-
جہیز اور اس کے مضرات و نقصانات تمہید:
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے تمام معاملات کو مکمل واضح ترین انداز میں بیان کر دیا ہے نیز زندگی اور معاشرے کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات نہ ہوں مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ان تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سے پہلو اور گوشے ایسے ہیں جن میں ہم جاہلانہ رسوم و رواج پر عمل کرتے ہیں نتیجتاً ہم بہت سی خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات تو یہ خرابیاں روگ اور ناسور کی شکل اختیار کر جاتی ہیں جس کی ایک کڑی جہیز کی رسم ہے۔
جہیز کا تعارف:
جہیز کی رسم کا قرآن، حدیث یا کسی صحابی کے عمل سے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہیز کا چلن ہندوانہ رسوم و رواج کو گلے لگا لینے کا نتیجہ ہے ،جس کا اسلامی تعلیمات کے مقاصد سے ادنیٰ سا بھی تعلق نہیں، ہندو معاشرے میں چونکہ وراثت اور جائیداد کے بٹوارے کی کوئی مذہبی یا قانونی حیثیت نہیں ہے لہٰذا لڑکی کے والدین لڑکی کو جہیز دے کر اسے وراثت سے محروم کر دیتے ہیں، اسلام کی رو سے یہ عمل لڑکی کا حق غصب کرنے کے مترادف ہے، ہمارا معاشرہ بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے۔
سچ میں ہے یہ طریقہ فقط تو ہنود کا اسلام میں کہاں ہے یہ بدعت جہیز کی
بعض عقل پرستوں کا نظریہ:
بعض لوگ جہیز کو اسلام میں جائز سمجھتے ہیں اور جواز تراشنے کیلئے نبی کریم ﷺ کی سیرت مطہرہ سے حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے نکاح کا حوالہ دیتے ہیں۔
حقیقت پسندانہ تبصرہ:
نبی کریم ﷺکی طرف سے اس جوڑے کو دیا گیا معمولی سامان کسی طور سے بھی جہیز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ:
۱۔ احادیث میں اسے کہیں بھی جہیز یا کسی خاص نام سے نہیں پکارا گیا بلکہ زیادہ سے زیادہ آپ اسے ہدیہ یا تحفہ کہہ سکتے ہیں۔
۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود نبی کریم ﷺکی کفالت میں تھے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹی اور داماد دونوں ہی نبی کریم ﷺکی ذمہ داری تھے اس لئے آپ ﷺنے ان کی سہولت کے لئے کچھ سامان انہیں عطا کیا تھا نہ کہ مروجہ جہیز کی شکل کا کوئی سامان دیا تھا۔
جہیز پرستوں کا گمان:
آج کل زبردستی جہیز کا مطالبہ کرنے والے یہ گمان رکھتے ہیں کہ جہیز ایک ایسی دولت ہے جو لڑکی کے والدین اپنی خوشی سے اپنی بچی کو دیتے ہیں اس لئے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
گمان کی تردید:
یہ سراسر خود فریبی اور ضمیر کو مردہ نہ کہنے کا بہانہ ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جہیز ایک ایسی بلیک میلنگ ہے جو رسم و رواج کے نام پر کی جاتی ہے اور کوئی بھی ماں باپ اپنی خواہش کے نتیجے میں نہیں بلکہ معاشرتی مجبوری کے تحت جہیز دیتے ہیں، چنانچہ اس کی حیثیت قرآن کے الفاظ میں باطل طریقے سے دوسروں کا مال ناحق کھانے جیسا ہے اور باطل طریقے سے مال کھانا ظلم ہے جس کی سزا جہنم ہے۔
اپنوں کے ستم ہم سے بتائے نہیں جاتے یہ حادثے وہ ہیں جو سنائے نہیں جاتے
جہیز مانگنے والوں کی قسمیں:
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ سماج میں کس کس قسم کے جہیز مانگنے یا اس کا مطالبہ کرنے والے لوگ موجود ہیں، تین قسمیں درج ذیل ہیں:
۱۔ بعض تو رشتہ طے کرنے کے وقت ہی بے شرمی اور ڈھٹائی سے سینہ تان کر مانگتے ہیں اور مانگی ہوئی بھیک سے کم ملنے پر نکاح کے وقت لڑکی کو ہی لے جانے سے انکار کر دیتے ہیں، جب تک ان کی منہ مانگی رقم اور اشیاء ان کے حوالے نہ کر دی جائے دلہن لے جانے پر راضی ہی نہیں ہوتے۔
۲۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو رشتہ ملنے کے وقت لڑکی والوں کے سامنے خود کو دیندار اور مہذب بنا کر پیش کرتے ہیں، قرآن و سنت کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ان کی زبان پر بس یہی ہوتا ہے کہ’’ہمیں تو بس آپ کی لڑکی چاہیے، باقی ہمیں کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں‘‘جبکہ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے دل میں کھوٹ ہوتا ہے، یہ اللہ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں کی زبان سے بچنے کے لئے دیندار بننے کا ڈھونگ رچ رہے ہوتے ہیں کہ ہم ’’سنتی شادی‘‘ کریں گے لیکن شادی کے موقع پر اگر والدین اپنی بچی کو مختصر سامان کے ساتھ رخصت کر دیں تو یہ اپنی اصل پر آ جاتے ہیں اور لوگوں کے سامنے دلہن تو لے کر چلے جاتے ہیں مگر زیادہ سامان یا جہیز نہ لانے کی وجہ سے اسے وقتاً فوقتاً طعنے دیا کرتے ہیں اور ان لوگوں کی طرف سے اس بچی کو ایسی صورت میں ذہنی اور کبھی کبھی جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
برباد کر دیئے ہیں غریبوں کے گھر کے گھر دیکھی گئی ہے بس یہی برکت جہیز کی
۳۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو سماج میں تماشائی کی حیثیت رکھتے ہیں جو نہ منہ سے مانگتے ہیں نہ ہی کسی غریب مگر اچھی لڑکی کا رشتہ قبول کرتے ہیں تاکہ مال بھی ہاتھ آ جائے اور سماج میں عزت بھی رہ جائے ، افسوس ایسے تمام لوگوں پر۔
ایک سچا واقعہ اور اس پر تبصرہ:
ایک عورت سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کے نکاح کے موقع پر جہیز کی خواہش مند کیوں ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اس لڑکے کی تعلیم پر میرے لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں، میں اسے مفت میں کسی دوسری عورت کے حوالے کیوں کر دوں؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی کی تعلیم و تربیت پر بھی اتنا ہی خرچ آتا ہے، اس لئے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ رسم اسلامی روح کے خلاف ہے بلکہ ضمیر و عقل کے بھی سراسر منافی ہے ، یہ تو ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے، حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو ناز و نعم میں پال کر، اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے صرف اللہ کے حکم کی بنا پر اپنے دل کے ٹکڑے کو کسی اجنبی کے حوالے کر دیتے ہیں، اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کی بھرمار کر کے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ اللہ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے۔ ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔
ایک قانون اور اصول:
شریعت نے گھر کی ضروریات کی تکمیل اور اس کے انتظام کے لئے مرد کو قوّام (ذمہ دار، نگراں)بنایا ہے اور عورت کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
{الرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَي النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَليٰ بَعْض وَبِمَآ اَنفَقُوا مِنْ اَمْوَٰلِهِمْ}
ترجمہ:’’مرد عورتوں پر نگراں ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مالوں میں سے خرچ کیا‘‘[ سورۃ النساء:۳۴]
اس آیت میں اللہ نے مرد کی قوامیت کی بنیادی طور سے دو وجہیں بیان کی ہیں:
۱۔ ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منظم ہے۔
۲۔ اور دوسرے یہ کہ مہر اور گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کی ذمہ داری ہے۔
اور یہ بات اچھے سے معلوم ہے کہ عرف عام میں جسے جہیز کہا جاتا ہے وہ بھی گھریلو ساز و سامان ہی ہوتا ہے جس کا ذمہ دار شریعت نے مرد کو بنایا ہے، لہٰذا سامانِ جہیز خاوند کی ذمہ داری ہوئی اور وہ جملہ ضروری گھریلو اشیاء کے مہیا کرنے کا پابند ہے اس لیے لڑکی یا والدین سے جہیز کا مطالبہ کرنا شرعی نقطہء نظر سے جائز نہیں ہے۔
جہیز کی قباحتیں اور نقصانات:
جہیز کا لینا دینا نہ صرف سماج کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے خطرناک بیماری ہے اور آج پورا معاشرہ اس مہلک بیماری میں جکڑا ہوا ہے، تقریباً ہر ایک خاندان اس کی ہلاکت و بربادی کا علمی و عملی تجربہ کر چکا ہے، آئیے جہیز کے چند نقصانات اور قباحتیں بھی جان لیتے ہیں:
۱۔ یہ اسلامی نہیں بلکہ غیر شرعی اور ہندوانہ عمل ہے اور اس کو اپنانے سے مشابہت لازم آتی ہے جس سے ہماری شریعت نے ہمیں منع کیا ہے۔
۲۔ جہیز کا سامان جمع کرنے کی فکر میں لڑکی کے گھر والے بسا اوقات اپنی پشتینی زمین و جائیداد سے محروم ہو جاتے ہیں اور انہیں بالآخر اسے بیچ کر سامان جہیز جمع کرنا پڑتا ہے۔
۳۔ جہیز کی وجہ سے انسان کے اندر حرص و طمع اور خود غرضی جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
۴۔ جہیز معاشرے میں ظلم و جبر، خون خرابہ اور خودکشی جیسی خرابیاں پیدا ہونے کا سبب ہے۔
۵۔ جہیز دینی بیزاری اور دینی بے حسی کا پیش خیمہ بھی ہے۔
۶۔ کتنے گھرانے اسی جہیز کی وجہ سے بکھر کر تباہ و برباد ہو گئے۔
۷۔ کتنے والدین نے سامان جہیز اکٹھا نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ہی بچیوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
قصہ مختصر یہ کہ جہیز کا لین دین سراسر خسارے اور نقصان کا سبب ہے اور اس سے صرف کوئی ایک شخص ہی متأثر نہیں ہوتا بلکہ پورا خاندان اور کئی جانیں اس کی لپیٹ میں آ کر خرابیوں کا شکار ہو جاتی ہیں، دینی اعتبار سے بھی یہ قانون الہٰی کے سراسر خلاف ہے جس کے بد سے بدترین نتائج دنیا میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دل کی بات:
حرص و لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ ایسی پیاس ہے جو کبھی نہیں بجھتی، سسرالی فقیر بننے سے اچھا ہے کہ بندہ اپنے رب کے حضور جائز وسیلے سے دعا مانگے، میری درخواست ہے کہ اللہ کے واسطے نکاح کو سستا اور آسان بنانے کی کوشش کریں، غیر شرعی اور بے جا قسم کے رسوم و رواج سے ناطہ توڑ کو خود کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیں اور خدارا اپنے بیٹوں کو کریڈٹ کارڈ نہ سمجھیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہیں انہیں نعمت ہی سمجھیں اور یاد رکھیں کہ ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا۔
جہیز اور موٹر گاڑیوں کی مانگ کر کے اپنے آپ کو فقیروں اور بھکاریوں میں شامل نہ کریں بلکہ صحیح عقیدہ و عمل اور دیندار گھرانے کی با اخلاق لڑکی تلاش کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق نقد مہر ادا کر کے نکاح کریں۔بے شک نیک عورت ہی سب سے بڑی اور اچھی دولت ہے نیز راحت و سکون اور محبت کا بہترین سامان بھی۔
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبر یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں جہیز جیسے تمام تر رسوم و رواج سے بچتے ہوئے خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایمان کے ساتھ موت دے ۔ آمین
مراجع و مصادر:
۱۔ جہیز جوڑے کی رسم، مؤلف: کے رفیق احمد
۲۔ جہیز کی تباہ کاریاں، مؤلف: حافظ مبشر حسین لاہوری
۳۔ جہیز جہنم کے انگارے، مؤلف: محمود خالد مسلم
۴۔ دور نبوت میں شادی بیاہ کے رسم و رواج، مؤلف: گلریز محمود
۵۔ سیرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، مؤلف : مولانا حکیم عبد المجید سوہدروی
۶۔ بارات اور جہیز کا تصور مفاسد اور حل، مؤلف: حافظ صلاح الدین یوسف
٭٭٭