Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • قرآن اور رمضان

    ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جسے ہم جامع العبادات سے تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ اس مہینے میں بیک وقت کئی عباتیں جمع ہوجاتی ہیں جن کی انجام دہی سے ہم ڈھیر سارے اجروثواب کا مستحق بن سکتے ہیں اللہ ہم تمام کو اس ماہ مبارک سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرماے ۔آمین
    اس ماہ کی اہم عبادتوں میں ایک اہم ترین عبادت تلاوت قرآن مجید ہے قرآن مجید کا ماہ ِرمضان سے ایک گہری مناسبت ہے کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس سے قرآن کی مناسبت کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا :
    {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ}
    ’’رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘[البقرۃ؍۱۸۵]
    ماہ رمضان اور قرآن کی اسی باہمی مناسبت کی بنیاد پر حضرت جبرئیل اسی ماہ میں بلاناغہ نبی ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے تھے ۔جیسا کہ نبی ﷺنے خود بیان فرمایا:
    ’’إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي القُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَنِي العَامَ مَرَّتَيْنِ‘‘’حضرت جبرئیل ہر سال ماہ رمضان میں ایک بار قرآن کا دور کرتے تھے اس سال رمضان میں دو بار دور کرایا ہے‘‘ [ بخاری:۳۶۲۴]
    ماہ رمضان میں قرآن کی تلاوت کرنا ایک عمدہ عبادت ہے اسی لیے اس ماہ کی اہم ترین عبادت نماز تراویح میں قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس عبادت کے حوالے سے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘
    ’’جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کیا تو اس کے پچھلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے ‘‘[بخاری:۳۷]
    اسی وجہ سے سلف صالحین ماہ رمضان میں دیگر مشغولیات سے اپنے آپ کو فارغ کر لیتے اور کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت میں خودکو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ،تلاوت قرآن سے متعلق بعض نکات کی وضاحت اس مختصر مضمون میں مقصود ہے ۔
    ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ: بعض احباب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کی صرف تلاوت کرنا مفید نہیں ہے جب تک کہ اس کا معنی ومفہوم نا سمجھا جائے ، جبکہ دلائل کا تجزیہ کرنے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ بلا شبہ قرآن پڑھنے کا مطلب اس کے معانی پر غور کیا جائے اور اس کی تعلیمات اپنی زندگی میں داخل کی جائیں مگر یہ کہنا کہ جب تک معنی نا سمجھا جائے قرآن کی تلاوت کا ثواب نہیں ملتا یہ بات قطعاً غلط ہے، قرآن کی تلاوت پر ثواب کی بشارت پیش کرنے والی مشہور روایت کو بغور پڑھا اور سمجھا جائے تو ان شاء اللہ یہ مسئلہ مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے، لیجیے اس روایت کو ہم پیش کرکے اس اشکال کا ازالہ کردیتے ہیں ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللّٰهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ‘‘
    ’’جو شخص قرآن مجید سے ایک حرف پڑھتا ہے اسے ایک نیکی ملتی ہے اور ایک نیکی کابدلہ دس گناہے میں نہیں کہتا ’’الم‘‘ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے ‘‘[ترمذی:۲۹۱۰]
    اس روایت میں معنیٰ فہمی کا اشارہ تک موجود نہیں ہے اور جس ثواب کی خوشخبری سنائی گئی اس کے لیے معنیٰ کی معرفت مطلوب نہیں ہے ،اس بات کی وضاحت اسی روایت میں موجود ہے کیونکہ نبیﷺنے ثواب کا تذکرہ کرنے کے بعد حروف مقطعات کی مثال دی ہے اور مفسرین نے حروف مقطعات کے سلسلے میں یہی کہا ہے کہ:اللّٰہ اعلم بمرادہ ، اور مزید یہ کہ نبی ﷺ نے حرف کا تذکرہ کیا ہے ناکہ کلمہ یا جملہ کا، اگر معنی فہمی کے ساتھ اس ثواب کو مشروط قراردینا مقصود ہوتا تو آپ ﷺ حرف کے بجائے بامعنیٰ کلمہ یا کوئی ایسی مثال پیش کرنے کی زحمت کرتے جس کا مفسرین اور اہل لغت نے کچھ معنیٰ بیان کیا ہوتا اور جب حدیث میں ایسا نہیں کیا گیا تو یہ شرط لگانا خود حدیث کے ذریعہ باطل قرار پاتا ہے ۔
    قرآن کو تین دن سے کم میں ختم کرنے کا مسئلہ: بلاشبہ عمومی حالات میں تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کرنے سے روکا گیا ہے جس کی ممانعت سے متعلق صریح روایت موجود ہے چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے اس بابت نبی ﷺ سے سوال کیا تو رسول ﷺ نے انہیں کم سے کم سات دن بتایا پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ‘‘
    ’’یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا ‘‘[احمد:۶۵۳۵]
    اس حدیث سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت ثابت ہورہی ہے مگر اہل علم کے معمولات اور ان کی تصریحات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان روایات سے عمومی معمول میں ممانعت ہے لیکن مخصوص اوقات میں تین دن سے کم میں بھی قرآن ختم کرنا جائز ہے بالخصوص رمضان جیسے مبارک مہینے میں تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا جائز ہوگا ۔ چنانچہ علامہ ابن رجب حنبلی ماہ رمضان میں سلف صالحین میں سے کئی لوگوں کے تلاوت قرآن کی کثرت کا بالتفصیل تذکرہ کرتے ہوئے اس نکتے کی وضاحت میں رقمطراز ہیں :
    ’’وإنما ورد النهي عن قراء ة القرآن فى أقل من ثلاث على المداومة على ذٰلك فأما فى الأوقات المفضلة كشهر رمضان خصوصا الليالي التى يطلب فيها ليلة القدر أو فى الأماكن المفضلة كمكة لمن دخلها من غير أهلها فيستحب الإكثار فيها من تلاوة القرآن اغتناما للزمان والمكان وهو قول أحمد وإسحاق وغيرهما من الأئمة وعليه يدل عمل غيرهم‘‘
    [لطائف المعارف لابن رجب:ج:۱،ص:۱۷۱]
    یعنی امام احمد اور امام اسحق بن راہویہ رحمہما اللہ کا موقف بیان کرتے ہیں کہ یہ ائمہ ماہ رمضان میں تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کو مستحب قرار دیتے ہیں اور یہی موقف محدث ہند علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب مرعاۃ المفاتیح میں مختار اور پسندیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں عبد اللہ بن عمرو کی حدیث میں تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے میں نفی فہم مراد ہے ناکہ نفی ثواب ، علامہ رحمہ اللہ اس مسئلے پر اپنی کتاب میں بڑی نفیس اور عمدہ بحث کرنے کے بعد اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’والمختار عندي ما اختاره الإمام أحمد وإسحاق بن راهوية‘‘[مرعاہ المفاتیح :ج:۷ص:۲۸۳]
    اس لیے درست بات یہی ہے کہ عام دنوں میں تین دن سے کم میں قرآن ختم ناکیا جائے لیکن رمضان جیسے مبارک مہینے میں اس سے بھی کم مدت میں کثرت تلاوت سے قرآن ختم کیا جائے تو یہی بہتر ہے ،اسی طرح جو لوگ تراویح میں لمبی قرأت سنتے ہیں اور ایک ہی مسجد میں پورے رمضان میں کئی بار قرآن ختم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں انہیں بھی معتوب نہیں ٹھہرایاجاناچاہیے البتہ اگر ایک بار کچھ ہی دنوں میں تراویح میں پورا قرآن سن کر پھر نماز تراویح ہی سے غفلت برتنے لگ جائیں تو یقینا ان کا یہ عمل پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،ہمارے یہاں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ تراویح میں پورا قرآن سننے کا التزام برتتے ہیں چاہے وہ پانچ ہی دن میں ختم ہوجائے جبکہ رمضان کی عبادتوں میں تراویح میں پورا قرآن سننے کے بجائے پورے رمضان تراویح کی پابندی کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے جو فضیلت بتائی ہے وہ پورے رمضان کی مناسبت سے ذکر کی ہے چنانچہ حدیث میں کچھ اس طرح کہا گیا ہے :ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا:
    ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘ [بخاری:۳۷]
    یہاں حدیث میں ’’قام رمضان‘‘کہا گیا نا کہ قرآن سننے کی بات کہی گئی ہے اس لئے اس پہلو پر توجہ دینے کی خاص ضرورت ہے ۔
    رمضان میں قرآن کب پڑھنا بہتر ہے ؟ ماہ رمضان میں قرآن پڑھنا بہتر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس وقت پڑھنا زیادہ بہتر ہوگا تو اس سلسلے میں نبی ﷺ کا جبرئیل کے ساتھ دورکرنے والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر اوقات کے بالمقابل رات میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔چنانچہ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں:
    ’’كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِننَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ ‘‘
    [بخاری:۶]
    سب سے زیادہ سخاوت آپ رمضان میں کرتے تھے جب جبرئیل آپ ﷺ سے ملنے کے لئے آتے اور جبرئیل رمضان کی ہر رات آپ ﷺ سے ملنے کے لئے آتے ۔
    مذکورہ حدیث میں جبرئیل کی آمد اور نبی ﷺ کا ان کے ساتھ دور کا وقت رات کو بتلایا گیا ہے اس لئے اہل علم نے لکھا ہے کہ رمضان میں تلاوت قرآن کے لیے بہتر وقت اس کی راتیں ہیں اس لیے اولاً تو ہمیں ماہ رمضان میں جس قدر ممکن ہو کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے بالخصوص رمضان کی راتوں میں اس کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔
    اسی طرح بعض متکلم فیہ روایات میں قرآن کی روزہ کی طرح سفارش کا تذکرہ بھی ہے کہ روزہ کہے گا میں نے روزہ دار کو کھانے سے روکا قرآن کہے گا میں نے سونے اور نیند سے روکا ، یعنی قرآن پڑھنے کا تذکرہ رات کے حوالے سے ہونا ہی رات میں پڑھنے کی بہتر ی کی دلیل ہے ۔
    اور دوسرے ناحیہ سے دیکھیں تو تلاوت کے لیے ایک بہتر وقت نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نماز عصر سے لے کر غروب شمس تک ہے ،کیونکہ یہ وہ اوقات ہیں جن میں اذکار کرنا سب سے افضل ہے بقول علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اذکار کے لیے سب سے افضل اوقات یہی ہیں اور ظاہر سی بات ہے قرآن افضل الذکر ہے اس لیے یہ اوقات بھی تلاوت قرآن کے لیے انتہائی موزوں اور مناسب ہوں گے اور مزید یہ کہ بعض عرب اہل علم کے دروس میں یہ بات بتائی گئی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بالخصوص فجر کے بعد تلاوت قرآن کا معمول بنا رکھی تھیں اس لیے اس وقت تلاوت کی افضلیت کی یہ بھی ایک صریح دلیل ہے ۔ مزید یہ کہ ان دو اوقات میں ذکر واذکار کی ہمیں تاکید بھی ملتی ہے چنانچہ اسی سلسلے میں اللہ کا ارشاد ہے:
    {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا}
    ’’اورسورج کے طلوع وغروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی تحمید اور تسبیح بیان کیجئے‘‘[طہ:۱۳۰]
    {وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا } ’’اور صبح شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیجئے ‘‘[الدھر:۲۵]

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings