-
کھڑ ے ہوکر پانی پینے کا جواز عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ :أَنَّهُ صَلَّي الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْكُوفَةِ حَتَّي حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاء ٍ فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِمًا، وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ۔
[صحیح البخاری:۵۶۱۶]
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، ان کے سر اور پاؤں (کے دھونے کا بھی) ذکر کیا۔ پھر انہوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ نے یونہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا، وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔
راویٔ حدیث کا تعارف:
پورا سلسلۂ نسب یہ ہے :
(۱) علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم، ابوالحسن الہاشمی القرشی۔
(۲) ان کی کنیت ابو تراب ہے ۔
(۳) ان کی والدہ کانام فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ہے ،ان کی والدہ نے عہد نبوی میں اسلام قبول کیا اور عہد نبوی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔
(۴) یہ رسول اللہ ﷺکے چچازاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ داماد بھی ہیں ۔
(۵) بچوں میں سب سے پہلے انہوں نے ہی اسلام قبول کیا۔
(۶) مسلمانو ں کے چوتھے خلیفہ ہیں ۔
(۷) عشرۂ مبشرہ باالجنہ میں سے یہ بھی ہیں ۔
(۸) غزوہ ٔبدر وغیرہ میں انہو ں نے شرکت کی۔
(۹) غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان کے تعلق سے فرمایاتھا :
’’أنت منی بمنزلۃ ہارون من موسی، إلا أنہ لا نبی بعدی‘‘۔
تمہارا میرے نزدیک وہی مقام و مرتبہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ہارون کا تھا ۔ واضح رہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
(۱۰) علی رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت چار سال نو مہینے اور کچھ دن ہے۔
(۱۱) کوفہ کے اندر عبدالرحمن بن ملجم نے انہیں قتل کیا ۔
(۱۲) ۶۳سال کی انہیں عمر ملی۔
(۱۳) خزرجی کاکہنا ہے کہ ان سے پانچ سو چھیاسی(۵۸۶)حدیثیں مروی ہیں ،بیس حدیثیں متفق علیہ ہیں ، نو حدیثیں صحیح بخاری میں ہیں ،صحیح مسلم میں ان کی پندرہ حدیثیں ہیں ۔[مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ۱؍ ۱۶۹]
فوائد ومسائل :
۱۔ صحابۂ کرام اپنے ساتھیوں کو جب دینی مسائل میں کسی غلطی پر دیکھتے تو اس کی اصلاح کرتے تھے ۔
۲۔ کھڑے ہوکر کے پانی پینا جائز ہے ،کھڑے ہوکر کے پانی پینا مکروہ ہے نہ کہ حرام ہے ۔ [عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۲۱؍۱۹۳]
۳۔ اصلاح کا ایک نبوی طریقہ یہ بھی ہے کہ نام ذکر کئے گئے بھی غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
۴۔ وضو کے بچے ہوئے پانی کو پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۵۔ اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام نماز کا اہتمام کس قدر کیا کرتے تھے ۔
۶۔ ایک ذمہ دار کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی ضروریات پر نظر رکھے ،جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے حدیث میں موجود ہے ۔
٭٭٭
٭