Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق (قسط نمبر :۳)

    ۱۳۔ کیا اہل بیت میں سے کسی نے حضرت ابو بکرصدیق ،حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کا یا ان کی افضلیت کا انکار کیا ہے ؟ قطعاً نہیں ! خلافت سے انکار تو کجا ، وہ تو ان کے دور میں ان کے مشیر رہے اور امور مملکت میں ان کے معاون اور مددگار بنے، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب کسی مسئلے میں مشورے کی ضرورت محسوس کرتے تو حضرت عمر ، عثمان ، علی ،عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل ،ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو بلا کر ان سے مشورہ کرتے ۔[ابن سعد]
    حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مرتدین کے خلاف بنفس نفیس نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سواری کی لگام تھام لی اور فرمایا : اے خلیفۂ رسول اللہ! کہاں جا رہے ہیں ؟ رک جائیے ۔ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو پھر یہ نظام قائم نہیں رہے گا ۔[البدایۃ:۶؍۳۱۵]
    اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تاریخ کی ابتداء سن ہجری سے رکھنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر اعتماد کیا ۔بیت المقدس کی فتح ،مدائن اور نہاوند کی جنگ ،فارسیوں اور رومیوں سے جہاد کے آغاز میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا ۔ جنگ نہاوند کے لیے مشورے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :
    ’’امیر المومنین ! آپ جانتے ہیں کہ اس دین اسلام کی نصرت اور ذلت (یعنی فتح و شکست ) کثرت و قلت پر موقوف نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اور وہ اپنے لشکر کی مدد کرے گا۔ یہ وہ لشکر ہے جس کو اللہ نے عزت دی اور فرشتوں سے اس کی مدد کی ، حتیٰ کہ یہ دین پہنچا جہاں تک پہنچا ۔ ہمارے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی مدد کرے گا ۔ اے امیر المومنین ! آپ کی حیثیت مسلمانوں میں ہار کے دھاگے کی ہے ، وہ ہار کے دانوں کو جمع کیے رکھتا اور روکے رکھتا ہے ۔ اگر دھاگا ٹوٹ جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں اور ادھر اُدھر چلے جاتے ہیں ،پھر وہ کبھی اس طرح جمع نہیں ہوتے ۔ عرب اگر چہ آج تعداد میں کم ہیں ، لیکن اسلام کی بنا پر وہ زیادہ اور غالب ہیں ‘‘۔
    دوسرے صحابہ نے بھی مشورہ دیا مگر لکھا ہے کہ:
    ’’فأعجب عمر قول على و سر به ‘‘
    ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول پسند آیا اور اس سے انہیں خوشی ہوئی ‘‘
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب مشورہ کرتے تو اس پر عمل سے پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیتے ۔ [البدایۃ :۷؍۱۰۷،الاموال لابی عبید :ص:۲۵۲،وغیرہ]
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان مشوروں کا ذکر ’’نہج البلاغہ مع ابن ابی الحدید:۲؍۴۰۴،۴۰۵،ط دار احیاء التراث بیروت) میں بھی ہے ۔
    فتح بیت المقدس کے لئے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر وہاں جانے کا فیصلہ فرمایا ، بلکہ اپنے بعد مدینہ طیبہ کا انتظام و انصرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپر دکردیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس جانے والے قافلے میں سب سے آگے تھے۔[البدایۃ:۷؍۵۵]
    شیخ محمد الحاجی نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بنام ’’علی بن ابی طالب منشار امین الخلفاء الراشدین‘‘لکھی۔
    غور فرمائیے کہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے یہ تعاون ،چہ معنی دارد؟ اگر (معاذاللہ ) وہ ظالم تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعاون کی پوزیشن کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
    {وَلَا تَرْكَنُوا إِلَي الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ}
    ’’اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہونا جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں آگ آ لپٹے گی‘‘[ھود:۱۱۳]
    اگر یہ تعاون صحیح تھا تو آج یہ تعاون و تکریم کیوں نہیں ؟ ایسا تعاون اور ان کی مجلس شوریٰ کی رکنیت ہی نہیں ، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لخت جگر محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا :
    ’’اي الناس خير بعد رسول اللّٰه ﷺ‘‘
    ’’رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر انسان کون ہے‘‘؟
    تو انہوں نے جواباً فرمایا : ’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ‘‘۔
    میں نے عرض کیا : پھر ان کے بعد ؟
    فرمایا : ’’پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘‘
    محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں ڈر گیا کہ کہیں ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام نہ لیں تو میں نے عرض کیا :پھر آپ ؟ انہوں نے فرمایا :’’میں تو مسلمانوں کا ایک فرد ہوں‘‘[صحیح البخاری:رقم :۳۶۷۱]
    بعض روایات میں ہے کہ یہ قول واقعہ نہروان یعنی خوارج سے لڑائی کے بعد کا ہے ۔ اور یہ لڑائی ۳۸ھ کو ہوئی تھی۔[فتح الباری:۷؍۳۳]جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۴۰؁ھ کے ماہ رمضان میں شہید ہوئے ۔ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان کی شہادت سے دو سال قبل کاہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ یہی بات انہوں نے کوفہ کے منبر پر بھی کہی۔
    علاوہ ازیں یہ قول تنہا محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے منقول نہیں ہے ، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ قول بیان کرنے والوں کی تعداد اسّی(۸۰) ہے ۔[منہاج السنۃ:۱؍۲۱۳،ازالۃ الخفاء:(فارسی)۱؍۳۱۶،عربی ایڈیشن:۱؍۷۳۷]
    بہت سے حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کو متواتر قرار دیا ہے ۔جیسا کہ ہم نے ’’ازالۃ الخفاء‘‘ کے عربی ایڈیشن کے حاشیے میں ذکر کیا ہے۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جسد خاکی کو چارپائی پر رکھا گیا۔ تمام لوگ اس کے گردو پیش میں ہوگئے ان کے لئے دعا کرتے تھے۔ ابھی جنازہ نہیں اٹھایا گیا تھا اور میں بھی ان میں سے تھا۔میں اس وقت گھبرایا گیا جب پیچھے سے ایک شخص نے میرا کندھا پکڑا ۔ کیا دیکھتا ہو ں کہ وہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں وہ کہہ رہے تھے :
    ’’عمر رضی اللہ عنہ ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ۔ آپ نے اپنے بعد کوئی شخص نہیں چھوڑا کہ میں اس جیسے اعمال پر اللہ سے ملنے کی آرزو کروں۔ اللہ کی قسم ، میرا غالب گمان یہی ہے کہ اللہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا (قبر میں بھی اور جنت میں بھی )میں جانتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بارہا سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : میں گیا اور ابوبکر و عمر (بھی گئے ) میں اندر آیا اور ابوبکر و عمر (بھی آئے ) ، میں باہر نکلا اور ابوبکر و عمر بھی باہر نکلے ‘‘۔ رضی اللہ عنہم اجمعین [صحیح البخاری:۔رقم:۳۶۷۷ ]
    اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شیخین رضی اللہ عنہما کی عظمت کے قائل تھے، بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نامۂ اعمال پر رشک کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ و قبر اطہر اور منبر کے مابین رکھا ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور صفوں کے سامنے کھڑے ہوگئے ، پھر تین بار فرمایا :
    ’’رحمة اللّٰه عليك ،مامن خلق اللّٰه احدأحب الي من أن ألقاه بصحيفة بعد صحيفة النبى ﷺ من هذا المسجّيٰ عليه ثوبه‘‘
    ’’آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔ نبی کریم ﷺ کے بعد مخلوق میں سے میرے نزدیک کوئی بھی اس کفن پوش سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس جیسے نامۂ اعمال کے ساتھ ملوں‘‘[مسند احمد،رقم:۸۶۶، ۸۶۷،وغیرہ حسن لغیرہ]
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ابوجعفر محمد بن علی بن حسین عن علی سے روایت کیا ہے جسے امام محمد نے کتاب الآثار (رقم:۸۶۶) قاضی ابو یوسف نے بھی کتاب الآثار(رقم:۹۲۷)اور امام ابو نعیم نے مسند ابی حنفیہ(ص:۲۷) میں نقل کیا ہے ۔ امام ابو نعیم نے فرمایا ہے :یہ اگر چہ مرسل ہے ، مگر یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحیح اور جید احادیث میں شمار ہوتا ہے ۔ ابن سعد نے متعدد طرق سے اسے ذکر کیا ۔[طبقات :۳؍۳۷۰،۳۷۱،تاریخ المدینۃ لابن شیبۃ:۳؍۹۳۷]
    ہم یہاں اہل بیت کے مزید اقوال ذکر کرکے اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے ، البتہ اس حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے ۔چنانچہ فرماتے ہیں:
    ’’والنقل الثابت عن جميع علماء اهل البيت من بني هاشم من التابعين و تابعيهم من ولد الحسين بن على وولد الحسن وغيرهما أنهم كانوا يتولون ابابكر و عمر ، وكانوا يفضلونهما على علي ، والنقول عنهم تابتة متواترة‘‘
    ’’اہل بیت بنو ہاشم کے تمام تابعی علماء اسی طرح حضرت حسین بن علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہم کی اولاد میں سے تبع تابعی اہل علم سے صحیح طور پر منقول ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے اور ان دونوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے ۔ اور ان سے یہ نقول تواتراً ثابت ہیں‘‘۔[منہاج السنۃ:۴؍۱۰۵]
    اس کے بعد انہوں نے ان کے ان اقوال کے مخارج و مراجع ذکر فرمائے ہیں ، شائقین ان کی مراجعت کر سکتے ہیں۔یہاں اس کی تفصیل طوالت کا باعت ہوگی۔
    ہماری ان گزارشات سے واضح ہوجاتا ہے کہ خطبۂ غدیر خم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت کا قطعاً اعلان نہ تھا ، البتہ اہل بیت بالخصوص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مودت و اخوت کا ناتا رکھنے کی تاکید تھی ۔اہل بیت میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خصوصی طور پر ذکر ایک پس منظر کی بنا پر تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اہل بیت میں سے کسی کا ذکر نہیں فرمایا ، بالخصوص حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی۔ اگر آنحضرت ﷺ کو ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا علم ہوتا (جیسا کہ روافض آنحضرت ﷺ کو عالم الغیب قرار دیتے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ) تولخت جگر کے بارے میں وفاداری کی نصیحت ضرور فرماتے ۔اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ان کی امامت کے لیے نہیں تھا ، بلکہ لشکر کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جو شکوہ و شکایت تھی اس کے ازالے کے لیے ان کے مقام و مرتبے کا ذکر فرمایا ہے ۔
    یہ لشکر مدینہ طیبہ کے افراد پر مشتمل تھا اس لئے آنحضرت ﷺ جب حج سے فارغ ہوکر مدینہ طیبہ کے راستے پر تھے تو غدیر خم کے مقام پر انہی کو یہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اگر امامت و خلافت جیسے اہم مسئلے کا اعلان مقصود ہوتا تو اس کا محل مکہ مکرمہ تھا جہاں میدان عرفات اور منیٰ میں آنحضرت ﷺ نے خطبات ارشاد فرمائے اور ہر چہار جانب سے آنے والے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے سب کو وہ خطبات سنوارہے تھے، چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن معاذ تیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ہمارے کانوں کو کھول دیا گیا ، یہاں تک کہ ہم جہاں جہاں اپنے خیموں میں تھے اور آپ ﷺ جو کچھ فرما رہے تھے ، ہم سن رہے تھے ۔ [ابوداؤد مع العون :۲؍۴۴، نسائی ]
    اس لیے امامت کے اہم مسئلے کا اگر اعلان مقصود تھا توہ وہ عرفات یا منیٰ میں کیا جاتا، تاکہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس سے آگاہ ہوجاتے ۔ مگر ایسا نہیں کیا۔ بلکہ جو کچھ فرمایا ، وہ اہل مدینہ سے مدینہ طیبہ کے راستے پر فرمایا اور
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت امامت کے لیے نہیں تھی ، بلکہ ان سے اخوت و مودت کی تاکیدکے لیے تھی کیونکہ اہل مدینہ پر مشتمل لشکر ہی کو ان سے شکوہ تھا ۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings