-
کیا رمضان المبارک میں صدقہ کرنا افضل ہے؟ الحمد للّٰه رب العالمين ،والصلاة والسلام علٰي رسوله الامين،اما بعد:
محترم قارئین! ماہِ رمضان میں سوشل میڈیا پر درج ذیل حدیث امیج کی صورت میں گردش کر رہی ہے:
رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺسے پوچھا گیا:کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:’’رمضان المبارک میں صدقہ کرنا افضل ہے‘‘[سنن الترمذی ، باب ما جاء فی فضل الصدقۃ ، ح: ۶۶۳]
راقم کہتا ہے کہ یہ روایت ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہے۔تفصیل پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۹ھ) فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ:حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَال:حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَي، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ اَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ: ’’اَيُّ الصَّوْمِ اَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ‘‘، قِيلَ:’’فَاَيُّ الصَّدَقَةِ اَفْضَلُ؟ قَالَ:صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسوال کیا گیا:’’رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ تو آپ نے کہا شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم کی وجہ سے ‘‘۔ پھر آپ سے کہا گیا:’’ کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے‘‘۔
(تخریج) [سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :ح:۶۶۳،و فضائل الاوقات للبیہقی بتحقیق عدنان :ص:۱۱۴، ح:۲۰،و شعب الإیمان لہ بتحقیق عبد العلی:۵؍۳۵۲، ح:۳۵۳۹،و مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد:۱۳؍۳۰۱، ح:۶۸۹۰،و جزء فیہ سبعۃ مجالس من امالی ابی طاہر المخلص بتحقیق محمد بن ناصر العجمی،ص:۸۵ ح:۶۴]
(حکم حدیث) اِس کی سند ضعیف ہے ۔
(سبب) مذکورہ سند میں صدقہ بن موسیٰ الدقیقی ہیں جو کہ ضعیف راوی ہیں، جمہور ائمہ کرام نے آپ کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اِس کے علاوہ مذکورہ حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح مسلم کی ایک حدیث کے معارض ہے ۔
امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
’’وَيُعَارِضُهُ مَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ اَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا اَفْضَلُ الصَّوْمِ بَعْدَ رَمَضَانَ صَوْمُ الْمُحَرَّمِ‘‘
’’یہ حدیث اُس حدیث کے معارض ہے جس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے (اپنی صحیح ،رقم الحدیث:۱۱۶۳میں) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ رمضان کے بعد افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں ۔[فتح الباری :۴؍۲۱۴، تحت الحدیث:۱۹۶۹]
اِس پر مزید یہ کہ صدقہ بن موسیٰ الدقیقی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہیں۔
امام ابو بکر احمد بن عمرو العتکی ، المعروف بالبزار رحمہ اللہ (المتوفی۲۹۲ھ) زیر بحث روایت کے تحت فرماتے ہیں:
’’وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ ثابتٍ، عَن اَنَس إلاَّ صَدَقَةُ بن مُوسي‘‘
’’ہم نہیں جانتے کہ اِس حدیث کو عن ثابت، عن انس کے طریق سے صدقہ بن موسیٰ کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے‘‘[مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد:۱۳؍۳۰۱، ح:۶۸۹۰]
زیر بحث روایت سے متعلق علماء کرام کے اقوال:
(۱) امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۹ھ)
’’هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَي لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَاكَ القَوِيِّ‘‘
’’یہ حدیث غریب ہے اور صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں‘‘[سنن الترمذی بتحقیق الالبانی :ح: ۶۶۳]
(۲) امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی۵۹۷ھ)
’’وَھذَا حَدِیثٌ لا یَصِحُّ‘‘ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘[العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ بتحقیق ارشاد الحق الاثری :۶۶۔۲۶۵، ح:۹۱۴]
(۳) امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸ھ)
’’فيه: صدقة بن موسٰي، عن ثابت، عن انس، وصدقة واه‘‘
’’اِس حدیث کی سند میں ہے:صدقہ بن موسیٰ، عن ثابت، عن انس اور صدقہ سخت ضعیف ہے‘‘[تلخیص کتاب العلل المتناہیۃلابن الجوزی بتحقیق ابو تمیم یاسر ،ص:۱۸۲، ح:۵۲۶]
(۴) علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ :
’’ضعیف ‘‘’’حدیث ضعیف ہے‘‘[ارواء الغلیل:۳؍۳۹۷، ح:۸۸۹]
(۵)شیخ شعیب رحمہ اللہ اور شیخ عبد اللطیف حرز اللہ حفظہ اللہ :
’’اسنادہ ضعیف لضعف صدقة بن موسیٰ ‘‘
’’اِ س کی سند صدقہ بن موسیٰ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے‘‘[فی تحقیق سنن الترمذی:۲؍۱۹۹، ح: ۶۶۸]
(۶) شیخ حسین سلیم اسد الدارانی حفظہ اللہ :
’’اسنادہ ضعیف ‘‘’’اِس کی سند ضعیف ہے‘‘[فی تحقیق مسند ابی یعلی :۶؍۱۵۴، ح:۳۴۳۱]
(فائدہ) چند احادیث کی کتابوں میں زیر بحث حدیث کا صرف پہلا ٹکڑا ہے۔
دیکھیں: [مسند ابی یعلی بتحقیق الدارانی:۶؍۱۵۴، ح:۳۴۳۱،و العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ بتحقیق ارشاد الحق الاثری:۲۶۵۔۲۶۵، ح:۹۱۴،و شرح معانی الآثار بتحقیق محمد زہری وغیرہ:۲؍۸۳، ح:۳۳۳۰،و مصنف ابن ابی شیبۃ بتحقیق کمال یوسف :۲؍۳۴۶، ح:۹۷۶۳وغیرہ]
اور شرح معانی الآثار للطحاوی میں زیر بحث روایت صدقہ، عن ثابت کے طریق سے ہی اِن الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:
’’اَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَعْبَانُ‘‘[شرح معانی الآثار بتحقیق محمد زہری وغیرہ:۲؍۸۳، ح:۳۳۲۹]
(تنبیہ بلیغ)شیخ عدنان القیسی حفظہ اللہ فضائل الاوقات للبیہقی کی تحقیق میں زیر بحث حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسنادہ حسن‘‘ ’’اِس کی سند حسن ہے‘‘[فضائل الاوقات للبیہقی بتحقیق عدنان:ص:۱۱۴، ح:۲۰]
راقم کہتا ہے کہ یہ حکم بلا شبہ نا قابلِ التفات ہے کیونکہ صدقہ بن موسیٰ الدقیقی ضعیف راوی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شاید آپ حفظہ اللہ نے صدقہ بن موسیٰ کی بابت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تقریب والے فیصلے پر اعتماد کرتے ہوئے اِن کی اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔اگر معاملہ ایسا ہے تو عرض ہے کہ حافظ رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں صدقہ بن موسیٰ کو ضعیف قرار دیا ہے اور جب ایک امام نے اِن کی توثیق کی تو اُن کا تعاقب کرتے ہوئے دوبارہ اِن کو ضعیف قرار دیا جو اِس بات پر دال ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے اپنے تقریب والے فیصلے سے رجوع کر لیا ہے۔ واللہ اعلم۔
(خلاصۃ التحقیق) سنن الترمذی کی زیر بحث روایت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔
(آخری بات) ہر مسلمان کو اپنی استطاعت کے مطابق ماہِ رمضان میں کثرت سے سخاوت کرنی چاہیے کیونکہ نبی کریم ﷺماہِ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے ۔جیساکہ متفق علیہ حدیث میں موجود ہے۔[صحیح البخاری :۴۹۹۷،و صحیح مسلم :۲۳۰۸]واللہ ولی التوفیق۔
اور یہ متفق علیہ حدیث، سنن الترمذی کی زیر بحث حدیث سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ والحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔