Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • امام ترمذی کے یہاں حسن حدیث کا تصور قسط (۲)

    نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ،وبعد!
    کچھ عرصہ قبل امام ترمذی کی حسن اصطلاح کے حوالے سے شیخ عبدالعزیز طریفی سے نقل کیاگیا کہ :
    ’’بعض لوگ امام ترمذی کے کلام ’’حدیث حسن‘‘سے غلط معنی سمجھ لیتے ہیں کہ امام ترمذی کے اس کلام سے (متأخرین کے نزدیک)اصطلاحی حسن مراد ہے حالانکہ امام ترمذی اس عبارت سے روایت کا ضعف بیان کرتے ہیں‘‘ ۔
    جس کے رد پرہم نے ایک مقالہ تحریرکیاکہ اگر واقعتاامام ترمذی رحمہ اللہ کایہی موقف ہوتاجیساباورکرایاجارہاہے تو پھر انہیں ایسی اصطلاح بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی،نیز ان کاکسی حدیث میں تعدد طرق کے ساتھ غیرمتہم راوی کی شرط لگانا ثابت کررہاہے کہ یہاں وہ ضعف ِخفیف اور ضعف ِشدید کی بات کررہے ہیں، حسن میں ضعف ِخفیف کی شرط لگانا اس بات کی وضاحت کررہاہے کہ یہاں یہ ضعف تعدد ِطرق سے زائل ہوجاتاہے۔ورنہ عدم ِشذوذ، تعدد کی شرط اور اسی طرح ضعف ِخفیف کی قید لگانا بالکل ہی بے معنی اور مہمل رہ جاتاہے۔ظاہر ہے جب روایت تعددِ طرق، عدم ِشذوذ اور ضعف ِشدید کے باوجود بھی قوت نہیں پکڑتی ہے توپھر یہ ضعف ِخفیف وضعف ِشدید کی تفریق کسی کام کی نہیں۔لہٰذا ماننا پڑے گا کہ یہ تسلسل قطعی طور سے روایت کی تقویت پردلالت کررہاہے۔ورنہ جب ایک طریق سے مروی ضعیف روایت کانتیجہ بھی ضعیف ہونا ہے اور متعدد طرق کانتیجہ بھی ضعیف ہی ہوناہے توپھر تعددِ طرق کی شرط لگانا سراسر فضول ٹھہرتی ہے۔وغیرہ وغیرہ
    ہماری اس تحریر پر ایک صاحب نے یوں تبصرہ کیا:
    شاہ صاحب آپ اہل ِعلم کے کلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا یہ سطور نہ لکھتے ۔اگر آپ نے لکھ ہی دیا ہے تو ہم بھی کوشش کریں گے کہ آپ پر ’’غیر متھم بالکذب‘‘کا معنیٰ واضح کر دیں۔
    اس کے بعد آج پھر ہم نے شیخ عبدالعزیز طریفی کے کلام پرمزید تنقیدی پوسٹ نشرکی، جس پر انہی صاحب نے اپنی رائے یوں پیش کی :
    آپ کی یہ تحریر یقیناً اہل ِعلم کے کلام کا استقراء نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔شیخ طریفی رحمہ اللہ کا یہ تفرد نہیں ہے بلکہ معاصرین میں سے ہی محدث سلیمان العلوان حفظہ اللہ ،محدث عبداللہ السعد حفظہ اللہ اور استاذ حاتم العونی حفظہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
    جہاں تک امام ترمذی کی اپنی حسن والی اصطلاح میں غیرمتہم راوی کی شرط کاتعلق ہے تواس حوالے سے محدثین مثلاً : ابن الصلاح اور ابن حجر وغیرہ نے اسے معروف معنوں پرہی محمول کیاہے۔اب اگر موصوف اس سے کچھ اور مطلب مرادلیتے ہیں تواس کی وضاحت کردیں، اگرچہ انہوں نے اس کی وضاحت دینے کابھی کہاتھا۔مگر ابھی تک جواب ندارد!
    محترم قارئین! موصوف کے دونوں تبصروں میں ایک بات مشترک ہے کہ میں نے غیرمتہم کا معنیٰ بیان کرنے اور اسی طرح امام ترمذی کی حسن کی تعریف کوامام ترمذی کے نزدیک عدم ِحجیت کومنسوب کرنے میں شیخ عبدالعزیز طریفی کواس رائے میں منفرد سمجھنے میں اہل علم کے کلام کااستقراء نہیں کیا۔ورنہ ہم قطعاًیہ موقف نہ اپناتے۔یعنی یہ موقف کہ امام ترمذی کا حسن سے حجیت ِحسن کا قائل ہونا۔
    موصوف کے اس عدم استقراء والا طعنہ بھی عجیب محسوس ہوا۔ان کے مطابق ہم نے بغیرتحقیق کے صرف ہوائی فائرکیاہے۔حالانکہ ہمارے قارئین اوراسی طرح اہل علم کاطبقہ بخوبی جانتاہے کہ ہم ایک عرصہ سے علم حدیث اور فن رجال پرلب کشائی کررہے ہیں، مسئلہ تدلیس ہو، حسن لغیرہ، ائمہ متساہلین، روات کی جرح وتعدیل، احادیث کی تصحیح وتضعیف۔ہمارامحبوب مشغلہ یہی علوم وفنون ہیں، اور آئے دن ہم اس پرکچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔والحمدللّٰہ علٰی ذالک۔بحمداللہ جنون کی حدتک ان علوم سے ہراعتبارسے وابستگی ہے۔مگراس کے باوجود موصوف کاہمیں اس قسم کے طعن سے مطعون کرنانہایت ہی عجیب لگا۔خیرعلم کااحاطہ مشکل ہے اور نہ ہی ہرکسی کے بس کی یہ بات ہے۔ لیکن بہرحال موصوف نے جوہمیں طعنہ دیاہے تویہ بہرکیف درست نہیں۔کیونکہ غیرمتہم راوی کے حوالے سے محدثین کی آراء اوراقوال دیکھنے کے بعد ہی ہم نے یہ رائے قائم کی۔بلکہ معاصرین اہل علم بھی میری اس بات سے متفق ہوں گے۔
    رہامسئلہ شیخ عبدالعزیز طریفی کوحجیت ِحسن میں میرامنفردقرار دینا…اور موصوف کاان کی موافقت میں شیخ سلیمان العلوان، شیخ عبداللہ السعد اور شیخ شریف حاتم العونی کوپیش کرناتویہ میرے لیے مضرنہیں۔کیونکہ :
    اولاً: یہ تینوں ائمہ ناقدین نہیں، کہ ان کی بات قابل مسموع وقابل التفات ہو،میں نے ائمہ جرح وتعدیل کی بات کی ہے۔ظاہر ہے اس فن پرگفتگوکرنے میں اہل ِفن ہی مراد ہوتے ہیں۔میری مراد جوائمہ ناقدین گزرچکے ہیں ان میں سے کسی امام ومحدث نے ایسی توجیہ اور مفہوم پیش نہیں کیاجوشیخ عبدالعزیز طریفی پیش کررہے ہیں، لہٰذا ان کے مقابلے میں بطورتائید دوسرے غیرناقدین کوپیش کرنا گویاہمارے مطلب ومدعاسے ناواقفیت کی دلیل ہے۔موصوف ہمیں استقراء نہ کرنے والا قراردینے کے بجائے ذرااپنی اداؤں پرغورفرمالیں۔
    ثانیاً: میں حیران ہوں یہاں یہ حضرت اپنی بات کومنوانے کے لیے معاصراہل علم کوپیش کرنے سے نہیں کتراتے۔ مگر جب بات اپنے خلاف ہوتوابن حجر، ذہبی وغیرہ جیسے کئی ایک ائمہ کومتأخرین کہہ کران کی بات کوڈنکے کی چوٹ پررد کرتے نظرآتے ہیں۔کیایہ انصاف ہے! اپنے مقصد کی وجہ سے ائمہ ناقدین کوچھوڑ کرغیرناقدین کو بطورتائیدکے پیش کرنا دراصل ڈوبتے کوتنکے کاسہارالینے کے مترادف ہے۔
    ثالثاً: شیخ سلیمان العلوان کے کلام کاتومجھے علم نہیں، باقی شیخ شریف حاتم العونی کا’’شرح الموقظۃ‘‘ میں جوکلام ہے وہ توسراسر موصوف کے برعکس ہے۔اس میں انہوں نے توواضح طورپرلکھاہے کہ امام ترمذی کی اس حسن سے مراد ان کے ہاں یاتوحدیث صحیح درجہ اولیٰ ہے یاپھر آخری درجہ۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں :
    ’’ومازلت الی الیوم مترددا فی مراد الترمذی من الحدیث الحسن، مع تعریفہ ھولہ، ومع استخدامہ لہ بکثرۃ، لانہ مازال فی تعریف الترمذی للحسن اشکال‘‘۔
    ’’إلا أنني مع هذه الإشكالات أرجح معنى خاصا:وهو أن يكون مراد الترمذي بالحسن:هو الحديث الصالح للاحتجاج، وهذايذكرني بقول ابي داؤد:وماسكت عنه فهوصالح۔والمراد بالصالح للاحتجاج انه يمكن ان يحتج به، اي ان ذالك الحديث عندالترمذي مقبول، وقديكون فى اعلي مراتب القبول ك(الصحيح) وقد يكون فى آخرمراتب القبول ك (الحسن لغيره) باصطلاحنا…‘‘ [شرح الموقظة:۳۸]
    دیکھیں! یہاں توشیخ شریف حاتم اس حدتک کہہ گئے ہیں کہ امام ترمذی کے ہاں حسن سے صحیح حدیث مراد ہے یاحسن لغیرہ جوہمارے ہاں مشہوراصطلاح ہے۔’’موصوف اگر شیخ کی اس نص سے دھوکہ کھاگئے ہیں تویہ ان کی غلطی ہے کہ وہ شیخ کے کلام کونہ سمجھ پائے۔اور اگر ان کے پاس کوئی اور نص ہے توپھر براہ کرم ہمیں اس نص سے مطلع فرما کر شکریہ کاموقع دیں‘‘۔
    بہرکیف! ان اہل علم کی بات ہمارے لیے حجت نہیں،اس طرف اگر یہ اہل علم ہیں تودوسری طرف بہت زیادہ معاصر اہل علم بلکہ ناقدین فن ہیں جوان سے مختلف ہیں۔ویسے بھی معاصر اہل علم حجت نہیں، بلکہ حجت دلیل ہے۔اگر ان کے پاس ایسی کوئی دلیل ہے توپیش کریںورنہ ہم توان کی اس بات کارد کرچکے ہیں والحمدللہ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings