-
ماہِ صفر میں آفتوں کا نزول اور ایک من گھڑت روایت الحمد للہ وحدہ ،والصلاۃ و السلام علیٰ من لا نبی بعدہ، اما بعد:
محترم قارئین!(۳؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)صبح نمازِ فجر کے بعد ایک گروپ میں ایک حدیث دیکھی، جس کے الفاظ یہ تھے :
’’صفر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ صفر کے مہینے میں ساری آفتیں اور مصیبتیں زمین پر اترتی ہیں، اس لیے ان سب سے حفاظت کے لیے ہر نماز کے بعد گیارہ (۱۱)مرتبہ :’’یا باسط ، یا حافظ ‘‘کا وِرد کریں‘‘
جس بھائی نے یہ روایت بھیجی تھی میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو کہاں سے ملی ؟ تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر میں نے اُن کے پرسنل میں بھی یہی سوال کیا لیکن وہاں بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
پھر میں نے خود اِس روایت کو تلاش کیا اور خوب تلاش کیا لیکن پوری روایت تو دور ، روایت کا کوئی ایک حصہ بھی نہیں مل سکا ۔
نیز روایت کے یہ الفاظ :’’صفر کے مہینے میں ساری آفتیں اور مصیبتیں زمین پر اترتی ہیں‘‘بھی اللہ کے نبی ﷺکے شایانِ شان نہیں ہیں۔
اسی وجہ سے راقم بلا تردد یہ بات کہتا ہے کہ یہ ایک موضوع ، من گھڑت روایت ہے ، اللہ کے نبی ﷺپر جھوٹ بولا گیا ہے۔
جو لوگ اِس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ، میں اُن سے باادب گزارش کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے نبی کریم ﷺکی جانب کوئی ایسی بات منسوب مت کریں جو آپ نے نہ کہی ہو کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ درج ذیل حدیث کے مصداق ہو ںگے :
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا :
’’مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ اَقُلْ، فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘‘
’’جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘[صحیح البخاری :۱۰۹]
ایک دوسری روایت کے الفاظ اِس طرح ہیں:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘
’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘ [صحیح البخاری :۱۱۰]
اور اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں، مذکورہ بات اللہ کے نبی ﷺنے کہی ہے تو ایسے شخص سے عرض ہے کہ نبی کریم ﷺکے مذکورہ فرمان کی صحیح یا حسن سند دنیا کی کس کتاب میں موجود ہے ؟ حوالہ پیش کردیں اور اگر کوئی ضعیف یا موضوع سند ہی موجود ہو تو کم از کم اسی کی طرف رہنمائی کر دیں ۔
موجودہ دور کے وضاعینِ حدیث :
موجودہ دور میں جو لوگ حدیثیں گھڑتے ہیں ، اُن کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ :
(۱) وہ صرف حدیث گھڑتے ہیں ، بس!!! اور اُس کے ساتھ کوئی حوالہ نہیں لگاتے ۔
(۲) اور کبھی کبھار حدیث بھی گھڑتے ہیں اور ساتھ میں صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ کا حوالہ بھی لگا دیتے ہیں۔
ایسے لوگوں سے باادب عرض ہے کہ اللہ سے ڈریں اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔
اب دوباتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں:
(فائدہ نمبر:۱) ماہِ صفر میں آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ۔یہ بات:
(۱) اللہ تعالیٰ نے نہیں کہی ہے۔
(۲) نا اُس کے آخری نبی محمد ﷺنے کہی ہے اور نا ہی اِس کی تعلیم دی ہے۔
(۳) اور نا ہی کسی صحابی نے کہی ہے۔
بلکہ یہ بعض لوگوں کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ایک بات ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(فائدہ نمبر:۲) اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اُسی وقت اللہ کے نبی ﷺنے اُن کے اِس عقیدے کی تردید بھی کر دی تھی۔آپ ﷺنے فرمایا تھا:
’’ وَلَا طِيرَةَوَ لَا صَفَرَ‘‘
’’کوئی بد شگونی نہیں ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے ‘‘ [صحیح البخاری:۵۷۵۷،و سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی:۳۹۱۱،واللفظ لہ]
محدث محمد بن راشد الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی ، بعد:۱۶۰ھ)فرماتے ہیں:
’’اَنَّ اَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْتَشْئِمُونَ بِصَفَرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:لَا صَفَرَ ‘‘’’اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے تو نبی کریم ﷺنے فرمایا :ماہ صفر منحوس نہیں ہے‘‘ [سنن ابی داؤد بتحقیق الالبانی :۳۹۱۵] علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
لیکن افسوس! جس عقیدے کی تردید اللہ کے نبی ﷺنے چودہ سو سال پہلے کی تھی ، آج اسی عقیدے کو بعض جاہل مسلمانوں نے اپنا لیا ہے، اللہ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور ہدایت دے۔ آمین۔
اور امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۹۵ھ)نے اپنے زمانے میں ہی کہا تھا :
’’وکثیر من الجہال یتشاء م بصفر وربما ینہی عن السفر فیہ والتشاوم بصفر ہو من جنس الطیرۃ المنہی عنہا‘‘
’’بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور بسا اوقات وہ اِس مہینے میں سفرکرنے سے رکے رہتے ہیں اور ماہ صفر کو
منحوس سمجھنا ، یہ بد شگونی کی جنس سے ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔[لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف : ص:۷۴]
(خلاصۃ التحقیق) زیر بحث روایت من گھڑت ہے اور ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا، مسلمانوں کا کام نہیں ہے۔واللہ اعلم