-
علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات تیرہویں و آخری قسط اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت:
’’مبادئی علم عقیدہ ‘‘کی بارہویں قسط میں اسماء و احکام کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت کو اجاگر کیا گیا تھا، اس زریں سلسلے کی یہ آخری کڑی ہے جس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور اور ان کے بارے میں اہل السنہ و الجماع کی وسطیت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں اہل السنہ والجماعہ اہل غلو و اہل جفاء کے مقابلے میں وسطیت پر قائم ہیں :
أولاً:صحابی کی تعریف :
أ۔ صحابی کی لغوی تعریف : صحابی ، یہ ’’صحب‘‘سے ماخوذ ہے، اور وہ ایک ایسی صحیح اصل ہے جو کسی چیز کی مقارنت یا مقاربت پر دلالت کرتی ہے ۔ دیکھیں:[مقاییس اللغۃ:۳؍۳۳۵]
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’لغت میں صحابی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے (کسی کے ساتھ) کم سے کم اتنی مدتِ صحبت گزاری ہو کہ اس پر اسمِ صحبت کا اطلاق ہو سکے، چہ جائے کہ اس کی صحبت طویل ہو، اور اس کی مجالست زیادہ ہو‘‘دیکھیں:[فتح المغیث:۴؍۷۸]
ب۔ صحابی کی اصطلاحی تعریف : صحابی وہ شخص ہے جس نے نبی ﷺسے ایمان کی حالت میں ملاقات کی ہو، اور اسلام پر اس کی موت ہوئی ہو۔دیکھیں:[الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر :۱؍۷]
ثانیًا: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت :
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کو اپنا رب، محمد صلی اللہ علیہ کو اپنا نبی و رسول، اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی تھے۔
لہٰذا انہوں نے عقائد و شرائع کے ایک ایک حرف کی پاسداری کی، اور بوقت ضرورت ہر طرح کی قربانیاں دے کر اپنی رضامندی کا سب سے اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
اس مقدس جماعت کے اخلاق فاضلہ، آداب کاملہ، معاملات طیبہ، اور اعمال صالحہ سے اللہ عزوجل بھی راضی تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں سب سے عظیم بشارت سنائی ہے:
{رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}’’اللہ ان سے خوش ہے، اور وہ اللہ سے خوش ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں؛ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے‘‘[سورۃ التوبۃ:۱۰۰]
یہ وہ مبارک لوگ ہیں، جو دنیا میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے انہیں سب سے بہترین ہونے کی شہادت دی ہے:
’’خير الناس قرني ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم‘‘’’ لوگوں میں سب سے بہتر میرے زمانہ (کے لوگ) ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘[صحیح البخاری: ح: ۳۶۵۱، وصحیح مسلم :ح:۲۵۳۳]
اور اللہ تعالیٰ نے اس مقدس جماعت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت مبارکہ کے ساتھ دو بڑی عظیم نعمتوں سے نوازا تھا:
۱۔ علم نافع ۔ ۲۔ عمل صالح۔
اسی لیے ان کی کمی کوتاہیوں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا}’’جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے‘‘[سورۃ الفتح:۲۹]
اور چونکہ علم نافع اور عمل صالح کا لازمی نتیجہ:رحمت و ہدایت ہے، اس لیے ان کی یہ صفت بتائی گئی:
{أَشِدَّاء ُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَيْنَهُمْ}’’وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل‘‘[سورۃ الفتح:۲۹]
اور فرمایا: {أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُون}’’یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے، اور یہی سیدھے رستے پر ہیں‘‘[سورۃ البقرۃ:۱۵۷ ]
یقیناً صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایمان و یقین، رشد و ہدایت، نیکی و صالحیت، رحمت و رأفت، اور اخلاص و للہیت کے پیکر تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے منہج کو ذریعہ نجات بتایا گیا:
’’وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَي ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ، إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً‘‘، قَالُوا:وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘
’’اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کرباقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اللہ کے رسول!یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے‘‘[جامع الترمذی: ح:۲۶۴۱]
اور خاص طور پر خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقۂ کار کے بارے میں فرمایا:
’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘’’پس میری سنت کو اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقۂ کار کو لازم پکڑے رہنا، (اور) میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے پکڑ لینا (اور اس پر عمل پیرا رہنا)[جامع الترمذی:۲۶۷۶، و سنن أبی داؤد:۴۶۰۷، و سنن ابن ماجہ:۴۲]، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے:[إرواء الغلیل:ح:۲۴۵۵]
اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو مستحقین وعید ٹھہرایا ہے:
{وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَيٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّيٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِيرًا}’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالف کرے گا، اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے گا، تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے، اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں ے اور وہ بری جگہ ہے‘‘[سورۃ النساء:۱۱۵]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میںفرماتے ہیں:
’’من كان مستنا فليستن بمن قد مات، فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة، أولئك أصحاب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم أبر هذه الأمة قلوبا وأعمقها علما، وأقلها تكلفا، قوم اختارهم اللّٰه بصحبة نبيه وإقامة دينه فاعرفوا لهم حقهم وفضلهم فقد كانوا على الهدي المستقيم‘‘
’’جو کسی کی راہ پر چلنا چاہتا ہے وہ گزرے ہوئے لوگوں(سلف) کی راہ پر چلے ،کیونکہ آج زندہ لوگ فتنوں سے مامون نہیں ہیں۔وہ محمد ﷺ کے ساتھی ہیں، اس امت کے سب سے صاف و شفاف دل والے ہیں، گہرے علم کے مالک ہیں، تکلف سے عاری ہیں، وہ ایسی جماعت ہے جسے اللہ نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے اختیار فرمایا تھا، اور اپنے دین کی سربلندی کے لئے منتخب کیا تھا، لہٰذا ان کے حقوق و فضائل کو جانو، کیونکہ یہی لوگ راہ راست پر گامزن تھے‘‘[جامع بیان العلم وفضلہ :۲؍۹۷]
بنا بریں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے منہج کو اپنانا، اور اس کے مطابق عمل کرنا ہی اصل کامیابی اور سعادت مندی کی دلیل ہے۔
بلکہ ان میں سے ہر فرد کی محبت مومنوں کی پہچان ہے، جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وحبہم دین وإیمان وإحسان…‘‘ ’’اور ان کی محبت دینداری، ایمان، اور اخلاص (کی علامت ہے) [العقیدۃ الطحاویۃ (ضمن المتون العلمیۃ؍۳)، ص:۱۶۰]
ثالثًا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ اور ان کے مخالفین کا موقف :
اہل غلو (غلاۃ الرافضۃ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بعض خصائص الہی کا دعوی کیا، اور یہ گمان کیا کہ وہ ہر طرح کے گناہوں سے معصوم ہیں۔دیکھیں:[الفرقان بین الحق والباطل لابن تیمیہ :ص۲۱۔۲۲]
اہل جفاء (روافض، نواصب، اور وعیدیہ):
۱۔ روافض ، انہوں نے صحابۂ کرام کی عام جماعت کو گالیاں دیں، لعن طعن کیا، اور خاص طور پر شیخین – ابو بکر و عمر – رضی اللہ عنہما کو کافر گردانا۔دیکھیں:[الفرقان بین الحق والباطل لابن تیمیۃ: ص:۲۳]
۲۔ نواصب ، جو عموماً صحابہ کو لعن طعن کرتے ہیں، اور خصوصاً آل بیت سے بغض وعناد رکھتے ہیں، اور اپنے اقوال و افعال سے انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔[العقیدۃ الواسطیۃ (ضمن المتون العلمیۃ)،ص:۱۶۳]
۳۔ وعیدیہ :
أ۔ خوارج، انہوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کی، انہیں کافر کہا، ان پر لعنتیں بھیجیں، اور ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے۔دیکھیں:[الفرقان بین الحق والباطل لابن تیمیۃ:ص:۱۹]
ب۔ معتزلہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک گروہ کو فاسق کہا، اور ان کی شہادت کو قابل تردید سمجھا۔ دیکھیں:[تاریخ بغداد للخطیب البغدادی:۱۲؍۱۷۸،ومیزان الاعتدال للذہبی:۴؍۳۲۹]
حالانکہ نبی علیہ السلام نے خاص طور پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی گلوج کرنے سے منع فرمایا ہے:
’’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي؛ فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ‘‘’’میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں)خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد (غلہ) کے برابر بھی نہیں ہوسکتا، اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ہو سکتا ہے‘‘[صحیح البخاری:ح:۳۶۷۳، وصحیح مسلم:ح:۲۵۴۱]
چنانچہ جو بھی اس مبارک جماعت کے کسی بھی فرد کو لعن طعن کرے گا وہ ملعون ہے:
’’من سبَّ أصحابي، فعليه لعنةُ اللهِ، والملائكةِ، والناسِ أجمعِينَ‘‘’’جو میرے صحابہ کو بر بھلا کہے گا اس پر اللہ، اس کے فرشتے، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘[معجم الطبرانی:ح:۱۲۷۴۰، و سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :ح:۲۳۴۰]
بلکہ ان سے بغض رکھنا کفار و منافقین کی پہچان ہے، جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وبغضهم کفر ونفاق وطغیان ‘‘’’اور ان سے بغض رکھنا کفر و نفاق اور سرکشی کی علامت ہے‘‘[العقیدۃ الطحاویۃ (ضمن المتون العلمیۃ؍۴)، ص:۱۶۰]
چنانچہ {لِیَغِیْظَ بِهمُ الْکُفَّارَ}(تاکہ ان سے کافروں کا جی جلے)کا حکم ہر اس شخص پر منطبق ہوگا جو کسی بھی صحابیٔ رسول ﷺ کی کسر شانی کا ارتکاب کرے گا۔ دیکھیں:[السنۃ للخلال:۷۶۰]
اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اہل السنہ والجماعہ اپنی براء ت کا اظہار کرتے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ويتبرؤون من طريقة الروافض الذين يبغضون الصحابة و يسبونهم، وطريقة النواصب الذين يؤذون أهل البيت بقول أو عمل‘‘’’اور (اہل السنہ والجماعہ)روافض کے طریقے سے براء ت کرتے ہیں، جو صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے بغض و عناد رکھتے ہیں، اور انہیں بر بھلا کہتے ہیں، (اور اسی طرح) نواصب کے طریقے سے (بھی) براء ت کرتے ہیں، جو آل بیت کو قول یا عمل سے تکلیف پہنچاتے ہیں‘‘ [العقیدۃ الواسطیۃ(ضمن المتون العلمیۃ)، ص:۱۶۳]
اہل السنہ والجماعہ ، انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی، اور ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ان سے راضی تھا، اور یہ سب اللہ سے راضی تھے، وہ سب کے سب عدل وانصاف پر قائم تھے، اور اس امت کے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کے بعد یہی لوگ سب سے افضل ہیں، انہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کی، اور انہی کی بدولت عقیدہ ایمان کو قائم کیا، جو بالکل صاف ستھرا ہے۔دیکھیں:[عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابونی:ص۸۶،۹۰،۹۳]
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا مجمل اعتقاد :
۱۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت مسلَّم ہے۔
۲۔ ان کے درجات متفاضل ہیں۔
۳۔ ان سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔
۴۔ ان کے لیے دعا کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔
۵۔ ان کا ذکر خیر کیا جائے۔
۶۔ ان کی رحمت و رأفت کی گواہی دی جائے۔
۷۔ ان کی بشری غلطیوں پر سکوت اختیار کیا جائے۔
۸۔ ان کے آپسی اختلافات پر خاموشی اختیار کی جائے۔
۹۔ ان کے ساتھ جو بغض رکھے، ان سے بغض رکھا جائے۔
۱۰۔ ان کے منہج اور طریقہ ٔکار کی اتباع کی جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج دو اصولوں پر قائم ہے:
۱۔ سلامتِ قلب ۔ ۲۔ سلامتِ لسان ۔
ان دونوں اصولوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے بیان فرمایا ہے:
{وَالَّذِينَ جَاء ُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَء ُوفٌ رَّحِيمٌ}
’’اور (ان کے لیے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما، اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘[سورۃ الحشر:۱۰۰]
أ ۔ آیت کریمہ کا پہلا جزء: {یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ} ’’سلامت لسان ‘‘ پر دلالت کرتا ہے۔
ب ۔ جبکہ آیت کریمہ کادوسرا جزء:{وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَء ُوفٌ رَّحِیمٌ}’’ سلامت قلب ‘‘پر دلالت کرتا ہے۔
مومنین کی یہ بڑی عظیم صفت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے تئیں ان کے دل بغض و عناد سے پاک، ان کی زبان لعن و طعن، اور سب و شتم سے سالم رہتی ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن أصول أہل السنۃ والجماعۃ:سلامۃ قلوبہم و ألسنتہم لأصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘’’اور اہل السنہ والجماعہ کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی اصل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ان کے دل پاک و صاف، اور ان کی زبانیں سالم رہتی ہیں‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ (ضمن المتون العلمیۃ)، ص:۱۵۷]
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک جماعت کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا اعتقاد، اور ان کے بنیادی اصولوں سے واضح ہے کہ وہی اہل غلو و اہل جفاء کے درمیان وسطیت پر قائم ہیں۔
وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین