-
خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق قسط نمبر :۶ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے مدینہ طیبہ کا صدقہ ،یعنی بنو نضیر کے مالِ فَے کا انتظام و انصرام حضرت عباس اور حضر ت علی رضی اللہ عنہما کے مطالبے پر ان کے سپرد کردیا ، مگر جب ان کے مابین بھی اختلاف ہوا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ۔ اس وقت وہاں حضرت عثمان ،حضرت عبد الرحمن بن عوف ،حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم بھی تشریف فرماتھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین ! میرے اور اس (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے مابین فیصلہ فرمادیجئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کہنے لگے : ہاں ! امیر المومنین ! ان کا فیصلہ کردیجئے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بے فکر کردیجئے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں تم سے اللہ کی ، جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے :’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو ہم چھوڑ جائیں ، وہ صدقہ ہے ۔‘‘ یہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا : بے شک آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہے ! پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اور کہا : اب میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا آنحضرت ﷺ نے ایسا فرمایا ہے ؟ انہوں نے کہا : بے شک فرمایا ہے :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالِ فَے میں سے اپنے رسول ﷺ کے لئے خاص حصہ مقرر کیا ہے جو کسی اور کے لئے نہیں ہے ۔ پھر انہوں نے (سورۃ الحشر کی ) یہ آیت پڑھی :{ وَمَا أَفَاء َ اللَّهُ عَلَی رَسُولِه…الخ} تویہ جائیدادیں (بنو نضیر ،فدک وغیرہ کی ) خاص آنحضرت ﷺکی تھیں ، مگر اللہ کی قسم ، انہوں نے یہ جائیدادیں آپ کو نظر انداز کرکے اپنے لئے خاص نہیں کیں اور نہ خاص اپنے خر چ میں لائے ، بلکہ آپ لوگوں ہی کو دیں اور آپ کے کاموں میں خرچ کیں، حتیٰ کہ یہ مال اس میں سے بچ رہا ۔ رسول اللہ ﷺ اسی میں سے اپنی ازواج رضی اللہ عنہن کا سال بھر کا خرچہ کیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد جو بچ جاتا وہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے خرچ کردیتے ۔ آنحضرت ﷺ تو زندگی بھر اسی طرح کرتے رہے۔(اے حاضرین!) تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم یہ نہیں جانتے ؟ انہوں نے کہا: بے شک جانتے ہیں ۔ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : آپ کو بھی اللہ کی قسم ، کیا آپ یہ نہیں جانتے ؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اٹھا لیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں آنحضرت ﷺ کا جانشین ہوں اور انہوں نے یہ جائیدادیں اپنے قبضے میں رکھیں اور جو کام رسول اللہ ﷺ ان کی آمدنی سے کرتے تھے وہی وہ بھی کرتے رہے ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں سچے ، نیک سیدھی راہ پر اور حق کے تابع تھے۔
پھر اللہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیا اور میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا جانشین بنا ۔ میں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دوسال تک اس جائیداد کو اپنے قبضے میں رکھا اور جیسا رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے رہے ، ویسا ہی میں بھی کرتا رہا۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں ان جائیدادوں کے بارے میں سچا، نیک ،سیدھی راہ پر اور حق کے تابع رہا۔
پھر دونوں میرے پاس آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے۔ آپ دونوں ایک تھے۔ اے عباس رضی اللہ عنہ آپ آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے کے مال کا سوال کرتے تھے اور یہ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) آئے اور وہ اپنی بیوی کا حصہ اپنے باپ کے مال سے لینے کا مطالبہ کرتے تھے ۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔‘‘
پھر مجھے یہ مناسب لگا کہ میں یہ جائیدادیں آپ لوگوں کے قبضے میں دے دوں تو میں نے آپ سے کہا : اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ جائیداد آپ کے سپرد کیے دیتا ہوں ، مگر اس عہد و اقرار پر کہ آپ اس آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہیں گے جو رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں اور میں اپنی حکومت کی ابتدا میں کرتا رہاہوں۔ آپ دونوں نے ( اس شرط کو قبول کرکے ) کہا کہ یہ ہمیں دے دیں تو میں نے اس شرط پر دے دی۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہنے لگے : (اے حاضرین)! میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میں نے یہ جائیدا د ان کے سپرد کی یا نہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، سپر د کردی تھی۔ پھر وہ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا میں نے یہ جائیداد آپ کے سپرد کی ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیا آپ مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کروانا چاہتے ہیں ؟ اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں ، اس کے بارے میں اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا ۔ اگر آپ سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کردیں، میں اس کا انتظام کرلوں گا۔ [صحیح بخاری:کتاب فرض الخمس:باب فرض الخمس :رقم:۳۰۹۴، وغیرہ]
یہی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے( کتاب المغازی:باب حدیث بنی النضیر) میں بھی ذکر کی ہے جس میں اس بات کا اضافہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آنحضرت ﷺ کی ازواج رضی اللہ عنہن نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ مالِ فَے میں سے ان کا آٹھواں حصہ ترکے میں سے ہمیں ملنا چاہیے مگر میں نے ان کو منع کیا اور کہا : کیا تمہیں اللہ کا ڈر نہیں ، تم یہ نہیں جانتیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے:
’’ہمارا کوئی وارث نہیں ۔ جو ہم چھوڑ جائیں ،وہ صدقہ ہے ۔ اس سے آپ اپنے آپ کو مراد لیتے تھے۔البتہ محمد (ﷺ) کی آل اس مال میں سے کھائے گی ‘‘۔
یہ سن کر نبی ﷺ کی بیویاں ترکہ مانگنے سے رک گئیں ۔
(عروہ کہتے ہیں ) یہ مال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قبضے میں رہا ۔ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس پر قبضہ نہ کرنے دیا ۔ پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے قبضے میں رہا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قبضے میں رہا ، پھر حضرت زین العابدین علی بن حسین اور حسن بن حسن (حسن مثنیٰ ) رحمہما اللہ دونوں کے قبضے میں رہا ۔ دونوں باری باری اس کا انتظام کرتے رہے ۔ پھر زید بن حسن بن علی رحمہ اللہ کے پاس رہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صدقہ ہے (یعنی یہ حضرات مالک نہیں متولی بن کررہے)[صحیح بخاری:رقم :۴۰۳۴] مزید دیکھئے :[فتح الباری :۶؍۲۰۷،۲۰۸]
یہاں آنحضرت ﷺ کی میراث کے حوالے سے اہل ِسنت اور روافض کے مابین اختلاف کی وضاحت مقصود نہیں اور نہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے حوالے سے روافض کے پروپیگنڈے کا جواب دینا ہمارا موضوع ہے ، بلکہ ہمارا مقصد صرف یہ بتلانا ہے کہ اہل بیت ،آل رسول ﷺ کا یہ اختصاص ہے کہ ان پر صدقہ تو حرام ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ نے جو خمس یا مالِ فَے آنحضرت ﷺ کے لئے رکھا ہے ، آپ ﷺ اسے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر اور دیگر اہل بیت پر خرچ کرتے اور جو بچ رہتا اسے جہاد کی راہ میں صرف فرماتے ۔
۲۔ دوسرا حق ’’صلاۃ‘‘
اہل بیت اور آل رسول ﷺ کا دوسرا حق یہ ہے کہ ان پر صلاۃ پڑھی جائے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا }
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلاۃ بھیجو اور سلام بھیجو خوب سلام بھیجنا‘‘[الاحزاب:۵۶]
حضرت کعب بن عجر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ آپ پر سلام کیسے کہنا ہے ، مگر ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا : یوں کہو:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَعَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَعَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَي إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘[صحیح البخاری:۳۳۷۰]
صحیحین کے علاوہ یہ حدیث سنن و مسانید اور معاجم وغیرہ کتب احادیث میں بھی ہے ۔ صحیح بخاری ہی میں اس کے الفاظ یوں ہیں کہ ہم نے عرض کیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا السَّلاَمُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:’’قُولُوا:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ، وَعَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَي مُحَمَّدٍ، وَعَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‘‘[صحیح البخاری:۴۷۹۷،۶۳۵۷،صحیح مسلم:۴۰۶]
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کے اہل بیت (گھر والوں) پر صلاۃ کس طرح ہے ؟ اللہ نے سلام کہنے کی تعلیم تو ہمیں دے دی ہے ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ کہو: اللَّهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ…الخ‘‘۔
سلام تو عام ہے اور بکثرت سلام کہنے کا حکم ہے ۔ تشہد میں ہم اپنے آپ پر اور تمام نیک بندوں پر سلام کہتے ہیں ، مگر ’’صلاۃ‘‘ کا حکم آنحضرت ﷺ کے لئے ہے، لیکن جب نبی ﷺ نے ’’صلاۃ‘‘ کے کلمات سکھلائے تو اپنے ساتھ اپنی آل پر بھی ’’صلاۃ ‘‘ سکھلایا ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’اہل بیت‘‘ آل رسول ﷺ میں شامل ہیں ، جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر آئے ہیں ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے آل محمد ﷺ پر ’’صلاۃ ‘‘ ہی کے حوالے سے بڑی نفیس بات فرمائی ہے ۔ لکھتے ہیں :
یہ ’’صلاۃ‘‘ رسول اللہ ﷺ کی تمام آل کے لئے ہے ۔ آل میں صالحین ہی کے لئے مخصوص نہیں ، چہ جائے کہ اسے (روافض کے موقف کے مطابق) معصومین کے لئے مختص سمجھا جائے! بلکہ آپ کی تمام آل اس میں شامل ہے ، جیسے : مومن مردوں اور مومنہ عورتوں اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے دعا ان سب کو شامل ہے جو ایمان و اسلام میں داخل ہیں۔ اور عموماً مومنوں کے لئے دعا اور عموماً اہل بیت کے لئے دعا سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ سب نیک اور متقی ہیں ، بلکہ ان کے لئے دعا کا مقصد اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان کے لئے احسان او رفضل و کرم طلب کرنا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اس کا فضل و احسان طلب کیا جاتا ہے ۔
لیکن یہ کہا جائے گا کہ یہ آل محمد ﷺ پر ’’صلاۃ‘‘ ان کا حق ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل محمد ﷺ کا امت پر حق ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ وہ موالات و محبت کے زیادہ حق دار ہیں باقی تمام خاندان قریش سے ، جیسے قریش موالات و محبت کے زیادہ حق دار ہیں دوسرے عرب قبائل سے ، یا جیسے عرب موالات و محبت کے زیادہ حق دار ہیں باقی اولاد آدم علیہ السلام سے ۔ یہی جمہور کا موقف ہے ۔[منہاج السنۃ:۲؍۲۵۹]
اس کے بعد کی مکمل بحث قابل مراجعت ہے ، شائقین اس کی مراجعت فرمائیں۔ اس سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتاہے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے :
يااهل بيت رسول اللّٰه ﷺ ! حبكم
فرض من اللّٰه فى القرآن انزله
كفاكم من عظيم القدر انكم
من لم يصل عليكم لا صلاة له
’’اے رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت ! تم سے محبت من جانب اللہ فرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نازل کیا ہے ۔ تمہاری قدرومنزلت اور عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو نماز میں تم پر درود نہیں پڑھتا ، اس کی نماز نہیں ہے ‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ نماز میں درود کو فرض قراردیتے ہیں ۔ یہی موقف امام احمد اور امام اسحاق وغیرہم رحمہم اللہ کا ہے ۔ دیکھئے :[تفسیر ابن کثیر : ۳؍۶۷۱، جلاء الافھام :ص:۳۹۶، فتح الباری:۱۱؍۱۶۳، القول البدیع :ص:۱۵وغیرہ]جاری ہے ………
٭٭٭