Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • خبر واحد اصحاب الحدیث اور اہل الکلام کا منہج
    عبدالمالک محی الدین رحمانی

    متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

    حدیث کی تعریف اور اس کے بعض اقسام مختلف اعتبارات جیسے حدیث قدسی، مرفوع، موقوف اور مقطوع یا صحت و ضعف کے اعتبار سے صحیح، حسن اور ضعیف وغیرہ تقسیمات کے تحت آپ نے حجیت حدیث کے موضوع پر پڑھا ہوگا یہاں ہم ایک اور تقسیم تعدد طرق کے اعتبار سے(یعنی باعتبار وصولہ إلینا )مزید کچھ جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ آئندہ اعتراض اور جواب کو سمجھنے میں یہ ہمارے لیے معاون ثابت ہو ، اس لیے اس اعتبار سے حدیث کی دو قسمیں بنتی ہیں :
    ۱۔ متواتر: وہ روایت جسے ایک بہت بڑی تعداد روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی تمام صفات کی حامل ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔
    متواتر حدیث کے شرائط :
    علمائے کرام نے متواتر حدیث کیلئے چارشرائط ذکر کی ہیں:
    ۱۔ اسے بہت بڑی تعداد بیان کرے۔
    ۲۔ راویوں کی تعداد اتنی ہو کہ عام طور پر اس قدر عدد کا کسی جھوٹی خبر کے بارے میں متفق ہونا محال ہو۔
    ۳۔ مذکورہ راویوں کی تعداد سند کے ہر طبقے میں ہو، چنانچہ ایک بہت بڑی جماعت اپنے ہی جیسی ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، یہاں تک کہ سند نبی ﷺ تک پہنچ جائے۔
    ۴۔ ان راویوں کی بیان کردہ خبر کا استنادی ذریعہ حس ہو، یعنی:وہ یہ کہیں کہ:ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، کیونکہ جو بات سنی نہ گئی ہو، اور نہ دیکھی گئی ہو، تو اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے وہ روایت متواتر نہیں رہے گی۔
    متواتر حدیث کے اقسام:
    ۱۔ متواتر لفظی: ایسی روایت جس کے الفاظ اور معنی دونوں تواتر کے ساتھ ثابت ہوں۔
    اس کی مثال:حدیث: ’’مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘‘
    ’’جو مجھ (محمد ﷺ)پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
    [صحیح بخاری:۱۰۷، صحیح مسلم :۳]
    اس روایت کو نقل کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد۷۲سے بھی زیادہ ہے، اور صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کرنے والوں کی تعداد نا قابل شمار ہے۔
    ۲۔ متواتر معنوی: ایسی روایت جس کا مفہوم تواتر کے ساتھ ثابت ہو، الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہو۔
    اس کی مثال: دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کی احادیث ہیں، چنانچہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے سے متعلق ایک سو کے قریب روایات ملتی ہیں، ان تمام احادیث میں یہ بات مشترک ہے کہ آپ ﷺ نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے، ان تمام روایات کو سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے ایک رسالے میں جمع کیا ہے، جس کا نام ہے:’’فض الوعاء فی أحادیث رفع الیدین فی الدعاء ‘‘[معجم مصطلحات الحدیثۃ للدکتور ضیاء الرحمٰن اعظمی :۳۴۸۔۳۴۹]
    ۲۔ خبر واحد : اس کی دوسری قسم خبر واحد یا اخبار آحاد ہے اور خبر واحد جو متواتر کے شرائط پر پورا نہ اترے اسے خبر واحد کہتے ہیں۔گویا جس روایت میں اوپر متواتر حدیث کے جو شرائط ذکر کیے گئے وہ نہ پائے جاتے ہوں اسے خبر واحد کہتے ہیں۔اس کی بھی دو قسم ہے۔
    ۱۔ مقبول
    ۲۔ مردود
    یعنی اس اعتبار سے بعض اوقات خبر واحد قابل قبول اور بعض اوقات قابل رد ہوتی ہے اور اس کا دار و مدار نام پر نہیں حدیث کی سند پر ہوتا ہے۔
    خبر واحد ، اصحاب الحدیث اور اہل الکلام کا منہج:
    اب تک ہم نے اس کی تعریف اور بعض شرائط کے بارے میں بحث کی، اب ہم اسی سے متشابہ ایک اور عنوان خبر واحد کی حجیت کے حوالے سے بحث کریں گے۔
    معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی حجیت کے حوالے سے علماء کے دو اہم نظریے بیان کیے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ خبر واحد قابل حجت ہے یا نہیں؟ یا اگر قابل حجت ہے تو کہاں ہے اور کہاں نہیں؟ اس لیے پہلے اصحاب الحدیث کا منہج دیکھیں :
    خبر واحد اور اصحاب الحدیث کا منہج:
    شروع زمانے سے ہی اگر کوئی روایت صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو جمہور اہل الحدیث کے نزدیک وہ قابل حجت اور قابل عمل ہے۔[الرسالۃ للإمام الشافعی:۳۶۹،۴۵۸،معجم مصطلحات الحدیث مصطفی اعظمی :۱۵]
    اس سے اصحاب الحدیث کا منہج واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جو بھی روایت صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو وہ قابل حجت اور قابل عمل ہے اور ان کے یہاں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے کہ یہ روایت عقیدہ میں نہیں چلے گی یا پھر یہ حدیث اس مسئلے پر دلیل نہیں بن سکتی وغیرہ بلکہ اوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اگر روایت ثابت ہو جائے تو پھر کوئی تفریق نہیں بلکہ وہ حجت اور قابل عمل ہوگی اور یہ حجیت احکام میں بھی ثابت ہوگی اور عقیدہ میں بھی۔
    خبر واحد اور اہل الکلام کا منہج: اوپر منہج اہل الحدیث ملاحظہ کیا، جبکہ اس کے برخلاف اہل کلام کے یہاں حدیث کی تفریق ہے اور وہ یہ کہ خبر واحد قطع اور علم و یقین کا فائدہ نہیں دیتا ہے اس لیے اس کو عقیدہ میں حجت نہیں مانا جا سکتا ہے اور عقدی مسائل یقین اور قطعی علم سے ثابت کیے جا سکتے ہیں۔[خبر الواحد و حجیتہ للدکتور أحمد بن محمود الشنقیطی:۲۵۲]
    جس سے اہل کلام رافضہ، معتزلہ اور اشاعرہ وغیرہ جو اہل کلام یا متکلمین کے نام سے اہل علم کے مابین معروف ہیں ان کا منہج حدیث کی ایک شکل خبر واحد کے سلسلے میں واضح ہے کہ ان کے یہاں بھی حجت ہے لیکن صرف احکام میں عقیدہ میں نہیں۔
    اس تفریق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دونوں کے منہج کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اولاً تو دونوں میں فرق ہے اور ثانیاً یہ سوال ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ آخر اس تفریق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو واضح رہنا چاہیے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر یعنی نبوی دور، عہد صحابہ، عہد تابعین اور بعد کے ادوار تک ایسی کوئی تفریق نہیں کیوں کہ اوپر آپ نے اہل الحدیث کا منہج دیکھا کہ وہ اس کی حجیت کے قائل ہیں تو یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ جب سے حدیث ہے تب سے اصحاب الحدیث ہیں اور ان کا یہ متفقہ منہج ہے اس لیے جب بعد کے ادوار میں اہل کلام اور اہل الرائے نے جنم لیا، ایک فکری دھارا کی شکل اختیار کی، اپنے کچھ مخصوص افکار و نظریات اور کچھ بنیادی اساس اور عقائد اختیار کیے تو ظاہر ہے دلائل کی حاجت ہوگی، اور یہ بھی یاد رہے کہ جب بھی کوئی شخص الہٰی دین اور ربانی ہدایت و رہنمائی سے دور ہوگا اور من مانی و نفس کی غلامی قبول کرے گا تو یہ لازم ہے کہ دونوں قوانین کا باہم تعارض و تصادم ہو اور ہوا بھی یہی کہ اہل کلام کے خود ساختہ عقائد اسلام کے عقائد سے مخالف نظر آنے لگے اور محدثین کرام نے ان کی تردید شروع کی اور ان کا باضابطہ رد ہونے لگا، کئی مقامات پر ان کو منہ کی کھانی پڑی اور یہ تقریباً ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہونے لگے تو اپنے عقائد کو بچانے اور اپنے مزعومہ نظریات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک حربہ استعمال کیا اور وہ یہی تھا کہ حدیث میں ایک تقسیم کی جائے اور اسی کو ڈھال بنا کر اپنے آپ کو اور اپنے نظریات کو بچایا جا سکے چنانچہ اس طرح یہ تقسیم عمل میں آئی کہ خبر واحد چونکہ اس میں ظن کا فائدہ ہوتا ہے یا اس میں متواتر جیسی قوت اور اس طرح اعتماد نہیں ہے وغیرہ (اور بھی کئی شبہات پیدا کیے ان شبہات کا رد کسی اور مضمون میں کیا جائے گا ۔(ان شاء اللہ )اس لیے اس سے مسائل عقدیہ کا اثبات نہیں کیا جاسکتا ہے اور برملا کہہ دیا کہ خبر واحد عقیدہ میں حجت نہیں ہے۔
    سب سے پہلے جس نے اس موضوع پر باضابطہ تحریر کی وہ ہیں امام شافعی رحمہ اللہ۔ جس کی تفصیلات ان کی مایہ ناز کتاب’’الرسالۃ‘‘میں دیکھا جا سکتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے آمین۔
    مراجع و مصادر…:
    ۱۔ معجم مصطلحات الحدیث للدکتور مصطفی اعظمی
    ۲۔ السنۃ ومکانتہا فی التشریع الإسلامی لمصطفی السباعی
    ۳۔ الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والأحکام للشیخ الألبانی
    ۴۔ خبر الواحد و حجیتہ لأحمد بن محمود الشنقیطی
    ۵۔ نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر للحافظ ابن حجر

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings