-
فہمِ سلف کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھنے کی ضرورت و اہمیت الحمد للّٰه رب العالمين والصلاة والسلام علٰي خاتم النبيين، وأشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد:
سلف صالحین کون ہیں؟
سلف کے لغوی معنی: گزرے ہوئے زمانے کے آباء و اجداد اور قرابت دار۔ [لسان العرب:۹؍۱۵۹]
البتہ اس کی اصطلاحی تعریف میں اختلاف ہے اور تمام تر تعریفات کا محور و مرکز یہی ہے کہ سلف سے مراد صرف صحابۂ کرام ہیں یا صحابہ اور تابعین ہیں یا صحابہ، تابعین اور تبع تابعین۔
قلشانی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سلف صالحین اس امت کے وہ پہلے لوگ ہیں جن کے علم میں گہرائی و گیرائی تھی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب فرما لیا تھا۔ لہٰذا ان کی نقل کردہ روایات کی اتباع کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا اور ان کے لیے استغفار کرنا واجب ہے۔
ابن حجر آل بوطامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مذہب سلف سے مراد وہ منہج اور طریقہ ہے جس پر صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ کرام قائم تھے۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو کسی بدعت میں ملوث تھے، یا خوارج وغیرہ جیسے کسی لقب سے معروف و مشہور تھے ۔
ان سطور بالا کا خلاصہ یہ نکلا کہ سلف صالحین سے مراد صحابہ کرام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ ہیں۔
فہمِ سلف کی ضرورت کیوں؟
۱۔ کیونکہ سلف صالحین سب سے زیادہ پاکیزہ سیرت و کردار کے مالک، گہرے علم کے حامل اور دلوں میں سب سے زیادہ اخلاص و للہیت رکھنے والے تھے۔
۲۔ کیونکہ انہیں رسول پاک ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی معیت میں انہوں نے جہاد کیا اور آپ کی سیرت طیبہ کو قریب سے جانا پہچانا۔
۳۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی پاک کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا۔
۴۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آیات کے اندر ان سلف صالحین کا تزکیہ فرمایا ہے اور ان کی تعریف و توصیف بیان کی اور ان سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان کیا ہے۔
۵۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے ان کی اتباع اور اقتدا کاحکم دیا ہے۔
۶۔ کیونکہ ان سلف صالحین نے دین میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی نیز ان کا اجماع بھی قطعی حجت اور دلیل ہے۔
۷۔ کیونکہ وہ اس امت کے افضل ترین لوگ اور نصوص شریعت کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے تھے۔
۸۔ کیونکہ قرآن کی تفسیر اور قرآن کی زبان کے متعلق سب سے زیادہ علم و معرفت رکھنے والے تھے۔
۹۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ذکر فرمایا کہ فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والی جماعت)وہ ہے جو رسول پاک اور ان کے صحابۂ کرام کے طریقہ پر کاربند ہوگی۔
سلف صالحین کی منقبت اور فضیلت کے بارے میں درج ذیل آیات کریمہ شاہد ہیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{لٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
ترجمہ:’’لیکن خود رسول اللہ (ﷺ )اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں‘‘[التوبۃ:۸۸]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ }
ترجمہ: ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے‘‘[التوبۃ:۱۰۰]
یہ آیت کریمہ : {وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ}
ترجمہ: ’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کا ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں )خبردار!تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں‘‘[الکہف:۲۸]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{لَقَدْ رَضِيَ اللّٰـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ}
ترجمہ:’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے‘‘[الفتح:۱۸]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰي وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّيٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِيرًا}
ترجمہ:’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (ﷺ )کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے‘‘[النساء :۱۱۵]
سلف صالحین کی فضیلت و منقبت میں بہت ساری احادیث مروی ہیں۔
چنانچہ حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام کے فضائل سے متعلق مستقل ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ ذیل میں کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:
صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
’’خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘
’’میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں‘‘ [بخاری:۲۶۵۲، ومسلم :۲۵۳۳]
ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:اس حدیث میں ’’میرے زمانے والوں‘‘سے مراد صحابۂ کرام ہیں۔ اس کے بعد آنے والوں سے مراد تابعین ہیں۔ اور ان کے بعد آنے والوں سے مراد تبع تابعین ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کا مقصود یہ نکلا کہ صحابۂ کرام تابعین سے افضل ہیں اور تابعین تبع تابعین سے افضل ہیں۔ [فتح الباری :۷؍۵]
امام نووی رحمہ اللہ بھی اسی بات کے قائل ہیں۔
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ بیان فرماتے ہیں:
’’النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَائِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَي السَّمَائَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَي أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَي أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ‘‘
ترجمہ:’’ستارے آسمانوں کے لیے امان ہیں جب ستارے فنا ہو جائیں گے تو آسمان پر قیامت آ جائے گی۔ میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ چیز آئے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آئے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘[مسلم :۲۵۳۱،وأحمد:۱۹۵۶۶ ]
صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
’’لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ ‘‘
ترجمہ:’’میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے خرچ کیے ہوئے ایک مُد اور آدھے مُد کے برابر بھی نہیں پہنچے گا‘‘[مسلم:۲۵۴۰،بخاری:۳۶۷۳]
فرقۂ ناجیہ والی حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلٰي ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً فَقِيلَ لَهُ:مَا الْوَاحِدَةُ؟ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وأصحابي ‘‘
ترجمہ:’’عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ایک کے سوا سارے فرقے جہنم میں جائیں گے۔ دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول!وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپﷺ نے جواب دیا:یہ فرقہ وہ ہوگا جو اس منہج اور طریقے پر چلے گا جس طریقے پر آج میں اور میرے صحابہ چل رہے ہیں‘‘[أخرجہ الترمذی :۲۶۴۱،واللفظ لہ، والطبرانی:۱۴؍۵۳(۱۴۶۴۶)، والحاکم (۴۴۴)]
مصنف ابن ابی شیبہ میں واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’لا تزالون بخیر مادام فیکم من رآنی وصاحبنی، واللّٰہ لا تزالون بخیر مادام فیکم من رأی من رآنی وصاحب من صاحبنی‘‘
ترجمہ:’’تم لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان وہ لوگ موجود ہوں گے جنہوں نے مجھے دیکھا اور میری صحبت پائی ہے۔ اللہ کی قسم تم لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی میں رہو گے جب تک تمہارے مابین وہ لوگ موجود ہوں گے جنہوں نے میرے صحابہ کو دیکھا اور میرے صحابہ کی صحبت پائی ہے‘‘[أخرجہ ابن أبی شیبۃ:۴؍۱۲۴۶۳، وابن أبی عاصم :۱۴۱۸، وصحَّحہ الألبانی فی الصحیحۃ :۳۲۸۳]
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، آپ ﷺارشاد فرماتے ہیں:
’’أُوصِيكُمْ بِتَقْوَي اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَّعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَي اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘
ترجمہ:’’میں تمہیں اللہ کے تقویٰ اور حاکم کی سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تمہارا حاکم کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ تم میں سے جو ایسا زمانہ پائے تو اس وقت میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھے‘‘[أخرجہ أبو داؤد:۴۶۰۷،واللفظ لہ، وأحمد :۱۷۱۸۵]
اس حدیث میں خلفائے راشدین کی سنت سے مقصود وہی ہے جو اس ٹکڑے ’’ما أنا علیہ الیوم وأصحابی‘‘کا مفہوم ہے۔ اس کی دلیل درج ذیل اقوال ہیں۔ اس جملے کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کے علاوہ خلفائے راشدین کی کوئی الگ سنت ہے جس کی اتباع کی جائے گی۔ بلکہ صحابہ نے خود اللہ کے رسول ﷺ کی سنت اور طریقے کی پیروی کی۔ اس لیے اس کا مفہوم وہ طریقہ اور سنت ہے جو اللہ کے رسول ﷺکی سنت اور ان کے طریقے سے موافق اور مطابق ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’رہی بات خلفائے راشدین کی سنت کی تو انہوں نے رسول پاک کے حکم سے جو عمل اور طریقہ اختیار کیا وہ بھی سنت رسول ہی کے حکم میں ہے۔ اور دین میں وہی چیز واجب، حرام اور مستحب ہے جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے واجب یا حرام یا مستحب قرار دیا ہے‘‘۔[شیخ الإسلام :۱؍۲۸۲]
فُلّانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سنت کی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی طرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی جب وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر و عمر دونوں سنت رسول پر قائم تھے۔ اس لیے اس حدیث کو اسی معنی پر محمول کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں یہاں (فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء)عطف کرنے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت رسول سے الگ خلفائے راشدین کی کوئی مستقل سنت نہیں جس کی اتباع کی جائے‘‘۔ [إیقاظ ہمم أولی الأبصار: ص:۲۳]
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم دو صورتوں سے خالی نہیں:ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی سنت کے علاوہ خلفائے راشدین کو انہیں اپنی سنت ایجاد کرنے کا جواز فراہم کیا تھا۔ یہ ایسی بات ہے جسے کوئی بھی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے خلفائے راشدین کی اتباع کا حکم اس صورت میں دیا ہے جب وہ سنت رسول کی اقتدا کریں۔ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس حدیث کو اسی دوسری صورت پر ہی محمول کیا جائے گا‘‘[الإحکام فی أصول الأحکام :۶؍۷۶۔۷۸]
سلف صالحین کے چند امتیازی اوصاف:
(أ) سلف صالحین اس امت کے سب سے افضل اور بہترین لوگ ہیں۔ اس کی دلیل بخاری اور مسلم کی یہ حدیث ہے:’’میری امت کے سب سے افضل میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’علمی اور دینی اعتبار سے نیک شہرت رکھنے والا ہر شخص اس بات کا معترف ہے کہ اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابہ کرام ہیں‘‘۔[شرح الأصفہانیۃ :۱۲۸]
(ب) سلف صالحین اس امت کے سب سے زیادہ نصوص شریعت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم، تورات اور انجیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے۔ صحابۂ کرام نے اللہ کے رسولﷺکی سنتوں کو ہم تک پہنچایا۔ انہوں نے آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس لیے انہیں اللہ کے رسول کی مراد کا علم اور آپ کے سنت کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ علم و اجتہاد، ورع و تقویٰ اور عقل و فہم ہر لحاظ سے ہم سے افضل ہیں۔ ان کی آراء و اجتہادات ہماری اپنی آراء سے زیادہ لائق تعریف اور ہمارے لیے زیادہ قابل اقتدا ہیں۔ اگر ان کا کوئی قول موجود ہے اور اس کے برخلاف کسی اور کا قول نہیں ہے تو ہم انہی کے قول کو لازم پکڑتے ہیں‘‘۔ [إعلام الموقعین:۱؍۸۰]
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سنت و حدیث کے حاملین، اللہ کے رسول اور آپ کے مقرب صحابہ کے علم و آثار کے خوشہ چیں اس علمی ورثے کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ چنانچہ دین کے متعلق ان کے علم و فہم، عمل اور عقیدے کو جو فوقیت و برتری حاصل ہے، مقصود شریعت کو سمجھنے میں اس کا اپنا ایک وزن اور اعتبار ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے فتاوے اور سلف کے اقوال و آثار پر عمل متأخرین کے آراء و فتاویٰ سے زیادہ افضل اور بہتر ہے‘‘۔ [إعلام الموقعین:۴؍۱۱۸]
(ج) سلف صالحین قرآن کریم کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے ہیں:’’اس لیے کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا۔ اور وہ اہل عرب میں سب سے زیادہ فصیح زبان کے مالک تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے دین میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی‘‘۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کا بیان ہے:’’میں نے امام شافعی سے پہلے بھی علماء اور ائمہ کو امام شافعی کی طرح اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پایا کہ بدعتوں کے ایجاد کا سبب عربی زبان سے عدم واقفیت اور جہالت ہے‘‘۔[صون المنطق :ص:۲۲]
(د) سلف صالحین قرآن کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ اس لیے کہ وہ قرآن کی زبان کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ نیز قرآن کو سیکھنے، اسے حفظ کرنے اور اس کی تفسیر جاننے کے بہت زیادہ حریص اور شوقین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے بہتر طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے ذریعہ تفسیر کرنے کے بعد صحابہ اور تابعین کے اقوال و آثار سے اس کی تفسیر کی جائے۔
حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’طالب علم کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابی کی تفسیر جس نے وحی اورقرآن کو اترتے دیکھا وہ تفسیر شیخین (بخاری ومسلم)کے نزدیک مسند حدیث کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔ [المستدرک:۲؍۲۵۸]
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج سے کہا تھا:’’میں صحابۂ رسول کے پاس سے آ رہا ہوں، اور ان میں سے کوئی بھی تمہارے درمیان موجود نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم انہی صحابہ پر نازل ہوا اور وہ اس کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ [جامع بیان العلم:۲؍۱۲۷]
سلف صالحین کے متعلق اس امت کے علماء اور ائمہ کرام کے اقوال:
(۱) صحابۂ کرام اور سلف صالحین کے بلند مقام ومرتبہ کو بیان کرنا اہل سنت کا شعار رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ اسے اپنے عقیدے میں شمار کرتے ہیں۔چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:’’ہمارے نزدیک عقیدہ کے بنیادی اصول میں سے صحابۂ کرام کے منہج اور طریقے کو مضبوطی سے تھامے رہنا ان کی اتباع کرنا اور بدعات سے اجتناب کرنا ہے‘‘۔[شرح أصول السنۃ لللالکائی :۱؍۱۵۶]
(۲) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے:’’جو تم میں سے اقتدا کرنا چاہتا ہے وہ صحابۂ رسول کی اقتدا کرے کیونکہ وہ اس امت کے سب سے زیادہ نیک دل، گہرے علم، کم تکلف اور سب سے بہتر منہج اور طریقے کے حامل تھے۔ یہ ایسے مقدس لوگ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کی نشر و اشاعت کے لیے پسند فرمالیا۔ اس لیے ان کی قدر و منزلت کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو یقینا وہ لوگ سیدھے راستے پر قائم تھے‘‘۔ [ابن عبد البر فی جامع بیان العلم:۲؍۱۱۹]
(۳) حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اے علماء کی جماعت!تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے اور راستے پر چلو۔ اگر تم اس راستے پر سیدھے چلتے رہے تم ہدایت یاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اسے چھوڑ کر دائیں بائیں کا راستہ اختیار کرو گے تو تم بہت دور گمراہی میں جا گرو گے‘‘۔[جامع بیان العلم:۲؍۱۱۹،وأصلہ فی البخاری فتح:۱۳؍۲۵۰،رقم :۷۲۸۲]
(۴) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے بعد خلفاء راشدین نے جو سنتیں بتائی ہیں، ان پر عمل کرنا گویا قرآن کریم کی تصدیق کرنا ہے۔ کسی کے لیے اس میں رد وبدل کرنے کا اختیار نہیں۔ جو ان کی سنتوں کی پیروی کرے گا وہ ہدایت یاب ہوگا۔ اور جو ان سے بصیرت حاصل کرے گا وہ بصیرت یاب ہوگا اور جو ان کی مخالفت کر کے اہل ایمان کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے حوالے کر دے گا اور جہنم میں ڈال دے گا اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔ [اللالکائی۱؍۹۴،والآجرّی فی الشریعۃ :ص:۴۸،وابن عبد البر فی الجامع:۲؍۲۲۸]
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ مالک بن انس اور دیگر ائمۂ کرام عمر بن عبدالعزیز کے اس قول کو بنظر استحسان دیکھتے تھے اور ہمیشہ اسے بیان کرتے تھے‘‘۔ [إعلام الموقعین:۴؍۱۵۱]
(۵) امام اوزاعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:’’اپنے آپ کو سنت پر قائم رکھو اور وہیں ٹھہر جاؤ جہاں سلف صالحین کے قدم ٹھہر گئے۔ وہی بات کہو جو وہ کہہ گئے ہیں اور جہاں وہ خاموش رہے وہاں خاموشی اختیار کرو۔ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلو اس لیے کہ جو گنجائش کا دائرہ ان کے لیے تھا وہی تمہارے لیے بھی ہے۔ اور اگر یہ کار خیر ہوتا تو اسلاف کو چھوڑ کر تمہیں ہی صرف یہ شرف نہ ملتا‘‘۔[اللالکائی :۱؍۱۵۴،فی أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ]
(۶) ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’صحابۂ کرام سارے کے سارے جنتی ہیں۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:{وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰـهُ الْحُسْنيٰ}[النساء:۹۵][الإصابۃ لابن حجر :۱؍۱۰]
(۷) ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں:’’اگر تم دیکھو کہ کوئی کسی صحابی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق یعنی بد دین ہے‘‘۔[الإصابۃ :۱؍۱۰]
فہم سلف کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھنے کے فوائد و ثمرات:
۱۔ قرآن و سنت اور سلف صالحین کے اجماع کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے سے ایک مسلمان اختلاف و انتشار اور مختلف آراء و اجتہادات کے تضاد سے محفوظ رہتا ہے۔
۲۔ شرعی دلیل پر سلف صالحین کے عمل و فہم پر غور و فکر کرنے سے استدلال کی صحت و صداقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سلف صالحین کے کسی دلیل پر عمل کرنے سے اس دلیل میں کسی احتمال کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا اور دیگر اشکالات بھی دور ہو جاتے ہیں۔
شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شرعی دلیل پر غور و فکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلیل کے متعلق سلف صالحین کے فہم اور ان کے عمل کو سامنے رکھے۔ اس لیے کہ ان کا فہم و عمل زیادہ درست اور علم و عمل کے لئے زیادہ مناسب و پائیدار ہے‘‘۔ [الموافقات:۳؍۷۷]
۳۔ سلف صالحین کے فہم و عمل پر چلنے سے انسان غلط اور باطل قول و عمل میں پڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے کہ صحابہ اور سلف صالحین نے جن چیزوں میں خاموشی اختیار کی ہے اور بعد کے لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے تو اس میں خاموشی ہی زیادہ لائق اور مناسب تھی۔ نیز بعد کے لوگوں نے اس میں غلط اور باطل چیز ہی ایجاد کی ہے۔
۴۔ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بدعت و گمراہی کی بنیاد اور جڑ کا قلع قمع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بعض گمراہ فرقے اپنے مذہب کی حمایت اور بدعات کی تائید کے لیے نصوص شریعت میں تحریف کرتے ہیں۔ جبکہ ان نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کا فہم ہی فیصل اور برحق ہے۔ اس کے علاوہ سب گمراہی اور اختلاف و انتشار ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ}
’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں‘‘[البقرۃ:۱۳۷]
۵۔ مخالف کو جواب دینے کے لیے سلف صالحین کے فہم کا استعمال: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج سے مناظرہ کے وقت کہا تھا:’’میں تمہارے پاس صحابۂ رسول کے پاس سے آ رہا ہوں اور تمہارے درمیان کوئی بھی ان میں سے موجود نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن انہی پر نازل ہوا ہے اور وہی اس کی تفسیر کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں‘‘۔[جامع بیان العلم :۲؍۱۲۷]
ابن عباس کے اس اثر سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بدعت میں کوئی بھی صحابی شامل نہیں حالانکہ سارے بدعتی فرقوں کی بنیاد ان کے زمانے میں پڑ چکی تھی۔
ہر وہ فرقہ اور گروہ جس میں کوئی صحابی نہ ہو تو وہ گویا گمراہی پر ہے۔
صحابۂ کرام کی جانب میلان اور رجحان رکھنا یعنی ان کے مذہب اور منہج کو مضبوطی سے تھامے رہنا یہی عین کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
منہجِ صحابہ کو ہمیشہ بطور حجت اور دلیل پیش کیا جائے گا نہ کہ اس کے برعکس۔
صحابۂ کرام قرآن کی تفسیر کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے۔
دارقطنی کی روایت ہے، عباد بن العوام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہمارے پاس شُریک تشریف لائے تو ہم نے ان سے کہا:ہمارے یہاں کچھ معتزلہ کے لوگ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں:’’إن اللّٰه ينزل إلى السماء الدنيا و إن أهل الجنة يرون ربهم‘‘ انہوں نے جواب دیا:رہی ہماری بات تو ہم نے اپنا دین تابعین کی نسل سے اور تابعین نے صحابۂ کرام سے اخذ کیا ہے۔ بھلا بتاؤ ان لوگوں نے یہ دین کہاں سے حاصل کیا ہے؟‘‘ [کتاب الصفات للدارقطنی :ص:۴۳]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں نے بارہا کہا ہے کہ میں نے اپنے مخالفین کو تین سال کی مہلت دی، کوئی بھی شخص قرون مفضّلہ میں سے کسی کا بھی کوئی ایک حرف لے کر کے آئے جو میرے موقف اور دلیل کے مخالف ہو تو میں رجوع کرنے کے لیے تیار ہوں ‘‘۔[الفتاوی لابن تیمیۃ :۳؍۱۶۹]
پھر آگے فرماتے ہیں:’’میرے مخالفین ملک کی پوری کتابوں کو چھان مارنے کے باوجود بھی کوئی ایسی چیز ثابت نہ کر سکے جو ائمۂ اسلام اور سلف صالحین کے خلاف ہو‘‘[الفتاوی لابن تیمیۃ :۳؍۲۱۷]
خلاصہء کلام:
سطور بالا سے ہمیں درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:سلف صالحین تمام صحابۂ کرام ہیں۔ لہٰذا ان کی اتباع کرنا اور دین کو ان کے منہج اور طریقہ کے مطابق سمجھنا ضروری ہے۔ اس لئے کہ صحابۂ کرام اس امت کے سب سے افضل لوگ ہیں اور قرآن و سنت اور عربی زبان کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔
سلف کی اصطلاح ہر اس شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا عقیدہ و منہج اللہ کے رسول اور صحابۂ کرام کے عقیدہ اور منہج کے مطابق ہو۔
رہی بات سلفیت کی تو یہ سلف کی طرف منسوب ہے اور یہ صحیح منہج کی طرف قابل تعریف انتساب ہے۔ یہ کوئی نیا مذہب اور مسلک نہیں ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی عیب اور حرج کی بات نہیں کہ کوئی شخص مذہب سلف کو اپنائے اور اس کی طرف اپنی نسبت کرے بلکہ بالاتفاق اسے قبول کرنا واجب اور ضروری ہے۔ کیونکہ سلف صالحین کا منہج ہی بر حق ہے۔ [الفتاوی لابن تیمیۃ:۴؍۱۴۹]
لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلف یعنی صحابہ کی طرف انتساب کرے اور قرآن و سنت کو ان کی فہم کے مطابق سمجھے اور عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات میں ان کے منہج اور طریقے کی خلاف ورزی نہ کرے۔