-
تراشے اور قیمتی شہ پارے ایک آیت سات باتیں
فرشتے آج بھی مدد کو آ سکتے ہیں، پرندوں کا لشکر آج بھی اللہ کے دشمنوں کو تہس نہس کرنے کے لیے آ سکتا ہے، زمین کی خلافت آج بھی مسلمانوں کو مل سکتی ہے، دین اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ آج بھی مل سکتا ہے، اطراف و اکناف میں سکون و اطمینان کا بسیرا آج بھی ہو سکتا ہے، معاشرے میں اخوت و بھائی چارے کی فضا آج بھی قائم ہو سکتی ہے، ماؤں بہنوں کے عفت و عصمت کی گارنٹی آج بھی دی جا سکتی ہے، بس کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی اللہ چاہتا ہے، جن پر مداومت سے مسلمان ان سب چیزوں کو اپنے لیے ممکن بنا سکتا ہے :
۱۔ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا
۲۔ زندگی میں نیک اعمال کرتے رہنا
۳۔ اللہ کی عبادت و بندگی کرنا
۴۔ شرک و بدعات سے دوری اختیار کرنا
۵۔ نماز کی پابندی
۶۔ زکوٰۃ کی ادائیگی
۷۔رسول اللہ ﷺ کی مکمل اطاعت
(سورۃ النور، سورہ نمبر۲۴،آیت نمبر۵۵،۵۶)
___________
جہاں کہیں رہو اللہ سے ڈرتے رہو!
جو چاہو کرو، جیسے چاہو رہو، مجمع کا خیال رکھو یا تنہائی کا فائدہ اٹھاؤ، بڑوں کے ادب کا خیال رکھو یا چھوٹوں پر شفقت کو نظر انداز کردو، بدکاری پھیلانے میں بدکاروں کا ساتھ دو یا اچھائی پھیلانے میں نیک لوگوں کا تعاون کرو، اپنی ادا سے کسی کا دل جیت لو یا پھر کسی کی اداکاری پر فدا ہو جاؤ، ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل کرنے کی فکر کر لو یا ان کی خدمت سے منہ موڑ کر نافرمانوں میں اپنا نام شمار کر لو، حقیقی محبت سے اعراض کر کے چھچھوری محبت کو گلے لگا لو یا پھر اپنوں کی محبت کا حق ادا کرو، بس صرف ایک بات ہمیشہ دماغ میں رکھو کہ ہر ایک عمل کا حساب ہوگا، اور سات آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ایک ذات ہے جو ہمارے ایک ایک پل اور ہر لمحے سے با خبر ہے، ’’اتق اللّٰہ حیثما کنت‘‘، ’’جہاں کہیں رہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘(سنن ترمذی:۱۹۸۷،حسن)
__________
مثبت سوچ کے مالک بنیں!
انسان کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی بھی چیز کے تعلق سے اس کے دماغ میں سب سے پہلے غلط خیالات ہی آتے ہیں، بے جا اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے، کوئی بات سن کر یا پڑھ کر بلا وضاحت مانگے اس پر اپنی رائے قائم کرتا ہے اور الٹے سیدھے تبصرے کرنے لگتا ہے، کسی کو مے خانے کے سامنے دیکھ کر ہی اسے شرابی تصور کرنے لگتا ہے،دو لوگوں کو کانا پھوسی کرتے دیکھ یہ سمجھتا ہے کہ میرے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں اور کچھ غلط کر رہے ہیں، کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ انسان کی آدھی پریشانیاں اس کی اپنی سوچ بلکہ غلط سوچ اور وہم و گمان کا نتیجہ ہوتی ہیں، ’’اب کیا ہوگا‘‘جیسے جملے اس کے ذہن و دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں اور یہی گردش اسے کسی گرداب میں پھنسا دیتی ہے۔
ذہن صاف رکھیں، مثبت سوچ کے حامل اور مالک بنیں، بے جا خیالات، اندیشوں اور وساوس کو جگہ نہ دیں پھر دیکھیں کہ زندگی کتنی حسین اور رنگین ہو جائے گی اور آپ کس قدرخود کو اچھا اور پرسکون محسوس کریں گے، بس درست سمت میں جائیں اور منفی خیالات سے اپنے آپ کو دور تو رکھیں۔
__________
سنت ہی تو ہے!!!
کچھ لوگ بعض نیکی کے کاموں کو یہ کہہ کر یا سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں کہ یہ’’سنت‘‘ہے ’’فرض‘‘نہیں۔
بے شک بہت سے اعمال ایسے ہیں جو سنن و مستحبات میں سے ہیں، جن کے ترک سے یقیناً اللہ گناہ یا سزا نہیں دیں گے، لیکن اس کو ذرا دوسرے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اگر ہم انہی مسنون اعمال کو ترک کرنے کے بجائے ادا کر لیں تو اس کا یقینی ثواب اور اجر اللہ ہم کو عطا کریں گے، ترک کرنے سے گناہ تو نہیں مل رہا ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیں نا کہ دو تین منٹ میں ادا کیے جانے والا مسنون عمل نہ کر کے ہم کتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے۔زاویہء نگاہ کا فرق ہے۔قطرہ قطرہ ہی قلزم بنا کرتا ہے لیکن جب ہم قطرہ ہی اکٹھا نہیں کریں گے تو قلزم بننے بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
__________
کسی کو بھی ماضی کے طعنے دینے سے بچیں!!!
انسان ہمیشہ ایک ہی حالت پر باقی نہیں رہتا، کبھی اچھا بن جاتا ہے اور کبھی اس کے اندر شیطانیت آ جاتی ہے، اگر ہمیشہ ایک ہی حالت پر باقی رہنے کی بات ہوتی تو ایمان میں کمی و زیادتی کا معاملہ ہی نہ ہوتا، ایک غیر مسلم کے دل و دماغ میں بھی کبھی کبھی یہ خیال جنم لے لیتا ہے کہ اس کے خود ساختہ معبودان جھوٹے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آس پاس رہنے والا ایک بد معاش شخص کسی حادثے کی بنا پر یکایک اچھا اور نیک بن جایا کرتا ہے، اور نیکو کاروں کو بھی ہم پل میں بگڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، ڈاکو کے ساتھ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ فوراً اپنے برے عمل سے تائب ہو جاتا ہے، یقینا ہم یہ سب جانتے ہیں پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کسی کی ماضی کی غلطی کو بنیاد بنا کر اسے حال اور مستقبل میں بھی سزا دیتے رہتے ہیں، کیوں اس کی بد معاشی کو سامنے رکھ کر ایک لمبے عرصے کے بعد بھی اسے ایک موقع نہیں دے سکتے، سچ ہے کہ ہمیں معلوم تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن ہماری انا اور ساکھ نیز ناک کا بھی سوال رہ جاتا ہے لیکن سمجھ میں اسی وقت آتا ہے جب حادثہ اپنے اوپر نازل ہوتا ہے مگر جب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
____________
تکبّر اور گھمنڈ اللہ کو پسند نہیں!!!
تکبر کوئی بھی کرے، اللہ کو محبوب نہیں، تکبر صرف یہ نہیں کہ ہم اپنی بڑائی کا اظہار کریں اور اپنے پاس موجود کسی چیز پر اِترائیں، بلکہ تکبر یہ بھی ہے کہ ہم حق بات سے منہ موڑ لیں، سچائی کو قبول نہ کریں، اللہ کی کسی مخلوق کو معمولی اور حقیر سمجھیں، اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہوں، کثرتِ تعداد پر نازاں ہونے لگیں، بلکہ تکبر یہ بھی ہے کہ انسان کا پتلون یا پینٹ یا کوئی بھی پہنا ہوا کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹک رہا ہو. الغرض تکبر کی ایک لمبی فہرست ہے اور اس کے نتائج بھی بڑے بھیانک ہیں، یہاں تک کہ اس دنیا کی سب سے صالح جماعت کا فخر اور عُجب بھی اللہ کو پسند نہیں آیا اور جنگ میں دشمنوں کے ہاتھوں انہیں شکست برداشت کرنی پڑی، کثرت تعداد نے انہیں عجب اور نا قابل شکست ہونے کے احساس تک پہنچا دیا اور وہ یہ کہنے لگے کہ ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے اب شکست نہیں، اللہ نے موقعے پر ہی ان کے زعم کو باطل قرار دے کر انہیں عُجب اور گھمنڈ کا انجام دکھا دیا، جب صحابہ کے ساتھ عُجب کے بعد اللہ یہ سلوک کر سکتا ہے تو ہما شما کی کیا حیثیت ہے؟؟؟ فاعتبروا
٭٭٭