Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مبادئی توحید ربوبیت قسط:۱

    أولاً: توحید ربوبیت کی تعریف :
    أ۔ توحید ربوبیت کی لغوی تعریف :
    لفظ ’’ربوبیت‘‘یہ ’’ربّ‘‘فعل کا مصدر ہے۔دیکھیں:[المفردات للراغب الأصبہانی:ص:۳۳۶]
    لفظ ’’رب‘‘کا اطلاق چند معانی پر ہوتا ہے :
    ۱۔مالک، ۲۔سیّد، ۳۔مُدبّر، ۴۔مُربیّ، ۵۔قَیّم، ۶۔مُنعم دیکھیں:[لسان العرب لابن منظور:۱؍۳۹۹]
    لفظ ’’رب‘‘کا استعمال دو طریقے سے ہوتا ہے :
    أ۔ اضافت کے ساتھ
    ب۔ بغیر اضافت کے ساتھ
    جب لفظ ’’رب‘‘کا استعمال اضافت کے ساتھ ہو تو اس کا اطلاق اللہ کے علاوہ دوسروں پر بھی ہو سکتا ہے، جیسے ’’رب البیت‘‘گھر کا مالک، لیکن جب یہ معرف باللام (الرب) ہو تو اس کا اطلاق صرف اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔
    ابن منظور کہتے ہیں کہ:’’اور بغیر اضافت کے اس کا اطلاق صرف اللہ عز وجل ہی پر ہو سکتا ہے، اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں پر اس کا اطلاق کیا جائے، تو ایسے میں اس کی اضافت کرنا ضروری ہے، لہٰذا یوں کہا جائے گا:’’رب کذا‘‘’’فلاں چیز کا مالک‘‘دیکھیں:[لسان العرب لابن منظور :۱؍۳۹۹]
    اور یہ نصوص شرعیہ سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کی علامت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
    ’’حتي يُهِمّ رب المال من يقبل الصدقة‘‘
    ’’یہاں تک کہ مالدار شخص ایسے لوگوں کو تلاش کرتا پھرے گا جو اس کا صدقہ قبول کریں‘‘[صحیح البخاری :ح : ۱۴۱۲، وصحیح مسلم :ح:۱۵۷]
    معلوم ہوا کہ’’الرب‘‘اور ’’الربوبیۃ‘‘یہ دونوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے خاص ہیں:
    ۱۔ الرب:
    اسم ’’الرب‘‘اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ ’’الألف اور اللام‘‘یہ دونوں عموم پر دلالت کرتے ہیں، یعنی ہر چیز کا مالک، اور یہ خصوصیت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
    لہٰذا ’’الرب ‘‘سے مراد: وہ ذات ہے جو پیدا کرنے، حکم نافذ کرنے، اور حکمرانی کرنے جیسے خصائص سے متصف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ}
    ’’یاد رکھو پیدا کرنے اور حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے‘‘[سورۃ الأعراف:۵۴]
    اور فرمایا:{ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ}
    ’’وہی ہے اللہ تم سب کا پروردگار اسی کی سلطنت ہے‘‘[سورۃ فاطر:۱۳]
    ابن منظور کہتے ہیں کہ:’’رب اللہ عز وجل ہے، جو ہر چیز کا مالک ہے، اسے تمام مخلوقات پر ربوبیت کامل حاصل ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، وہی تمام مالکوں کا مالک، اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے‘‘دیکھیں:[لسان العرب لابن منظور :۱؍۳۹۹]
    اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اور’’الرب ‘‘جس طرح اللہ کے لئے کہا جاتاہے، اس طرح سے ألف اور لام کے ساتھ کسی اور کے لئے نہیں کہا جا سکتا ہے، بلکہ یوں کہا جائے گا’’رب کذا‘‘’’فلاں چیز کا مالک‘‘ دیکھیں: [تفسیر غریب القرآن :ص:۹]
    ۲۔ الربوبیۃ :
    یہ’’ربّ‘‘فعل کا مصدر ہے۔
    امام راغب فرماتے ہیں:’’ربوبیت کا اطلاق صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے، جبکہ ربایہ اور تربیہ کا اطلاق اللہ کے علاوہ دوسروں کے لئے ہوتا ہے‘‘دیکھیں:[المفردات للراغب الأصبہانی:ص:۱۸۴]
    لہٰذا ربوبیت کا مطلب ہے:اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے، انہیں پیدا کرتا ہے، ان کے لئے رزق کا انتظام کرتا ہے، ان کی تقدیر مقدر کرتا ہے، ان کے انجام کا فیصلہ کرتا ہے، اور ان کے معاملات میں تدبیر کرتا ہے۔ دیکھیں:[الربوبیۃ للدکتور محمد بن عبد الرحمٰن الجہنی:ص:۱۰]
    خلاصہ یہ ہے کہ :
    فعل ’’ربّ‘‘سے دو ایسے الفاظ مشتق ہیں جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں، ان میں سے ایک اسم (الرب)ہے، جبکہ دوسرا مصدر (الربوبیۃ)ہے۔دیکھیں:[الربوبیۃ للدکتور محمد بن عبد الرحمٰن الجہنی:ص:۷۔۹]
    ب۔ توحید ربوبیت کی شرعی تعریف :
    ۱۔ اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور اس کا مالک ہے۔دیکھیں:[منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیۃ:۳؍۲۸۹]
    ۲۔ اللہ کو اس کے تمام کاموں میں ایک مان لینا، جیسے پیدا کرنا، مالک ہونا، معاملات کی دیکھ بھال کرنا، رزق دینا، زندگی عطا کرنا، موت دینا، بارش برسانا وغیرہ…دیکھیں:[تیسیر العزیز الحمید:ص:۳۳]
    ۳۔ اللہ کو پیدا کرنے، مالک ہونے، اور تدبیر کرنے میں اکیلا ماننا۔دیکھیں:[القول المفید لابن العثیمین:۱؍۱۴]
    خلاصہ یہ ہے کہ :
    مذکورہ تعریفات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ:’’اللہ تعالیٰ اپنے تمام کاموں میں اکیلا اور تنہا ہے ‘‘
    لہٰذا اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت پر ایمان رکھنے والوں پر درج ذیل امور واجب ہیں:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان رکھنا۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں پر ایمان رکھنا،جیسے:پیدا کرنا، رزق دینا، نفع و نقصان مالک ہونا، عطا کرنا، محروم کرنا، زندگی دینا، موت دینا وغیرہ۔
    ۳۔ اللہ کی قضاء و قدر پر ایمان رکھنا، اس لئے کہ کائنات کے اندر جو کچھ واقع ہوتا ہے، اور جن مقادیر کو اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے وہ سب در اصل اللہ عز وجل کے کاموں میں سے ہیں۔دیکھیں:[المفید فی مہات التوحید للدکتور عبد القادر عطاء صوفی:ص:۷۴۔۷۵]
    ثانیاً: توحید ربوبیت کے چند نام :
    ۱۔ توحید علمی: ہر شخص کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اللہ ہی اس کا حقیقی خالق ہے، اور اس پر اللہ کے بے شمار احسانات ہیں۔
    ۲۔ توحید خبری: اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یا اللہ کے رسول ﷺنے اللہ تعالیٰ کے لئے جن افعال کو ثابت کیا ہے، ان تمام افعال میں اللہ کو ایک ماننا ضروری ہے۔
    ۳۔ توحید المعرفہ والاثبات: ذات الٰہی کی معرفت، اور اس کے افعال کی جانکاری حاصل کرنا، اور اللہ کو اس کے تمام افعال و صفات میں یکتا سمجھنا ضروری ہے۔
    ۴۔ توحید اعتقادی : اس بات پر پختہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ اللہ اپنے تمام افعال میں تنہا اور اکیلا ہے۔
    خلاصہ یہ ہے کہ :
    سلف صالحین کی کتابوں میں مذکورہ ناموں کے ساتھ توحید ربوبیت کا ذکر آیا ہے۔
    ثالثاً: ربوبیت کی انواع :
    ۱۔ ربوبیت عامہ: اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو پیدا کرتا ہے، انہیں رزق دیتا ہے، انہیں زندگی عطا کرتا ہے، اور وہی انہیں موت بھی دیتا ہے۔
    ربوبیت عامہ کی خصوصیت :
    اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق، مالک، اور مدبر ہے۔
    ۲۔ ربوبیت خاصہ: اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے دل اور روح کی اصلاح فرماتا ہے، اور ان کے اخلاق میں اچھائی پیدا کرتا ہے۔
    ربوبیت خاصہ کی خصوصیت :
    اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خیر و بھلائی کی توفیق دیتا ہے، اور وہی ہر طرح کی شر و برائی سے انہیں بچاتا بھی ہے۔ دیکھیں: [الربوبیۃ للدکتور محمد بن عبد الرحمٰن الجہنی:ص:۱۸۔۱۹]
    معلوم ہوا کہ اللہ رب العالمین ہی حقیقی خالق و مالک ہے، وہی تمام مخلوقات کے امور میں تدبیر کرتا ہے، اور اپنے نیک بندوں پر خاص عنایتیں فرماتا ہے۔
    رابعاً: توحید ربوبیت کے اصول، اور ان کے دلائل :
    أ۔ توحید ربوبیت کے اصول :
    ۱۔ خلق : اللہ تعالیٰ پوری دنیااور اس میں بسنے والی تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے۔
    ۲۔ ملک : اللہ سبحانہ وتعالیٰ سارے جہاں کا مالک ہے۔
    ۳۔ تدبیر : اللہ عزوجل پوری کائنات اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کے امور میں تدبیر کرنے والا ہے۔
    ب۔ اصولِ ربوبیت کے دلائل :
    پہلی اصل (خلق) کے دلائل :
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ}
    ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے‘‘[سورۃ الزمر :۶۲]
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ}
    ’’کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور بھی خالق ہے؟‘‘[سورۃ فاطر :۳]
    ۳۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ}
    ’’یاد رکھو پیدا کرنے اور حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے‘‘[سورۃ الأعراف:۵۴]
    دوسری اصل (ملک) کے دلائل :
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ}
    ’’بہت با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے‘‘[سورۃ الملک :۱]
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِیهِنَّ}
    ’’آسمان اور زمین اور جو کچھ ان (دونوں) میں ہے سب پر اللہ کی بادشاہی ہے‘‘[سورۃ المائدۃ :۱۲۰]
    ۳۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِکِ النَّاسِ، إِلٰهِ النَّاسِ}
    ’’آپ کہہ دیجئے! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں، (جو) لوگوں کا مالک ہے، (اور) لوگوں کا معبود ہے‘‘[سورۃ الناس :۱۔۳]
    تیسری اصل (تدبیر) کے دلائل :
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الْأَرْضِ}
    ’’وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے‘‘[سورۃ السجدۃ:۵]
    ۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَمَن یُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللّٰہُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ}
    ’’اور کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے، ضرور وہ یہی کہیں گے کہ اللہ‘‘ [سورۃ یونس:۳۱]
    اللہ عز وجل نے مذکورہ تینوں اصولوں (خلق، ملک، اور تدبیر )کو ایک ہی جگہ متعدد آیتوں میں ذکر فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَلِلهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَائُ وَاللّٰهُ عَلَيٰ كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ}
    ’’اورو ہی آسمان و زمین اور ان کے درمیان ساری مخلوقات کا مالک ہے، جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘[سورۃ المائدۃ :۱۷]
    اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کی پہلی اصل (خلق)کو {یَخْلُقُ مَا یَشَاء } کہہ کر بیان فرمایا ہے، دوسری اصل (ملک)کو {وَلِلهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا} کے ذریعہ سے واضح کیا ہے، جبکہ ربوبیت کی تیسری اصل (تدبیر)کی طرف {وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ} سے اشارہ فرمایا ہے۔ دیکھیں: [الربوبیۃ للدکتور محمدبن عبد الرحمٰن الجہنی:ص:۱۰۔۱۸]
    خامسًا: توحید ربوبیت کے اصولوں کے تقاضے :
    ان اصولِ ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص اس بات پر ایمان رکھے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے، وہی اس کا مالک ہے، اور جو مالک حقیقی ہے، وہی دنیا کے سارے امور کی تدبیر بھی کرنے والا ہے۔
    اور اس رب العالمین کی صفت ربوبیت، صفت کمال اور صفت خلق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خالق حقیقی ہی عبادت کا اصل مستحق ہو سکتا ہے:
    {ذَٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْئٍ فَاعْبُدُوهُ}
    ’’یہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب! اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، سو اسی کی عبادت کرو‘‘ [سورۃ الأنعام :۱۰۲]
    لہٰذا وہ شخص معبود نہیں ہو سکتا ہے جس کے اندر خلق کی قدرت نہ ہو:
    {قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ}
    ’’کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا (معبود ہونے کا)تمہیں گمان ہے (سب)کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے، نہ میں ان کا کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار ہے‘‘ [سورۃ سبأ:۲۲]
    اور نہ ہی وہ شخص معبود ہو سکتا ہے جس کے اندر کوئی عیب یا نقص ہو، جیسا کہ سیدنا ابرہیم علیہ الصلاۃ السلام نے اپنے باپ سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
    {اِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا}
    ’’جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں‘‘[سورۃ مریم:۴۲]
    اس کے بر عکس وہ خالقِ ارض و سماء کامل الصفات ہے، اس کی ذات میں کسی قسم کا عیب و نقص نہیں ہے، جس کے بے شمار پیارے نام ہیں: {وَلِلهِ الْأَسْمَاء ُ الْحُسْنٰي فَادْعُوهُ بِهَا}
    ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ کو پکارا کرو‘‘[سورۃ الأعراف:۱۸۰]
    جو بلند ترین صفتوں سے متصف ہے: {وَلِلہِ الْمَثَلُ الْأَعْلٰی}
    ’’اللہ تعالیٰ کے لئے تو بہت ہی بلند صفت ہے‘‘[سورۃ النحل:۶۰]
    اور وہی منعم حقیقی ہے جس نے اپنے بندوں کو اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے کہ انہیں شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ہے: {وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رحيمٌ}
    ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہیں کر سکتے، اور بے شک اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے‘ ‘ [سورۃ النحل:۱۸]
    اور ان تمام نعمتوں کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف ایک ہی چیز طلب کرتا ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا}
    ’’اور اللہ عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو‘‘[سورۃ النساء :۳۶]
    اور نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے:’’فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَي الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا‘‘
    ’’پس بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں‘‘ [صحیح البخاری :۲۸۵۶، وصحیح مسلم: ح:۳۰]
    اور یہی تخلیق انسانی کا اصل مقصود بھی ہے: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ}
    ’’اور میں نے جن و انسان کو صرف اپنی عبادت کے پیدا کیا ہے‘‘[سورۃ الذاریات :۵۶]

    جاری ہے………
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings