-
امام ترمذی کے یہاں حسن حدیث کا تصور قسط (۱) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وذكرنا فى هذا الكتاب حديث حسن:فإنما أردنا به حسن إسناده عندنا۔كل حديث يروي :
(۱) ’’لا يكون فى إسناده من يتهم بالكذب۔ (۲) ولا يكون الحديث شاذًّا
(۳) ويروي من غير وجه نحو ذلك فهو عندنا حديث حسن۔
’’ہر وہ حدیث :(۱) جس کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی نہ ہو۔ (۲) شاذ نہ ہو۔
(۳) اور وہ اس طرح ایک سے زائد طرق سے مروی ہو،تووہ حدیث ہمارے نزدیک حسن ہے‘‘
کچھ عرصہ قبل امام ترمذی کی درج بالا’’حدیث حسن‘‘کی تعریف کے حوالے سے بعض حضرات نے اس بات کااظہار کیاکہ اس تعریف سے امام ترمذی صحت حدیث نہیں بلکہ ضعف مراد لیتے ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے شیخ عبدالعزیز طریفی سے نقل کرتے ہوئے کہا:
’’بعض لوگ امام ترمذی کے کلام’’حدیث حسن‘‘سے غلط معنی سمجھ لیتے ہیں کہ امام ترمذی کے اس کلام سے (متأخرین کے نزدیک)اصطلاحی حسن مراد ہے حالانکہ امام ترمذی اس عبارت سے روایت کا ضعف بیان کرتے ہیں‘‘
امام ترمذی کی درج بالاتعریف پر محدثین کی جماعت نے کیاکہااس سے قطع نظر ذرااس تعریف کے مفہوم اورسیاق پرہی غور کرلیاہوتاتوانہیں یہ کہنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔
امام موصوف نے اپنی اس تعریف میں تین باتیں کہی ہیں،انہیں پڑھ کر بتائیں کہ کیاواقعتاامام ترمذی حدیث حسن سے ضعف مراد لیتے ہیں؟ اگرایک لمحے کے لیے اس بات کودرست تسلیم کرلیاجائے توپھر امام صاحب کی یہ بات سراسر مہمل اور بے فائدہ رہ جاتی ہے۔ظاہر ہے جب کوئی حدیث متعدد طرق سے مروی ہونے کے ساتھ ساتھ نہ وہ شاذ ہے اور نہ ہی اسے بیان کرنے والے رواۃ اپنی عدالت سے محروم ہیں،ایسی حدیث اگر قوت نہیں پکڑرہی توپھر اتنی تعریف کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔روایت توویسے ہی ضعیف ہے۔لہٰذا عدم شذوذ، تعدد طرق، اوروجود عدالت کی شرط سراسر فضول اوربے معنی ٹھہرتی ہے۔حدیث کو ان تینوں باتوں کے باوجود بھی ضعیف ہی رہناہے توپھرایسی تعریف بنانے کافائدہ ہی کیا۔
امام ترمذی نے اس تعریف میں بالکل واضح کردیاکہ ضعف دراصل دوقسم کاہوتاہے:
۱۔ خفیف ۲۔ شدید
یہ تقسیم ’’غیرمتهم بالکذب‘‘کی شرط سے واضح ہے۔
اور ضعف ِخفیف متابعت اور شاہد سے زائل ہوجاتاہے۔اس لیے انہوں نے ’’ویروی من غیروجہ‘‘کی شرط لگائی ۔مگر یہ تب جب مدمقابل میں اس حدیث کے مخالف صحیح حدیث نہ ہو۔اس کے لیے انہوں نے’’لایکون شاذا‘‘کی شرط لگائی۔یہ تسلسل حدیث کوتقویت دینانہیں تواورکیاہے۔یہ ترتیب حدیث کوقوت پہنچانے کی طرف لے جارہی ہے یا اسے اپنے حال یعنی ضعف پرقائم رکھ رہی ہے!کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ ایک اظہرمن الشمس بات کوکیاسے کیابنادیاگیا۔ضعف ِخفیف تعدد طرق سے تقویت نہیں لے رہاتوپھر امام ترمذی کوعدم ِضعف ِشدید کی شرط لگانے کی کیاضرورت پڑی جووہ یہ قید لگارہے ہیں۔کیونکہ جب اس شرط کے عدم ِوجودسے حدیث پرصحت وضعف کے حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑرہاتوپھراسے مقرر کرناانتہائی تعجب خیز اور حیرتناک ہے۔بھلاامام ترمذی جیسے عظیم محدث کے متعلق ایساتصورکیسے کیاجاسکتاہے؟
بہرکیف! امام ترمذی اپنی اس تعریف میں ضعف نہیں بلکہ صحت ِحدیث مراد لے رہے ہیں۔ورنہ انہیں ضعفِ خفیف اور ضعف ِشدید کی تفریق کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جاری ہے………