-
خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق قسط نمبر :۵ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بڑی نفیس بات فرمائی ہے کہ آیت ِتطہیر کا سیاق ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ہے ، اسی لیے اس کے بعد بھی انہیں مخاطب فرمایا گیا ہے :
{وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَي فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ}
’’اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور حکمت کی باتوںکی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد کرو‘‘ [الاحزاب: ۳۴]
یہ شرف خاص طور پر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو حاصل ہے کہ ان کے گھروں میں وحی نازل ہوتی تھی، ان کے علاوہ کسی اور کے گھر میں وحی کا نزول ثابت نہیں ۔ اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ خاص اعزاز ہے کہ آنحضرت ﷺ ان کے ساتھ لحاف میں لیٹے ہوتے تو اس حالت میں بھی وحی نازل ہوتی تھی، اس لیے اس کا مصداق بہر حال ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں اور وہ اہل بیت ہیں ، مگر آپﷺ کے قرابت دار بھی آیت ِتطہیر کا مصداق ہیں۔
اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
{لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَي التَّقْوَي مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ }
’’یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوے پر رکھی گئی ہے‘‘[التوبہ:۱۰۸]
سیاق و سباق کے اعتبار سے اس مسجد سے مراد قبا ہے کیوں کہ اس کی بنیاد مسجد ضرار کے برعکس پہلے روز سے تقوے پر تھی، لیکن حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے مسجد کے بارے میں بحث کی کہ اس آیت میں کو ن سی مسجد مراد ہے ۔ ایک نے کہا کہ مسجد قبا مراد ہے اور دوسرے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد مراد ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا :
’’ھو مسجدی ھذا‘‘
’’وہ میری یہ مسجد ہے ‘‘[ترمذی:رقم:۳۰۹۹](امام ترمذی رحمہ اللہ اسے ’’حسن صحیح ‘‘ کہاہے)
یہ بات آنحضرت ﷺ نے دیگر کتب احادیث و تفاسیر میں منقول ہے ۔ دیکھیے : (تفسیر ابن کثیر :۲؍۵۱۲،۵۱۳)
جیسے یہاں سیاقِ قرآن میں تو مسجد ِقبا مراد ہے ، مگر آنحضرت ﷺ نے اس میں اپنی مسجد مبارک کو بھی شامل فرمایا ہے، بالکل یہی معاملہ آیت ِتطہیر کا ہے کہ سیاق و سباق تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ہے ، مگر آنحضرت ﷺ نے ان کے ساتھ حضرت علی وغیرہ رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کیا ہے ۔ (ابن کثیر)
یہی بات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی منہاج السنہ (۴؍۲۱) میں فرمائی ہے ۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا فرمان:
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت خطبۂ غدیر خم کے حوالے سے ہم بحوالہ صحیح مسلم (رقم:۲۴۰۸) نقل کرآئے ہیں جس کے آخر میں تین بار یہ فرمان ہے :
’’اذکرکم اللّٰہ فی اھل بیتی‘‘
’’ میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں اپنے اہل بیت کے بارے میں ‘‘
حصین بن سبرہ رحمہ اللہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ ﷺ کی بیویاں آپ کے اہل بیت نہیں ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا :
’’نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ‘‘۔ قَالَ:وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ:’’هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ‘‘۔ قَالَ:كُلُّ هَؤُلَائِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ:’’نَعَمْ‘‘۔
’’آنحضرت ﷺ کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر آپ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے‘‘۔حصین بن سبرہ رحمہ اللہ نے کہا :وہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: ’’وہ حضرت علی ، حضرت عقیل ، حضرت جعفر اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آل واولاد ہے ‘‘ ۔حصین رحمہ اللہ نے پوچھا:کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ انہوں نے فرمایا:’’ہاں‘‘۔[صحیح مسلم :۲۴۰۸]
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہیں۔
رہی یہ بات کہ اہل بیت سے مراد وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے تو کیا ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے صدقہ حرام نہیں تھا ؟حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر چہ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ نے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اس حرمت کے حکم میں شام نہیں ، مگر امام خلال رحمہ اللہ نے بواسطہ ابن ابی ملیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’انا آل محمد ﷺ ، لا تحل لنا الصدقة‘‘
’’ہم حضرت محمد ﷺ کی آل ہیں ، ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے ‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند حسن ہے اور اسے ابن ابی شیبہ (رقم :۱۰۸۱۱، ۳۷۶۶۲) نے بھی روایت کیا ہے ۔[فتح الباری:۳؍۳۵۶]
یہی بات علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے ۔[عمدۃ القاری:۹؍۸۷]
آل نبی ﷺ کون کون ہیں ؟
پہلے یہ دیکھیے کہ ’’آل ‘‘ کے بارے میں ائمہ لغت نے کیا کہا ہے ، چنانچہ علامہ راغب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ ’’آل ‘‘ اصل میں ’’اھل‘‘ہے کیوں کہ اس کی تصغیر ’’اھیل‘‘ آتی ہے ۔ ’’ھ‘‘ کو ہمزہ سے بدلا گیا تو یہ ’’أَئُ ل‘‘ ہوا ۔ اس کے ثقل کو دور کرنے کے لئے ’’آل ‘‘ کہا گیا۔
بعض نے کہا ہے کہ ’’آل‘‘ دراصل بمعنی شخص ہے ۔ اس کی تصغیر ’’أوَیْل‘‘ہے ۔ یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کا دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو، قریبی رشتہ دار یا ویسے تعلق ہو ، جیسے : آل ابراہیم ، آل عمران ، آل فرعون ۔ (مفردات)
علامہ فیروزآبادی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں یہ تین معنوں میں مستعمل ہے۔
(۱) بمعنی قوم اور متبع ، جیسے آل فرعون ہے ۔
(۲) بمعنی اہل بیت اور جو گھر میں موجودین ہیں ، جیسے سورۃ القمر آیت ۳۴ میں ہے :
{إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ}
’’بے شک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ایک ہوا بھیجی ، سوائے لوط کے گھر والوں کے ‘‘
(۳) قرابت دار اور تمام اولاد ، جیسے آل ابراہیم اور آل عمران فرمایا گیا ہے ۔ [بصائر ذوی التمییز :۲؍۱۶۲]
’’آل‘‘ کی اضافت کسی اسم نکرہ ، یا زمانہ ، یا مکان کی طرف درست نہیں، اس لیے ’’آل رجل‘‘ اور ’’آل مکان‘‘کہنا درست نہیں۔البتہ اہل مکان ، اہل بلد ، اہل زمن درست ہے ، بلکہ اس کی اضافت ناطقین انسان میں ہمیشہ عَلَم کی طرف ہوتی ہے ،اسی طرح یہ ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہوتا ہے۔
’’آل النبی ﷺ‘‘ سے کون مراد ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے:
۱۔ بعض نے کہاہے کہ اس سے مراد وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔
وہ کون ہیں ، اس میں پھر اختلاف ہے : (۱) وہ بنو ہاشم ہیں ۔(۲) وہ بنوہاشم اور بنو عبد المطلب ہیں ۔(۳) وہ بنو ہاشم اور ان سے اوپر سب بنوغالب ہیں ۔
۲۔ دوسرا قو ل یہ ہے کہ اس سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور نبی ﷺ کی اولاد مراد ہے ۔
۳۔ اس سے قیامت تک نبی ﷺ کے تمام متبعین مراد ہیں ۔
۴۔ اتقیاء و اولیاء مراد ہیں ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’حلاء الافھام‘‘ میں ان چاروں اقوال کے دلائل ذکر کیے ہیں ۔ اسی بحث کے لیے ، نیز نبی ﷺ کے قرابت دار کون کون ہیں ، اس کے لیے دیکھیے :[ فتح الباری :۳؍۳۵۴،۷۸۷، ۱۱؍۱۶۰، المجموع: ۳؍۴۶۶، احکام القرآن لابن العربی، الشفاء مع شرح نسیم الریاض وغیرہ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ، جسے اوپر ہم نے ابن ابی شیبہ اور ابن حجر کے حوالے سے نقل کیا ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ’’آل ‘‘ میں شامل ہیں اور ان پر بھی صدقہ حرام ہے ۔ گو اس مسئلے میں اختلاف ہے ، لیکن ایک قول یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی بیویاں ’’آل ‘‘میں شامل ہیں ، چنانچہ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف کے عموماً الفاظ ہیں :
’’اللّٰهم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد ‘‘
جبکہ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یوں پڑھو:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘
[صحیح بخاری:رقم:۶۳۶۰، صحیح مسلم:رقم:۴۰۷، مؤطا، ابوداؤد، النسائی وغیرھا]
یہ صحیح حدیث اس بات کی واضح برہان ہے کہ عموماً جو درود شریف میں ’’آل محمد ‘‘ کا لفظ آیا ہے تو اس میں ’’آل ‘‘ سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور آنحضرت ﷺ کی ذریت مراد ہے ۔ [التمہید:۱۷؍۳۰۲،۳۰۳، جلاء الافھام ، ص: ۲۷۶،ط: دارالکتب بتحقیق الشیخ مشہور بن حسن]
علاوہ ازیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’اللَّهُمَّ ارْزُقْ آلَ مُحَمَّدٍ قُوتًا‘‘
’’اے اللہ ! آل محمد کو رزق گزارے کے لائق دے ‘‘[صحیح بخاری :رقم :۶۴۶۰، صحیح مسلم:رقم :۱۰۵۵]
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
’’مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ حَتَّي لَحِقَ بِاللّٰهِ‘‘
’’آل محمد ﷺ نے تین دن گندم کی روٹی سالن کے ساتھ پیٹ بھر کر نہیں کھائی ، تاآنکہ آنحضرت ﷺ اللہ سے جا ملے ‘‘[صحیح بخاری:رقم:۵۴۲۳، ۵۴۳۸، صحیح مسلم :رقم:۲۹۷۰]
یہ احادیث بھی اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ’’آل محمد ‘‘ سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن مراد ہیں ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد اور تمام بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب ان احادیث کا قطعاً مصداق نہیں ہیں ، کیونکہ ان میں اغنیاء بھی تھے ‘‘۔[جلاء الافہام:ص:۲۸۱]
اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے بھی ہوتی ہے ۔ ان کی خدمت میں بہت زیادہ مال آیا تو انہوں نے ایک ہی مجلس میں اسے تقسیم کردیا۔ ان کی لونڈی نے عرض کیا کہ کچھ درہم رکھ لیے ہوتے تاکہ ہم ان سے گوشت خرید لیتے ۔ تو انہوں نے فرمایا :پہلے یاد کرایا ہوتا تو کچھ رکھ لیتی۔ [مستدرک حاکم:۴؍۱۳، ابن سعد :۸؍۶۷، الاستحیاء للدارقطنی:رقم:۳۶،۳۷]
یہی موقف امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے ’’اہل بیت ‘‘ اور ’’آل محمد ﷺ‘‘ میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن شامل ہیں ۔
علاوہ ازیں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ’’آل ابراہیم‘‘ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازواج مراد ہیں ، مگر ’’آل محمد ‘‘ میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن مراد کیوں نہیں؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو صحیح قراردیا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آنحضرت ﷺ کی ’’آل‘‘ میں شامل ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے :[منہاج السنۃ:۴؍۲۱]
حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’آل ‘‘ سے مراد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ہیں ۔ [القول البدیع :ص:۸۲، ط:سیالکوٹ]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بارے میں چار اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد بالآخر فرمایا ہے :
’’صحیح پہلا قول ہے ، اسی کے ساتھ دوسرا قول ملا ہوا ہے ۔ تیسرا اور چوتھا قول ضعیف ہے‘‘۔[جلاء الافھام :ص: ۲۸۶]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا یہ اختصاص ہے کہ ان کا تعلق آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ہے (دوسرے انسانوں کی بیویوں کی طرح نہیں کہ خاوند فوت ہوجائے تو بیوی دوسرا نکاح کرسکتی ہے )، آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی ۔ وہ دنیا میں بھی آپﷺ کی بیویاں ہیں اور جنت میں بھی آپﷺ کی بیویاں ہیں ۔ ان کا تعلق یہ نسب کے قائم مقام ہے ، اس لیے صحیح قول یہی ہے ۔ اور یہ قول امام احمد رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ صدقہ ان پر حرام ہے کیونکہ صدقہ اولاد آدم کا میل کچیل ہے اور اس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان جلیل القدر ہستیوں کو بچایا ہے ۔
باعث تعجب یہ بات ہے کہ بیویاں ’’اللھم اجعل رزق آل محمد قوتا‘‘ میں اور قربانی کے وقت آپ کے فرمان ’’اللھم ھذا عن محمد وآل محمد ‘‘ میں اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول ’’ما شبع آل رسول اللّٰہ ﷺ من خبزبر‘‘ میں اور ’’اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد ‘‘ میںشامل ہوں لیکن ’’ان الصدقۃ لا تحل لمحمد ولالآل محمد‘‘ صدقہ کی حرمت میں آل میں شامل نہ ہوں جبکہ صدقہ اوساخ الناس ہے اور ازواج مطہرات زیادہ حق دار ہیں کہ وہ اس سے بچیں اور اس سے دو ررہیں ۔
رہا یہ سوال کہ اگر صدقہ ان پر حرام ہوتا تو ان کے غلاموں پر بھی حرام ہوتا، جیسے بنوہاشم پر صدقہ حرام ہے تو ان کے غلاموں پر بھی حرام ہے ، جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ دیا گیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے صدقے کو حرام قرارنہ دیا، جیسا کہ صحیح بخاری (رقم:۱۴۹۳)اور صحیح مسلم (رقم: ۱۰۷۵) میں ہے ۔ اسی شبہے کی بناپر عموماً ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر صدقہ حلال قراردیا گیا ہے ۔
مگر اس کا جواب یہ ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر صدقے کی حرمت اصالتاً نہیں ، بلکہ آنحضرت ﷺ کے تابع ہے ، ورنہ نبی ﷺ سے رشتۂ ازدواج سے پہلے ان پر صدقہ حرام نہیں تھا، اس لیے وہ اس حرمت کے حکم میں فرع کی حیثیت سے ہیں ، اور غلاموں پر صدقے کی حرمت ان کے مالک پر حرمت کی فرع کی بنا پر ہے ، اس لیے جب بنو ہاشم پر صدقے کی حرمت اصالتاً ہے تو ان کے غلام ان کے بالتبع ہیں ، مگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پرصدقے کی حرمت اصالتاً نہیں ، بالتبع ہونے کے لحاظ سے ہے تو اس کا اثر ان کے غلاموں پر نہیں ہے کیونکہ وہ فرع کی فرع ہیں۔[جلاء الافھام :ص:۲۸۲،۲۸۳]
اس وضاحت سے یہ بات بالکل نکھر جاتی ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جیسے ’’اہل بیت‘‘ میں شامل ہیں ، بالکل اسی طرح وہ آنحضرت ﷺ کی ’’آل ‘ ‘میں بھی شامل ہیں اور ان پر بھی صدقہ حرام ہے ، جیسے دیگر آل پر حرام ہے ۔ یہی موقف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے ۔ دیکھیے :[منھاج السنۃ:۳؍۱۱۸،۲۵۸]
’’اہل بیت ‘‘اور ’’آل ‘‘کے حقوق :
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن یا دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم ان پر زکوٰۃ و صدقہ حرام ہونے کی بنا پر ان کی ضروریات زندگی کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ مال ِغنیمت میں سے جو خمس ملتا تھا ، اس میں انہیں حق دار بنایا ۔ اور یہی حالت مال ِفَے کی تھی ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَي وَالْيَتَامَي وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ}
’’اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے‘‘[الانفال:۴۱]
یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نام تو بطور اصل مالک کے ہے کیونکہ سب مال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ۔ اصل خمس کے پانچ مصارف ہیں:اس میں سے ایک حصہ آنحضرت ﷺ اپنی اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی ضروریات کے لیے رکھتے تھے ۔ضروریات کے بعد عام مسلمانوں کی مصلحت پر یا جہاد پر خرچ کرتے تھے۔{ِذِی الْقُرْبَی}سے آنحضرت ﷺ کے قرابت دار مراد ہیں اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب تھے۔ انہی دو قبیلوں نے نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا تھا ۔ {َالْیَتَامَی}سے وہ نابالغ بچے مراد ہیں جن کے باپ فوت ہوچکے ہوں۔ {الْمَسَاکِینِ } وہ ہیں جن کی آمدنی ضرورت سے کم ہو{َابْنِ السَّبِیل} یعنی مسافر۔
خمس کے علاوہ باقی مال مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا تھا ۔
رہا مال فَے تو یہ وہ مال ہے جو جہاد کے بغیر محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا ۔ دشمنوں سے کسی مڈبھیڑ کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو فتح و نصرت عطافرماتا ہے اور دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیتا ہے ۔ جیسے یہودیوں کا قبیلہ بنو نضیر تھا جو مدینہ طیبہ سے صرف دو میل کی مسافت پر تھا ،یا بنو قریظہ یا خیبر کا وہ علاقہ جو جنگ کے بغیر فتح ہوا ، جیسے فدک وغیرہ۔
اس مال فَے میں مجاہدین کا کوئی حصہ نہیں ، بلکہ یہ سب انہی پانچ مصارف میں تقسیم کرنے کاحکم ہے جن میں مال ِغنیمت کا خمس صرف کرنے کا حکم ہے ۔ یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے اور اقراب الی الصواب ہے ۔
مالِ فیَ کے بارے میں یہ حکم سورۃ الحشر (آیت :۷) میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
’’كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاء َ اللّٰهُ عَلٰي رَسُولِهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا لَمْ يُوجِفِ المُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، يُنْفِقُ عَلَي أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي السِّلاَحِ وَالكُرَاعِ، عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللّٰهِ‘‘
’’بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فَے عطا فرمائے تھے ، جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھے ۔ آپ ان میں سے اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دیتے اور جوباقی بچتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اسلحے اور گھوڑوں میں صرف کردیتے ‘‘[صحیح بخاری :رقم :۴۸۸۵]
آنحضرت ﷺ کے انتقال کے بعد یہی طریقہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا رہا ، چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی وراثت کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پہلے یہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے :
’’لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ‘‘
’’ہمارا(یعنی انبیاء کا ) کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ‘‘۔
دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی :’’لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا، كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، فَإِنِّي أَخْشَي إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ‘‘
’’میں کوئی ایسی چیز چھوڑنے والا نہیں جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے ،میں ڈرتا ہوں کہ آپ ﷺ کی کوئی بات چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جاؤں‘‘[صحیح بخاری :رقم :۳۰۹۳]
جاری ہے ……
٭٭٭