Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • رشوت اور اس کی مروجہ شکلیں

    مذہب اسلام نے انسانیت کی بقا اور حصول رزق کی خاطر ایسے ضوابط متعین کیے ہیں جس پر عمل پیرا ہو کر ہر طبقہ خوشحال اور معاشرہ پرامن زندگی گزارسکتا ہے۔ لیکن جب انسان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے ،سرد مہری کا شکار ہوکر حلال و حرام کے قیود کی زنجیروں کو توڑ کر ،قناعت پسندی کے اصولوں کو تار تار کرکے حرام خوری اور رشوت خوری میں ڈوب جاتا ہے تو پھر معاشرہ ظلم و بربریت ، سفاکیت اور پامالی ٔ حقوق کے ایسے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جہاں سے واپس نکلنا محال ہوجاتا ہے اور ہر فرد کی ہنستی زندگی بے رونق ہوجاتی ہے چونکہ ایسی صورت میں اہل حق کو اس کا حق نہیں ملتا ہے اور عدلیہ و محاکم رشوت کے جال میں پھنس کر ظالموں کی مدد کرکے مظلوموں پر مزید ظلم کے راستے ہموار کردیتے ہیں ۔ ایک مظلوم کی صدا دب جاتی ہے اورتمام شعبۂ جات میںاسے ٹھوکر یں کھانی پڑتی ہے ۔
    رشوت لغوی اعتبار سے : ہر وہ چیز جو کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دیا جائے، اس کی جمع رُشا ہے ۔ [الفائق فی غریب الحدیث:۲؍۶۰]
    ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رشوت کی اصل یہ رِشا ہے جس کا مطلب ڈول ہے جس کے ذریعہ کنویں کے پانی تک پہنچا جاتا ہے ۔ [النھایۃ فی غریب الحدیث ولأثر:۲؍۲۲۶]
    رشوت شرعی اعتبار سے : ’’ما يعطي لابطال حق أولاحقاق باطل‘‘ ’’حق کو باطل یا باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے جو دیا جائے اسے رشوت کہتے ہیں ‘‘[المطلع :۲۱۸]گویا انسان اگر اپنے حق کے حصول کے لیے مال خرچ کرتا ہے تو اس کا اطلاق رشوت پر نہیں ہوگا۔
    رشوت کا حکم : رشوت کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوگا ، یہ حرام عمل ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے :{سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْت}ِ ’’باطل کر مزے لے کر سننے والے اور رشوت خور اگر آپ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ ان کے فیصلے کریں یا نہ کریں ‘‘[المائدہ:۴۲]
    حسن اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ’’سحت‘‘ سے مراد رشوت ہے ۔ دوسری آیت ہے : { وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَي الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
    ’’ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو اور نہ ہی حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا کچھ مال ظلم سے اپنایا کرو حالانکہ تم جانتے (کہ یہ غلط ہے)‘‘[البقرۃ:۱۸۸]
    گو یا اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے دعوے کے باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی خاطر جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہوں کو حاضر کرکے ناجائز طریقے سے حکام کو چکر دے کر اپنے دعوؤں کو ثابت نہ کریں۔
    آپ ﷺ نے فرمایا : ’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ اَلرَّاشِيْ وَالْمُرْتَشِيْ‘‘’رشوت لینے اور دینے والے پر آپ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے‘‘[سنن ابی داؤد:۳۵۸۰،صحیح]
    دور حاضر میں معاشرہ کا ایک سرسری جائز ہ لیا جائے تو بہت سی شکلیں موجود ہیں جن پر بلاشبہ رشوت کا اطلاق لازم آتا ہے۔ چند مندرجہ ذیل ہیں :
    (۱) زکوٰۃ وصولی اور رشوت: مدارس و مکاتب کے ذمہ داران کسی صاحب کو زکوٰۃ وصولی کے لئے کچھ اجرت متعین کرکے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، یہ صاحب شہر پہنچ کر خوب دلجمعی کے ساتھ زکوٰۃ و خیرات کی وصولی کرتے ہیں اور وداعی طور پر خوب ہدایاو تحائف بھی سمیٹ لیتے ہیں ۔ بالآخرفنڈ کے لئے جمع شدہ رقم ذمہ داران کو دیکر باقی تحائف کے مبالغ کو اپنے لئے خاص کرلیتے ہیں جو کسی بھی صورت میں جائزنہیں ہے بلکہ اس طرح کے ہدایا کا قبول کرنا اور استعمال کرنا حرام ہے ۔چونکہ اگر یہ شخص اپنے گھر پر ہوتا ہے تو یہ تحفے اسے نہیں ملتے اور انتظامیہ کی طرف سے چندہ وصولی کے لئے اس کی اجرت دے دی جاتی ہے ۔
    ایسے شخص کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو اپنے والدین کے گھر تحفے وصول کرنے کے لئے کیوں نہیں بیٹھتا ۔[صحیح البخاری : ۲۵۹۷]
    (۲) اسکول میں داخلہ کے لئے سفارش اور رشوت : معاشرہ میں عام ہے کہ کسی مدرسہ یا اسکول میں اپنے کسی قریبی کا داخل کرانے کے لئے مدرسہ کے ذمہ دار سے سفارش کرتے ہیں اور ساتھ میں کچھ ہدیہ یا نذرانہ ذمہ دار کے لئے ،اس قسم کا تحفہ قبول کرنا درست نہیں ہے ، بلکہ اس سے رشوت کا دروازہ کھلتا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے : [سنن ابی داؤد:۳۵۴۱، حسن]
    (۳) اسپتال اور دواخانہ میں رشوت : چونکہ ہندوستان بہترین علاج و معالجہ اور اچھے اسپتالوں کا مرکز ہے جہاں روزانہ بکثرت عربی مریض بہتر علاج کے لئے آتے ہیں ۔ چونکہ زبان اور جگہ اجنبی ہوتی ہے لہٰذا کسی ہمدردپہ یقین کرکے ہندوستان کے مشہور شہروں تک پہنچتے ہیں ،ابھی ایئرپورٹ پر اترتے نہیں ہیں کہ ان کی آمدو رفت کے لئے ٹیکسی ، رہائش کے لئے ہوٹل ،علاج کے لئے ہاسپٹل اور دواؤں کے لئے دواخانہ اور ضروری فحوصات اور چیک اپ کے لئے مختلف لیب کی بکنگ ہو چکی ہوتی ہے ، ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر اسپتا ل کے مالک ،ڈاکٹر ،دواخانہ اور ہوٹل کے مالکا ن سے کمیشن کی بات طے ہوجاتی ہے ۔ مریض کی مالی حالت کی پرواہ کئے بغیر اپنے حق کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ بسا اوقات جہاں ایک رپورٹ سے مرض کی تشخیص کی جاسکتی تھی وہاں آپسی تال میل کی بنیاد پر کئی ایسے رپورٹ نکالے جاتے ہیں جس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے اور جہاں مریض کم پیسوں میں علاج کراسکتا تھا ایسے غیر متوقع اخراجات میں ڈھکیل کر کمیشن سے اپنی جیب گرم کرلیتے ہیں ۔ جسے عام زبان میں رشوت کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
    (۴) پردھانی انتخابات اور رشوت : موجودہ دور کے پردھانی الیکشن کے پیش نظر یہ تجزیہ کرنا بالکل درست ہوگا کہ الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے لئے ہر ایک امیدوار بے دریغ پیسے لٹاتا ہے یہاں تک کہ ہر فرد کے پیچھے ایک رقم متعین کی جاتی ہے ۔ ابھی الیکشن کا دن متعین بھی نہیں ہوتا ہے کہ ہر امیدوار کی الگ الگ پارٹیاں شروع ہوجاتی ہیں اور وقت قریب آتے آتے تمام ووٹران کو رشوت کے جال میں ایسا پھنسا لیا جاتا ہے کہ انتخابات کے دن ووٹر کسی بھی امیدوار کی اہلیت کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے اپنا ووٹ ایک ایسے امیدوار کو دے دیتا ہے جو بالکل سرے سے اس منصب کا اہل ہی نہیں ہوتا ہے ۔
    ایسی صورت میں ایک حقدار نمائندہ کی حق تلفی ہوتی ہے، ایمانداری کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ، اور اس صورت میں پیسہ کھلانے والا اور کھانے والا دونوں رشوت کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’لَعَنَةُ اللّٰهِ عَلَي الرَّاشِيْ وَالْمُرْتَشِيْ‘‘ ’’رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو‘‘ [سنن ابن ماجۃ:۲۳۱۳،صحیح]
    (۵) ایک عہدہ دار اور رشوت: ایک ذمہ دار جو مقرر شدہ تنخواہ پر کسی مکتب ، کمپنی یا دفتر میں زیر ملازمت ہو اگر یہ افسر اپنے مالک کے علم کے بغیر اپنی تنخواہ کے علاوہ کچھ وصول کرتا ہے تو یہ بددیانتی اور خیانت ہے جس کی مختلف شکلیں معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔
    ۱۔ اگر کوئی شخص کسی ویزہ آفس میں کام کرتا ہے ،قانوناً اسے یہ حق حاصل ہے کہ ہر ایک شخص کا روزانہ ایک متعین مقدار میں ویزا اسٹامپ کرے لیکن رشوت خوری کرکے کسی کے ویزے کی مقدار بڑھادیتا ہے تو ایسی صورت میں طرفین گنہگار ہوں گے ،کیونکہ یہاں ایک عام آدمی کی حق تلفی ہوتی ہے ۔
    ۲۔ ایک محاسب (خزانچی) جو کسی آفس یا کمپنی میں کام کرتا ہے گراہکوں یا Clientsسے تحفے و ہدایا لے کر اس کے کاغذات یاCheques کو ترجیح دے کرClean کرادیتا ہے، ایسی صورت میں دوسرے گراہکوں پر ظلم کرکے کمپنی کے ساتھ خیانت کرکے رشوت جیسے گھناؤنے جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے اور اس کا یہ عمل ناجائز ہوگا۔
    تحفہ کب رشوت کے دائرہ میں ؟ یہ چیز بدیہی ہے کہ تحفہ الفت و محبت کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے جس سے آپسی چیقلش اور نفرت ختم ہوتی ہے، آپ ﷺ نے ہدیہ لینے دینے پر ابھارا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’تھادوا تحابوا‘‘ ’’آپس میں تحفہ کا لین دین کرو اس سے آپسی محبت بڑھتی ہے ‘‘[مؤطا مالک:۲۶۴۱،حسن]
    تحفہ کے تبادلہ کے پس منظر میں ایک بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ تحفہ اور رشوت میں بہت ہی باریک اور گہرا ربط پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ تحفہ کا اطلاق اس وقت تک ہوگا جب تک اس سے کوئی ذاتی مصلحت یا غرض پنہاں نہ ہو اگر یہی تحفہ کسی مصلحت سے مشرو ط ہوگیا تو یہ رشوت کے دائرے میں داخل ہوجائے گا ۔ عبد الغنی النایلی فرماتے ہیں :’’الرشوة هي ما يعطيه بشرط ان يعنيه والهدية لا شرط معها‘‘’’ہدیہ میں کوئی شرط نہیں ہوتی ہے جبکہ رشوت میں مدد کی شرط ہوتی ہے ‘‘ [تحقیق القضیۃ فی الفرق بین الرشوۃ والھدیۃ]
    گویا رشوت کے ذریعہ کسی حق کو باطل ثابت کرنے یا باطل کو حق ثابت کرنے کی شرط ہوتی ہے ۔ اگر یہی شرط یا مقصد تحفہ کے ساتھ شامل ہو تو بلاشبہ وہ تحفہ رشوت میں بدل جائے گا ۔
    آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَي عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا، فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ‘‘
    ’’اگر ہم نے کسی کو کسی عہدے پر فائز کیا اور اس کی اجرت بھی دی ،اگر وہ شخص اس تنخواہ یا اجرت کے علاوہ جو بھی حاصل کرتا ہے وہ خیانت ہے ‘‘[سنن ابی داؤد:۲۹۴۳،صحیح]
    قارئین کرام ! تحفہ کو قبول کرنا یا تحفہ دینا ایک بہت ہی حساس اور باریک مسئلہ ہے ان اقوال و احادیث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی کے زیر کفالت ہواور اسے ایک متعین تنخواہ ملتی ہو ۔ اس تنخواہ کے علاوہ اگر اسے اس کی ذمہ داری کے مدنظر کسی بھی جانب سے کوئی رقم یا سامان بطور ہدیہ ملتا ہے تو یہ درست نہیں ہے ۔ کیونکہ اس ہدیہ کا تعلق اس ذمہ داری سے ہے جو اسے سونپی گئی ہے ۔ اس کے جواز اور عدم جواز کا معیار آپ ﷺ نے فرمادیا ہے کہ آدمی غور کرے کہ آیا یہ ہدیہ اسے اس کے اس منصب کی سبکدوشی کی صورت میں بھی مل سکتا ہے یا یہ صرف اس کی ڈیوٹی سے مربوط ہے ؟ اگر یہ ہدیہ اس کے منصب سے ہٹنے کی صورت میں منقطع ہوگا تو اس ہدیہ کا شمار خیانت اور رشوت میں ہوگا۔
    قارئین کرام! معاشرہ میں مروجہ شکلوں کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہیں ہم بھی تو اس عمل میں ملوث نہیںہیں (خواہ اس کی جو بھی شکل ہو) نفس کا محاسبہ کریں، توبہ و استغفار کریں، لالچ کو الوداع کہہ کر قناعت پسندی کو لازم پکڑیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رزق حلال کمانے ،حرام خوری و لالچ سے بچتے ہوئے قناعت پسندی کے ساتھ پر سکون زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings