Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تکبیرات ذی الحجہ کے مسائل

    تکبیرات کے ایام:
    ذی الحجہ کی ایک(۱)تاریخ سے لے کر ذی الحجہ کی تیرہ(۱۳)تاریخ کی شام تک تکبیر کہنا مشروع ہے ۔
    دلائل ملاحظہ ہوں:
    عشرۂ ذی الحجہ میں تکبیرات:
    عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰهﷺ: ’’ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى اللّٰه من هذه الأيام العشر ، فقالوا: يا رسول اللّٰه، ولا الجهاد فى سبيل اللّٰه؟ فقال رسول اللّٰه ﷺ: ولا الجهاد فى سبيل اللّٰه، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذالك بشيء‘‘
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں ، لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپﷺنے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا ‘‘
    [سنن الترمذی :رقم :۷۵۷، وإسنادہ صحیح صرح الأعمش بالسماع عند الطیالسی]
    مسند احمد میں ابن عمر سے مروی اسی حدیث کے اخیر میں یہ اضافہ بھی ہے:
    ’’فأكثروا فيهن من التهليل ، والتكبير ، والتحميد ‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۷۵]
    لیکن اس کی سند یزید بن أبی زیاد کے سبب ضعیف ہے ، اور اس اضافہ والی کوئی بھی روایت سندا ًصحیح نہیں ہے۔
    البتہ اصل صحیح حدیث میں’’ العمل الصالح ‘‘کا جوعموم ہے اس میں تکبیرات کہنا بھی شامل ہے بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عملاً ان دنوں میں تکبیرات کہنا ثابت ہے چنانچہ:
    أبو عبد اللہ محمد بن إسحاق الفاکہی (المتوفی:۲۷۲)نے کہا:
    حدثني إبراهيم بن يعقوب، عن عفان بن مسلم، قال: ثنا سلام بن سليمان أبو المنذر القارء، قال: ثنا حميد الأعرج، عن مجاهد، قال:’’ كان أبو هريرة وابن عمر رضي اللّٰه عنهما يخرجان أيام العشر إلى السوق، فيكبران، فيكبر الناس معهما، لا يأتيان السوق إلا لذالك ‘‘
    مجاہد فرماتے ہیں :’’کہ ابوہریرہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما عشرۂ ذی الحج میں بازار جاتے اور تکبیر پڑھتے تھے ان کے ساتھ لوگ بھی تکبیر پڑھتے ، یہ دونوں صحابہ اسی مقصد کے لئے بازار آتے تھے ‘‘
    [أخبار مکۃ للفاکہی :۲؍۳۷۲، رقم :۱۷۰۴،وإسنادہ حسن وعلقہ البخاری فی صحیحہ]
    نوٹ: واضح رہے کہ اس سے اجتماعی تکبیر کی یہ شکل ثابت نہیں ہوتی ہے کہ ایک شخص ایک صیغہ سے تکبیر کہے پھر سارے لوگ اس کے ساتھ اسی صیغے سے اجتماعی تکبیر کہیں ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دیگر آثار میں جو صیغے مروی ہیں وہ الگ الگ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے وہ بازار وغیرہ میں جب ایک ساتھ پڑھتے تھے تو صرف وقت ایک ہوتا تھا لیکن صیغہ اور انداز سب کا الگ الگ ہوتا تھا ۔
    ایام تشریق میں تکبیرات:
    ایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو بھی تکبیرات کہنا مشروع ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں:
    ’’عن نبيشة الهذلي، قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: ’’أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر للّٰه‘‘
    نبیشہ ھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’تشریق کے دن کھانے ، پینے اوراللہ کے ذکر کے دن ہیں‘‘
    [صحیح مسلم :۳؍۸۰۰،رقم :۱۱۴۱]
    اس حدیث میں وارد ذکر کے اندر تکبیر بھی شامل ہے ، نیز متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایام تشریق میں تکبیرات کہنے کا ثبوت ملتا ہے ، چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا يحيي بن سعيد القطان، عن أبي بكار، عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أنه كان يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق، لا يكبر فى المغرب‘‘
    ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :’’کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجر کی صبح سے تشریق کے آخری دن تک تکبیر کہتے تھے ، اور مغرب میں نہیں کہتے تھے‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۴؍۲۱۲، رقم:۵۷۶۴،وإسنادہ صحیح]
    امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن شقيق، عن علي:’’ أنه كان يكبر بعد صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق، ويكبر بعد العصر‘‘
    علی رضی للہ عنہ سے مروی ہے :’’کہ وہ عرفہ کے دن نماز فجرکے بعد سے لے کر تشریق کے آخری دن عصر تک تکبیر کہتے تھے اورعصر کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے ‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۴؍۲۰۹،وإسنادہ حسن]
    تنبیہ: ان آثارکا بعض نے یہ مطلب سمجھ لیا کہ یوم عرفہ سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہی تکبیر کہنا ہے ، یعنی یکم ذی الحج سے لے کر یوم عرفہ تک تکبیرات کہنا درست نہیں ، بلکہ بعض نے تواسے بدعت تک کہا ہے ۔چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن شعبة، قال:’’ سألت الحكم وحمادا عن التكبير أيام العشر؟ فقالا:محدث ‘‘
    امام شعبہ کہتے ہیں :’’کہ میں نے حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان سے ایام عشرہ ٔذی الحج میں تکبیرات سے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا:یہ نئی ایجاد کردہ چیز ہے‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۸؍۱۹۸،رقم:۱۴۴۶۲،وإسنادہ صحیح ]
    عرض ہے کہ:
    مذکورہ آثار میں کثرت اہتمام بتلانا مقصود ہے ، یعنی یہ صحابہ نسبتاً ان دنوں میں تکبیرات کا زیادہ اہتمام کرتے تھے ۔
    جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت ہے کہ:
    ’’ أن ابن عمر كان يغدو إلى العيد من المسجد ، وكان يرفع صوته بالتكبير حتي يأتى المصلي ويكبر حتي يأتى الإمام ‘‘
    ’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے عیدگاہ کے لئے نکلتے اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے یہاں تک کہ عید گاہ پہنچ جاتے ، پھر تکبیر کہتے رہتے جب تک کہ امام آنہ جائے‘‘
    [السنن الکبریٰ للبیہقی، ط الہند:۳؍۲۷۹،وإسنادہ صحیح]
    ظاہر ہے کہ اس روایت کی بناپر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صرف عید کے دن ہی تکبیر کہتے تھے ، اور اس سے قبل پورے عشرہ میں تکبیر نہیں کہتے تھے !بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ عید کے دن تکبیر کا اہتمام زیادہ ہوتا تھا ، نیزاوپر ایک صریح روایت گزرچکی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ عشرۂ ذی الحج میں بھی بازار جا کر تکبیر کہتے تھے۔
    تکبیرات مقید کا کوئی ثبوت نہیں:
    بعض لوگ تکبیرات کی دو قسمیں کرتے ہیں۔ ۱۔ تکبیرات مطلق ۲۔ تکبیرات مقید
    تکبیرات مطلق کا مطلب یہ کہ اس کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے یہ کبھی بھی کہیں جائیں گی ، لیکن تکبیرات مقید کا ایک مخصوص وقت ہے اور وہ نمازوں کے بعد کے اوقات ہیں ، حتیٰ کہ بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ان تکبیرات کو نمازوں کے بعد کے مسنون اذکار سے بھی پہلے کہیں گے ۔
    عرض ہے کہ :
    کتاب وسنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں تکبیرات کا کوئی بھی مخصوص وقت نہیں ہے ، لہٰذا مذکورہ تقسیم بے بنیاد ہے اور تکبیرات مقید کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ یہ تقلیدی برادری کے یہاں رائج غلط امور میں سے ہے ، بعض اہل علم نے غالباً تقلیدی برادری کے ساتھ حسن ظن کی بنا پر ان کی ہاں میں ہاں ملادی ہے ، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بالکل بے دلیل بات ہے ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تو اسے بدعت کہاہے۔
    ملاحظہ ہو یہ سوال وجواب:
    وسئل:’’هل يقيد التكبير فى أيام التشريق فيما بعد الصلوات؟ فأجاب :لا، لا يقيد؛ بل تقييدُه مِن البدع؛ إنما التكبير بكل وقتٍ من أيام التشريق ،السائل: وأيام العشر؟ الشيخ (الالباني:وأيام العشر كذالك)
    علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:’’کیا ایام تشریق میں نمازوں کے بعد تکبیر کو مقید کیا جائے گا ؟ تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا:نہیں ! نمازوں کے بعد اس کی تقیید نہیں کی جائے گی ۔بلکہ نمازوں کے بعد اسے مقید کرنا بدعات میں سے ہے ، اور صحیح یہ ہے کہ تکبیر ایام تشریق میں کسی بھی وقت کہی جائے گی ۔ سائل نے مزید پوچھا کہ :کیا عشرۂ ذی الحج کے ایام میں بھی ؟ تو شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا:عشرہ ذی الحج کے ایام میں بھی ایسے ہی تکبیر کہی جائے گی‘‘ [سلسلۃ الہدیٰ والنور:الشریط:۴۱۰]
    علامہ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وهنا أمر أريد أن أنبه عليه وهو ما اعتاده الناس عقب الصلوات من يوم النحر بعد الفجر إلى آخر أيام التشريق ، عقب الصلوات أنهم يكبرون ، وهذا ليس بمشروع ، بل التكبير مطلق ، أعني أنك تبدأ عقب الصلوات بالأذكار المشروعة التى تقال عقب الصلوات ثم تكبر سواء عقب الصلوات أم فى الضحي أم فى نصف النهار ، أو آخر النهار ، أم فى نصف الليل ، لكن ليست له كيفية عن النبيﷺ، ولا يخص عقب الصلوات‘‘
    ’’یہاں میں ایک چیز پر تنبیہ کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ یوم النحر کے دن فجر کے بعد سے لے کر تشریق کے آخری دن تک نمازوں کے بعد تکبیر کہنے کا جولوگوں کا معمول ہے ، یہ غیرمشروع ہے ، کیونکہ اس کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ، یعنی نمازوں کے بعد پہلے مشروع اذکار پڑھیں ، پھر تکبیر پڑھیں ، خواہ نمازوں کے بعد ، یا چاشت کے بعد ، یا دوپہر کے بعد، یا شام کو یا آدھی رات کو ، لیکن نبیﷺسے اس کی کوئی مخصوص کیفیت منقول نہیں اور نہ ہی نمازوں کے بعد اس کا خاص وقت ہے‘‘
    [قمع المعاند:۲؍۳۶۵۔۳۶۶]
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ لم یرد عن النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نص صحیح صریح فی باب التکبیر المقید، لکنہ آثار واجتہادات من العلماء ‘‘
    ’’ تکبیرات مقید کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ سے کوئی بھی صحیح اور صریح نص ثابت نہیں ہے ، یہ بعض آثار اور اہل علم کے اجتہادات ہیں‘‘[مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:۱۶؍۲۶۱]
    تنبیہ بلیغ:
    واضح رہے کہ بعض صحابہ کے اثار میں جو یہ ملتا ہے کہ وہ عرفہ کے دن فجر کے بعدسے لے کر تشریق کے آخری دن عصرتک یا مغرب تک تکبیرات کہتے تھے (جیساکہ اوپر کچھ ایسے آثارمنقول ہیں)، تو اس کا مطلب صرف یہ بتلانا ہے کہ یہ تکبیرکب سے تک کہنا ہے ، یہاں یہ مطلب اخذ کرلینا کہ یہ صحابہ نمازوں کے بعد کے اوقات کے ساتھ تکبیرات کو مقید جانتے تھے ، بالکل درست نہیں ہے ۔
    البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نمازوں کے بعد تکبیرات کا اہتمام کرتے تھے لیکن اسی اثر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصود لوگوں کو تعلیم دینا ہوتا تھا نہ کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ ان تکبیرات کے لئے نماز کے بعد کا وقت مخصوص ہے چنانچہ:
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰)نے کہا:
    حدثنا عبد اللّٰه بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا محمد بن سلمة، عن أبي عبد الرحيم، عن زيد بن أبي أنيسة، عن عمر بن نافع، عن أبيه:’’ أن ابن عمر كان إذا صلى وحده فى أيام التشريق لم يكبر دبر الصلاة ‘‘
    نافع کہتے ہیں:’’ کہ ابن عمررضی اللہ عنہ ایام تشریق کے دنوں میں جب تنہا نماز پڑھتے تو نمازوں کے بعد تکبیر نہیں کہتے تھے ‘‘
    [المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲؍۲۶۸، وإسنادہ صحیح]
    اس کی مزید وضاحت ابن عمر رضی اللہ کے عنہ کے اس اثر سے بھی ہوتی جو شروع میں پیش کیا گیا ہے جس میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بازار میں اسی مقصد کے تحت جاتے تھے کہ وہاں اکٹھا لوگوں کو تکبیر کی تعلیم دیں ۔
    ظاہر ہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تکبیرات کو بازار کے ساتھ مقید جانتے تھے ، یہی معاملہ نماز کے بعد کا بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو اس وقت تکبیر کا خصوصی اہتمام نہیں کرتے تھے ۔
    اس طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیرات مقید کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، والحمدللہ۔
    بعض لوگ جب تکبیرت مقید کو کتاب وسنت سے ثابت نہیں کرپاتے تو نام نہاد اجماع کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں ، سو واضح ہونا چاہئے کہ اول تو بغیر دلیل کے اجماع کا انعقاد ناممکن ہے ، دوسرے یہ کہ حجت صرف اجماع قطعی ہے ، جبکہ تقلیدی برادری دن رات جس اجماع کا رٹ لگاتے ہیں وہ اجماع ظنی ہوتا ہے، اورایسے اجماع کا حجت ہونا تو دور کی بات اس کا دعویٰ کرنے والا بقول امام احمد رحمہ اللہ کذاب ہے۔
    تکبیرات کے الفاظ :
    اللہ کے نبی ﷺسے صحیح سند کے ساتھ ان دنوں میں تکبیر کا کوئی بھی صیغہ منقول نہیں ہے ، اس لئے دیگر مقامات پر ثابت شدہ کسی بھی صیغہ تکبیر کے ساتھ ان دنوں میں تکبیر کہی جاسکتی ہے ۔ مثلاً:
    سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
    ’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۱۱؍۲۹۵، رقم: ۲۰۵۸۱ ، وإسنادہ صحیح]
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
    اَللّٰہ أکبر کبیرا، اَللّٰہ أکبر کبیرا، اَللّٰہ أکبر وأجل، اَللّٰہ أکبر و لِلّٰہ الحمد
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۴؍۲۱۴، رقم:۵۷۷۳،وإسنادہ صحیح]
    عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ:
    اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۴؍۲۰۹]
    اس کی سند ابواسحاق مدلس کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے ، لیکن محاملی کی روایت میں ابراہیم نخعی نے بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بات نقل کررکھی ہے۔[صلاۃ العیدین للمحاملی :ص:۲۲۹، رقم:۱۶۷،وإسنادہ حسن إلی إبراہیم لکنہ منقطع]
    یہ روایت بھی ابراہیم اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیچ منقطع ہے لیکن یہ ہلکا ضعف ہے کیونکہ ابراہیم نخعی جب بلاواسطہ کوئی بات ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں تو اس بات کو انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے سنا ہوتا ہے جیساکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے خود اس کی صراحت کردی ہے۔ دیکھیں:[الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۶؍۲۷۲،وإسنادہ صحیح]
    لہٰذا یہ منقطع روایت ابن ابی شیبہ کی روایت کے ساتھ مل کر کم ازکم حسن لغیرہٖ ہے ان شاء اللہ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings