Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • قبر رسول کے پاس استغفار کی شرعی حیثیت
    فاروق عبد اللہ نراین پوری

    (پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)

    کتاب وسنت کے بے شمار دلائل کی بنا ء پر اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور آپ ﷺ آدم کی اولاد میں سے ہیں، بلکہ آپ سید وُلْد آدم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آخری نبی بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا، اور۶۳سالہ زندگی گزارنے کے بعد ۱۲؍ربیع الاول ۱۱ ہجری کوآپ کی وفات ہوئی۔ آپ کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اور آپ ابھی عالم برزخ میں ہیں۔آپ کے لئے موت کا لفظ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر استعمال کیا ہے۔ اور صحابۂ کرام، تابعین عظام وسلف صالحین نے بھی اس لفظ کا بکثرت استعمال کیا ہے۔ در حقیقت اس لفظ میں آپ کے لئے کوئی توہین ہے ہی نہیں جیسا کہ بعض حضرات کو شبہ ہوتا ہے۔
    نیز اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص سے کچھ طلب کرنا جائز نہیں جس کی وفات ہو چکی ہے، چاہے وہ انبیاء کرام بلکہ سید وُلْد آدم نبی کریم ﷺ ہی کیوں نہ ہوں۔
    لیکن افسوس کہ بعض حضرات سلف صالحین کے اس متفقہ عقیدے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی قبر کے پاس جاکر آپ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنا جائز ہے۔ اور بعض یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ سے بخشش تو طلب نہیں کی جائے گی لیکن یہ درخواست کرنا جائز ہے کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔ یہ حضرات قرآن کریم کی اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}
    ’’جب انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اگر یہ آپ کے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول ﷺبھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے‘‘
    [ النساء:۶۴]
    نیز اس آیت کے خود ساختہ مفہوم کو تقویت دینے کے لئے عتبی نام کے ایک شخص کا ایک (من گھڑت)قصہ بیان کرتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ :
    ’’میں قبر رسول کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اسی دوران ایک اعرابی آیا، اور فرمایا:السلام علیک یا رسول اللّٰہ!میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
    {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}
    اور میں اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کی شفاعت طلب کرنے کے لئے آیا ہوں۔
    پھر انہوں نے یہ اشعار پڑھا:
    يا خير من دفنت بالقاع أعظمه فطاب من طيبهن القاع والأكم
    نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه فيه العفاف وفيه الجود والكرم
    اور چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی، خواب میں میں نے نبی ﷺ کودیکھا، آپ فرما رہے تھے:اے عتبی اس اعرابی سے ملو اور اسے یہ خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے‘‘
    مذکورہ آیت اور اعرابی کے قصہ سے استدلال کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ہم سے ظلم وزیادتیاں ہوتی رہتی ہیں، گناہیں سرزد ہوتی رہتی ہیں اس لئے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں آپ ﷺ کی قبر کے پاس آکر استغفار کرنا چاہئے، نیز آپ سے یہ درخواست کرنا چاہئے کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں جیسا کہ اس اعرابی نے کیا تھا۔
    لیکن ان کا یہ استدلال درج ذیل اسباب کی بنا پر باطل ہے۔
    ۱۔ آیت کا یہ مفہوم سلف صالحین کی متفقہ فہم کے خلاف ہے۔
    ہمارے برادران اس آیت سے جو مفہوم اخذ کرتے ہیں یہ فہم سلف صالحین کی متفقہ فہم کے خلاف ہے۔ اور کتاب وسنت کے نصوص کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سلف صالحین کی فہم کے مطابق انہیں سمجھا جائے۔
    اگر اس آیت کا یہی مفہوم ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے اپنی زندگیاں آپ ﷺ کی محبت واطاعت میں قربان کر دیں وہ سب سے پہلے اسے انجام دیتے۔ لیکن کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر پر آکر اس طرح کی کوئی درخواست کی ہو، یا گناہ کرنے کے بعد آپ کی قبر پر آکر استغفار کیا ہو، یا آپ کے وسیلہ سے کچھ طلب کیا ہو۔
    اسی طرح تابعین، تبع تابعین ومن تبعہم باحسان کسی سے اس طرح کا کوئی عمل ثابت نہیں ہے۔
    حالانکہ آپ ﷺ کی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو وہ پریشان ہوجاتے، فوراً انہیں اس غلطی کا احساس ہوتا اور اس کی مغفرت کی کوشش میں لگ جاتے، آپ ﷺ کے پاس آتے اور آپ سے استغفار طلب کرتے، پھر آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے۔
    علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وهذه كانت عادة الصحابة معه صلى اللّٰه عليه وسلم أن أحدهم متي صدر منه ما يقتضي التوبة جاء إليه فقال: يا رسول اللّٰه فعلت كذا وكذا فاستغفر لي‘‘
    ’’یہ آپ ﷺکے ساتھ صحابہ کرام کی عادت تھی کہ جب ان سے کوئی ایسی چیز صادر ہو جاتی جس سے توبہ کی ضرورت ہوتو آپ کے پاس آتے اور کہتے :اے اللہ کے رسول میں نے ایسا ایسا کر لیا ہے، اس لئے آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔‘‘
    [الصارم المنکی فی الرد علی السبکی: ص:۳۱۷]
    بطور مثال درج ذیل چند واقعات ملاحظہ فرمائیں جن سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ﷺ کی زندگی میں یہ صحابہ کرام کی عادت تھی:
    ۱۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والا واقعہ یاد کریں۔ اس میں ہے:
    ’’وكان إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فركع فيه ركعتين، ثم جلس للناس، فلما فعل ذلك جاء ه المخلفون، فطفقوا يعتذرون إليه، ويحلفون له، وكانوا بضعة وثمانين رجلا، فقبل منهم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم علانيتهم، وبايعهم واستغفر لهم‘‘
    ’’آپ ﷺ جب کسی سفر سے واپس آتے سب سے پہلے مسجد جاکر دو رکعت نماز ادا کرتے، پھر لوگوں کے ساتھ بیٹھتے، جب آپ نے ایسا کیا تو غزوہ سے پیچھے رہ جانے والے آپ کے پاس آئے اور اپنا اپنا عذر پیش کرنے لگے، قسمیں کھانے لگے، ان کی تعداد اسّی سے کچھ زائد تھی۔ جو کچھ انہوں نے ظاہر کیا آپ نے اسے قبول کیا، ان سے بیعت کی، اور ان کے لئے استغفار کیا‘‘
    [صحیح بخاری:۴۴۱۸، صحیح مسلم:۲۷۶۹]
    ۲۔ یزید بن اسود فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کیا ، فرماتے ہیں :آپ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرکے بیٹھے، تبھی آپ نے پیچھے ایسے دو لوگوں کو دیکھا جو نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوئے تھے، آپ نے فرمایا:ان دونوں کو میرے پاس لاؤ، انہیں لایا گیا اس حال میں کہ ان کے رگ کانپ رہے تھے، آپ نے فرمایا:ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تم دونوں کو کس چیز نے روکا؟ دونوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا:ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی اپنے گھر میں نماز پڑھ لے، پھر امام کے ساتھ (یعنی باجماعت)نماز پالے تو اسے امام کے ساتھ پھر پڑھ لے، یہ نماز اس کے لئے نفل ہو جائے گی۔ یزید بن اسود فرماتے ہیں:
    فقال أحدهما:’’استغفر لي يا رسول اللّٰه۔فاستغفر له‘‘
    دونوں میں سے ایک نے کہا:’’اے اللہ کے رسول آپ ہمارے لئے استغفار کریں، تو آپ نے اس کے لئے استغفار کی‘‘
    [مسند احمد:۲۹؍۲۱، ح:۱۷۴۷۶]مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
    ۳۔ عن الحارث بن عمرو، أنه لقي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى حجة الوداع، فقلت: بأبي أنت يا رسول اللّٰه، استغفر لي، قال:’’غفر اللّٰه لكم …‘‘
    ’’حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں ملے اور فرمایا:’’یا رسول اللہ! آپ پر میرے باپ قربان ہوں، آپ میرے لئے استغفار کر دیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ آپ لوگوں کی مغفرت فرمائے‘‘
    دیکھیں:[السنن الکبریٰ للنسائی:۴؍۳۷۷، ح:۴۵۳۹، مسند احمد:۲۵؍۳۴۲،ح:۱۵۹۷۳۲] مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
    ۴۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں نبی ﷺ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ ظہر ، عصر، مغرب وعشاء کی نماز پڑھی، پھر جب آپ اپنے بعض حجروں میں داخل ہونا چاہتے تھے میں آپ کے پیچھے ہو لیا، آپ کھڑے ہو گئے، میں آپ کے پیچھے تھا، گویا آپ کسی سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا:کون؟ میں نے کہا : حذیفہ، آپ نے پوچھا:معلوم ہے میرے ساتھ کون تھا؟ میں نے کہا:نہیں، فرمایا:جبرئیل علیہ السلام میرے پاس یہ خوشخبری دینے آئے تھے کہ حسن وحسین دونوں نوجوان جنتیوں کے سردار ہوں گے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
    ’’فاستغفر لي ولأمي‘‘، قال:غفر اللّٰه لك يا حذيفة ولأمك‘‘
    ’’ یعنی میرے اور میری ماں کے لئے استغفار کر دیں، آپ نے کہا:اے حذیفہ اللہ آپ اور آپ کے ماں کی مغفرت فرمائے‘‘
    [مسند احمد:۳۸؍۳۵۵] شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وہذا إسناد صحیح علٰی شرط مسلم‘‘ [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :۲؍۴۲۶]
    ۵۔ (صحیح بخاری، باب غزاۃ اوطاس :۵؍۱۵۵،حدیث نمبر:۴۳۲۳)میں ابو عامر اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا قصہ مروی ہے۔ ابو عامر رضی اللہ عنہ کو دشمنوں میں سے ایک جُشَمِی شخص نے ایک تیر مارا تھا، جس کا بدلہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس دشمن کو قتل کرکے لیا تھا، ابو عامر رضی اللہ عنہ کی اسی تیر سے شہادت واقع ہوئی۔ وفات سے پہلے انہوں نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کہا:
    ’’يا ابن أخي أقرء النبى صلى اللّٰه عليه وسلم السلام، وقل له:استغفر لي‘‘
    ’’ اے میرے بھتیجے نبی ﷺکو میرا سلام کہنا اور آپ سے کہنا کہ میرے لئے استغفار کریں‘‘
    حسب وصیت انہوں نے آپ ﷺ تک ان کا سلام پہنچایا اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی ۔ آپ نے پانی منگایا، وضو کیا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر یہ دعا کی:
    اللهم اغفر لعبيد أبي عامر،اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس ‘‘
    ’’ اے اللہ عبید ابو عامر کی مغفرت فرما۔ اے اللہ انہیں قیامت کے دن اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرما۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںتب میں نے کہا:میرے لئے بھی مغفرت کی دعا کر دیں۔ تب آپ نے یہ دعا کی:
    ’’اللهم اغفر لعبد اللّٰه بن قيس ذنبه، وأدخله يوم القيامة مدخلا كريما ‘‘
    ’’ اے اللہ عبد اللہ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے، اور قیامت کے دن اچھا مقام عطا فرما‘‘
    صحیح بخاری کی اس حدیث پر غور فرمائیں کہ آپ ﷺ کی زندگی میں صحابہ کرام کی کتنی شدید خواہش ہوتی تھی آپ ﷺ سے استغفار کی دعا کروانے کی، اگر کوئی خود سے نہیں پہنچ پاتا تو دوسرے کے ہاتھ یہ درخواست بھجواتا، لیکن وہی صحابہ کرام آخر آپ کی وفات کے بعد کبھی بھی آپ کی قبر کے پاس آکر یہ درخواست کیوں نہیں کرتے ہیں؟
    ۶۔ ( صحیح بخاری : کتاب المرضی، باب قول المریض:’’إنی وجع، أو وا رأساہ، أو اشتد بی الوجع:۷؍۱۱۹، حدیث نمبر: ۵۶۶۶)میں ہے کہ (ایک دن سر کے شدید درد کی وجہ سے )اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’وا رأساہ‘‘ ’’یعنی ہائے رے سر!‘‘ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
    ’’ذاك لو كان وأنا حي فأستغفر لك وأدعو لك‘‘
    ’’اگر یہ (یعنی آپ کی وفات)میری زندگی میں ہو ئی تو میں آپ کے لئے استغفار کروں گا اور آپ کے لئے دعا کروں گا‘‘
    اس عظیم حدیث پر غور فرمائیں ! اس میں آپ ﷺ نے ہمیں ایک قاعدہ کلیہ عطا فرمایا ہے۔ اس میں آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ اگر آپ کی وفات میری زندگی میں ہوتی ہے تو میں آپ کے لئے استغفار کروں گا۔ آپ نے یہاں پر’’وأنا حی‘‘ کا لفظ کیوں فرمایا ہے؟ اگر وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کسی کے لئے استغفار کر سکتے ہیں تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کہ ’’اگر ایسا میری زندگی میں ہوا‘‘، کیونکہ اُس صورت میں کبھی بھی ان کی وفات ہو قبر سے بھی آپ یہ کام کر سکتے تھے۔ لیکن آپ نے’’وأنا حی‘‘کی قید لگاکر یہ تعلیم دی کہ دوسروں کے حق میں استغفار کا معاملہ صرف میری زندگی کے ساتھ مقید ہے۔ وفات کے بعد یہ کام میرے لئے ممکن نہیں ہے۔
    استاد محترم فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیۃ فرماتے ہیں:
    ’’جاء فى صحيح البخاري فى كتاب المرضي:عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت:(وا رأساه قال:ذاك لو كان وأنا حي فأستغفر لك وأدعو لك) يعني:لو مت قبلي دعوت لك واستغفرت لك، فقوله هذا الكلام يبين بأن دعاء ه واستغفاره إنما هو فى حال حياته صلى اللّٰه عليه وسلم، ولو كان ليس هناك فرق بين الحياة والموت لما كان هناك حاجة إلى أن يقول هذا الكلام، لأنه سواء ً سبقها بالموت أو سبقته بالموت فإنه يستغفر لها، هذا إذا كان الأمر أنه لا فرق بين الحياة والموت لكنه قال:(لو كان ذاك وأنا حي دعوت لك واستغفرت لك)۔
    [شرح سنن أبی داؤد للعباد:۲۷؍۴۰۷، بترقیم الشاملۃ آلیا]
    (صحیح بخاری میں کتاب المرضی میں آیا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ’’وا رأساہ‘‘’’ہائے رے سر‘‘کہا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا:اگر یہ (یعنی آپ کی وفات)میری زندگی میں ہو ئی تو میں آپ کے لئے استغفار کروں گا اور آپ کے لئے دعا کروں گا۔ یعنی اگر آپ مجھ سے پہلے فوت ہوئیں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا اور استغفار کروں گا۔ آپ ﷺ کے یہ کہنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ کا -دوسروں کے لئے- دعا واستغفار کرنا صرف آپ کی زندگی میں تھا۔ اس لئے کہ اگر زندگی وموت میں کوئی فرق نہ ہوتا تو یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس لئے کہ چاہے آپ کی وفات پہلے ہو یا ان کی، آپ ان کے لئے استغفار کرتے ہی، یہ بات ہم اس وقت کہیں گے جب زندگی وموت میں کوئی فرق نہ ہو، لیکن آپ نے کہا کہ اگر یہ (یعنی آپ کی وفات)میری زندگی میں ہو ئی تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا اورآپ کے لئے استغفار کروں گا۔)
    تو یہ تھا آپ ﷺ کی زندگی میں صحابہ کرام کا معمول کہ غلطی سرزد ہوجانے پر آپ ﷺ کے پاس آتے اور اس کا حل ڈھونڈتے۔جیسے کہ’’ مجامع نہار رمضان‘‘’’رمضان میں روزے کی حالت میں جماع کرنے والے صحابی‘‘ اور ماعز اسلمی رضی اللہ عنہما کے واقعات سے پتہ چلتا ہے۔
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بھی یہ آیت تھی جس سے ہمارے برادران مذکورہ استدلال کرتے ہیں، انہیں بھی اس آیت کا علم تھا جس میں گنہگاروں کے حق میں آپ ﷺ کے استغفار کا اللہ رب العزت نے ذکر کیا ہے۔ بلکہ صرف یہی آیت کیوں، دوسری آیات بھی تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین ومؤمنات کے حق میں آپ ﷺ کو استغفار کا حکم دیا ہے ۔ مثلا ًاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}
    [سورہ محمد:۱۹]
    ’’اے نبی آپ اپنے گناہ اور مؤمنین ومؤمنات کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں‘‘
    اسی طرح سورہ آل عمران (آیت :۱۵۹)میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
    {فاعف عنهم واستغفر لهم}
    ’’انہیں معاف کر دیں اور ان کے لئے استغفار کریں‘‘
    اسی طرح سورہ ممتحنہ (آیت :۱۲) میں ہے:
    {فبايعهن واستغفر لهن اللّٰه}
    (ان عورتوں سے بیعت لیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔)
    بلکہ ان کے سامنے تو قرآن کریم میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا اپنے والد یعقوب علیہ السلام کے پاس جاکر استغفار طلب کرنے اور یعقوب علیہ السلام کا ان کے لئے استغفار کرنے کا قصہ بھی موجود تھا ، سورہ یوسف پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
    {قالُوا يَا أَبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا إِنَّا كُنَّا خاطِئِينَ ۔ قالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ }
    ’’انہوں نے کہا اے ہمارے والد آپ ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں، ہم گنہگار ہیں۔ (یعقوب علیہ السلام نے )فرمایاعنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، وہ بخشنے والااور رحم کرنے والا ہے‘‘
    [ یوسف:۹۷۔۹۸]
    لیکن یہ تمام آیتیں ان کے سامنے رہنے کے باوجود صحابہ کرام نے یہ نہیں سمجھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر کے پاس آکر گناہوں سے استغفار کرنا یا آپ ﷺ سے استغفار طلب کرنا جائزہے۔ جو آپ کی زندگی میں یہ کام کر سکتے تھے بلکہ کیا کرتے تھے آخر کون سی چیز ان کے لئے مانع تھی کہ آپ کی وفات کے بعد انہوں نے کبھی بھی اس کے لئے ذرہ برابر کوشش نہ کی ۔
    اس لئے جو لوگ اس سے مذکورہ استدلال کرتے ہیں ان کا یہ فہم صحابہ، تابعین، تبع تابعین ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین کے متفقہ فہم کے خلاف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور ایسا فہم قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔
    شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    بعض لوگ اس آیت {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ہم آپ کی وفات کے بعد آپ سے استغفار طلب کرتے ہیں تو ہم ان صحابہ کرام کے درجہ میں ہوتے ہیں جو آپ سے استغفار طلب کرتے تھے، اور اس طرح وہ صحابہ، تابعین اور تمام مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد نہ شفاعت طلب کی تھی اور نہ کوئی دوسری چیز ۔ اور نہ ہی ائمہ مسلمین میں سے کسی نے اسے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔[قاعدۃ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ :ص:۲۴]
    اور علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ولم يفهم منها أحد من السلف والخلف إلا المجيء إليه فى حياته ليستغفر لهم‘‘
    ’’سلف وخلف میں سے کسی نے بھی اس آیت سے سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھا کہ اس میں آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آنے کی بات کی گئی ہے تاکہ آپ ان کے لئے استغفار کریں‘‘
    [الصارم المنکی فی الرد علی السبکی: ص:۳۱۷]
    ۲۔ آیت میں مذکورہ حکم آپ ﷺ کی زندگی میں تھا، کیونکہ اس میں ماضی کی خبر دی گئی ہے، مستقبل کی نہیں۔
    اس کی دلیل ’’اذ ظلموا‘‘کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’اذ‘‘ کہا ہے، ’’اذا‘‘ نہیں۔ اور عربی زبان میں ’’اذ‘‘سے ماضی کی خبر دی جاتی ہے، مستقبل کی نہیں۔
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    قولہ تعالیٰ:
    {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}
    فهذا فى حياته، فليس فيها دليل على طلب الاستغفار منه بعد موته، فإن اللّٰه قال:(إذ ظلموا) ولم يقل:إذا ظلموا أنفسهم، (وإذ)ظرف للماضي لا للمستقبل، فهي فى قوم كانوا فى عهد النبى صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلا تكون لمن بعده‘‘
    [مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:۱۷؍۳۰۰]
    (آیت -میں مذکورہ حکم- یہ آپ ﷺ کی زندگی سے متعلق ہے۔ اس میں آپ کی وفات کے بعد آپ سے استغفار طلب کرنے کی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’اذ ظلموا‘‘کہا ہے،’’إذا ظلموا أنفسہم‘‘نہیں کہا ہے۔ اور ’’اذ‘‘ ماضی میں ظرف کا معنی دیتا ہے،مستقبل میں نہیں۔ اس میں ایک ایسی قوم کی بات کی گئی ہے جو آپ ﷺ کی زندگی میں تھی ، لہٰذا یہ آیت آپ کی وفات کے بعد کے لئے نہیں ہوگی۔)
    اور یہی بات شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے بھی ایک شخص پر رد کرتے ہوئے فرمایا ہے۔دیکھیں:[حجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم تاریخہا واحکامہا لعبد الرحمٰن بن سعد الشثری:ص:۳۳۹]
    ۳۔ یہ آیت منافقین کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
    شیخ محمدخلیل ہراس رحمہ اللہ محمد حسنین مخلوف پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہم کہیں گے کہ قبوریوں کی’’اس آیت سے قبر والوں سے وسیلہ کے جواز پر استدلال کرنے‘‘سے بڑی جہالت اور گمراہی کی دوسری دلیل نہیں ہو سکتی ۔
    یہ آیت مفسرین کے اجماع کے مطابق منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنے قضیہ کا فیصل بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا تھا۔ دیکھیں:[حجرۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تاریخہا واحکامہا لعبد الرحمٰن بن سعد الشثری: ص:۳۴۰]
    ۴۔ آیت کا سیاق بالکل واضح ہے کہ اس میں منافقین کی بات کی گئی ہے۔
    یہ سورہ نساء کی ۶۴نمبر آیت ہے۔ اس کے صحیح معنی ومفہوم کو جاننے کے لئے آیت نمبر ۶۰سے اسے پورا پڑھنا اور نظر کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
    اس میں منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے کہ وہ یہ گمان اور دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ اور آپ سے پہلے آنے والے انبیاء پر نازل کردہ کتب پر ایمان لائے ہیں لیکن جب کوئی معاملہ در پیش ہوتا ہے تو آپ کو چھوڑ کر طاغوت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور انہیں اپنا فیصل بناتے ہیں۔ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف آؤ تو یہ منافقین آپ سے اعراض کرنے لگتے ہیں۔
    لہٰذا یہ سیاق بالکل واضح ہے کہ اس میں منافقین کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ اگر یہ منافقین طاغوت کو اپنا فیصل بنانے والے جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں، اور رسول اللہﷺ بھی ان کے لئے مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔
    اس لئے اس سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر کے پاس جاکر یہ درخواست کی جا سکتی ہے۔
    ۵۔ آیت میں آپ ﷺ کے پاس آنے کی بات کی گئی ہے، آپ کی قبر کے پاس آنے کی نہیں۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ’’جاء وک‘‘کہا ہے،’’جاء وا الی قبرک‘‘ نہیں کہاہے۔
    اور آپ کی وفات کے بعد کسی کے لئے آپ کے پاس آنا ممکن نہیں ہے۔ اگر وفات کے بعد کوئی کسی کی قبر کے پاس جائے تو وہ یہ نہیں کہتا کہ میں فلاں کے پاس گیا تھا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں کی قبر کے پاس گیا تھا۔
    وفات کے بعد کسی کی قبر پر جانے کو نہ لغۃً ، نہ عرفاً، اور نہ شرعاً ان کے پاس جانا کہتے ہیں، بلکہ ایسے موقع پر قبر پر جانا کہا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:[صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان للشیخ العلامہ محمد بشیر السہسوانی الہندی: ص:۲۹۔۳۱]
    ۶۔ آیت میں صرف آنے اور آکر استغفار کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ان کے لئے استغفار کرنے کی بات کی گئی ہے۔
    آیت میں ہے:’’واستغفر لہم الرسول‘‘اور یہ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی صرف ممکن تھا، آپ کی وفات کے بعد یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی کے لئے استغفار کریں۔ کیونکہ استغفار ایک ایسا عمل ہے جو میت نہیں کر سکتی یا جس کی دلیل قرآن وسنت میں نہیں۔
    جہاں تک میت کے لئے بعض اعمال کا تذکرہ ملتا ہے مثلاً فرشتوں کے سوالوں کا جواب دینا، یا انبیاء کے متعلق آیا ہے کہ وہ اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
    ۱۔ میت کے لئے اصل یہ ہے کہ ان کے لئے کسی عمل کا کرنا ممکن نہیں۔’’إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله‘‘’’جب کسی انسان کی موت ہوتی ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے‘‘[صحیح مسلم:۱۶۳۱]
    اس سے صرف وہی چیز مستثنیٰ ہوگی جس کا کتاب وسنت میں استثناء کیا گیا ہے۔ اور انبیاء کا دوسروں کے حق میں استغفار کرنے کو کسی بھی نص میں استثناء نہیں کیا گیا ۔
    ۲۔ جن اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ لیکن ان کی کیفیت کے متعلق ہم کچھ بیان نہیں کر سکتے۔
    انبیاء کرام کی زندگی برزخی زندگی ہے اس لئے ان اعمال کو دنیاوی اعمال پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
    در اصل قبر میں انبیاء کرام کی نماز پڑھنے والی حدیث مغیبات (یعنی جن کا تعلق غیب سے ہے مثلاً قیامت کی خبریں، جنت وجہنم کے حالات، قبر کے حالات وغیرہ )میں سے ہے۔ اور مغیبات کا علم انسان کے پاس نہیں ہے، ہم اتنا ہی ان مغیبات کے متعلق کہہ سکتے ہیں جتنا کتاب وسنت میں وارد ہے۔ اس لئے اس نماز کی کسی بھی طرح کی کسی کیفیت کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ اور دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا تو بالکل قرین قیاس نہیں۔
    اعرابی والی حدیث کا جائزہ:
    جہاں تک اعرابی والی حدیث کو بطور دلیل پیش کرنے کی بات ہے تو وہ دلیل بننے کے قابل ہی نہیں، کیونکہ وہ ایک من گھڑت اور جعلی روایت ہے۔
    اسے امام بیہقی نے( شعب الایمان:۶؍۶۰، ح:۳۸۸۰)میں درج ذیل سند سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
    أخبرنا أبو على الروذباري، حدثنا عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسين بن بقية، إملاء ، حدثنا شكر الهروي، حدثنا يزيد الرقاشي، عن محمد بن روح بن يزيد البصري، حدثني أبو حرب الهلالي ۔
    اس سندکے متعلق علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امام بیہقی نے ایک تاریک سند سے اسے شعب الایمان میں ’’عن محمد بن روح بن یزید بن البصری ، حدثنی أبو حرب الہلالی‘‘کے طریق سے ذکر کیا ہے‘‘
    [الصارم المنکی : ص:۲۵۳]
    شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہذا إسناد ضعیف مظلم‘‘[السلسلہ الصحیحہ:۶؍۴۲۷]
    نیز اسے ابن عساکر نے اپنے معجم الشیوخ(۱؍۵۹۹۔۶۰۰)میں عبد الغالب بن ثابت بن ماہان ابو نصر الرافقی سے روایت کیا ہے، وہ (عبد الغالب)کہتے ہیں کہ مجھے میرے استاد ابن طوق نے عتبی کی یہ روایت ایک ایسی سند سے بیان کی تھی جسے میں بھول چکا ہوں۔ پھر اس روایت کو ذکر کرتے ہیں۔
    یہ سند اُس سے بھی زیادہ تاریک ہے کیونکہ اِس میں روایت کرنے والوں کے نام تک کا ذکر نہیں ہیں۔
    معلقاً یا بلا سند اسے اور بھی دوسرے علماء نے ذکر کیا ہے جن میں سب سے قابل ذکر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ہیں۔
    علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ ان حکایات کے متعلق فرماتے ہیں:’’اس حکایت کو بعض علماء نے عتبی سے بلا سند ذکر کیا ہے، اور بعض محمد بن حرب الہلالی سے، اور بعض نے محمد بن حرب عن ابی الحسن الزعفرانی عن الاعرابی کے طریق سے روایت کی ہے‘‘[الصارم المنکی: ص:۲۵۳]
    نیز فرماتے ہیں:’’بعض جھوٹوں نے اس کے لئے علی بن ابی طالب تک اس کے لئے ایک سند گھڑی ہے جیسا کہ اس کا ذکر آرہا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اعرابی کی یہ روایت ایسی نہیں جس سے حجت قائم ہو سکے۔ اس کی سند تاریک ومن گھڑت ہے۔ اور اس کے الفاظ بھی من گھڑت ہیں‘‘[الصارم المنکی: ص:۲۵۳]
    اور ایک جگہ فرماتے ہیں:’’یہ خبر یعنی حدیث منکر ومن گھڑت ہے، اور یہ اثر من گھڑت وبناؤٹی ہے، نہ اس پر اعتماد کرنا درست ہے اور نہ اس کی طرف رجوع کرنا، اور اس کی سند تو گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے‘‘[الصارم المنکی: ص:۳۲۱]
    لہٰذا اس من گھڑت روایت سے استدلال کرتے ہوئے اسے جائز ٹھہرانا قطعا ًجائز نہیں۔
    جہاں تک حافظ ابن کثیر یا دیگر علماء اہل سنت کا اسے بیان کرنا ہے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ اسے صحیح کہہ رہے ہوں۔علماء اہل سنت نے ضعیف اور موضوع روایتوں کو اپنی کتابوں میں مختلف اسباب کی بنا پر ذکر کیا ہے جسے میں نے اپنے رسالہ ’’کشف الاسرار عما یورد المحدثون فی کتبہم من ضعاف الاخبار‘‘(یعنی کتب حدیث میں ضعیف احادیث کیوں؟) میں بالتفصیل ذکر کیاہے۔
    اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی مان لی جائے پھر بھی اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قبر رسول کے پاس آکر آپ ﷺ سے استغفار یا کوئی دوسری چیز طلب کرنی جائز ہے۔ کیونکہ اس روایت میں اعرابی کا اپنا عمل مذکور ہے جو کہ کتاب وسنت کے دوسرے بے شمار دلائل کے بر خلاف ہے۔ اور کتاب وسنت کے مقابل میں کسی کا بھی کوئی قول یا عمل ہمارے لئے حجت نہیں۔
    اگر کوئی یہ کہے کہ بظاہر وہ صحابی تھے ، اور کسی صحابی سے یہ ممکن نہیں کہ ان سے توحید وشرک کے مسئلہ میں غلطی سرزد ہوجائے۔ تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ان کا صحابی ہونا اولاً متعین نہیں ہے۔ثانیاً اگر کتاب وسنت سے ثابت ہوجائے کہ لا علمی میں ان سے جو عمل صادر ہوا ہے وہ شرک ہے تو ان کا وہ عمل امت کے لئے دلیل نہیں بن سکتا۔ اور لا علمی میں ایسا بعض صحابہ کرام سے ہوا ہے۔ مثلاً بعض صحابہ کرام کا آپ ﷺ کو سجدہ کرنے کا مطالبہ کرنا، یا ذات انواط کا مطالبہ کرنا یہ شرعی دلائل کی بنیاد پر شرکیہ عمل ہے۔ جب ان صحابہ کرام نے یہ مطالبہ کیا تھا تو انہیں اس کا علم نہیں تھا لیکن جب آپ ﷺ نے انہیں سمجھایا تو وہ اس سے رک گئے۔ (مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: [ہذہ مفاہیمنا للشیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ: ص:۸۱]
    لہٰذا اس اعرابی کا وہ عمل اگر کتاب وسنت کے خلاف ہے تو وہ قابل حجت نہیں۔
    دوسری بات: اس اعرابی نے آپ ﷺ سے استغفار کی درخواست نہیں کی تھی یا کوئی دوسری چیز طلب نہیں کی تھی۔ اس لئے اس سے یہ استدلال کرنا ہی بیجا ہے۔
    تیسری بات: اس روایت میں خواب کی جو بات کی گئی ہے کہ عتبی نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ اس اعرابی سے ملو اور انہیں مغفرت کی خوشخبری سنا دو تو اس کا جواب یہ ہے کہ خواب کی بنیاد پر کوئی شرعی حکم ثابت ہی نہیں ہوتا۔ شرعی احکامات کے استنباط کا مصدر فقط رب کی کتاب اور نبی ﷺکی سنت ہے۔
    چوتھی بات: ان کی بخشش ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قبر رسول کے پاس آکر استغفار کرنے کی وجہ سے ان کی بخشش ہوئی تھی، بلکہ اس کے لئے دوسرے اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔
    پانچویں بات: حاجت پوری ہو جانا یا من چاہا نتیجہ برآمد ہونا کسی چیز کے برحق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ اگر نتیجہ کی بنیاد پر شرعی مسائل میں حق یا ناحق ہونے کا فیصلہ ہونے لگے تو بہت سارے ایسے کفار بھی مل جائیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں بابا کے پاس فلاں عمل کرنے کی وجہ سے میری فلاں مراد پوری ہوئی ۔ اس لئے شرعی مسائل میں تجربہ اور نتیجہ کی بنیاد پر صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
    شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’انہوں نے اس حکایت سے احتجاج کیا ہے جس سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا، خصوصاً اس طرح کے معاملے میں جو کہ اگر مشروع یا مندوب ہوتا تو صحابہ اور تابعین کو اس کی زیادہ جانکاری ہوتی، وہ اس پر زیادہ عمل کرنے والے ہوتے، بلکہ اعرابی اور ان کی طرح کے لوگوں کی حاجت پوری ہونے کے دوسرے اسباب ہیں جو کہ دوسری جگہ بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر کسی سبب سے کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی ہے تو وہ سبب مشروع اور مأمور بہ نہیں ہو جائے گا ۔ آپ ﷺ سے آپ کی زندگی میں کچھ مانگا جاتا تو آپ دے دیتے، مانگنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے۔ حالانکہ سائل کے لئے مانگنا حرام تھا‘‘[اقتضاء الصراط المستقیم: ۲؍۲۸۹۔۲۹۰]
    یہ تمام باتیں بالفرض اس روایت کو صحیح ماننے کی صورت میں ہیں۔ لیکن جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے، یہ ایک من گھڑت اور جعلی روایت ہے۔
    تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایسے حضرات عقیدے کے باب میں صحیح سے صحیح ترین حدیث کو خبر واحد کہہ کر رد کرنے میں نہیں ہچکچاتے لیکن اپنے مطلب کی دلیل سادھنے کے لئے منکر اور موضوع روایات سے بھی استدلال کرنے سے نہیں چوکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں ہدایت دے۔
    لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم نصوص کتاب وسنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھیں، اور ان پر عمل پیرا ہوں۔
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب وسنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings