Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات (نویں قسط)

    اہل السنۃ والجماعۃ کی وسطیت:(پہلا حصہ)
    دوسری امتوں کے درمیان امت مسلمہ کی وسطیت کے چند جوانب کو اس سلسلے کی آٹھویں قسط میں اجاگر کیا گیا تھا، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’علم عقیدہ کی چند مصطلحات‘‘کی نویں قسط میں اہل السنہ والجماعہ و اہل الحدیث کی وسطیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    یقیناً امت مسلمہ میں خیریت کے سب سے زیادہ حقدار، اتباعِ کتاب وسنت کے حقیقی سعادت مند، میدانِ قول و عمل اور اعتقاد میں کتاب وسنت کو اپنانے کی حرص رکھنے والے در اصل اللہ کے رسولﷺکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، اور تبع تابعین رحمہم اللہ ہیں، جن کے لئے نبی کریم ﷺنے خیریت کی شہادت دی ہے:
    ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘
    ’’سب سے بہترین لوگ وہ لوگ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘
    [صحیح البخاری:ح:۳۶۵۱، وصحیح مسلم: ح:۲۵۳۳]
    یہی لوگ امت کے سب سے بہترین لوگ ہیں، پھر اس زمرے میں وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں، جو ان کے منہج پر چلتے ہیں، جنہوں نے کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے، اور اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ’’فرقۂ ناجیہ‘‘اور’’جماعت‘‘کہا گیا ہے۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’من قال بالكتاب والسنة والإجماع كان من أهل السنة والجماعة‘‘
    ’’جو کتاب و سنت اور اجماع (سلف)کے مطابق باتیں کرتا ہے وہ اہل السنہ والجماعہ میں سے ہے‘‘
    [مجموع الفتاوی:۳؍۳۴۶]
    چنانچہ اہل السنہ والجماعہ و اہل الحدیث ہی کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے والے، اور منہجِ صحابہ کرام، اور سلفِ امت کے پیرو کار ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
    ’’هم أهل الحديث والسنة العاملون بطريقهم (الصحابة رضي اللّٰه عنهم)، وهم أهل العلم بالكتاب والسنة فى كل عصر ومصر، وهم أفضل الخلق من الأولين والآخرين‘‘
    ’’اور وہ اہل حدیث وسنت ہیں،جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کے مطابق عمل کرنے والے ہیں، اور ہر زمانہ اور ہر شہر میں وہ کتاب وسنت کے علم والے رکھنے والے ہیں، اور وہی اولین و آخرین میں سب سے افضل ہیں‘‘دیکھیں:
    [شرح العقیدۃ الأصہفانیۃ:ص:۱۸۰]
    اہل السنہ والجماعہ اس امت کے دیگر تمام فرقوں کی بنسبت وسطیت پر قائم ہیں، جس طرح امت مسلمہ دوسری امتوں کے درمیان اہل وسط ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اہل السنہ والجماعہ کے منہج کے بارے میں فرماتے ہیں:
    بلکہ وہ امت کے (تمام)فرقوں میں اہل وسط ہیں، جیسے امت (مسلمہ)تمام امتوں میں وسطیت پر قائم ہے پس وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات کے باب میں اہل تعطیل جہمیہ اور اہل تمثیل مشبہ کے درمیان وسطیت پر ہیں۔
    اور اللہ کے افعال میں قدریہ و جبریہ کے درمیان وسطیت پر ہیں۔
    اور اللہ کی وعید کے باب میں مرجئہ اور وعیدیہ یعنی قدریہ وغیرہم کے درمیان وسطیت پر ہیں۔
    اور ایمان و دین کے باب میں حروریہ و معتزلہ اور مرجئہ و جہمیہ کے درمیان وسطیت پر ہیں۔
    اور اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب کے سلسلے میں روافض و خوارج کے درمیان وسطیت پر گامزن ہیں۔ [العقیدۃ الواسطیۃ (ضمن المتون العلمیۃ): ص:۱۳۴۔۱۳۵]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کے اس قول سے اہل السنہ والجماعہ کا منہج واضح ہے، مذکورہ نکات کے مقاصد کو سمجھنا ہی در اصل وسطیت کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کے منہج کو سمجھنا ہے، بنا بریں ان سطور میں انہی نکات کی روشنی میں جماعت حقہ اہل السنہ والجماعہ و اہل الحدیث اور مختلف فرق باطلہ کی امتیازی خصوصیات کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔
    اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت کے چند مظاہر:
    أولاً: اللہ کے اسماء وصفات میں اہل السنہ والجماعہ اہل نفی و تعطیل، اور اہل تشبیہ و تمثیل کے درمیان وسطیت کے حامل ہیں۔
    اہل السنہ والجماعہ ان تمام اسماء حسنیٰ اور صفات علیا پر بغیر تحریف وتعطیل، اور بغیر تشبیہ و تمثیل کے ایمان رکھتے ہیں، جن کو اللہ نے اپنے لئے، یا اس کے رسولﷺنے اس کے لئے ثابت کیا ہے، اور ساتھ ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو مخلوقات کی مماثلت سے مبرا مانتے ہیں، کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے بارے میںارشاد فرمایا ہے:
    {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء ٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
    ’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں، وہ سننے والا دیکھنے والا ہے‘‘
    [سورۃ الشوری:۱۱]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اور اللہ پر ایمان میں سے (یہ بھی)ہے کہ:ان تمام صفات پر بغیر تحریف و تعطیل اور بغیر تکییف و تمثیل کے ایمان رکھا جائے، جن سے اللہ نے خود کو متصف فرمایا ہے، اور اس کے رسول ﷺنے جن (صفات)سے اللہ کو موصوف فرمایا ہے‘‘
    [العقیدۃ الواسطیۃ (ضمن المتون العلمیۃ)، ص: ۱۰۲]
    اہل السنہ والجماعہ اسماء و صفات کے باب میں اہل نفی و تعطیل، اور اہل تشبیہ و تمثیل کے مقابلے میں راہ اعتدال پر ہیں، کیونکہ:
    ۱۔ اہل تعطیل، جنہوں نے اللہ کے تمام نام و صفات کا انکار کیا، یا ان میں سے بعض کا انکار کیا:
    أ۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے تمام نام و صفات کا انکار کیا، جیسے:جہمیہ۔
    ب۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے نام کو ثابت کیا مگر تمام صفات کا انکار کیا، جیسے:معتزلہ۔
    ج۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے نام اور بعض صفات کو ثابت کیا، اور بعض صفات کا انکار کیا، جیسے:اشعریہ اور ماتریدیہ۔
    ۲۔ اہل تشبیہ و تمثیل، جنہوں نے اللہ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دی، جیسے:کرامیہ، اور ہشامیہ وغیرھم (تفصیل کے لئے رجوع کریں:[الإرشاد إلی صحیح الاعتقاد للدکتور صالح الفوزان: ص:۱۵۶۔۱۵۷]
    اللہ کے نام وصفات کا انکار کرنا کفر ہے، چنانچہ امام لالکائی رحمہ نے بیان کیا ہے کہ پانچ سو علماء کرام نے جہمیہ کی تکفیر کی ہے۔ دیکھیں:[شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:۲؍۳۴۲]
    ان میں سے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’الجہمیۃ کفار‘‘[السنۃ للخلال:۶؍۹۳، والإبانۃ لابن بطۃ:۲؍۵۶]
    اور یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’لعن اللّٰہ جہماً، ومن قال بقولہ کان کافراً جاحداً‘‘
    ’’اللہ غارت کرے جہم کو، اور جو بھی اس کی بات (و اعتقاد)کے مطابق بات کرے گا وہ کافر منکر ہے‘‘[ السنۃ للخلال:۵؍۸۷، و الإبانۃ لابن بطۃ۲؍۹۲]
    جہمیہ و معطلہ کی گمراہی کی بنیادی وجہ ذات وصفات کے درمیان فرق کرنا ہے، جو کہ سراسر باطل ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف نے اس کی خوب تردید کی ہے، چنانچہ عبد العزیز الکنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وكلامه خارج عن الأشياء المخلوقة، كما أن نفسه خارجة عن الأنفس الميتة‘‘
    ’’اور جس طرح اس کا کلام تخلیق شدہ چیزوں سے خارج ہے، ایسے ہی اس کا نفس مرنے والے نفوس سے خارج ہے‘‘
    [الحیدۃ والاعتذار فی الرد علی من قال بخلق القرآن: ص:۵۳۔۵۴]
    اور ابو نصر سجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ومنکر الصفۃ کمنکر الذات‘‘[رسالۃالسجزی إلی أہل زبید فی الرد علی أنکر الحرف والصوت: ص:۱۵۳] اور منکرِ صفت کا حکم منکرِ ذات ہے۔
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’القول فی الصفات کالقول فی الذات‘‘
    ’’صفات و ذات میں بات کرنے کا حکم ایک ہی درجے کا ہے‘‘[مجموع الفتاوی:۳؍۲۵]
    خلاصہ یہ ہے کہ صفات کا حکم ذات کی طرف لوٹتا ہے، کیونکہ صفت ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہے، لہٰذا جو حکم ذات کا ہوگا، وہی حکم صفت کا بھی ہوگا۔
    اشعریہ و ماتریدیہ نے بعض صفات کو ثابت کیا ہے اور بعض کا انکار کیا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’القول فی بعض الصفات کالقول فی البعض الآخر‘‘[الرسالۃ التدمریۃ:ص:۳۱]، حقیقت اور مقتضیات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ساری صفتوں کا ایک ہی حکم ہے، کیونکہ ہر ذات صفت کو مستلزم ہے، اور ہر ذات کی صفت اسی کے لائق و مناسب ہوا کرتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ، تمام صفتوں کو اس کے لئے ثابت کرنا ضروری ہے، انواع صفات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
    مشبّہ وممثلہ نے اللہ کی صفات کو اس طرح سے ثابت کیا کہ مخلوق کی صفات سے اس کی مماثلت لازم آتی ہے، جیسے: یہ کہنا کہ:اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسا ہے۔
    یقیناً اہل تشبیہ و تمثیل کا مذہب باطل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کے مشابہ کوئی بھی چیز نہیں ہو سکتی ہے۔
    چنانچہ امام طحاوی رحمہ للہ فرماتے ہیں:
    ’’إن اللّٰه واحد لا شريك له، ولا شيء مثله، ولا شيء يعجزه، ولا إلٰه غيره‘‘
    ’’اللہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور نہ ہی اس جیسی کوئی چیز ہے، اور نہ کوئی شی اسے عاجز کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق ہے‘‘
    [العقیدۃ الطحاویۃ (ضمن المتون العلمیۃ): ص:۱۳۲]
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فهو سبحانه لا يقاس به غيره، ولا يمثل به سواه، إذا ليس كمثله شيء‘‘
    ’’وہ ذات پاک ہے جس کے ساتھ کسی کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے، اور اس کے ذریعہ کسی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں‘‘
    [قاعدۃ عظیمۃ فی الفرق بین عبادات أہل الإسلام والإیمان وبین عبادات أہل الشرک والنفاق:ص:۱۳۳]
    ایک اور جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’فكما نتيقن أن اللّٰه سبحانه له ذات حقيقة، وله أفعال حقيقة، فكذالك له صفات حقيقة، و ليس كمثله شيء لا فى ذاته، ولا فى صفاته، ولا فى أفعاله‘‘
    ’’تو جس طرح ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ کی حقیقی ذات ہے، اور اس کے حقیقی افعال ہیں، لہٰذا اسی طرح اس کی حقیقی صفات ہیں، اور اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے نہ اس کی ذات میں، اور ان اس کی صفات میں، اور نہ ہی اس کے افعال میں‘‘
    [الفتاوی الحمویۃ:ص:۹۲]
    ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل کی ذات وصفات، اور اسماء وافعال میں کسی کو مماثل و مشابہ قرار دینا باطل ہے۔ کیونکہ:
    ٭ وہ تنہا و اکیلا ہے، اور اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے۔
    ٭ کسی نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں ہے۔
    ٭ اللہ تعالیٰ نے خود اور نہ اس کے رسولﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ اللہ عزوجل جیسا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔
    [القواعد المثلی فی صفات اللّٰہ و أسمائہ الحسنی:ص:۶۶]
    اور یہ معلوم ہے کہ کسی بھی چیز کو تشبیہ دینے سے قبل مذکورہ تینوں امور میں سے کم سے کم ایک کا ہونا ضروری ہے، اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تینوں امور ہی مفقود ہیں، پھر بھی اگر کوئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کسی کا مشابہ قرار دیتا ہے یا کسی کو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی خصوصیت میں مشابہ سمجھتا ہے تو اس کا یہ عقیدہ باطل ہے، جس پر مندرجہ ذیل اصول دلالت کرتے ہیں:
    ٭ اللہ کا کوئی مثیل نہیں ہے:{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء ٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں، اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘[سورۃ الشوریٰ:۱۱]
    ٭ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے:
    {لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}
    ’’(وہ ایسا ہے کہ)نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے، اور وہ ظاہر وباطن تمام امور کی خبر رکھنے والا ہے‘‘
    [سورۃ الأنعام:۱۰۳]
    ٭ لہٰذا نہ اللہ تعالیٰ کو کسی مخلوق کے مشابہ قرار دینا، اور نہ کسی مخلوق کو اللہ عزوجل کے مشابہ قرار دینا جائز ہے:
    {فَلَا تَضْرِبُوا لِلّٰهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
    ’’تو تم اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو، بے شک اللہ (ہی بہتر)جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے ہو‘‘
    [سورۃ النحل: ۷۴]
    فتنہ تشبیہ سے بچنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس بات پر یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ:
    ٭ خالق کی صفات کا لازم:کمال ہے۔
    ٭ مخلوقات کی صفات کا لازم: نقص ہے۔
    لہٰذا خالق و مخلوقات کی صفات کے درمیان مماثلت ممکن ہی نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا}
    ’’کیا تم اس کے کسی مثیل و شبیہ کو جانتے ہو؟‘‘
    [سورۃ مریم:۶۵]
    بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر صفت اپنے موصوف کے لائق و مناسب ہوا کرتی ہے، چنانچہ صفات کے باب میں مندرجہ ذیل اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے:
    ٭ بعض صفات خالق و مخلوق کے لئے ثابت ہیں، جیسے سننا، دیکھنا، باتیں کرنا وغیرہ (لہٰذا خالق کی صفات اس کے مناسب ہیں، جبکہ مخلوقات کی صفات ان کے مناسب ہیں)
    ٭ وہ صفات جو صرف خالق کے لئے خاص ہیں، جیسے: صفت خلق، ملک، اور تدبیر وغیرہ۔
    ٭ وہ صفات جو مخلوقات کے لئے خاص ہیں، جیسے:صاحب اہل وعیال ہونا۔
    یہ چند بنیادی اصول ہیں جن کے ذریعہ سے فتنہ تشبیہ و تمثیل سے بچا جاسکتا ہے، اور اس باب میں راہ اعتدال کو اپنایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی اہل السنہ والجماعہ کے ان تین بنیادی اصولوں کو بھی اپنانا ضروری ہے:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کو ثابت کرنا۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے عیوب ونقائص سے منزہ و پاک قرار دینا۔
    ۳۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کی کیفیت کی معرفت کے بارے میں حرص نہ رکھنا ۔دیکھیں:[منہج ودراسات لآیات الأسماء والصفات:ص:۱۱۷]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وأهل السنة يقولون: إن تنزيهه سبحانه عن العيوب والنقائص واجب لذاته، كما أن إثبات صفات الكمال والحمد واجب له لذاته، وهو أظهر فى العقول، والفطر، و جميع الكتب الإلهية، و أقوال الرسل من كل شيء ‘‘
    ’’اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کو عیوب و نقائص سے منزہ قرار دینا اسی طرح واجب ہے، جس طرح صفات کمال کو اس کے لئے ثابت کرنا اور محبت وتعظیم کے ساتھ اس کی تعریف کرنا واجب ہے، اور یہ (بات)عقلوں، فطرتوں، تمام کتب الہٰی، اور رسولوں کے ارشادات میں ہر چیز سے واضح و عیاں ہے‘‘
    [إغاثۃ اللہفان فی مصاید الشیطان:ص:۹۸۰]
    ان تینوں اصولوں میں پہلی اور دوسری اصل پر اکثر فرقے متفق ہیں، مگر تیسری اصل میں اختلاف کی وجہ سے اہل تعطیل و اہل تمثیل گمراہ ہوئے ہیں۔
    اثبات کمال اور دعویٰ تنزیہ :
    أ۔ اثبات کمال :
    اللہ عزوجل صفات کمال سے متصف ہے؛ لہٰذا ہر فرقے نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفات کمال کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
    ب۔ د عویٰ تنزیہ :
    ہر فرقہ اس بات کا دعویدار ہے کہ اللہ عزوجل ہر طرح کے نقائص و عیوب سے پاک ومنزہ ہے۔
    مگر حقیقت یہ ہے کہ اہل تعطیل و اہل کلام نے’’تنزیہ‘‘پر غلو کرتے ہوئے’’تعدد قدماء یا دلیل تجسیم یا حلول الحوادث‘‘وغیرہ عقلی دلائل کے ذریعہ صفات الٰہیہ کا انکار کیا ہے۔
    دوسری جانب اہل تشبیہ و تمثیل نے ’’کمال صفات‘‘کے اثبات پر غلو سے کام لیا حتیٰ کہ وہ یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ اللہ عزوجل کی صفات مخلوق کی صفات جیسی ہیں۔
    بناء بریں ایک طرف تمام فرقے ان دونوں امور ’’تنزیہ اللّٰہ عن النقائص والعیوب، و إثبات صفات الکمال لہ‘‘پر متفق ضرور ہیں، مگر یہی دونوں امر اہل تعطیل و اہل تشبیہ کے یہاں نفی صفات کے لئے محرک ثابت ہوئے۔
    لہٰذا حق یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی ان تمام صفات کو بلا تحریف و تعطیل اور بلا تکییف و تمثیل کے ثابت کیا جائے جن کا ذکر کتاب وسنت میں آیا ہے، اور ان تمام صفات کی نفی کی جائے جن کی نفی کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے، ساتھ ہی ان کی ضد کمال (مثلاً ظلم کی ضد عدل)کو ثابت کیا جائے۔
    خلاصہ یہ ہے کہ :
    اسماء وصفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کی امتیازی خصوصیت دو أصل الأصول پر مبنی ہے:
    أ۔ إثبات بلا تشبیہ (جن صفات کا ذکر کتاب وسنت میں آیا ہے، انہیں بلا تکییف و تمثیل ثابت کیا جائے)
    ب۔ تنزیہ بلا تعطیل (جن صفات کی نفی کتاب وسنت میں وارد ہوئی، صرف انہی صفات کی نفی کی جائے، دیگر دلائل عقلیہ کے ذریعہ باقی صفات مثبتہ کی نفی نہ کی جائے۔
    اور اسی کی طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے:
    ’’ومذہب السلف بین التعطیل والتمثیل، فلا یمثلون صفات اللّٰہ بصفات خلقہ، کما لا یمثلون ذاتہ بذات خلقہ، ولا ینفون عنہ ما وصف بہ نفسہ أو وصفہ بہ رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘
    ’’اور مذہب سلف تعطیل اور تمثیل کے درمیان قائم ہے،چنانچہ وہ اسی طرح اللہ کی صفات کو اس کی مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہ نہیں قرار دیتے ہیں، جس طرح وہ اللہ کی ذات کو اس کی مخلوق کی ذات کے مماثل نہیں قرار دیتے ہیں، اور نہ ہی ان صفات کی نفی کرتے ہیں جن سے اس نے خود کو متصف کیا ہے یا جن سے اس کے رسول ﷺ اسے موصوف فرمایا ہے‘‘[الفتاوی الحمویۃ:ص:۹۳]
    اور اسی لئے کہتے ہیں کہ اسماء و صفات کے باب میںاصل جامع اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے:
    {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء ٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
    ’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں، اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘
    [سورۃ الشوریٰ:۱۱]
    {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء ٌ}کے ذریعہ ممثلہ کی تردید کی گئی ہے، جبکہ {وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}کے ذریعہ اہل تعطیل کی تردید کی گئی ہے ۔دیکھیں:[التنبیہات السنیۃ علی العقیدۃ الواسطیۃ:ص:۱۸۵]
    جاری ہے………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings