Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات دسویں قسط

    اہل السنۃ والجماعۃ کی وسطیت:(دوسرا حصہ)
    علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات کی نویں قسط میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اہل السنہ والجماعہ ہی اہل تعطیل و اہل تمثیل کے درمیان وسطیت پر قائم ہیں، اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ذیل کے سطور میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تقدیر کے باب میں بھی اہل السنہ والجماعہ وسطیت پر گامزن ہیں۔
    ثانیاً: تقدیر کے باب میں اہل السنہ والجماعہ ’’جبریہ اور قدریہ‘‘کے مقابلے میں وسطیت پر قائم ہیں:
    تقدیر پر ایمان رکھنا :
    اس بات پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازل ہی سے ہر چیز کو مقدر کر کے رکھا ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون سی چیز کب، کہاں، اور کیسے واقع ہونے والی ہے؟ اور کوئی بھی چیز اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔دیکھیں:[شرح النووی علیٰ صحیح مسلم:۱؍۵۴]
    وہیں اس بات پر بھی ایمان رکھنا واجب ہے کہ تقدیر ایمان کا ایک اہم رکن ہے، جس کی طرف نبی کریم ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے:
    ’’وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، خَیْرِہِ وَشَرِّہِ‘‘
    ’’اور تم بھلی و بری تقدیر پر ایمان رکھو‘‘
    [صحیح مسلم :ح:۸]
    تقدیر کے مراتب :
    تقدیر کے چار مراتب ہیں، اور کوئی بھی انسان ان چاروں مراتب پر ایمان رکھے بغیر مومن نہیں ہو سکتا ہے۔اور وہ یہ ہیں:
    أ۔ العلم : کسی بھی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ عَليٰ كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللّٰهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْئٍ عِلْمًا}
    ’’تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ نے ہر چیز کو علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے‘‘
    [سورۃ الطلاق :۱۲]
    ب ۔ الکتابۃ: ہر واقعہ کو وقوع سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتٰي وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْئٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ}
    ’’بیشک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے، اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے‘‘
    [سورۃ یٰس:۱۲]
    ج۔ المشیئۃ : ہر چیز کے واقع ہونے میں اللہ کی مشیئت شامل ہوتی ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَمَا تَشَاءؤنَ إِلَّا أَن یَشَائَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ}
    ’’اور تم بغیر رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ہو‘‘
    [سورۃ التکویر:۲۹]
    د۔ الخلق: دینا کی ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا، اور وہی ان کو وجود میں لانے والا ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ}
    ’’اور اللہ نے تمہیں اور جو تم کام انجام دیتے ہو اس کو بھی پیدا کیا ہے‘‘
    [سورۃ الصافات:۹۶]
    دیکھیں:[أعلام السنۃ المنشورۃ للشیخ حافظ الحکمی(ص:۱۲۴۔۱۴۱)، اور وسطیۃ أہل السنۃ للدکتور محمد با کریم (ص:۳۶۳۔۳۶۶)]
    تقدیر پر اعتراض :
    نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بابِ قدر میں تین طرح کے لوگ تھے:
    أ۔ کفار و مشرکین: جنہوں نے نبی ﷺ کے سامنے قدر پر اعتراض کیا تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
    {يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ، إِنَّا كُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ}
    ’’جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اوران سے کہا جائے گا)دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ)اندازے پر پیدا کیا ہے‘‘
    [سورۃ القمر:۴۸۔۴۹]
    ب۔ منافقین: انہوں نے بھی قدر پر اعتراض کیا۔ اور کہا: {لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْء ٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا}
    ’’ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے‘‘[سورۃ آل عمران:۱۵۴]
    ج۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے قدر پر اعتراض نہیں کیا، البتہ ایک دفعہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قدر کے مسئلے کو لے کر بحث کر رہے تھے، نبی کریم ﷺنے دیکھا تو سخت ناراض ہوئے، غصے سے ان کا چہرہ مبارک اس قدر لال ہو گیا کہ گویا انار کے دانے اس پر نچوڑ دئے گئے ہوں، اور غصے میں فرمایا:
    ’’أَبِهٰذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهٰذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هٰذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلَّا تَتَنَازَعُوا فِيهِ‘‘
    ’’کیا میں نے تمہیں یہی حکم دیا تھا، یا میں اسی لیے بھیجا گیا تھا؟ (یاد رکھو)تم سے پہلے کے لوگ اسی بارے میں اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اس معاملے میں اختلاف نہ کرو‘‘
    [سنن الترمذی: ۲۱۳۳]
    خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی کسی نے قدر پر اعتراض نہیں کیا، مگر جب شام (جہاں ان دنوں طاعون کی بیماری پھیلی ہوئی تھی)میں داخل ہوئے بغیر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوٹنے لگے تو حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    ’’یا أمیر المؤمنین أ فراراً من قدر اللّٰہ؟‘‘
    ’’کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ ‘‘[صحیح البخاری:۵۷۲۹]
    تو اس وقت اُنہیں یہ کہہ کر جواب دیا:
    ’’نعم نفر من قدر اللّٰہ إلی قدر اللّٰہ‘‘
    ’’ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اسی اللہ کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘‘
    در اصل قدر پر اعتراض کے فتنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اواخر میں جنم لیا، اس سلسلے میں امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’أول من نطق فى القدر رجل من العراق يقال له:سوسن، كان نصرانيا فأسلم، ثم تنصر، فأخذ منه معبد الجهني، وأخذ غيلان عن معبد‘‘
    ’’تاریخ میں پہلی بار جس شخص نے مسئلہ تقدیر کے بارے میں گفتگو کی وہ عراق کا’’سوسن‘‘نامی شخص تھا، اصلاً وہ عیسائی تھا، پس اس نے اسلام قبول کیا، پھر عیسائیت اختیار کر لی، اسی سے’’معبد جہنی‘‘نے (فکرہ نفی قدر)اخذ کیا، اور پھر اس معبد جہنی سے ’’غیلان ‘‘نامی شخص نے (یہ فکرہ)حاصل کیا‘‘
    [شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ: ۳؍۷۵۰]
    چنانچہ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن مسعود، جابر بن عبداللہ، ابو ہریرہ، واصلہ بن اصقع وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب اس فتنے کی تردید کی۔
    پھر اس کے بعد معتزلہ (واصل بن عطا، عمرو بن عبید اور غیلان دمشقی)نے معبد سے یہ فکرہ حاصل کیا، اور قدر کے باب میں انہوں نے اسی مذہب کو فروغ دیا۔
    خلافت بنی امیہ کے اواخر میں جبر کے فتنہ نے سر اٹھایا، سب سے پہلے جہم بن صفوان نے اس فتنے کی شروعات کی، پھر اس کا زہر پھیلتا گیا۔دیکھیں:[القضاء والقدر للدکتور عمر سلیمان أشقر :ص:۱۵۔۱۹]
    مگر ائمہ سلف نے ان دونوں فرقوں کی خوب ترید کی، ان کے باطل اقوال کو بیان کیا، ان کے بعض علماء سے مناقشہ کیا، اور امت کو ان کے فتنے کی خطرناکی پر آگاہ بھی کیا۔دیکھیں:[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:۷؍۳۸۴،۸؍۴۵۰]
    بندوں کے افعال کے سلسلے میں اہل السنہ والجماعہ، قدریہ، اور جبریہ کا موقف :
    ۱۔ قدریہ :
    قدریہ- معتزلہ – نے تقدیر کو ثابت کرنے میں زیادتی کی ہے، انہوں نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ بندوں کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو قدرتِ خلق حاصل ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے:بندے کے کسی بھی کام میں اللہ قدرت نہیں رکھتا، بنا بریں بندے کے کام- ان کے نزدیک- اللہ کی مخلوق نہیں، بلکہ بندہ خود اپنے افعال کا خالق ہے۔دیکھیں:[شرح الأصول الخمسۃ لعبد الجبار الہمدانی :ص:۳۲۳]
    قدریہ معتزلہ کا یہ اعتقاد در حقیقت ایک فلسفیانہ اعتقاد ہے، جس کی بنا اس اصل پر ہے:’’لکل أثرٍ مؤثرٌ واحدٌ فقط ‘‘’’ہر اثر کا صرف ایک ہی مؤثر ہے‘‘ لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کو بندے کے افعال کا خالق مانا جائے تو اس سے ایک ہی اثر کے دو مؤثر ثابت ہوں گے، مگر ان کا یہ اعتقاد باطل ہے۔
    ۲۔ جبریہ:
    جبریہ – جہمیہ- نے تقدیر کو ثابت کرنے میں غلو کیا، انہوں نے اس بات کا نکار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا ذمہ دار ہے، وہ کرنے اور نہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اور کہا کہ:’’در حقیقت کوئی بھی کام بندے کے بس میں نہیں ہوتا ہے، وہ صرف اللہ کی طاقت میں ہے، کیونکہ وہی فاعل ہے، اور لوگوں کی طرف محض مجازی طور پر ان کے کام منسوب کئے جاتے ہیں‘‘ جیساکہ کہا جاتا ہے:درخت ہلا، فلک گھوما، سورج زوال پذیر ہوا، اور حقیقت یہ ہے کہ درخت، فلک، اور سورج کے ساتھ یہ کام کرنے والا اللہ ہے۔دیکھیں:[مقالات الإسلامین و اختلاف المصلین لأبی الحسن الأشعری : ۱؍ ۳۳۸]
    حالانکہ اللہ کی ذات ہی ہے جو انسانوں کے افعال کا خالق ہے، اور وہی تمام جمادات کو اپنی مشیئت کے تحت پیدا کرتا ہے ۔دیکھیں:[شفاء العلیل لابن القیم :ص:۵۱]
    لیکن ان لوگوں نے اس بات کا انکار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا فاعل ہے، اور اس چیز کو اللہ کی طرف منسوب کر دیا۔
    خلاصہ یہ ہے کہ قدریہ معتزلہ نے تقدیر کا انکار کیا، اور کہا کہ:’’الخلق خلق العبد ‘‘’’بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے‘‘اور ان کا یہ اعتقاد مندرجہ ذیل اصولوں پر قائم:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارداہ فرماتا ہے، اسے پسند بھی کرتا ہے۔
    ۲۔ اللہ عزوجل معاصی اور برائیوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
    ۳۔ لوگوں کے درمیان مختلف قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں۔
    نتیجہ : کفر و شرک اور دیگر برائیاں بندوں کے ارادوں کے تحت واقع ہوتی ہیں، لہٰذا بندے ہی اپنے افعال کے خالق ہیں۔
    جبکہ جبریہ جہمیہ نے تقدیر کو ثابت کرنے میں غلو کیا، اور کہا کہ :’’الفعل فعل الرب ‘‘’’جو کچھ ہوتا ہے وہ رب کی طرف سے ہوتا ہے‘‘ اور ان کا یہ باطل اعتقاد ذیل کے اصولوں پر قائم ہے:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارداہ فرماتا ہے، اسے پسند بھی کرتا ہے۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کے افعال محض اس کی مشیئت کے تحت واقع ہوتے ہیں (جن کے پیچھے کوئی حکمت یا مصلحت نہیں ہوتی ہے)
    ۳۔ دنیا میں کوئی بھی چیز خود سے اچھی یا بری نہیں ہوتی ہے، بلکہ اچھائی و برائی کا معیار صرف عقل ہے۔
    نتیجہ : جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، بندوں کا اس میں کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔
    اور اس طریق پر دونوں ہی فرقے گمراہ ہوئے، اور ان کی گمراہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’خلق و مخلوق ‘‘،’’ فعل و مفعول‘‘ اور’’مشیئت و محبت ‘‘کے درمیان فرق نہیں کیا:
    چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وجهم ومن وافقه من المعتزلة اشتركوا فى أن مشيئة اللّٰه ومحبته ورضاه بمعني واحد، ثم قالت المعتزلة:وهو لا يحب الكفر والفسوق و العصيان فلا يشاؤه، فقالوا:إنه يكون بلا مشيئة، وقالت الجهمية:بل هو يشاء ذالك فهو يحبه ويرضاه‘‘
    ’’یعنی معتزلہ میں سے جہم اور اس کے متبعین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت، اس کی محبت اور اس کی رضا سب ایک ہی ہیں، پھر معتزلہ نے کہا :اللہ تعالیٰ کفر، معاصی اور فسق و فجور کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی اس میں اس کی مشیئت شامل ہے، اسی طرح انہوں نے کہا:یہ سب بلا مشیئت کے ایسے ہی ہوتا ہے، جبکہ جہمیہ نے کہا:یہ سب اللہ کی مشیئت سے ہوتا ہے لہٰذا وہ ان کو پسند کرتا ہے، اور ان سے راضی ہوتا ہے‘‘
    [مجموع الفتاویٰ: ۸؍۴۷۴۔ ۴۷۵]
    مگر حق یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی محبت و مشیئت میں فرق کیا جائے، ساتھ ہی اس کی تخلیق اور مخلوق میں بھی فرق کیا جائے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’قال أهل العلم:التخليق فعل اللّٰه، وأفاعيلنا مخلوقة‘‘
    ’’اہل علم نے کہا ہے:تخلیق یہ اللہ کا فعل ہے اور ہمارے افعال مخلوق ہیں‘‘
    [خلق أفعال العباد :ص:۱۱۴]
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وأما جمهور أهل السنة المتبعون للسلف والأئمة فيقولون:إن فعل العبد فعل له حقيقة، ولكنه مخلوق للّٰه، ومفعول للّٰه، لا يقولون:هو نفس فعل اللّٰه، و يفرقون بين الخلق و المخلوق، والفعل والمفعول‘‘
    ’’جمہور اہل سنت والجماعت جو سلف کے منہج کی اقتدا کرنے والے ہیں وہ کہتے ہیں:بندے کا فعل حقیقت میں اسی کا فعل ہے، لیکن وہ اللہ کی مخلوق ہے، اور اللہ ہی کا مفعول ہے، وہ یہ نہیں کہتے ہیں:وہ فعل فی نفسہٖ اللہ کا فعل ہے بلکہ وہ اللہ کی تخلیق اور مخلوق کے درمیان اور فعل اور مفعول میں فرق کرتے ہیں‘‘
    [منہاج السنۃ النبویۃ:۲؍۲۹۸]
    واضح رہے کہ ان دونوں فرقوں میں جبریہ کی گمراہی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ قدریہ نے امر اور نہی کو ثابت کرنے میں غلو سے کام لیا یہاں تک کہ انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہیں، جبکہ جبریہ نے قدر کو ثابت کیا مگر اسی قدر کے ذریعہ امر اور نہی کو باطل قرار دیا۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    فمن أثبت القدر واحتج به على إبطال الأمر والنهي فهو شر ممن أثبت الأمر والنهي، ولم يثبت القدر‘‘
    ’’جس نے قدر کو ثابت کیا اور اسی قدر کو اوامر و نواہی کو باطل قرار دینے میں بطور دلیل پیش کیا تو ان کا شر زیادہ خطرناک ہے بنسبت ان کے جنہوں نے اوامر و نواہی کو تو ثابت کیا لیکن قدر کو ثابت نہیں کیا‘‘
    [مجموع الفتاویٰ: ۸؍ ۱۰۰]
    ۳۔ اہل السنہ والجماعہ :
    اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت اس باب میں بایں طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا منہج ان بنیادی اصولوں پر قائم ہے:
    ۱۔ دنیا میں جو کچھ واقع ہوتا ہے، چاہے اس کا تعلق اعیان سے ہو یا افعال سے، سب اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم، کتابت، مشیئت، اور خلق کے تحت داخل ہیں۔
    ۲۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا محض اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے۔
    ۳۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور بندوں کی مشیئت کو ثابت کرنے میں نہ تعارض ہے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا بندوں کے افعال کے خالق ہونے، اور ان کے لئے ان کے افعال کو ثابت کرنے میں کوئی تعارض ہے۔
    کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اس کے لائق ہے، اور بندوں کی بھی اپنی مشیئت ہے، جو مشیئت الہٰی کے تابع ہوا کرتی ہے، ساتھ ہی جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اردہ تامہ، اور قوت جازمہ عطا کرتا ہے، اور ہر قسم کے موانع سے دور بھی رکھتا ہے تب ان کے افعال وجود میں آتے ہیں، بنا بریں اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے، جبکہ بندے اپنے افعال کے فاعل ہیں۔
    چنانچہ انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ بندہ اپنے افعال کا ذمہ دار ہے، اسے ارادہ، مشیئت، اختیار اور قدرت حاصل ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا}
    ’’بے شک کان، آنکھ، اور دل، ان سب کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا‘‘[سورۃ الإسراء :۳۶]
    لہٰذا بندے کو اٹھنے بیٹھنے، چلنے، پھرنے، کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کا اختیار حاصل ہے، پس وہ حقیقت میں نماز پڑھتا ہے، چلتا ہے، پھرتا ہے، کماتا ہے غرضیکہ جو کچھ وہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بخوبی جانتا ہے، اور اس پر اسے قدرت بھی حاصل ہے، لہٰذا چاہے تو اسے روک دے، اور چاہے تو اسے کرنے کا اختیار دے، کیونکہ اس کی مشیئت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ہے، اور وہی ہر چیز کا حقیقی خالق ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ}
    ’’اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے تمام اعمال کو پیدا فرمایا ہے‘‘[سورۃ الصافات:۹۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’والعباد فاعلون حقيقة، واللّٰه خالق أفعالهم۔والعبد: هو المؤمن، و الكافر، والبر و الفاجر، والمصلي والصائم‘‘
    ’’بندے اپنے افعال کے حقیقی فاعل ہیں اور ان تمام افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور بندہ خواہ وہ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا فاجر اور خواہ وہ نمازی ہو یا روزے دار سبھی اس کے بندے ہیں‘‘
    اورفرماتے ہیں:
    ’’وللعباد قدرة على أعمالهم، ولهم إرادة، واللّٰه خالقهم وخالق قدرتهم، وإرادتهم، كما قال:{لِمَن شَاء َ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ، وَمَا تَشَاء ُونَ إِلَّا أَن يَشَائَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}‘‘
    [سورۃ التکویر : ۲۸۔۲۹]
    ’’اور بندوں کو اپنے اعمال کو انجام دینے کی قدرت بھی ہے، اور ان کا ارادہ بھی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی ان کا اور ان کی قدرت اور ارادہ کا خالق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(بالخصوص)اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے، اور تم بغیر رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ ضمن’’متون طالب العلم‘‘ص:۱۵۲]
    معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا بندے کے افعال کا خالق بھی اللہ عزوجل ہی ہے، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مشیئت عطا کی ہے، لہٰذا وہ اپنی مشیئت اور ارادے کے مطابق افعال انجام دیتے ہیں، مگر ان کی مشیئت اللہ عزوجل کی مشیئت کے تابع ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وكل شيء يجري بتقدير و مشيئته، ومشيئته تنفذ، ولا مشيئة للعباد إلا ما شاء اللّٰه لهم، فما شاء كان، وما لم يشأ لم يكن‘‘
    ’’ہر چیز اس کی تقدیر اور مشیئت کے مطابق انجام پاتی ہے، اس کی مشیئت نافذہ ہوتی ہے، اور بندوں کی وہی مشیئت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ ان کے لیے چاہتا ہے، اس لیے جو چاہا ہوا اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا‘‘
    [العقیدۃ الطحاویۃ ضمن’’متون طالب العلم‘‘ص:۱۳۴]
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ومما اتفق عليه سلف الأمة و أئمتها مع إيمانهم بالقضاء و القدر و أن اللّٰه خالق كل شيء، وأنه ما شاء كان و ما لم يشأ لم يكن، و أن اللّٰه يضل من يشاء و يهدي من يشاء ، أن العباد لهم مشيئة و قدرة، و يفعلون بقدرتهم و مشيئتهم ما أقدرهم اللّٰه عليه مع قولهم إن العباد لا يشاء ون إلا أن يشاء اللّٰه‘‘
    ’’اور جس بات پر اس امت کے سلف اور ائمہ کرام کا اتفاق ہے وہ یہ کہ وہ قضا و قدر پر ایمان رکھتے ہیں، نیز اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے، اور اس نے جو چاہا وہ ہوا اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا، اور وہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ہدایت نصیب کرتا ہے، یقیناً بندوں کے افعال میں ان کی بھی مشیئت اور ارادہ ہوتا ہے، اور وہ اپنی مرضی اور ارادے سے انہی امور کو انجام دیتے ہیں جن پر اللہ نے انہیں قادر بنایا ہے،اور (ساتھ ہی)ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بندے کی وہی مشیئت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ ان کے لیے چاہتا ہے‘‘
    [مجموع الفتاویٰ:۸؍۴۵۹]
    خلاصۂ کلام :
    یہ ہے کہ اہل السنہ والجماعہ قدر کے باب میں اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے، اسی طرح وہ ان کے افعال کا بھی خالق ہے، اور بندے اپنے افعال کے حقیقی فاعل ہیں، جن پر وہ قدرت اور مشیئت رکھتے ہیں، مگر ان کی مشیئت اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہوا کرتی ہے۔
    ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ کائنات میں جو بھی چیز وقوع پذیر ہوتی ہے، وہ اللہ کے علم، ارادے اور مشیئت سے خارج نہیں ہے:
    {لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٌ}
    ’’ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں (نہ)آسمانوں میں اور نہ زمین میں،اور نہ چھوٹی نہ بڑی مگرکھلی کتاب میں (لکھی ہوئی)ہے‘‘
    [سورۃ سبأ:۳]
    دیکھیں: [عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابونی :ص:۷،أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للالکائی:۳؍۵۳۴، و منہاج السنۃ لابن تیمیۃ:۱؍۴۵۹۔۴۶۰، و شفاء العلیل لابن القیم:ص:۴۹۳]
    جاری ہے…………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings