-
Tags: جمیل أحمد ضمیر
اپنے مُنہ میاں مِٹھو بننے کا شرعی حکم ’’اپنے منہ میاں مِٹھوبننا‘‘،یہ ایک محاورہ ہے، جس کا مطلب ہے اپنے ہی منہ سے اپنی تعریف کرنا اور اپنی ہی زبان سے اپنی خوبیوں اور کمالات کا بکھان کرنا۔
یہ دینی و سماجی ہر اعتبار سے ایک مذموم اور معیوب خصلت ہے، گرچہ اپنے منہ سے کی گئی تعریف مبنی بر حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ کسی دانا سے پوچھا گیا کہ کون سی ایسی بات ہے جسے کہنا مستحسن نہیں گرچہ وہ حق ہو؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ بات یہ ہے کہ آدمی اپنی تعریف خود کرے۔[الذریعۃ إلی مکارم الشریعۃ :۔ص:۱۹۷]
سلطان العلماء العِزّ بن عبد السلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’مدحك نفسَك أقبح من مدحك غيرَك،فإنّ غلط الإنسان فى حقّ نفسه أكثرُ من غلطه فى حقّ غيره؛ فإنّ حُبّك الشيئَ يُعمي ويُصِمّ، ولا شيء َ أحبُّ إلى الإنسان من نفسه، ولذالك يرى عيوبَ غيره ولا يرى عيوبَ نفسه‘‘[قواعد الأحکام:۔۲؍۲۱۰]
یعنی تم اپنی تعریف خود کرو یہ زیادہ قبیح ہے بنسبت اس کے کہ تم کسی دوسرے کی تعریف کرو، کیونکہ انسان اپنے بارے میں بنسبت دوسروں کے زیادہ غلط فہمی کا شکار رہتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز سے محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے اور انسان کے نزدیک اپنے نفس سے زیادہ کوئی اورچیزمحبوب اور پسندیدہ نہیں ہوتی، بنا بریں وہ دوسروں کی کمیوں کو تو دیکھ لیتا ہے لیکن اپنی کمیاں اس کی اپنی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔
اپنی تعریف آپ کرنے کا محرک عام طور پر خود پسندی، فخر ومباہات، برتری کا اظہار اور ترفع ہوتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں: [فتح القدیر:۱؍۵۵۱]، اس لیے شریعت کی نظر میں یہ ممنوع اور ناجائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{فَلَا تُزَکُّوا أَنْفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَی }
’’تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہ پرہیزگاروں کو بخوبی جانتا ہے‘‘[النجم:۳۲]
اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک لڑکی کا نام بَرَّۃ رکھا گیا تو نبی ﷺ نے منع کردیا ۔اور فرمایا:
’’لَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ، اَللّٰهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ‘‘ فَقَالُوا:بِمَ نُسَمِّيهَا؟ قَال:سَمُّوهَا زَيْنَبَ‘‘
’’اپنا تزکیہ آپ نہ کرو، اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے نیکی والے کون ہیں۔لوگوں نے پوچھا کہ پھرہم اس کا کیا نام رکھ دیں؟ فرمایا:زینب رکھ دو‘‘[صحیح مسلم :۲۱۴۲]
مزید برآں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی منہ سے اپنی پاکیزگی بیان کرنے والوں کی سرزنش فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَلَمْ تَرَ إِلَي الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّي مَنْ يَّشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا }
’’ آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے، کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائیگا‘‘[النساء :۴۹]
یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اپنے منہ میاں مٹھو بنتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب بندے ہیں، یا اس طرح کے دیگر اور تعریفی کلمات کے ذریعہ اپنی ستائش کرتے تھے، البتہ اس لفظ کے عموم میں یہود اورغیر یہود سب داخل ہیں جو حق یا باطل کسی بھی طریقے سے اپنی ستائش کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: [فتح القدیر :۱؍۵۵۱]
اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اسی ممانعت کے پیش نظر سلف کی اکثریت نے اس بات کو مکروہ قراردیا ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو مومن کہے، کیونکہ اپنے آپ کومومن کہنا یہ مدح کی صفت ہے اور اس میں در حقیقت نفس کی پاکیزگی ایسے اعمال کے ذریعہ بیان ہوتی ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں، لہٰذاانسان کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے مسلمان ہونے کی گواہی دے اس لیے کہ اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:[فتح الباری لابن رجب :۱؍۱۳۲]
خلاصہء کلام یہ کہ خود سے اپنی تعریف کرنے اور اپنی خوبیاں بیان کرنے کے متعلق شریعت کا اصل حکم منع کا ہے۔
تاہم بایں ہمہ بوقت ضرورت اپنی تعریف کرنا جائز ہے، جیسے کوئی شخص اپنی بعض خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر اس مقصد کے پیش نظر کرے کہ اس کے ذریعہ کسی دینی منصب یا دعوتی کاز کے لئے اس کی اہلیت ولیاقت کا علم ہو سکے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر سے کہا تھا:
{اجْعَلْنِي عَلَي خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ}
یعنی ’’آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، میں حفاظت کرنے والا اور با خبر ہوں‘‘[یوسف:۵۵]
اب اگر کوئی یہ کہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی تعریف کیونکر کی جب کہ انبیاء وصالحین کی شان تواضع وخاکساری ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی یہ مدح وستائش تکبر اور حد سے تجاوز سے خالی تھی اور اس سے ان کا مقصد حق کاقیام، عدل وانصاف کا احیاء اور ظلم وجور کا خاتمہ تھا، لہٰذاانہوں نے اپنے بارے میں جو کہا وہ کہناجائز اور مستحسن تھا۔ [زاد المسیر لابن الجوزی :۔۲؍۴۵۱]
الغرض یوسف علیہ السلام کے اس طرز عمل سے استدلال کرتے ہوئے اہل علم نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ ضرورت کے وقت انسان ایسے لوگوں سے اپنے علم وفضل کا ذکر کرسکتا ہے جو اس کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں:[تفسیر قرطبی :۔۱۱؍۳۸۶، قواعد الأحکام :۔۲؍۲۱۰]
موجود دور میں اس کی ایک مثال بائیو ڈیٹا کی ہے جس میں انسان اپنا تعارف پیش کرتا ہے اور اپنی علمی لیاقت، ڈگریوں اور تجربات کا ذکر کرتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی کسی خوبی یا اچھی خصلت کا ذکر اس نیت سے کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی اقتداء کرتے ہوئے اس خصلت پر عمل کریں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ نبی ﷺنے اپنے بارے میں فرمایا:
’’وَاللّٰهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ‘‘[صحیح بخاری:۔۵۰۶۳]
’’اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں‘‘
نبی ﷺ نے اپنے بارے میں یہ بات اس لیے کہی تاکہ لوگ اپنے اعمال میں آپ ﷺکی اقتداء کریں اور آپ کی سنت اور طریقے سے تجاوز نہ کریں۔
البتہ یہ حکم ان مردان باصفا اور ایمانی قوت سے سرشار ہستیوں کے لئے خاص ہے جو سمعہ وشہرت سے یکسر بے نیاز ہوتی ہیں اور جن کی حیثیت آئیڈیل اور قدوہ کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عبد السلام فرماتے ہیں:
’’وقد يمدح المرئُ نفسَه ليُقتدي به فيما مدح به نفسه…وهذا مختصٌّ بالأقوياء الذين يأمنون التسميعَ ويُقتدي بأمثالهم‘‘[قواعد الأحکام:۔۲؍۲۱۰]
یعنی کبھی انسان اپنی تعریف خود کر سکتا ہے، تاکہ جس خصلت کے ذریعہ اس نے اپنی تعریف کی ہے، اس میں اس کی اقتداء کی جائے، البتہ یہ مضبوط دل والوں کے لیے خاص ہے جو سمعہ وشہرت سے مامون رہتے ہیں اور جن کا شمار قابل اقتداء ہستیوں میں ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں صحابہ وتابعین اور دیگر علماء سلف سے اپنے علم وفضل، یا بسا اوقات زہد وعبادت،یا اپنی تصانیف کے متعلق جو مدح وثناء ملتی ہے، اس کی توجیہ علماء نے یہی بیان کی ہے کہ اس سے ان کا مقصد اپنے علم وفضل سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، تاکہ لوگ ان کی اقتداء کریں اور ان کے علم سے استفادہ کریں، جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بارے میں فرمایا:’’اللہ کی قسم قرآن کی جو بھی سورت نازل ہوئی ہے، اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی اور قرآن کی جو بھی آیت نازل ہوئی اس کے تعلق سے مجھے یہ علم ہے کہ وہ کس بابت نازل ہوئی ہے اور اگر مجھے پتہ چل جائے کہ مجھ سے زیادہ کوئی جانکار ہے اور اس تک اونٹ پہنچ سکتے ہوں تو میں اس کے پاس پہنچ جاؤں گا‘‘[صحیح بخاری:۔۵۰۰۲]
بظاہر یہ اپنی تعریف ہی ہے لیکن اس سے مقصود مدح وستائش نہیں، چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس اثر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’وهذا كله حق وصدق، وهو من إخبار الرجل بما يعلم عن نفسه ما قد يجهله غيره، فيجوز ذالك للحاجة، كما قال تعالٰي إخبارا عن يوسف لما قال لصاحب مصر:(اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم)‘‘
’’یہ سب حق اور سچ ہے اوریہ اپنے بارے میں انسان جو جانتا ہے اس سے نہ جاننے والوں کو با خبر کرنے کے قبیل سے ہے اور ضرورت کے وقت یہ جائز ہے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کو اپنے بارے میں بتایاتھا‘‘[تفسیر ابن کثیر:۔۱؍۵۲]
اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وفي الحديث جواز ذكر الإنسان نفسه بما فيه من الفضيلة بقدر الحاجة، ويحمل ما ورد من ذمّ ذالك علٰي من وقع ذالك منه فخرًا أو إعجابًا‘‘
’’اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ انسان بقدر ضرورت خود سے اپنی فضیلت ذکر کر سکتا ہے اور اس بابت جو مذمت آئی ہے وہ اس شخص کے متعلق ہے جو فخر اور خود پسندی کی غرض سے ایسا کرتا ہے‘‘[فتح الباری:۔۹؍۵۱]
اسی طرح جب باغیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا تھا تو انہوں نے اپنے کچھ مناقب وفضائل کا تذکرہ کیا تھا، جس سے استدلال کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وفيها جواز تحدُّث الرجل بمناقبه عند الاحتياج إلى ذالك لدفع مضرة أو تحصيل منفعة، وإنما يكره ذالك عند المفاخرة والمكاثرة والعجب‘‘
’’یعنی آدمی کے لیے اپنے مناقب وفضائل کو بیان کرنا جائز ہے جب کسی نقصان کے ازالہ اور منفعت کے حصول کے لیے اس کی ضرورت ہو، اور یہ مکروہ اس وقت ہے جب فخر ومباہات اور عجب کا مظاہر ہ ہو‘‘[فتح الباری لابن حجر :۔۵؍۴۰۸]
اس مسئلے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اپنے ذاتی محاسن کو بیان کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک قسم مذموم ہے اور دوسری محمود ‘‘
مذموم یہ ہے کہ اپنی ذاتی خوبیوں کا ذکر فخر ومباہات، برتری کے اظہار اور اپنے ہم پلّہ لوگوں پر تفوق وامتیاز کے لیے کیا جائے۔
اور محمود وہ ہے جس میں کوئی دینی مصلحت ہو،جیسے کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہو، یا کسی کو نصیحت اور مشورہ دے رہا ہو، یا معلم ومربی اور واعظ ہو، یا دو لوگوں کے درمیان صلح کرانے والاہو،یا اپنی ذات سے کسی قسم کے شر وفساد کو دور کرنا چاہتا ہو، تو ان صورتوں میں وہ اپنی خوبیاں اس نیت سے بیان کرے تاکہ لوگ اس کی بات کو قبول کریں اور اس کے رائے ومشورہ پر اعتماد کر سکیں، یا یہ کہے کہ یہ بات جو میں بتا رہا ہوں وہ میرے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ملے گی لہٰذا اسے اپنے پلّو باندھ لو، تو یہ محمود ہے اوراس سلسلے میں بے شمار نصوص موجود ہیں ۔ [الأذکار النوویۃ:۔ص:۲۷۸۔۲۷۹]
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی راجح مصلحت اور واقعی مضرّت کے پیشِ نظر بقدر ضرورت اپنے بارے میں کچھ کہنا، جس میں مدح وستائش کا پہلو پایا جاتا ہو، جائز ہے، اور اگر اس میں فخر وتکبر کاشائبہ ہو اور اپنی فوقیت وبرتری کا اظہار مقصود ہو تو یہ ممنوع ہے۔
لہٰذا بلا ضرورت ہر مجلس ومحفل میں اشارۃً یا صراحۃً اپنی تعریف کرتے پھرنا، اور ہمہ وقت اپنے کاموں اور کارناموں کے تئیں تحسین وآفرین کی صدائیں بلند کرنا، نیز تحدیث نعمت کی آڑ میں تعلی وخودنمائی اور فخر ومباہات کا مظاہرہ کرنا قطعاً درست نہیں، یہی وہ چیز ہے جسے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو شرعًا وعقلاً ہر اعتبار سے معیوب اور ناپسندیدہ ہے اور اللہ کے نیک بندوں بالخصوص علماء ِ شریعت اور طالبان علوم نبوت کی شایانِ شان کے یکسر منافی ہے۔
اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسا شخص احساسِ برتری کا شکار ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنا وقار اور اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اگر کوئی شخص اپنے علم وفضل کا اظہار محض اس لیے کرتا ہے تاکہ لوگوں کے مابین اپنی عظمت وبرتری کا سکہ بٹھا سکے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے تئیں لوگوں کے دلوں میں نفرت وکراہیت ڈال دیتا ہے اور ان کی نگاہوں میں اسے کمتر اور چھوٹا بنا دیتا ہے‘‘ملاحظہ فرمائیں:[مفتاح دار السعادۃ :۔ ۱؍۳۹۱]
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تواضع اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوسوں دور رکھے۔