-
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی تفسیر سورۃ الفاتحہ( ام الکتاب) کے انتساب کا سبق آموز واقعہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ غالباً ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے جب میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر نکلا تو محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آرہا ہے ،مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا ، ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اس شخص سے پوچھاآپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟ ہاں جناب میں بہت دور سے آیا ہوں ؟ کہاں سے؟ سرحد پار سے ، یہاں کب پہنچے ؟ آج شام کو پہنچا ، میں بہت غریب آدمی ہوں ، قندہار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا،وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچادیا، آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں ۔افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی ؟اس لئے تاکہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں ،میں نے’’ الہلال‘‘ اور’’ البلاغ ‘‘کا ایک ایک حرف پڑھا ہے ،یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا ،پھر یکایک واپس چلا گیا ، وہ چلتے وقت اس لئے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا کہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لئے پیسہ دوں گا ،اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے،اس نے یقینا واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا ، مجھے اس کا نام یاد نہیں (مولوی دین محمد قندہاری) مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں ، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب ( ام الکتاب) اسی کے نام منسوب کرتا ۔ ابوالکلام آزاد ۔
مذکورہ واقعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں :
۱۔حصول علم کا سچا شوق انسان کے لئے مشکل سے مشکل سفر آسان بنادیتا ہے۔
۲۔اگر حصول علم کی سچی لگن اور اخلاص موجود ہو تو بے سروسامانی کے باوجود بھی پختہ علم حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
۳۔ علم تفسیر قرآن کے حصول کا جذبہ طالب علم کو کس قدر جفاکش بنادیتا ہے کہ شخص مذکور نے قندہار سے کوئٹہ اور آگرہ سے رانچی کا سفر پیدل طے کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔
۴۔کتاب وسنت کا علم حاصل کرنے کے لئے کتاب وسنت کے ماہر اور متخصص علماء ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔
۵۔ اہل علم کے پاس اگر کوئی شخص اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے جائے تو اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط و طاقت بھر اپنے طالب علم کی عزت کریں اور اس کی علمی تشنگی بجھانے کے لئے اسے پورا پورا وقت دیں جیساکہ مذکورہ واقعہ میں ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے پڑوسی ملک سے آنے والے علم کے پیاسے کے ساتھ کتنا عمدہ معاملہ فرمایا۔