-
دنیا کی حقیقت اور انسانی خواہشات دنیا وی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی روئیدگی، آسمان سے پانی برستا ہے اور طرح طرح کی سبزیوں اور لالیوں سے زمین کا گوشہ گوشہ بہشت زار ہوجاتا ہے جس طرف نگاہ اٹھاؤ پھولوں کا حسن و جمال ہے یادالوں اور پھلوں کا فیضان ونوال! لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ وہی کھیت جن کا ایک ایک درخت زندگی کا سرمایہ اور بخشش نوال کا کارخانہ تھا اچانک کس عالم میں نظر آنے لگتے ہیں ؟ بھوسے کے ذرے جنہیں ہوا کے جھونکے اڑا کر منتشر کردیتے ہیں نہ کوئی انہیں بچانا چاہتا ہے نہ وہ کسی مصرف کے ہوتے ہیں ۔
قرآن مقدس میں دنیا کی حقیقت کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے :
{إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَائٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَائِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتّٰي إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ }
[یونس: ۲۴]
’’بے شک دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی سی ہے جسے ہم آسمان سے بھیجتے ہیں جو زمین کے ان پودوں کے ساتھ مل جاتا ہے جنہیں لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین خوب بارونق اور خوبصورت بن جاتی ہے اور اس کے مالکان یقین کرلیتے ہیں کہ وہ اس سے مستفید ہونے پر پوری طرح قدرت رکھتے ہیں تو یک لخت ہمارا فیصلہ (بصورت عذاب)رات یادن میں صادر ہوجاتا ہے اور ہم ان پودوں کو اس طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں کہ جیسے وہ کل تھے ہی نہیں ۔ ہم غور وفکر کرنے والوں کیلئے اپنی آیتیں اسی طرح تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ‘‘
{اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ}
’’خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری آرائش اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر جتانا اور اموال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے پیدا ہونے والی نباتات کاشتکاروں کو خوش لگتی ہے پھر وہ پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں تو سخت عذاب ہے اور (یاپھر )اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک سرمایۂ فریب ہے ‘‘۔
[الحدید:۲۰]
{إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ}
’’یہ حیات دنیا متاع فانی ہے یقین مانو کہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے ‘‘[المومن:۳۹]
{وَمَا هٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ}
’’اور یہ دنیاوی زندگی لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں ہے اور بیشک آخرت کا گھر ہمیشہ باقی رہنے والا ہے کاش کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا ‘‘
[العنکبوت:۶۴]
{اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَائُ وَيَقْدِرُ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ}
’’اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے یہ تودنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت ہی حقیر پونجی ہے‘‘
[الرعد:۲۶]
{وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَي مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَي}
’’اور اپنی نگاہیں ہر گز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزما لیں، تمہارے رب کا دیا ہوا ہی بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے‘‘
[طٰہ:۱۳۱]
یہ ہے حقیقت اس زندگی کی جس کے بارے میں ہم یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کہاں گزرے گی ؟کیسے گزرے گی؟ کب تک رہے گی؟ کتنا ہنسائے گی ؟ کتنا غم دے گی ؟کتنی خوشیاں دے گی ؟ ختم ہوگی تو کب ختم ہوگی ؟کہاں ختم ہوگی ؟ خاتمہ اس کا دوستوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے ہوگا یا اسپتال میں کراہتے ہوئے؟ ہم اپنی خواہشات میں کچھ اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ ہم کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ ہم صحیح کررہے ہیں یا غلط ۔ ہم غلط کرتے ہیں جانتے بوجھتے کرتے ہیں دل کو تو مطمئن نہیں کر پاتے ہاں دوسروں کو مطمئن کرنے کے لئے بیجا تاویلات کا سہارا ضرور لیتے ہیں ، زندگی اور موت کا عجیب معاملہ ہے دونوں ایک دوسرے کی ضد لیکن دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ۔ زندگی ہے تو موت آئے گی موت کو آنا ہے تو زندگی ملے گی ۔ جب یہ طے ہے تو موت سے اتنی غفلت کیوں اور زندگی پر ساری توجہ کیوں؟ عقلمند ہے وہ شخص جس کو زندگی ملی تو اس نے موت کو یاد رکھا اور جس نے موت کو یاد رکھا وہی زندگی میں کامیاب رہا !
انسان کو اگر مرنے پر اختیار دیا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا ہو جو موت کو قبول کرنے پر تیار ہو ۔ انسان بستر مرگ پر ہے، تکلیفوں سے تڑپ رہاہے ،جسم ہے کہ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے، کراہتے کراہتے بے د م ہورہاہے لیکن اگر موت کا فرشتہ اس سے پوچھے کہ کیا اس دنیا سے رخصت ہونے کی خواہش ہے تو وہ یہی کہے گا ’’نہیں ہر گز نہیں ‘‘۔انسان بچپن گزارتا ہے کھیل کود میں ، جوانی چٹورپنی وکمانے میں، بڑھاپے گھر تانکنے میں ،پیسے کی ہوس ہے کہ کم نہیں ہوتی ، گھر بناتا ہے تو بے گھر لوگوں کو سوچتا نہیں، گھر کیا بناتا ہے محل بناتا ہے غریبوں کے جھوپڑے اجاڑ کر اور ان کے حصے کی زمین ناجائز طریقے سے دبا کر ۔ وہ بارات لے کر نکلتا ہے پیسوں کو دھوئیں کی شکل میں اڑاتا ہوا ، دوسروں کے جذبات کو اپنی انا کے ہاتھی سے کچلتا ہوا ۔ راستے میں کتنے ایسے گھر پڑتے ہیں جہاں جوان بیٹیاں اپنی بارات کے انتظار میں کب سے بیٹھی ہیں ان کے بوڑھے ماں باپ دھوم دھام سے نکلتی باراتوں کے اس شور وغل میں ۔اپنی بیٹیوں کے چہرہ پر مایوسی کا سایہ دیکھ کر آہستہ آہستہ قبرستان کی طرف اپنے قدم بڑھادیتے ہیں (یہ ہے آج کے مسلمانوں کی داستانِ خواہشات۔)
انسان کو صرف اپنی خواہشات کی فکر ہوتی ہے ،دنیاوی لذتیں اس کے پیش نظر ہوتی ہیں، اس کا دل ہر وقت یہ چاہتا ہے کہ کاش موت ٹل جائے، کاش أجل سے چھٹکارا مل جائے، اللہ نے یہ زندگی ایک مقررہ وقت کے لئے دی ہے اور یہ عقل کے موافق بات ہے کیوں کہ اگر یہ موت نہ ہوتی تو انسان دنیا میں فرعون بن جاتا، یہ موت اس کو انسان بناتی ہے اور دنیا میں یہی ایک موت ہے جو ہر کسی کو لپکتی ہے ،یہ کسی کو نہیں چھوڑتی ہے ،اس کی کسی سے دوستی نہیں ، اس کا کسی سے کوئی تعلق نہیں، کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی ،یہ اپنا راستہ خود بناتی ہے ،اپنا طریقہ خود منتخب کرتی ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو فرعون کو موت نہ آتی ،ہامان نہیں مرتا ، شداد اپنی جنت کے مزے میں ہوتا ، یہ موت سب کو پکڑتی ہے البتہ کسی کی موت عزت سے ہوتی ہے اور کسی کی ذلت سے ۔
زندگی کیسی گزاری جائے ،دنیا میں کیسے رہا جائے ،خواہشات پر قابو کیسے پایا جائے ،مچلتے نفس کو کیسے منایا جائے ۔ دیکھئے نبی اکرم ﷺ نے کتنی عمدہ بات کہی اور کتنے اختصار سے کہی ۔
’’كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ‘‘
’’ دنیا میں اس طرح رہو جیسے پردیسی رہتا ہے یا راہ گیر ‘‘[بخاری:۶۴۱۶]
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللّٰهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ‘‘
’’تم دنیا سے بے رغبت ہوجاؤ اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے ،اور لوگوںکے پاس موجود چیزوں سے بے رغبت ہو جاؤ، لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے ‘‘
[ابن ماجہ:۴۱۰۲، صحیح ]
دنیا سے بے رغبتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان تمام اشیاء سے بے رغبت ہو جائے جن کا نفع صرف دنیا تک ہی محدود ہے ، آخرت میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔