Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سید الحفاظ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حنفی علماء کرام کی نظر میں

    الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی رسولہ الامین ، اما بعد:
    محترم قارئین! سلمان ندوی – ہداہ اللہ- نے کہا کہ:
    تمام علماء احناف اِس بات پرمتفق ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے۔
    راقم کہتا ہے کہ مذکورہ دعویٰ بلا شبہ مردود اور باطل ہے کیونکہ کئی جید اور بڑے حنفی علماء کرام نے آپ رضی اللہ عنہ کو فقیہ قرار دیا ہے اورغیر فقیہ کہنے والوں کا رد بھی کیا ہے۔ تفصیل پیش خدمت ہے:
    ٭چند حنفی علماء کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
    ٭ علامہ عبد العزیز بن احمد البخاری الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۳۰ھ)صاحب اصول البزدوی کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’اَنَّا لَا نُسَلِّمُ اَنَّ اَبَا هُرَيْرَةَ- رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ- لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا بَلْ كَانَ فَقِيهًا وَلَمْ يَعْدَمْ شَيْئًا مِنْ اَسْبَابِ الِاجْتِهَادِ، وَقَدْ كَانَ يُفْتِي فِي زَمَانِ الصَّحَابَةِ، وَمَا كَانَ يُفْتِي فِي ذَالِكَ الزَّمَانَ إلَّا فَقِيهٌ مُجْتَهِدٌ، وَكَانَ مِنْ عِلْيَةِ اَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰهِ- صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَرَضِيَ عَنْهُمْ وَقَدْ دَعَا النَّبِيُّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ- لَهُ بِالْحِفْظِ فَاسْتَجَابَ اللّٰهُ تَعَالَي لَهُ فِيهِ حَتَّي انْتَشَرَ فِي الْعَالَمِ ذِكْرُهُ وَحَدِيثُهُ… َوقَدْ رَوَي جَمَاعَةٌ مِنْ الصَّحَابَةِ عَنْهُ فَلَا وَجْهَ إلَي رَدِّ حَدِيثِهِ بِالْقِيَاسِ‘‘
    ’’ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے بلکہ آپ فقیہ تھے اور اجتہاد کے اسباب میں سے کوئی چیز آپ میں معدوم نہیں تھی۔ آپ صحابہ کرام کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور اُس زمانے میں صرف فقیہ اور مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے ۔ آپ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے تھے ۔ اللہ اُن سب سے راضی ہواور نبی کریم ﷺنے آپ کے لئے حفظ کی دعا کی تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں قبول کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ کا ذکر اور آپ کی احادیث کو پھیلا دیا… اور صحابہ کی ایک جماعت نے آپ سے روایت کیا ہے لہٰذا آپ کی حدیث کو قیاس کی وجہ سے رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے‘‘[کشف الاسرار شرح اصول البزدوی:۲؍۳۸۳۔۳۸۴]
    ٭ شیخ محمد بن محمد الکاکی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۹ھ)فرماتے ہیں:
    ’’علي لَا نُسَلِّمُ اَنَّ اَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا بَلْ كَانَ، وَلَمْ يَعْدَمْ شَيْئًا مِنْ اَسْبَابِ الِاجْتِهَادِ، وَقَدْ كَانَ يُفْتِي فِي زَمَانِ الصَّحَابَةِ، وَمَا كَانَ يُفْتِي فِي ذَالِكَ الزَّمَانَ إلَّا فَقِيهٌ مُجْتَهِدٌ‘‘
    ’’ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے بلکہ آپ فقیہ تھے اور اجتہاد کے اسباب میں سے کوئی چیز آپ میں معدوم نہیں تھی۔ آپ صحابہ کرام کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور اُس زمانے میں صرف فقیہ اور مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے‘‘[جامع الاسرار فی شرح المنار بتحقیق فضل الرحمٰن : ص:۶۷۵]
    ٭ علامہ عبد القادر بن محمد القرشی الحنفی رحمہ اللہ(المتوفی:۷۷۵ھ)علامہ عبد العزیز رحمہ اللہ کا مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    ’’ اَبُو هُرَيْرَة رَضِي اللّٰه عَنهُ من فُقَهَاء الصَّحَابَة، ذكر ابْن حزم فى الْفُقَهَاء من الصَّحَابَة‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقہاء صحابہ میں سے تھے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اِن کو فقہاء صحابہ میں ذکر کیا ہے‘‘ [الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ بتحقیق الدکتور عبد الفتاح محمد الحلو:۴؍۵۴۱]
    ٭ امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد ، المعروف بابن الہمام الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۶۱ھ)فرماتے ہیں:
    ’’ وابو ہریرہ فقیہ‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں۔‘‘[التحریر فی اصول الفقہ، الجامع بین اصطلاح الحنفیۃ و الشافعیۃ:ص:۳۱۹]
    ٭ علامہ شمس الدین محمد بن محمد ، المعروف بابن امیر حاج الحنفی رحمہ اللہ(المتوفی:۸۷۹ھ)امام ابن الہمام رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کے بعد لکھتے ہیں:
    ’’ لَمْ يَعْدَمْ شَيْئًا مِنْ اَسْبَابِ الِاجْتِهَادِ ،وَقَدْ اَفْتَي فِي زَمَنِ الصَّحَابَةِ ،وَلَمْ يَكُنْ يُفْتِي فِي زَمَنِهِمْ إلَّا مُجْتَهِدٌ‘‘
    ’’اجتہاد کے اسباب میں سے کوئی چیز آپ میں معدوم نہیں تھی۔ آپ صحابہ کرام کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور اُن کے زمانے میں صرف مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے ‘‘[التقریر والتحبیر فی شرح التحریر:۲؍۲۵۱]
    ٭ فقیہ زین الدین بن ابراہیم، المعروف بابن نجیم الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۹۷۰ھ):
    آپ رحمہ اللہ نے صاحب المنار رحمہ اللہ کا تعاقب کیا ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ مانا ہے۔
    دیکھیں :[فتح الغفار بشرح المنار:۸۸۔۹۱]
    ٭ فقیہ محمد امین بن محمود البخاری ، المعروف بامیر بادشاہ الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۹۷۲ ھ):
    آپ رحمہ اللہ نے بھی امام ابن الہمام رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کے بعد وہی بات کہی ہے جو علامہ ابن امیر حاج الحنفی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ دیکھیں:[تیسیر التحریر فی شرح التحریر :۳؍۵۳]
    ٭ علامہ ابو الحسن علی بن محمد ملا علی القاری الحنفی رحمہ اللہ(المتوفی:۱۰۱۴ھ):
    آپ رحمہ اللہ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ اور مجتہد مانتے ہیں ۔
    اور فقیہ اور مجتہد ماننے والوں کی تحقیق کی بابت فرماتے ہیں:
    ’’وهذا غاية التحقيق ‘‘
    ’’اور یہ تحقیق کی انتہاء ہے۔‘‘[توضیح المبانی و تنقیح المعانی: ص:۳۱۳،و فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ بتحقیق محمد نذار وغیرہ:۲؍۳۳۱]
    ٭ علامہ محمدبن نظام اللکنوی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۲۲۵ھ)نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ان ابا هريرة فقيه مجتهد، لا شك فى فقاهته فانه كان يفتي زمن النبى صلى اللّٰه عليه وآله واصحابه وسلم وبعده‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں ، اُن کی فقاہت میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ آپ نبی کریم ﷺکے زمانے اور اُس کے بعد والے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے‘‘[فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۳؍۳۱۱]
    اور صاحب مسلم الثبوت کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’وقد سبق ان ابا هريرة فقيه مجتهد، لا شك فيه‘‘
    ’’اور یہ بات گزر چکی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں ، اِس میں کوئی شک نہیں ہے‘‘[فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۳؍۳۱۱،و بتحقیق عبد اللّٰہ محمود:۲؍۲۲۱]
    ٭ علامہ محمدبن عبد الہادی السندھی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۱۳۸ھ)نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
    وَقَوْلُهُمْ: اَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ فَقِيهٍ ضَعِيفٌ اَيْضًا فَقَدْ ذَكَرَهُ فِي الْإِصَابَةِ مِنْ فُقَهَاء ِ الصَّحَابَةِ وَذَكَرَ اَنَّهُ كَانَ يُفْتِي وَمَنْ يَتَتَبَّعْ كُتُبَ الْحَدِيثِ يَجِدْهُ حَقًّا بِلَا رَيْبٍ ‘‘
    ’’احناف کا قول :’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ ہیں، یہ بھی ضعیف ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کو اصابہ میں فقہائے صحابہ میں ذکر کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ فتویٰ بھی دیتے تھے اور جو شخص کتب احادیث کا تتبع کرے گا تو وہ اِس کو بلا شبہ حق پائے گا‘‘[حاشیۃ السندی علٰی سنن ابن ماجہ:۲؍۳۰،و حاشیۃ السندی علٰی سنن النسائی: ۷؍ ۲۵۴]
    ٭ علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی رحمہ اللہ(المتوفی:۱۲۵۲ھ)رقمطراز ہیں:
    (قوله:’’وجزم فى التحرير بان ابا هريرة فقيه) لانه لَمْ يَعْدَمْ شَيْئًا مِنْ اَسْبَابِ الِاجْتِهَادِ ،وَقَدْ اَفْتَي فِي زَمَنِ الصَّحَابَةِ ،وَلَمْ يَكُنْ يُفْتِي فِي زَمَنِهِمْ إلَّا مُجْتَهِدٌ…كذا فى التحبير‘‘
    (علامہ علاء الدین الحصکفی رحمہ اللہ کا قول :’’کہ تحریر میں بالجزم یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں)کیونکہ اجتہاد کے اسباب میں سے کوئی چیز آپ میں معدوم نہیں تھی۔ آپ صحابہ کرام کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور اُن کے زمانے میں صرف مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے۔۔۔ اِسی طرح تحبیر میں ہے ‘‘[نسمات الاسحار وہو شرح علٰی افاضۃ الانوار: ص:۱۷۹۔۱۸۰]
    ٭ علامہ محمد عبد الحئی لکھنوی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۳۰۴ھ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    الثاني:’’ان كون ابي هريرة غير فقيه غير صحيح، بل الصحيح انه من الفقهاء الذين كانوا يفتون فى زمان النبى صلى اللّٰه على وسلم كما صرح به ابن الهمام فى تحرير الاصول وابن حجر فى الاصابة فى احوال الصحابة‘‘
    دوسرا یہ کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا غیر فقیہ ہونا، صحیح نہیں ہے بلکہ آپ اُن فقہاء میں سے تھے جو نبی کریم ﷺکے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے جیساکہ امام ابن الہمام رحمہ اللہ نے تحریر الاصول میں اور امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ فی احوال الصحابہ میں صراحت کی ہے‘‘[السعایۃ فی کشف ما فی شرح الوقایۃ: ص:۵۱۰]
    ٭ علامہ محمد انور شاہ کشمیری الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۳۵۳ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے پہلے اُن لوگوں کا کلام نقل کیا، جنہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہہ کر اُن کی روایت کو ترک کر دیا اور قیاس پر عمل کرنے کی بات کہی۔ پھر فرمایا:
    ’’إن مثل هذا قابل الإسقاط من الكتب فإنه لا يقول به عالم‘‘
    ’’اِس طرح کی باتوں کو کتاب سے نکال دینا چاہیے کیونکہ ایک عالم یہ بات نہیں کہہ سکتا ہے‘‘[العرف الشذی شرح سنن الترمذی:۳؍۳۳]
    اِس پر مزید یہ کہ آپ رحمہ اللہ نے بعض حنفیہ کا قول نقل کیا کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ ہیں، اِن کی بیان کردہ روایت قیاس کے خلاف ہے لہٰذا اِس پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ قیاس پر عمل کیا جائے گا۔
    اِس جواب کی بابت آپ فرماتے ہیں کہ :
    ’’وهذا الجواب باطلٌ، لا يُلْتَفَتُ إليه‘‘
    ’’یہ جواب باطل ہے، اِس کی طرف نہیں دیکھا جائے گا‘‘
    پھر فرماتے ہیں : ’’ومن يَجْتَرِيء ُ على ابي هُرَيْرَة فيقول:إنه كان غيرُ فقيهٍ؟‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے کی جسارت کون کر سکتا ہے؟‘‘[فیض الباری علی صحیح البخاری:۳؍۴۵۰]
    ٭ علامہ محمدبخیت بن حسین المطیعی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۳۵۴ھ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والے کا ردکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’فان ابا هريرة فقيه مجتهد، لا شك فى فقاهته فانه كان يفتي فى زمن النبى ﷺو بعده‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں ، اُن کی فقاہت میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ آپ نبی کریم ﷺکے زمانے اور اُس کے بعد والے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے‘‘[نہایۃ السول فی شرح منہاج الاصول ومعہ سلم الاصول:۳؍۱۵۳]
    ٭ مفتی محمد تقی عثمانی الحنفی حفظہ اللہ سرخی لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’الرد علٰي من قال:ان ابا هريرة لم يكن فقيها‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والے کا رد‘‘
    پهر فرماتے هيں: …فان ابا هريرة فقيه مجتهد لا شك فى فقهه فانه كا ن يفتي فى زمن رسول اللّٰه ﷺ و بعده وكان يعارض فقهاء الصحابة فى فتاويهم و اقوالهم كما روي فى الخبر الصحيح انه خالف ابن عباس فى عدة الحامل المتوفي عنها…‘‘
    ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں ، اِن کی فقاہت میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ آپ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اور اُس کے بعد کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور فقہائے صحابہ کے اقوال اور اُن کے فتاویٰ سے معارضہ کرتے تھے جیساکہ صحیح خبر میں مروی ہے کہ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی ایک ایسی حاملہ عورت کی عدت کے بارے میں جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو ‘‘
    پھر کئی کتابوں کے اقتباس اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ایک قصہ نقل کر کے فرمایا :
    ’’و فیہ دلیل علٰی انہ کان یفتی فی زمن عمر ولم یکن یفتی فی زمنہ الا فقیہ فاعلم ذالک واللّٰہ یتولی ہداک‘‘
    ’’اِس قصے میں دلیل موجود ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتویٰ دیتے تھے اور آپ کے زمانے میں صرف فقیہ فتویٰ دیتے تھے لہٰذا اِسے جان لیجیے اور اللہ ہی آپ کی ہدایت کا ولی ہے‘‘[اعلاء السنن للعثمانی بتحقیق محمد تقی عثمانی ،تحت الحدیث:۴۶۳۴، ص:۸۸۔۸۷]
    ٭ شیخ عبد المجید الترکمانی الحنفی حفظہ اللہ سرخی لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’الصحابي الجليل ابو هريرة رضي اللّٰه عنه فقيه مجتهد‘‘
    ’’جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں‘‘
    پھر فرماتے ہیں:
    ’’ان الراي الصحيح المحقق عند المحققين من الحنفية انه فقيه مجتهد بلا ريب‘‘
    ’’محققین حنفیہ کے نزدیک صحیح اور محقق رائے یہ ہے کہ بلا شبہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد ہیں‘‘[دراسات فی اصول الحدیث علٰی منہج الحنفیۃ:ص:۲۷۳]
    ابھی اور بھی اقوال ہیں لیکن انہی پر اکتفاء کیا جا تا ہے۔مزید حنفی علماء کرام کے نام کے لیے دراسات فی اصول الحدیث کا مطالعہ مفید رہے گا۔
    (ایک ندوی عالم کا موقف) سید سلیمان الندوی الحسینی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۳۷۳ھ)نے کثرت سے حدیث بیان کرنے والے صحابہ کا نام بتاتے ہوئے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام بھی شمار کیا ۔ پھر فرمایا:
    ’’وكل هولاء كانوا يعدون من فقهاء الصحابة ‘‘
    ’’یہ سب کے سب فقہائے صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں‘‘
    نیز آپ رحمہ اللہ ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد بھی مانتے تھے۔
    دیکھیں :[سیرۃ السیدۃ عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنہا:ص:۲۴۳و۲۴۵]
    قارئین! یہ بھی ایک ندوی عالم ہیں جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ اور مجتہد مانتے تھے اور ہمارے ما بین بھی ایک ندوی ہے جس کا حال دنیا جانتی ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے اور اپنے ایمان اور ضمیر کی حفاظت کرنے کی توفیق دے۔
    ٭ صاحب اصول شاشی کا تعاقب:
    سلمان ندوی -ہداہ اللہ- نے اپنی بات کی تائید میں اصول شاشی کی ایک عبارت پیش کی تھی۔ اُس عبارت میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے جو بات کہی گئی تھی، اُس کے رد میں علماء کے اقوال پیش کرتا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) استاذ الحدیث مولانا عبد الغفار حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    مصنف رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام اِس دوسری قسم میں ذکر کیا ہے لیکن در حقیقت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں اجتہاد و استنباط کا ملکہ موجود تھا اگر چہ اُن پر اکثار روایت کا غلبہ تھا۔۔۔ پھر اُن کے مجتہد ہونے کی ایک دلیل پیش کی۔(صفوۃ الحواشی شرح اصول الشاشی: ص:۴۷۰، ناشر مکتبہ فریدیہ اسلام آباد)
    (۲) استاذ الحدیث مولانا محمد اصغر علی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا بھی غلط ہے کیونکہ وہ فقیہ صحابی ہیں، کئی مسائل میں ان کا اپنا مذہب ہے اور کئی مسائل میں وہ کئی صحابہ سے اختلاف رکھتے ہیںاور یہی ان کے فقیہ ہونے کی دلیل ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے جو دو مثالیں بیان کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غیر معروف بالفقہ ہیں لیکن یہ مصنف کا سہو ہے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔(اجود الحواشی اردو شرح اصول الشاشی :ص:۳۴۹۔۳۵۰)
    (۴) استاذ دار العلوم دیوبند مولانا جمیل احمد سکروڈھوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    اِس جگہ ایک اعتراض ہے وہ یہ کہ ابو ہریرہ کو غیر فقیہ کہنا غلط ہے، حضرت امام اعظم بھی اُن کو فقیہ مانتے ہیں اور ابو ہریرہ غیر فقیہ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ عہد رسالت میں بھی فتویٰ دیتے تھے اور بعد میں بھی اور فقہاء صحابہ سے اُن کے فتویٰ میں معارضہ کرتے تھے۔۔۔ پھر تذکرۃ الحفاظ سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول پیش کیا، پھر فرمایا:الحاصل ابو ہریرہ کو غیر فقیہ اور غیر مجتہد قرار دینا اور یہ کہنا کہ امام صاحب نے مخالف قیاس ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو ترک کیا ہے، غلط ہے۔ (اجمل الحواشی علیٰ اصول الشاشی : ص:۳۰۵)
    (خلاصۃ التحقیق) سید الحفاظ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کئی جید اور بڑے حنفی کرام کی نظر میں فقیہ، مجتہد اور مفتی تھے اور اُن علماء کرام نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے والوں کا رد بھی کیا ہے لہٰذا سلمان ندوی -ہداہ اللہ- کا یہ کہنا کہ تمام علماء احناف اِس بات پرمتفق ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے، بلا شبہ مردود اور باطل ہے۔
    ٭٭٭
    ٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings