-
Tags: محمد عاصم اسعد سلفی
علماء اور ذریعہ ٔمعاش : ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ معاش انسانی زندگی کا ایک بنیادی مسئلہ ہے بلکہ ایک جزء لاینفک ہے ، دنیا میں زندگی گزارنے والا ہر انسان کوئی نہ کوئی ذریعہ ٔمعاش ضرور تلاش کرتا ہے۔
چونکہ علماء بھی اسی دھرتی کے واسی ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی طرح انہیں بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے ، مگر علماء کے لیے یہ مسئلہ مزید ٹیڑھا ہوتا ہے ، کیونکہ ان کے ناتواں کاندھوں پر فقط اپنے اور اپنے اہل و عیال کا بوجھ نہیں ہوتا بلکہ وہ تو عوام کے بھی (دینی)بوجھ کے حامل ہوتے ہیں ، ایک طرف تو انہیں اپنا گھر سنبھالنا ہوتا ہے ، بیوی بچوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے تو وہیں دوسری طرف تبلیغ دین اور اصلاح عوام کی ذمہ داری بھی انہی کے سر ہوتی ہے ، اگر وہ اصلاحِ عوام میں خود کو وقف کرتے ہیں تویہاں سے اتنی تنخواہ نہیں مل پاتی کہ جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا صحیح سے گزر بسر ہو سکے اور اگر وہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور ذریعہ ٔمعاش تلاش کرتے ہیں ، تو تبلیغ ِدین والے کام کا مکمل حق ادا نہیں ہو پاتا ، پس ایسے وقت میں ایک عالم کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے جو بیک وقت دو کشتیوں پر سوار ہو جائے۔
اس مسئلہ کے حل کے لیے کچھ لوگ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ:
علماء کو الگ سے کوئی ذریعہ ٔمعاش تلاش کرنا چاہیے اور فارغ اوقات میں دین کی تبلیغ کرنا چاہیے اور یہی ان کا اولین فریضہ بھی ہے ۔کیونکہ حدیث میں آیا ہے:
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ :’’مَا أَكَلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ طَعَامًا أَحَبَّ إِلَي اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَمَلِ يَدَيْهِ ‘‘
ترجمہ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین کھانا آدمی کے اپنے ہاتھ کی کمائی کا ہے‘‘ [مسند أحمد فی مسند الشامیین، حدیث المقدام بن معد یکرب :۲۸؍۴۱۸۔۱۷۱۸۱، حکم الحدیث : حدیث صحیح]
تو جواباً عرض ہے کہ یہ تجویز کئی اعتبار سے محل نظر ہے:
۱۔ اس تجویز کو پیش کرنے والوں کا یہ نقطۂ نظر عموماً اس فکر پر مبنی ہوتا ہے کہ امامت و خطابت ، دعوت و تبلیغ یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں کہ جس پر پیسے لیے جائیں ، بلکہ بہت سے لوگ تو اسے علماء کی سستی و کاہلی اور نا قابلیت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ دنیا کے لیے کیا جانے والا ادنیٰ سا کام بھی انہیں کام نظر آتا ہے ، یعنی اگر کوئی ان کی دنیا سنوارے تو یہ کام ہے اور اگر کوئی ان کی آخرت سنوارنے کی فکر میں اپنی زندگی وقف کر دے اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دے تو یہ اس کی سستی، کاہلی اور نا قابلیت ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا ، خرد کا جنوں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حالانکہ آگے آنے والی حدیث سے اس کی تردید ہو رہی ہے۔
۲: تبلیغ دین اور اصلاح عوام خود ایک محنت طلب اور مشقت سے بھرپور کام ہے اور اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :
عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:’’أَحَقُّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللّٰہِ‘‘
وَقَالَ الحَکَمُ:’’لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا کَرِہَ أَجْرَ المُعَلِّمِ‘‘[صحیح البخاری فی کتاب الإجارۃ، باب ما یعطی فی الرقیۃ :ح:بعد ۲۲۷۵]
لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں تبلیغ دین پر اجرت لینے والا اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھاتا ہے۔
اور حکم رحمہ اللہ نے کہا : میں نے (اسلاف میں سے)کسی کو معلم کی اجرت کو ناپسند کرتے ہوئے نہیں پایا۔
۳: ایک عالم جب اس لائن میں آتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا کہ گویا اس نے خود کو اللہ کے دین کے لیے وقف کر دیا ہے ، اب اگر وہی کمانے اور دیگر ذرائع معاش کی تلاش و جستجو میں لگ جائے گا تو اصلاحِ عوام اور تبلیغ دین کا فریضہ مختلف مجالات علمیہ میں کون ، کب اور کیسے انجام دے گا؟
۴: تجارت والی یہ تجویز ان کے لیے تو دو پل کے لیے کارگر ہو سکتی ہے جن کے یہاں کوئی خاندانی یا کم از کم والد کا کوئی بزنس ہو ، مگر ان کے حق میں ہرگز مفید نہیں جن کے یہاں پہلے سے کوئی گھر کا کاروبار نہیں ، کیونکہ ایسے شخص کے پاس معاش کے لیے اب دو ہی راستے بچتے ہیں :
أ۔ وہ کوئی ہنر سیکھے یا مزدوری وغیرہ کرے اور بالکل ابتداء سے معاشی ڈھانچہ کھڑا کرے ، ایسا کرنے سے وہ پیسہ تو کما سکتا ہے مگر اپنے علم کا حق ہرگز ادا نہیں کر سکتا۔
ب ۔ وہ خود نئے سرے سے کسی کاروبار کی شروعات کرے ، مگر اس میں بھی مسئلہ وہیں جا کر اٹک جاتا ہے کہ آج کل کاروبار کو بالکل نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے کم از کم ایک ، ڈیڑھ لاکھ روپئے انویسٹمنٹ کے لیے چاہیے ہوتے ہیں ، جو کہ عموماً علماء کے پاس نہیں ہوتے۔
چنانچہ یہ دونوں راستے بھی علماء کے لیے بند ہیں ، اس لیے بھی یہ تجویز غیر معتبر ٹھہری۔
۵: آپ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اگر سارے علماء کرام کاروبار شروع کر دیں تو پھر تحقیق احادیث و تصنیف کتب جیسے دیگر کاموں کو کون انجام دے گا ؟کہ جس کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے ، تجارت و مزدوری کے ساتھ تو یہ ہرگز ممکن نہیں ، کیونکہ اس میں جہاں وسعت مطالعہ اور اتقان علم ضروری ہے وہیں ذہنی سکون اور اطمینان قلب کی بھی حاجت ہوتی ہے جو کہ کسی تاجر یا مزدور کے یہاں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
تنبیہ: اب یہاں کوئی علامہ البانی رحمہ اللہ کی مثال پیش نہ کرے اور اس کی دو وجوہات ہیں:
أ ۔ گھڑی کا کاروبار ان کا خاندانی تھا ، اور میں اوپر یہ بیان کر چکا ہوں کہ تجارت والی تجویز ان علماء کے لیے بسا اوقات ممکن ہے جن کے یہاں سابقہ کوئی کاروبار ہو۔
ب ۔ یہ کاروبار انہوں نے صرف شروعاتی دور میں کیا بعد میں خود کو مکمل طور پر علم کے لیے وقف کر دیا۔
۶: چونکہ علماء کے معاش کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ، اس لیے اگر ہم اسلاف کے زمانہ میں جھانک کر دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ علماء جنہوں نے اپنی زندگیوں کو علم سیکھنے اور سکھانے کے لیے وقف کر دیا تھا تو وہ کاروبار نہیں کرتے تھے بلکہ ہر طرف سے کنارہ کش ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ طلبِ علم میں لگے رہتے تھے اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
أ : خود نبی ﷺ نبوت ملنے کے بعد تجارت نہیں کرتے تھے بلکہ تبلیغ دین کے فریضے کو انجام دینے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
ب : اصحابِ صفہ : جن میں سر فہرست ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے ، یہ صحابی بھی کاروبار کرنے کی بجائے طلب علم میں لگے رہتے تھے اور مدینہ والے انہیں کھانا لا کر دیتے تھے۔
ج : جب نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مختلف ممالک میں بطورِ مبلغ و قاصد بھیجا کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ ان کے لیے تنخواہیں مقرر فرماتے اور جب لوٹ کر آتے تو انہیں ان کا حق دیتے۔
د : ابو بکر اور دیگر خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا بیت المال سے ماہانہ تنخواہ لینا بھی اس کی ایک واضح دلیل ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص تجارت کو چھوڑ کر اپنے اس وقت کو دین کے کام میں وقف کر رہا ہے تو اسے اس کے عوض معقول تنخواہ ملنی چاہیے ، اور یہ اس کا حق ہے نہ کہ اس پر کوئی احسان۔
۷: علماء سے دوسرا ذریعہ ٔمعاش تلاش کرنے کو کہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی طبیب سے کہا جائے کہ:تم کوئی اور ذریعہ ٔمعاش تلاش کرو اور مریضوں کا علاج مفت میں ہی کرو ، یا کسی پائلٹ سے کہا جائے کہ تم تجارت کرکے گھر بار چلاؤ یا مزدوری کر کے ، مگر جہاز تو تمہیں بغیر پیسہ لیے ہی اڑانا پڑے گا ۔
تو ذرا انصاف سے بتائیں کہ یہ مضحکہ خیز تجویز نہیں تو اور کیا ہے؟
دراصل علماء سے یہ مطالبہ کرنا ہی سراسر غلط ہے کہ وہ کوئی اور ذریعہ ٔمعاش تلاش کریں اور دینی کام فری میں کریں۔
یہ مطالبہ کبھی دنیوی علوم کے ماہرین یا کسی اور میدان کے متخصصین سے کیوں نہیں کیا جاتا ؟
اصل میں بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے علماء سے اس طرح کے مطالبے کیے جاتے ہیں ، تاکہ اصل جرم اسی شور شرابہ میں دب جائے اور سامنے ہی نہ آ سکے ، ورنہ جس طرح دیگر میدانوں کے متخصصین اپنے میدانوں کو ذریعہ ٔمعاش بنائے ہوئے ہیں (جو کہ بالکل بجا بھی ہے)اور وہیں اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ، نیز عوام بھی بصد احترام ان کو ان کا حق دے رہی ہے اور انہیں آنکھوں پر بٹھا رہی ہے تو پھر علماء طبقے پر ہی یہ ظلم کیوں ؟ ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک کس لیے؟ دیگر لوگوں کی طرح وہ اپنے میدان کو ذریعہ ٔمعاش کیوں نہیں بنا سکتے ؟ اور اپنا حق کیوں نہیں لے سکتے ؟
بات دراصل یہ ہے کہ عوام انہیں ان کا حق دینا ہی نہیں چاہتی ، دین کے نام پر اس کی جیب سے پیسے نکلتے ہی نہیں ، ڈائٹ چارٹ بنانے والے کو دو ہزار روپئے بڑے آرام سے دیتے ہیں ، ڈاکٹر کو فقط دکھانے کے ۵۰۰اور۱۰۰۰روپئے فیس بھی بخوشی دیتے ہیں مگر علماء کو دیتے وقت ۲۰روپئے بھی ۲۰۰۰کے مانند لگتے ہیں ، ان سے ہم ۲۴گھنٹے فری سیوا چاہتے ہیں ، کیونکہ ان کی ذہن سازی ہی اسی طرح کی گئی ہے کہ دین کا کام فری میں ہوتا ہے ، اگر عالم قرآن پڑھ کر اجرت لے رہے ہیں تو وہ اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ ۔۔۔۔۔ کے تحت قرآن کو (نعوذ باللہ)بیچ رہا ہے وغیرہ
نیز ستم تو یہ ہے کہ علماء کے معاش اور ان کی تنخواہ کے سلسلے میں خود علماء نے علماء کا خوب استحصال کیا ہے ، جاہل منتظمین کی تو بات ہی اور ہے۔
مسئلہ کا حل : ناچیز کی نظر میں اس مسئلہ کا واضح اور سب سے آسان سا حل یہی ہے کہ جس طرح دیگر میدانوں کے متخصصین اسی کو اپنا ذریعہ ٔمعاش بناتے ہیں اور عوام بھی بخوشی انہیں ان کا حق دیتی ہے ، اسی طرح علماء بھی کاروبار میں اپنا بیش قیمتی وقت لگانے کی بجائے اسی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بخوشی انہیں ان کا حقیقی حق دے۔ بقیہ صفحہ ۲۷ پر۔
نوٹ : میرے مضمون سے ہرگز کوئی یہ تاثر نہ لے کہ میں علماء کے کاروبار کرنے کے خلاف ہوں یا یہ کہ میری نظر میں کوئی عالم کامیاب تاجر نہیں بن سکتا یا میں اسے شجرِ ممنوعہ قرار دیتا دیتا ہوں، حاشا وکلا! اگر کوئی عالم تجارت کرتا ہے تو شوق سے کرے ، مجھے کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن ہاں اگر وہ واقعی باصلاحیت اور قابل ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت کو تعلیم و تعلم میں لگائے تاکہ وہ دین کی خدمت زیادہ بہتر طریقے سے کر پائے اور عوام بھی اس کے علم سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے ،مگر علماء سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنا کوئی اور ذریعہ ٔمعاش تلاش کریں تو ناچیز کی نظر میں یہ سراسر ان پر ظلم یے ، اور علماء سے پہلے اس میں خود علم شرعی کی توہین ہے۔ وفقنا اللّٰہ لما یحب ویرضاہ ، أمین