Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اصحاب اعراف: ایک تحقیقی جائزہ

    قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے :
    {وَنَادَي أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَي عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ }
    ’’اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو ان کے قیافے سے پہچانیں گے اور کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا‘‘[الاعراف:۴۸]
    اس آیت میں اصحاف اعراف سے مراد کون ہیں ؟ وہ جنتیوں اور جہنمیوں کو کیسے پہچانیں گے ؟ قیامت کے روز ان کا کیا حشر ہوگا ؟ ان کا آخری ٹھکانہ کیا ہوگا؟ ان تمام نکات پر بحث کرنے سے پہلے آئیے’’اعراف‘‘ کا لغوی و شرعی مفہوم سمجھتے ہیں ۔
    اعراف کی لغوی و شرعی تشریح: (۱) اعراف یہ عُرف کی جمع ہے ۔ جس کا معنی ٰ ہے ’’ظھر کل عالٍ من الرمل و الجبل والسحاب وغیرھا‘‘ ’’ریت ،پہاڑ یا بادل وغیرہ کی اونچائی کو اعراف کہتے ہیں ‘‘ [المعجم الرائد]
    (۲) یہ عُرف کی جمع ہے ۔ جس کا معنی ہے ’’عُرف الجبل و نحوہ ، اعلاہ ، و یطلق علی لسور ایضاً‘‘ ’’پہاڑ کی بلندی ، اس کا اطلاق چہار دیواری پر بھی ہوتا ہے ‘‘ [المعجم الوسیط]
    (۳) امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
    ’’الاعراف جمع واحد ھا عُرف ، وکل مر تفع من الارض عند العرب فھو عرف وانما قیل لعرف الدیک عُرف لارتفاعہ علی ما سواہ من جسدہ‘‘’’اعراف جمع ہے اس کا واحد عُرف ہے ، زمین کے بالائی حصہ کو عرب عُرف کہتے ہیں ۔ اسی طرح مرغ کی کلغی کو بھی عُرف کہتے ہیں چونکہ یہ جملہ جسم کے دیگر حصوں سے اونچا ہوتاہے ‘‘
    اعراف کی شرعی تعریف: اس بارے میں علماء کے متعدد اقوال پائے جاتے ہیں ۔ چند اقوال مندرجہ ذیل ہیں :
    (۱) اعراف وہ اونچی جگہ ہے جہاں سے جنت و جہنم نظرآئیں گے ۔
    (۲) اعراف وہ دیوار ہے جو جنت و جہنم کے درمیان حد فاصل ہے ۔
    (۳) اعراف جنتیوں اور جہنمیو ںکے درمیان حائل پردہ کا نام ہے ۔(مجاہد کا قول ہے )
    (۴) اعراف جنت و جہنم کے درمیان دیوار کا نام ہے ۔(امام قرطبی کا قول ہے )
    (۵) ابن عباس رضـی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’اعراف اس دیوار کا نام ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے جو جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان حائل ہوگی۔
    قارئین کرام : تمام اقوال کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ دراصل اعراف ایک ایسی اونچی دیوار کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت و جہنم کے درمیان قائم کرے گا ۔ جہاں سے اصحاب اعراف جنتیوں اور جہنمیوں دونوں کو جھانکیں گے اور ان کی نشانیوں سے انہیں پہچان لیں گے ۔ اسی طرف اللہ تعالیٰ نے سورہ حدید میں اشارہ کیا ہے :
    {يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَائَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ}
    ’’اس دن منافقین مومنوں سے کہیں گے کہ ہمار ا انتظام کرو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ جواب دیا جائے گا تم اپنے پیچھے ہٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو،پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں رحمت ہوگی (جنت کی طرف کا حصہ ) اور باہر کی طرف عذاب (جہنم کی طرف کا حصہ )‘‘
    گویا قیامت کے دن حساب و کتاب کا مرحلہ ختم ہوجائے گا اور جنتی و جہنمی اپنے ٹھکانوں تک پہنچا دیئے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ایک اونچی دیورا حائل کردے گا اسی دیوار کا نام اعراف ہے۔
    اصحاب اعراف کی وجہ تسمیہ: اصحاب اعراف کو اس نام سے موسوم کیے جانے کی دو وجہیں ہیں :
    (۱) چونکہ اصحاب اعراف جنتیوں اور جہنمیوں کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
    ’’واذا نظروا الي اهل النار وعرفوهم بسوادالوجوه قالوا ربنا لا تجعلنا مع القوم الظالمين ، واذا نظرواالي أهل الجنة عرفوهم بياض وجوهم‘‘
    ’’جب اصحاب اعراف دوزخیوں کو دیکھیں گے تو انہیں ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں ظالم لوگوں میں سے نہ بنا ، اور جب جنتیوں کی طرف دیکھیں گے تو انہیں ان کے چہرے کی سفیدی سے پہچان لیں گے ‘‘
    (۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ اصحاب اعراف’’اعراف پرکھڑے ہوں گے اور اعراف کا مطلب ہی ہے ’’جنت و جہنم کے درمیان اونچی جگہ ‘‘ لہٰذا اعراف کو اس کے معنی سے موسوم کیا گیا ہے ۔ یہی دوسرا قول راجح اور اولیٰ ہے ۔
    اصحاب اعراف کون ہیں ؟ اصحاب اعراف کون ہیں ؟ اس تعلق سے مفسرین کی تعبیر یں مختلف ہیں ۔ اور مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ۔ چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
    (۱ )’’قوم استوت حسناتهم و سيّاتهم فجعلوا هناك الي ان يقضي اللّٰه فيهم ما يشاء ثم يدخلهم بفضل رحمته لهم ‘‘
    ’’اصحاب اعراف سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور گناہ دونوں برابر ہوں گے ۔ ایسے لوگوں کو اعراف پہ رکھا جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں جنت میں داخل کرے گا‘‘(ابن مسعود ،حذیفہ بن یمان ، ابن عباس ، شعبی ،ضحاک اور سعید بن جبیر وغیرھم کا قول ہے)
    (۲) اہل اعراف وہ لوگ ہیں جو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے لیے نکلے اور قتل ہوگئے ۔دخول جنت سے اس لیے روک دیا گیا چونکہ والدین کی مرضی کے خلاف کیا اور جہنم سے اس لیے بچ گئے چونکہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے۔ (یہ رائے شرجیل بن سعد کی ہے )
    (۳) اہل اعراف مومنوں کی ایک با سعادت جماعت ہے جولوگوں کے احوال کا جائزہ لینے کے لئے دونوں جماعتوں کا مشاہدہ کرلے گی ۔(امام شوکانی اور مجاہد)
    (۴) کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انبیاء کی ایک جماعت ہوگی۔
    (۵) ایک قول یہ ہے کہ اصحاب اعراف فرشتوں کی ایک جماعت ہے جو مومنوں اور کافروں کو الگ الگ کرنے کے لیے اس دیوار پر مامور ہوگی۔
    (۶) ایسی جماعت جن سے والدین میں سے کوئی راضی تھا لیکن کوئی راضی نہیں تھا ، لہٰذا اعراف پر روک لیا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرکے جنت میں داخل کرے گا ۔
    (۷) ایک قول یہ ہے کہ اہل اعراف دراصل اولاد الزنا ہیں ۔
    راجح قول : صحابۂ کرام کے اقوال ، آثار اور دیگر اسانید کی روشنی میں پہلا قول راجح اور بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں و برائیاں دونوں برابر ہوں گی ۔
    روزقیامت اصحاب اعراف کی حالت : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میزان قائم کرے گا، محاسبہ شروع ہوگا ،ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
    {وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون۔وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ}
    ’’قیامت کے دن انصاف کا میزان ہوگا لہٰذا جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا ایسے لوگ کامیاب ہوں گے اور جس کا پلّہ ہلکا ہوگا یہ وہ لوگ ہو ں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا ‘‘[الاعراف:۸۔۹]
    گویا جس کی ایک بھی نیکی زیادہ ہوگی جنت میں داخل ہوگا اور جس کا ایک گناہ بھی زیادہ ہوگا وہ جہنم میں داخل ہوگا ، دریں اثناکچھ ایسے لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی وہ اصحاب اعراف ہوں گے ، انہیں صراط پر روک لیا جائے گا ، اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے : {وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَي الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ} [الاعراف:۴۶]اہل جنت اور اہل جہنم کو ان کے ٹھکانوں تک پہنچائے جانے کے بعد ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ڈال دی جائے گی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے۔اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے ’’السلام علیکم ‘‘ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوں گے اورجنت میں داخل ہونے کے امیداوار ہوں گے اور ن کی نگاہیں جب اہل دوزخ کی طرف جا پڑیں گی تو کہیں گے اے اللہ ! ہمیں ان ظالموں کے ساتھ شامل مت کرنا ۔
    اسی طرح اہل جنت کو ایک نور مہیا ہوگا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے لیکن جب صراط پر پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ منافقین کے نور کو سلب کرلے گا ایسے موقع پر اہل جنت کہیں گے {یَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا} ’’مومنین کہیں گے اے اللہ ہمارے نور کو قائم رکھنا اور ہماری مغفرت فرما‘‘[التحریم :۸]
    اوراہل اعراف کا نور ان کے ہاتھو ںمیں رہے گا ۔ اگر چہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے پھر بھی وہ نور کی بقا کے لیے تمناکریں گے ۔ قرآن کی آیت کریمہ ہے :
    {يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَائَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ}
    ’’قیامت کے دن منافق مرداور منافق عورتیں ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنی جگہ لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی‘‘[الحدید:۱۳]
    یہی دیوار ہے جس کا نام اعراف ہے ۔
    اصحاب اعراف کے بارے میں ایک دوسری آیت ہے:
    {وَنَادَي أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَي عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ}
    ’’اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو ان کے قیافہ سے پہچان لیں گے پکارکر کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا ‘‘ [الاعراف:۴۸]
    ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب اعراف کو یہ فضیلت اس لیے بخشی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ جنتی کون ہے اور دوزخی کون ؟ وہ اہل نار کو چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ کر کہیں گے کہ اللہ ہمیں ان ظالموں میں سے نہ بنانا ۔ اور اس حالت میں اہل جنت کو سلام کریں گے اور خود جنت میں داخل نہیں ہوں گے لیکن داخلہ کی امید رکھیں گے ۔
    اہل اعراف کا ٹھکانہ : سورہ اعراف کی آیت ہے :
    {أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ}
    ’’کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اللہ ان پر رحمت نازل نہیں کرے گا ان کو یوں حکم ہوگا کہ جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ ، تم پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ ہی مغموم ہوں گے ‘‘ [الاعراف:۴۹]
    گویا اصحاب اعراف ان کے اعمال برابرہوں گے، اعراف کے اندر رہ کر جنتیوں اور جہنمیوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر جہنم میں ڈالے ہوئے جنت میں داخلہ دے دے گا ۔
    اہل اعراف کی خصوصیات : (۱) اصحاب اعراف کو اللہ تعالیٰ ایسی صلاحیت بخشے گا جس سے وہ اہل جنت اور اہل جہنم کو ان کے قیافے سے پہچان لیں گے ۔ قرآن کی آیت ہے :
    {وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَي الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ }
    ’’جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو انہیں ان کے قیافے سے پہچان لیں گے(کہ یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی‘‘[الاعراف:۴۶]
    (۲) ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ روز محشر ان کے ہاتھوں سے روشنی سلب کر لے گا ۔ جیسا کہ منافقین کے ہاتھوں سے چھین لے گا ۔
    (۳) چونکہ اصحاب اعراف کی نیکیاں اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی ، نہ وہ جنت کے مستحق ٹھہریں گے اور نہ ہی جہنم میں داخل کیے جائیں گے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت و کرم سے جنت میں داخل کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
    {ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ}
    ’’تم لوگ جنت میں داخل ہو جاؤ تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ ہی مغموم رہو گے‘‘[الاعراف:۴۹]
    (۴) اصحاب اعراف وہ لوگ ہیں جو بغیر جہنم میں داخل ہوئے سب سے آخر میں جنت میں داخل کئے جائیں گے ورنہ ایک گنہگار مومن کو جنت میں داخلہ ملنے سے پہلے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتناہوگا ۔
    میزان کو وزن دار بنانے والے اعمال : قرآن و احادیث کی روشنی میں اصحاب اعراف کے احوال کا سرسری جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ روز قیامت فقط ایک نیکی کی کمی کی وجہ سے جنت میں داخل سے روک دیا جائے گا ۔ لہٰذا ہمیں ایسی مشکل گھڑی اور پریشان کن حالات سے بچنے کے لیے کوشش کرنی چاہئے ۔
    احادیث میں ایسی بہت ساری دعاؤں اور کلمات کا تذکرہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے ورد کی تلقین بھی کی ہے جس کی قیمت روز قیامت بہت اعلیٰ ہوگی اور میزان میں بہت وزن دار ثابت ہوں گے ۔ اس کی چند مثالیںمندرجہ ذیل ہیں :
    (۱) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مَا مِنْ شَیْئٍ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ‘‘
    ’’میزا ن میں بہترین اخلاق سے زیادہ وزن دار کوئی عمل نہیں ہوگا‘‘[ابوداؤد:ح:۴۷۹۹،صحیح]
    (۲) ایک دوسری حدیث ہے : ’’کَلِمَتَانِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِی المِیزَانِ، حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ‘‘’’دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزان میں وزن دار اور اللہ کو محبوب ہیں وہ ہیں ’’سبحان اللّٰہ وبحمد ہ‘‘ اور دوسرا کلمہ ہے ’’سبحان اللّٰہ العظیم ‘‘[صحیح البخاری:۶۶۸۲]
    (۳) ایک دوسری حدیث ہے : ’’الطُّهورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ‘‘’’صفائی آدھا ایمان ہے اور کلمہ ’’الحمد للّٰہ ‘‘ میزان بھر دیتا ہے ‘‘[صحیح مسلم:۲۲۳]
    (۴) آپ ﷺ نے فرمایا :’’روز قیامت ایک شخص کے نامۂ اعمال کے ۹۹ رجسٹروں کو میزان کے ایک طرف رکھا جائے گا اور دوسری طرف ایک کارڈ رکھا جائے گا جس پر لکھا ہوگا ’’أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ لہٰذا ۹۹ رجسٹروں والا پلہ اوپر اٹھ جائے اور چھوٹے سے کارڈ والا پلا نیچے جھک جائے گا ۔ اللہ کے نام سے وزن دار کوئی چیز نہ ہوگی ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : [سنن ترمذی:۲۶۳۹،حسن]

مصنفین

Website Design By: Decode Wings