-
خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق (قسط نمبر :۲) اس خطبے کے بعض الفاظ سے بھی رافضی حضرات اپنا مفروضہ ثابت کر نے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر علمائِ اہل سنت نے اس سے استدلال کی کمزوری بھی واضح کردی ہے ، البتہ ان مباحث سے استدلال کے تناظر میں ہم چند گزارشات عرض کرنا چاہتے ہیں :
۱۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مرض الوفات کے دوران آپ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا : اے ابو الحسن ! رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : الحمد اللہ افاقہ ہے ۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اللہ کی قسم تم تین روز بعد لاٹھی کے غلام ہوگئے ( یعنی کسی کے ماتحت ہوگئے ) اور اللہ کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ اس بیماری سے فوت ہوجائیں گے ، میں بنوعبدالمطلب کے چہروں سے ان کی موت کے وقت کو پہچانتا ہوں ۔ آئو ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں اور ان سے خلافت کے بارے میں پوچھیں کہ خلافت کسے ملے گی ۔ اگر ہمیں ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کسی اور کو ملے گی تب بھی ہمیں معلوم ہوجائے گا اور رسول اللہ ﷺ ہمیں کوئی وصیت فرما دیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اللہ کی قسم اگر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا اور آپ نے ہمیں اس سے منع فرمادیا تو آپ کے بعد لوگ ہمیں نہیں دیں گے ، اس لیے اللہ کی قسم ! میں اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے نہیں پوچھوں گا ۔
[صحیح بخاری : کتاب المغازی ، باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ ، رقم : ۴۴۴۷]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ فوائد أبی الطاھر الذ ھلي ‘‘کے حوالے سے ، جس کی سند کو انہوں نے جید قرار دیا ہے ، نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ اور یہی قصہ مختصراً ذکر کیا جو صحیح بخاری میں ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ اس کے بعد فرماتے تھے : کاش میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتا ۔ [فتح الباری : ۸؍ ۱۴۳]
۲۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ غدیرِ خُم کے موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ اگر غدیرِ خُم کے خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کردیا گیا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر جانے اور خلافت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرنے کے کیا معنیٰ ؟
۳۔ بالفرض حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو غدیر ِخُم کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت دے دینے کی بات یاد نہ رہی ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی انہیں یاد دلادیتے کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں ۔ آپ کو معلوم نہیں کہ غدیرِ خُم کے خطبے میں میری خلافت کا اعلان فرمادیا گیاتھا ، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسی کوئی بات انہیں یاد نہیں دلائی ۔
۴۔ اگر خلافت کا فیصلہ ۱۸؍ ذوالحجہ کو ہو چکا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے بخوبی آگاہ تھے تو بعد میں اس پچھتاوے کے کیا معنی کہ کاش میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بات تسلیم کر لیتا اور ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر خلافت کر لیتے ۔
۵۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خلیفہ مقرر کیا ۔ تب بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دار نہیں کیا کہ کیوں ’’ کفر ‘‘ کی راہ اختیار کر رہے ہو ،رسول اللہ ﷺ نے ۱۸؍ذوالحجہ میں میری خلافت کا اعلان فرمایا تھا ، بلکہ اسی موقع پر اس کے اعلان و اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی تھی : {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ }
مگر ایسی کوئی بات ان سے کسی قابل ِ اعتبار سند سے ثابت نہیں ،بلکہ انہوں نے خوش دلی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا ، حتیٰ کہ ان کے بعد حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی تسلیم کیا اور ہمیشہ ان کے مشیر ومعاون رہے ۔
۶۔ کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں کہ مدینہ طیبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر اپنے اس استحقاق کا ذکر فرمایا ہو ، جب وہ خلیفہ بنے تب انہوں نے کوفہ کی مسجد کے صحن میں حاضرین سے فرمایا :’’ میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں۔‘‘ بعض روایات میں ہے :’’ میں اُسے اللہ کی قسم دلاتا ہوں ، جس نے غدیر ِ خُم کے روز رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے : ’’ اللہ مومنوں کا دوست ہے ، جس کا میں دوست ہوں یہ ( یعنی علی رضی اللہ عنہ ) اس کا دوست ہے ۔ اے اللہ ! جو اس سے دوستی رکھے ، تو اس کا دوست ہو جا اور جو اس سے دشمنی رکھے تواس کا دشمن ہو جا ، جو اُس کی مدد کرے ، تو اس کی مدد فرما ۔‘‘ تو بعض صحابہ نے اس کی تصدیق کی ۔ ( خصائص علی وغیرہ ) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : اس کی سند جید ہے ۔ [البدایہ :۵؍۲۱۰]
غور طلب بات یہ ہے کہ عہد خلافت میں اس حدیث کو یاد دلانے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر یہ خلافت کے بارے میں نص ہے تو خلافت کے دوران اس کا ذکر تحصیلِ لاحاصل ہے ۔ اس خطبے کا کوفہ میں ذکر کرنے کا در اصل باعث یہ تھا کہ ایک طرف خوارج نے انہیں پریشان کر رکھا تھا جس کا ذکر تاریخ کے اوراق میں محفوط ہے ، دوسری طرف خود ان کے حلقے میں بعض حضرات ان سے نالاں تھے ، حتیٰ کہ انہوں نے فرمایا : تم میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں :’’ إِنَّ ابْنَ أَبِي طَالِب شُجَاعٌ، وَلٰكِنْ لاَ عِلْمَ لَهُ بِالحَرْبِ۔‘‘ ’’ابن ابی طالب بڑے بہادرہیں ، مگر انہیں لڑنے بھڑنے ، یعنی جنگی پینتروں کا علم نہیں ۔ ‘‘[نھج البلاغۃ مع ابن أبی الحدید : ۱؍۱۴۱] نیز دیکھئے:[نھج البلاغۃ مع ابن أ بی الحدید (۱؍۱۸۳)]جس میں وہ یہاں تک فرما گئے کہ کاش ! معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ سے تم میں سے دس افرادلے لیں اور اپنا ایک آدمی مجھے دے دیں )
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اہلِ عراق کے امیر تھے ، اس زمانے میں زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہتر اور افضل تھے ، وہ سب سے زیادہ زاہد ، سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے ، مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کے بعد انہیں رسوا کیا گیا ، ان سے سر کشی اختیار کی گئی ، تاآنکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ زندگی سے تنگ پڑ گئے اور موت کی تمنا کرنے لگے ۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی کہ اے علی ! تم شہید ہوگے ، تمہارے سر پر ضرب لگے گی اور خون سے تمہارا سر اور داڑھی رنگین ہوگی ۔ اسی فرمانِ نبوی کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے تھے : وہ بد بخت کہاں ہے ، کس کا انتظار کرتا ہے ، اپنا کام تمام کیوں نہیں کرتا ![البدایہ : ۷؍۳۲۳،۳۲۴]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک روز خطبے میں فرمایا : اے اللہ ! میں ان لوگوں سے اُکتا چکا ہوں ، یہ مجھ سے اُکتا گئے ہیں۔ ان سے میری جان چھڑا کر راحت کا سامان فرمادے ، تاکہ ان کی بھی جان چھوٹ جائے ۔ [مصنف عبد الرزاق: ۱۰ ؍۱۵۴، ابن سعد : ۳؍۴] نیز ملاحظہ ہو: [الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم : ۱؍۳۷، سیر اعلام النبلاء : ۳؍ ۱۴۴، البدایہ : ۸؍۱۲]
یہ عالم تھا اور ایسے حالات تھے ۔ غالباً انہی حالات کے تناظر میں انہوں نے اہلِ عراق کو کوفہ کی مسجد کے صحن میں غدیرِ خُم میں آنحضرت ﷺ کا خطبہ یاد دلایا اور اپنی مخالفت ومخاصمت سے خبر دار کیا اور اپنی مودّت ومحبت سے آگاہ فرمایا ، اس لیے کوفہ کی مسجد کے صحن میں اس خطبے کی یاد دہانی کا خلافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ۔
۷۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تسلیم نہ کیا ، وہ فرماتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے میمنہ میسرہ بنے ہوئے ہیں ۔ ان سے پہلے قصاص لیا جائے ، تب میں ان کی خلافت کا اقرار کروں گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ انتشار سے بچنے کے لیے اس اقدام کے حق میں نہ تھے۔ یوں امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مابین تنائو کی صورت پیدا ہوئی جو بالآخر جنگِ صفین پر منتج ہوئی ۔ اس باہمی اختلاف کے دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک خط حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا جو روافض کی معتبرکتاب ’’ نہج البلاغہ ‘‘میں ہے جس میں انہوں نے لکھا :
’’ إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه،… وإنما الشوري للمهاجرين والأنصار، فان اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذالك للّٰه رضا‘‘
بے شک میری بیعت اسی قوم نے انہی شرائط پر کی ہے جن پر انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان ( رضی اللہ عنہم ) کی بیعت کی … مجلسِ شوریٰ مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم پر مشتمل ہے ۔ وہ جس شخص کی امامت پر جمع ہو جائیں اور اس کو امام مقرر کردیں ، اسی میں اللہ کی رضا ہے ‘‘[نھج البلاغۃ مع ابن أبی الحدید : ۳؍۳۰۴ ]
غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر غدیرِ خُم کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کر دیا گیاتھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ کیسے فرمادیا کہ امام کے تقرر میں مہاجرین اور انصار کی شوریٰ کا فیصلہ ہی تسلیم کیا جائے گا ۔ ایک ’’ نص ‘‘ کو نظر انداز کرکے شوریٰ کے فیصلے کو قبول کرنا کہاں تک درست ہے ؟ یہ اس حقیقت کی بیّن دلیل ہے کہ امامت وخلافت کا انعقاد مجلسِ شوریٰ کے فیصلے پر ہے ۔ اسے منصوص قرار دینا روافض کی اختراع ہے ، وللتفصیل موضع آخر ۔
۸۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ مقرر فرمادیں تو انہوں نے فرمایا :
’’ لا، ولكن أترككم كما ترككم رسول اللّٰهﷺ۔ ‘‘
’’نہیں بلکہ میں تمہیں اسی طرح چھوڑ ے جارہا ہو ں جیسے رسول اللہ ﷺ نے چھوڑا تھا ۔‘‘
یہ روایت مختلف طرق سے مروی ہے جنہیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ [ ۷؍۳۲۵، ۳۲۶]میں ذکر کیا ہے ۔ انہی میں ایک روایت مسند احمد[۱؍۱۳۰،۱۵۶]اور ابو یعلیٰ [رقم : ۵۸۶]اور مسند بزار میں ہے ۔ علامہ ہیثمی نے فرمایا ہے کہ اس کے الصحیح کے راوی ہیں ، سوائے عبداللہ بن سمیع کے اور وہ ثقہ ہے ۔
اور بزار کی سند حسن ہے ۔ [مجمع الزوائد : ۹؍۱۳۷]امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ روایت ذکر کی ہے ۔ جس کے الفاظ ہیں : ’’ ما استخلف رسول اللّٰه فأستخلف،!‘‘’’رسول اللہ ﷺ نے خلیفہ مقرر نہیں کیا تو میں کیسے مقرر کروں !‘‘حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید ہے ۔ [البدایہ : ۵؍۲۵۱]
جنگِ جمل کے اختتام پر بھی فرمایا : لوگو ! امارت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کوئی عہد نہیں کیا ۔ [فتح الباری : ۵؍۳۶۲]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ اگر ان کے حاشیہ ٔخیال میں کہیں بھی خطبہ ٔغدیرِ خُم میں ان کی امامت کا اعلان تھا تو وہ قطعاً یہ نہ فرماتے کہ میں تمہیں اسی طرح چھوڑ رہاہوں جیسے رسول اللہ ﷺ نے تمہیں چھوڑا تھا ، یعنی آنحضرت ﷺ نے کسی کو نام زَد نہیں فرمایا تھا ، اس لیے میں بھی کسی کو نام زَد نہیں کرتا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں ، دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی کو خلافت کے لیے نام زَد نہیں فرمایا ، چنانچہ حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے بھی آخری لمحات میں جب کہا گیا کہ کسی کو خلیفہ بنا دیجیے تو انہوں نے فرمایا :
’’إِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ، مِنِّي أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْ، فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، رَسُولُ اللَّهِﷺ‘‘
’’ اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو بے شک جو مجھ سے بہتر ہے ۔ اس نے خلیفہ مقرر کیاہے ۔ ان کی مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ۔ اور اگر خلیفہ مقرر نہ کروں تو بے شک جو مجھ سے بہتر ہے ، انہوں نے خلیفہ مقرر نہیں کیا ۔ ان کی مراد رسول اللہ ﷺ تھے ۔‘‘ [صحیح بخاری:رقم : ۷۲۱۸]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے ۔ [صحیح مسلم :رقم : ۱۸۲۳]
طلحہ بن مصرّف رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں !
[ صحیح بخاری ، رقم : ۲۷۴۰]
اس سے مراد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وصیت ہے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ذکر کی ہے کہ ان کے ہاں کسی نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے وصی تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : انہیں کب وصیت کی ؟ آنحضرت ﷺ میرے سینے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے طشت منگوایا ، اسی وقت میری گود میں ڈھلک گئے ۔ میں نہیں سمجھ سکی کہ آپ ﷺ وفات پاگئے ہیں تو کب آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت فرمادی ![صحیح بخاری ، رقم : ۲۷۴۱،۴۴۵۹]اسی حوالے سے مزید دیکھئے:[ فتح الباری : ۵؍۳۶۱،۳۶۲،البدایہ: ۵؍۲۵۰،۲۵۱]
صحیح بخاری کی یہ حدیث دوسری کتبِ احادیث اور تاریخ میں بھی منقول ہے ، مگر آپ حیران ہوں گے کہ اس کے مقابلے میں یہ حدیث بھی مردود راویوںنے بنالی کہ آنحضرت ﷺ فوت ہوئے تو آپ ﷺ کاسرِ مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا ! حافط ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ كل طريق منها لايخلون من شيعي ، فلا يلفت اليهم ۔‘‘
’’ ان احادیث کی تمام اسانید شیعہ راویوں سے خالی نہیں ، اس لیے وہ قابلِ التفات نہیں ۔‘‘ [فتح الباری : ۸؍ ۱۳۹]
اندازہ کیجیے کہ صحیح حدیث کے مقابلے میں شیعہ راویوں نے کیا جسارت کی ہے !
۹۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز شہید ہوئے ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پانچ روز تک مدینہ طیبہ پر غافقی بن حرب کا قبضہ رہا تھا ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امارت کے لیے کسی کو تلاش کر تے تھے کہ کون اس کے لیے تیار ہوتا ہے ۔ بصری حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں ، کوفی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں اور مصری حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلاش میں تھے ۔ وہ تو دوڑ کر بنو عمرو کے باغ میں چلے گئے اور دروازہ بند کردیا ۔ یہ لوگ وہاں بھی پہنچ گئے اور دروازہ فلانگ کر ان کے پاس پہنچ گئے ۔ وہ اپنے ہمراہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو لائے تھے ۔ بہت باتوں کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے لیے آمادہ ہوئے ۔ [ البدایہ : ۷؍۲۲۵، ۲۲۶]
خلافت سے یہ انکار اور اس سے گریز کا ذکر روافض کے ہاں معتبر ترین کتاب ’’ نہج البلاغہ ‘‘ میں بھی ہے ، حتیٰ کہ انہوں نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو ، کسی اور کو تلاش کرو ۔ غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے غدیرِ خُم کے خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کااعلان کردیا تھا تو جب اس کا وقت آیا تو اس سے انہوں نے انکار کیوں کیا ؟
حضرت طلحہ و زبیر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کیوں نہ فرمایا کہ اب تم نے حق پہچانا ہے ! پہلے تم نے جن کو خلیفہ تسلیم کیا ، تم نے اس میں آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی ، اس ’’ گناہ ‘‘ کی معافی مانگو ۔
۱۰۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اس قدر اہم تھی کہ اسی کے بارے میں سورۃ المائدہ میں اسے اتمامِ دین سے تعبیر کیا گیا اور اس کے اعلان کو ضروری قرار دیا ، جیسا کہ روافض کا دعویٰ ہے تو سوال یہ ہے کہ اتنے اہم مسئلے کے لیے یہ مبہم انداز کیوں اختیار کیا گیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر اسے واضح الفاظ میں ذکر کردیا جاتا ، تاکہ کسی قسم کا نزاع نہ ہو ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء کرام اور دیگر صالحین رحمہم اللہ کے اسماء گرامی ہیں ، حتیٰ کہ کفار کے نام بھی مذکور ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام اتنے اہم مسئلے کے لیے نہ لینا ، چہ معنی دارد ؟
۱۱۔ خطبۂ غدیرِ خُم میں تین بار آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ ’’ میرے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ۔‘‘ یا ’’ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ۔‘‘[صحیح مسلم ]یا یہ کہ ‘‘ میرے اہلِ بیت کا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو ۔‘‘[السنن الکبریٰ للنسائی ]یہ الفاظ صاف طور پر بتلا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد ان کے حقوق ادا کرنا ، ان کی خبر رکھنااور ان پر ظلم و زیادتی سے روکنا تھا ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ ان کا خیال رکھنا اور ان کی خطائوں سے در گزر کرنا ۔ [صحیح بخاری ، رقم : ۳۷۹۹، ۳۸۰۰]بلکہ نبی ﷺ نے انصار سے فرمایا : ” سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أُثْرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّي تَلْقَوْنِي عَلَي الْحَوْضِ”’’عنقریب تم میرے بعد حق تلفی دیکھو گے تو صبر کرنا ،تا آنکہ تم مجھے حوضِ کوثر کو آ ملو ۔‘‘ [صحیح بخاری رقم : ۳۷۹۲،۳۷۹۳]
جس میں اشارہ تھا کہ امارت تمہارے قبیلے میں نہیں ہوگی اور اُمراء مال سمیٹ لیں گے ۔ انصارہی نہیں ، بلکہ عمومی طورپر سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہی فرمایا ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم میرے بعد حق تلفی اور منکر اُمور دیکھو گے ‘‘[صحیح بخاری:رقم : ۷۰۵۲]
چنانچہ یوں ہی ہوا ، خلفاء راشدین کے بعد اس دور کا آغاز ہوا ۔ کسے معلوم نہیں کہ اہلِ بیت کے خلاف خارجی اور ناصبی گروہ بنے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف خوارج اور روافض نے اودھم مچایا اور بنواُمیہ کے اکثر اُمراء نے خزانے بھرنے کی فکر کی ، اس لیے غدیرِ خُم کا خطبہ انعقادِ خلافت کے لیے نہیں تھا ، بلکہ اہلِ بیت سے موّدت اور ان کے حقوق کی پاسداری کی تاکید کے لیے تھا ۔ اور یہی تاکید و تلقین انصار اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بھی تھی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے محبت کو ایمان کی علامت اور ان سے بغض رکھنے کو نفاق کی علامت قرار دیا اور ان کے بارے میں زبان درازی سے منع فرمایا۔
۱۲۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے غزوئہ خیبر کے باب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے پا س بلایا اور فرمایا کہ آپ اکیلے آئیں ، کسی کو ساتھ نہ لائیں ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر فرمایا : اے ابوبکر !
’’ إنا قد عرفنا فضلك وما أعطاك اللّٰه ولم ننفس عليك خيرا ساقه اللّٰه إليك۔‘‘
’’ہم آپ کی فضیلت اور بزرگی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے ، اسے جانتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت ( یعنی خلافت ) دی ہے ، اس پر ہم حسد نہیںکرتے ہیں ‘‘
مگر ہمیں یہ برا محسوس ہو ا کہ آپ نے اکیلے ہی حکومت حاصل کرلی ۔ ہم یہ خیال کرتے تھے کہ اس مشورے میں ہمیں شریک کیا جائے گا کیوں کہ ہمیں آنحضرت ﷺ سے قرابت تھی ۔ پھر ( حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آنسو بہنے لگے ، پھر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے گفتگو کی اور فرمایا :
’’ والذي نفسي بيده لقرابة رسول اللّٰهﷺ أحب إلى أن أصل من قرابتي‘‘
’’مجھے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، آنحضرت ﷺ کی قرابت کا خیال مجھے اپنے قرابت داروں سے زیادہ محبو ب ہے ۔‘‘
اور یہ اموال ( یعنی فدک ، بنونضیر ، خیبر کا خمس ) جن کی وجہ سے میرے اور آپ کے مابین جھگڑا ہوگیا تو میں نے اس کے بارے میں وہی کیا جو بہتر ہے ، میں نے وہی کیا جو آنحضرت ﷺ کیا کرتے تھے اور کسی معاملے میں فرق نہیں کیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’موعدك العشية للبيعة۔‘‘ ’’آپ سے ہمارا وعدہ ہے کہ آج ظہر کے وقت ہم بیعت کرلیں گے ۔‘‘
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی تو منبرپر تشریف لے گئے ، خطبہ پڑھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال یعنی مقام ومرتبہ بیان کیا اور اب تک بیعت نہ کرنے کا عذر پیش کیا اور ان کے لیے بخشش کی دعا کی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کئے ، ان کے حقوق بتلائے اور فرمایا : ’’ میں نے اب تک جوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی تو اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کوئی حسد یا ان کی فضیلت اور بزرگی سے کوئی انکار تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے ، لیکن ہم یہ سمجھتے تھے کہ خلافت کے معاملے میں ہماری رائے بھی انہیں لینی چاہئے ۔ انہوں نے ہم سے رائے نہ لی اور اپنے آپ ہی حکومت لے لی جس کا ہمیں رنج ہوا ۔‘‘
مسلمانوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ بات سنی تو وہ خوش ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے صحیح فرمایا ۔ [صحیح بخاری : رقم : ۴۲۴۰،۴۲۴۱،مسلم ، رقم : ۱۷۵۹ ]
اس صحیح حدیث سے خطبۂ غدیرِ خُم کے حوالے سے مزعومہ دعاوی کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ اگر آنحضرت ﷺ نے خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت کا اعلان فرمایا ہوتا تو کیا وہ کہہ سکتے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ! آپ کو خلافت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور ہمیں اس بارے میں کوئی حسد نہیں ! اس سے ان ضعیف بلکہ موضوع روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن میں ذکر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو خلافت کا حق دار قرار دیا تھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کرتے ، فاتحِ خیبر رضی اللہ عنہ کو تنہائی میں اس کے ذکر سے کون سا امر مانع تھا؟
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے مقام ومرتبے کے معترف تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اوائل میں اگرچہ خاموشی اختیار کیے رکھی ، لیکن انہوں نے حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی اختلاف کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس معاملے میں لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی ، بلکہ ہمیشہ ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں اور ان کی اطاعت اور ہم نوائی فرمائی ۔ (جاری ہے ) ……