدلال کیا ہے۔
شیخ الکل فرماتے ہیں: اور سیاقِ حدیث سے ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاضر ہونا عورتوں کا نماز فجر میں اور فارغ ہوناان کا نماز سے اور پھرنا ان کا حالت غلس میں امر مدامی تھا، اور رسول اللہ ﷺ ہمیشہ فجر کی نماز غلس ہی میں پڑھتے تھے۔ (ص:۳۹۰)
اسی ضمن میں ایک اور اہم نکتہ کے ذریعہ اس مسلکِ محدثین کو پختہ کیا ہے، کہ آپ کا تمام عمر باستمرار نماز فجر غلس ہی میں پڑھنے کا عمل تھا، فرماتے ہیں:
باآنکہ ایک روایت صحیحہ میں صاف آگیا ہے کہ آنحضرت ﷺنے تمام عمر میں ایک ہی مرتبہ فجر کی نماز اسفار کرکے ادا کی ہے، اور باقی تمام عمر غلس میں پڑھتے رہے، جیسا کہ روایت کیا امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابو مسعود سے:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ…وَصَلَّي الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ، ثُمَّ صَلَّي مَرَّةً أُخْرَي فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلَاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّي مَاتَ، وَلَمْ يَعُدْ إِلَي أَنْ يُسْفِرَ۔
[ابوداؤد:کتاب الصلاۃ، باب المواقیت:۳۹۴، وابن ماجۃ:۳۵۲، والسنن الکبریٰ:۲۱۴۰، شیخ البانی اور شیخ ارنؤوط نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے۔ تمام رجال ثقہ ہیں، البتہ اثامہ بن زید لیثی مدنی صدوق ہیں، اس وجہ سے یہ روایت حسن ہے ، ورنہ صحیح ہوتی]
پس اسی واسطے کہ سیاق سے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی مواظبت معلوم ہوتی ہے اور حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ﷺ نے تمام عمر میں سوائے ایک مرتبہ کے غلس ہی میں پڑھی ہے۔ (ص: ۳۹۱)
پھر اس بات کی تائید کے لیے شیخ نے فتح الباری (رقم:۵۷۸)سے حافظ کا قول نقل کیا ہے:إن سیاقہ یقتضـی المواظبۃ علی ذلک= کہ سیاق سے بھی ہمیشگی ومداومتِ رسول ﷺ کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے بعد ایک روای اسامہ بن زید لیثی کے بارے میں جو حنفیہ نے ضعف کی بات کہی ہے اس کا جواب بڑے مسکت انداز میں دیا ہے، شیخ فرماتے ہیں:’’ اگر اعتراض کرو کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے کہ ایک راوی اس کا یعنی اسامہ بن زید ضعیف ہے …تو جواب اس کے دو ہیں:
اول: یہ کہ اس حدیث کو صحیح کہا ہے ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے، اور سکوت کیا ہے اس جرح کرنے سے ابوداؤد رحمہ اللہ نے، جب کہ نقل کیا ہے انہوں نے اس حدیث کو اپنی سنن میں۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے سب راوی ثقات ہیں، اور خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اسناداً، اور راوی اس کا اسامہ بن زید ایسی ثقاہت سے متصف ہے کہ بخاری کے راویوں میں سے ہے، اور تحقیق کہا ائمہ محدثین نے کہ جس راوی سے بخاری اور مسلم روایت کریں یا بخاری اکیلا ہی روایت کرے، تو اس راوی کے حق میں کسی طعن اور جرح کرنے والے کا قول مقبول نہیں،اگرچہ وہ طاعنین کتنے ہی ہوں…‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ’’ہم کہیں گے کہ یہ وہ حدیث ہے جس کی صحت ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کی، اور ابوداؤد نے اس پر سکوت کیا ہے، اور جس پر ابوداؤد سکوت کرے، وہ حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا کہ راوی اس کے سب ثقہ ہیں، اور اسفار والی حدیث کی سند میں اختلاف ہے اور خود متن حدیث میں بھی‘‘۔
دوم: دوسرا یہ کہ فرض کیا کہ بخاری کے رواۃ پر جرح مقبول ہے، لیکن پھر بھی وہ جرح مقبول ہوتا ہے جو کہ بابیان سبب ہو۔ (ص:۳۹۲۔۳۹۳)
اس کے بعد کتب اصول سے بہت سے اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں کہ تعدیل مقدم ہے جرح پر، جرح اسی وقت قابل قبول ہے جب کہ مفسـَّر ہو، وگرنہ نہیں۔ اس کے بعد شیخ الکل نے حنفیہ کے دعوائے نسخ کی سخت تردید کی ہے، کہ بعض کہتے ہیں کہ غلس والی روایت منسوخ ہے، جیسا اس طرح کے مسائل حنفیہ کا طریق کار معلوم ہے، رفع یدین کے حوالے سے بھی ان کا یہی طرز عمل ہے، یعنی اسے بھی منسوخ کہتے ہیں، جبکہ معمولی طالب حدیث بھی جانتا ہے کہ نسخ کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، بغیر اس کے دعویٰ باطل ہوتا ہے، اور رفع یدین میں کہیں کوئی دلیل نہیں۔ بالکل یہی صورت حال یہاں بھی ہے، نسخ کی بات اگر کہی جاسکتی ہے تو وہ اسفار کے حق میں، کیونکہ آپ کا آخری عمل غلس میں نماز فجر ادا کرنا تھا، جو بالکل صحیح وصریح حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن اہل حدیث اسفار کو بھی منسوخ نہیں کہتے، بس مستحب اور اصلی وقت دلائل کی روشنی میں غلس میں نماز کو قرار دیتے ہیں۔
اس کے بعد شیخ الکل نے حدیث: (أَسْفِرُوا بِالفَجْرِ، فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلأَجْرِ)[سنن الترمذی: کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی الاسفار بالفجر:۱۵۴،علامہ البانی رحمہ اللّٰہ نے اسے صحیح قراردیا ہے] کے مختلف معانی اہل علم کے اقتباسات کی روشنی میں بیان کئے ہیں، مثلاً جامع ترمذی سے امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اما م اسحاق رحمہ اللہ سے منقول معنیٰ بیان کیا ہے:(مَعْنَي الإِسْفَارِ:أَنْ يَضِحَ الفَجْرُ فَلَا يُشَكَّ فِيهِ، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَي الإِسْفَارِ:تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ)[سنن الترمذی:۱۵۴ حوالہ مذکورہ]=معنیٰ اسفار کے یہ ہیں کہ صبح میں شک نہ رہے، نہ یہ کہ نماز میں تاخیر کرے۔ ملاحظہ ہو:(ص:۳۹۹۔۴۰۰) اور اس سلسلہ میں امام طحاوی کی مشہور تفہیم بھی ذکر کی ہے کہ مراد یہ ہے کہ قرأ ت طویل کی جائے، غلس میں شروع کی جائے اور اسفار میں ختم کی جائے۔ اس طرح یہ بحث علم وآگہی سے بھرپور اور فوائد اصولیہ اور نکات حدیثیہ سے مملو گفتگو (صفحہ:۴۱۲) پر تمام ہوتی ہے۔
اوقات ظہر وعصر:
اہل الحدیث اور اہل الرائے (حنفیہ)کے مابین مابہ النزاع مسائل میں ایک اہم مسئلہ مستحب وقت ظہر (اول وآخر) اور وقت عصر (اول)کا ہے، دونوں نمازوں کا وقت اصلی کب شروع ہوتاہے۔ یہ محل اختلاف نہیں۔ وہ زوال آفتاب کے بعد فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے۔محل نزاع یہ ہے کہ نماز ظہر اول وقت افضل ہے یا آخر وقت؟
مختلف دلائل کی بنیاد پر اہل حدیث گرمی وسردی ہر موسم میں اول وقت کو افضل اور مستحب مانتے ہیں اور حنفیہ آخر وقت کو بہتر اور مستحب مانتے ہیں۔
ایک محل نزاع مسئلہ یہ بھی ہے کہ ظہر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اور عصر کا کب شروع ہوتا ہے؟یہاں شیخ الکل مرحوم نے مؤلف تنویر کا جواب دیتے ہوئے اس پرقدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک کسی چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا شروع ہوجاتا ہے۔ جبکہ حنفیہ کے یہاں کسی چیز کا سایہ اس کے دوگنا ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہوا ہے۔
شیخ الکل مرحوم نے پہلے یہ ثابت کیا ہے کہ:رسول گرامی ﷺ ہر موسم میں حتیٰ کہ شدید گرمیوں میں بھی نماز ظہر اول وقت میں ہی پڑھا کرتے تھے، اور اسی کی رغبت دلاتے تھے، اس حوالے سے شیخ الکل نے تقریباً چودہ (۱۴) احادیث وآثار نقل کئے ہیں، جن سے ان کے دعوے کے لیے پختہ دلائل فراہم ہوتے ہیں، کچھ اہم حدیثیں یہ ہیں:
۱۔ لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ …الحديث۔
[البخاري، كتاب الأذان، باب الاستهام فى الأذان :۶۱۵)، ومسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها:۴۳۷]
۲۔ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَال: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ، عَنْ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْـرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ۔الحديث۔
[البخاري، كتاب الصلاة، باب وقت العشاء:۵۶۵، ومسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب التبكير بالصبح:۶۴۶]
۳۔ عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ قَالَ:دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَي أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ فَقَالَ لَهُ أَبِي:كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ؟ فَقَالَ:كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَي، حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ۔الحديث۔
[البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب وقت الظهر:۵۴۷]
۴۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَال:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي صَلَاةً أَشَدَّ عَلَي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا۔الحديث۔
[أبوداؤد، كتاب الصلاة، باب فى وقت صلاة العصـر:۴۱۱]
امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ قول سلف صالحین میں سے کتنے لوگوں کا ہے۔)
شیخ الکل مرحوم نے اس طرح کی مزید بہت سی احادیث ذکر کی ہیں، جن سے واضح طور سے پتہ چلتا ہے کہ رسول گرامی ﷺ نماز ظہر اول وقت میں پڑھاکرتے تھے، یہ آپ کاہمیشہ کا معمول تھا، حتیٰ کہ شدت موسم کی وجہ سے صحابۂ کرام کو سخت تکلیف ہوتی تھی تب بھی آپ نے تعجیل پر مداومت برتی۔
شیخ فرماتے ہیں: ’’پس یہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں اس پر کہ عمل میں آنحضرت ﷺ کے یہی تھا کہ بمجر زوال کے نماز پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (ص۴۱۶:)
اس کے بعد حنفیہ کی طرف حدیث (أبردوا بالظھر) کی تشریح کی جاتی ہے اس پر کلام کیا ہے، اور حنفیہ کے دعویٰ نسخ تعجیل کی تردید کی ہے، اور (ابراد)کے معنیٰ کی دلائل کی روشنی میں صحیح تفہیم کی ہے، کہ اس کا معنی ٰہے ظہر جلدی ٹھنڈے ٹھنڈے میں پڑھ لیا کرو، اس کے لیے (طحاوی:۱؍۱۸۷) سے استیناس کیا ہے۔
مزید بصورت تعارض حل فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
جمع کو نسخ پر مقدم رکھا جائے گا۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(إن النسخ لا یصار إلیہ إلا إذا عجزنا عن التأویل)اور ان احادیث میں جمع اور تاویل ہوسکتی ہے، وہ یہ کہ تہجیر جو عادت رسول اللہ ﷺ کی تھی اور شیخین کی، یہ افضل ہے، اور امر ابراد کا حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اور انس رضی اللہ عنہ، اور مغیرہ رضی اللہ عنہ میں از راہ رخصت کے شفقت ہے، کیونکہ وجوب تو باتفاق جمہور کے نہیں ہے۔ (ص:۴۱۸)
اس کے بعد شیخ نے علماء احناف جیسے عینی حنفی (صاحب عمدۃ القاری)کے اقتباسات واقوال کے ذریعہ مذکورہ بات ثابت کی ہے، یعنی ابراد محض دفع تکلیف اور براہ شفقت تھا بس۔ شیخ فرماتے ہیں: ایسا ہی نماز پڑھنا آنحضرت ﷺ کا ابراد سے، جیسا کہ روایت حضرت ابی خلدہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ میں آیا ہے، یہ اس پر محمول ہے کہ گاہے ابراد کیا واسطے اظہار جواز اور رخصت کے۔ پس کیا حاجت ہے نسخ کی؟ بلکہ کیونکر جائز ہو قول بالنسخ خلاف قاعدہ اہل حدیث کے، جو جمع کو نسخ پر ایک درجہ مقدم رکھتے ہیں۔ (ص:۴۱۹) اس کے بعد ابراد کے معنیٰ کی کتبِ اصول اور فقہاء کرام کے اقوال واقتباسات کی روشنی میں تعیین وتحدید کی ہے۔
اس بحث سے فراغت پر ایک اور بحث کی ہے، یعنی ظہرکا آخر وقت اور عصر کا اول وقت کیا ہے؟
اس مسئلہ میں یہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ اہل حدیث کہتے ہیں ظہر کا آخر وقت ہے کہ ہر چیز کاسایہ اس کے مثل ہوجائے اور یہی اول وقت عصر ہے۔ جبکہ احناف اس بات کے قائل ہیں کہ ہر چیز کا سایہ دوگنا ہوجائے۔
شیخ الکل رقم طراز ہیں:
’’دو مسئلے ہیں، ایک مسئلہ آخر وقت ظہر کا، اورایک مسئلہ اول وقت عصر کا، تو دلائل اور نقول مذاہب دونوں قسموں کی لائی جاویں گی، اور جس دلیل سے آخر ظہر کا ثابت ہوگا، اسی سے بعینہٖ اول وقت عصر کا ثابت ہوگا۔ اور جس دلیل سے اول وقت عصر ثابت ہوگا اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاوے گا کہ آخر وقت ظہر کا قبل اس کے ہے، ایسا ہی حال ہے نقول کا۔
اب سنوکہ! اس مسئلہ میں تمام امام مجتہد ایک طرف ہیں، اور اکیلے ابوحنیفہ رحمہ اللہ بنا بر مذہب مشہور کے ایک طرف، یہاں تک کہ امام محمد رحمہ اللہ اور ابویوسف رحمہ اللہ شاگردان کے بھی اس مسئلہ میں ان سے الگ ہیں اور موافق جمہور علماء کے۔ یعنی جمہور علماء قائل ہیں اس بات کے کہ وقت ظہر کا بعد ایک مثل کے باقی نہیں رہتا، بلکہ وقت عصر کا داخل ہوجاتا ہے، اور اکیلے امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ سے یہ مشہور ہے کہ دو مثل تک وقت ظہر کا رہتا ہے، اور عصر داخل نہیں ہوتی مگر بعد دو مثل کے۔ (ص:۴۲۱۔۴۲۲)
اس کے بعد شیخ الکل نے اس بات کی تائید کیلئے حافظ ابن حجر، شیخ سلام اللہ حنفی دہلوی (شارح موطأ)وغیرہ کا حوالہ پیش کیا۔ پھر مختلف حوالوں مثلاً:المواھب اللطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ (ص:۲۱۲؍مخطوط)، سنن نسائی اور حدیث کی مختلف شروحات اور اہل علم کے استدلالات اور خود اپنے تجزیہ کے ذریعہ = نماز عصر اول وقت میں پڑھنے کی ارجحیت کو ثابت کیا ہے۔ راویان حدیث پر بھی کلام حافظ کی روشنی میں محدثانہ بحث کی ہے، اور حدیث نسائی کے مفہوم کی علمی حدبندی کی ہے، بایں ہدف کہ مفہوم کے تعین میں واقع تعارض وٹکراو کی ظاہری صورت بھی باقی نہ رہے۔اور فرمایا ہے کہ یہ معنیٰ امام نووی اور شیخ سلام اللہ دہلوی سے مستفاد ہے۔
رقم طراز ہیں: اور معنیٰ مختصر اس کے یہ ہیں کہ ایک شخص سائل مواقیت کے لیے آنحضرت ﷺ نے پہلے دن ظہر بمجرد زوال آفتاب کے پڑھی۔ اور عصر اس وقت پڑھی جب کہ ایک مثل سایہ آلیا۔ اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر فارغ ہوئے، اور عصر کو دو مثل پر جاپڑھا۔ (ص:۴۲۴۔۴۲۶)
اس سے یہ طے ہوگیا کہ ظہر کا آخروقت اور عصر کا اول وقت ایک مثل ہے، یہ معنیٰ مان لینے میں آیت کریمہ :{إِنَّ الصَّلَوٰةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ كِتَٰبا مَّوْقُوْتاً}[النساء:۱۰۳]اورحدیث (وَوَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عَنْ بَطْنِ السَّمَائِ مَا لَمْ يَحْضُـرِ الْعَصْـرُ)[مسلم، کتاب المساجد،:۶۱۲] یا اس جیسی دیگر احادیث میں کسی طرح کا ٹکراؤ نہیں آئے گا۔اسی ضمن میں شیخ الکل نے مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل ہے، اس سے زیادہ کا کوئی ثبوت نہیں۔
فرماتے ہیں:سو ایک مثل کے اورکوئی حد معین نہیں شارع کی طرف سے، اور دومثل کی کوئی اصل نہیں، بلکہ وہ ایک عقلی چیز ہے، کوئی دلیل اس کی نازل نہیں۔ اسی واسطے قاضی پانی پتی نے تفسیر مظہری میں کہا ہے کہ آخر ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد باقی رہنا کسی حدیث صحیح یا ضعیف میں نہیں پایا جاتا، اس لیے صاحبین نے اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مخالف ہوکر جمہور کی موافقت کی ہے۔ (ص:۴۲۸)
اس کے بعد احادیث وآثار اور کلام سلف کے علاوہ علماء احناف کے اقوال کے ذریعہ یہ بات ثابت کی ہے۔ یہ بحث بشمول اپنی تفریعات واجزاء کے مزید پچاس صفحات پر طویل ہوتی ہے اور بحث کے تمام گوشوں اور تمام جہتوں سے مزین وجامع کیا ہے، علماء برصغیر کی جانب سے لکھی گئی کتابوں میں سے اگر یہ بحثیں کوئی پڑھ لے تو شاید تمام گوشے اس کی نظر سے گز ر جائیں گے، بس شاید مزید تنسیق کی ضرورت ہوگی، یہ بحث (ص:۴۸۱) پر تمام ہوتی ہے۔ اس کے بعدایک اور نزاعی مسئلہ (جمع بين الصلاتين)کا ہے اور مؤلف علام نے اس پر گفتگو فرمائی ہے۔
جاری……