-
اسلام میں توہین رسالت کی سزا اور توہین و تردید کا فرق توہین اور تردید کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے جولوگ یہ فرق نہیں سمجھ پاتے وہ دوسروں کی تردید اور اختلاف رائے کو بھی توہین سمجھ بیٹھتے ہیں ،اورجواباً ان پرسب وشتم اورتوہین کاسلسلہ شروع کردیتے ہیں اورجب ان سے کہا جائے کہ کسی کی توہین کرنا درست نہیں تو کہتے ہیں ہماری بھی تو توہین کی جاتی ہے،حالانکہ ان کی کسی نے توہین نہیں بلکہ تردیدکی ہوتی ہے۔
یہی غلط فہمی اور ہٹ دھرمی ان غیرمسلموں کی بھی ہے جو اللہ کے نبی ﷺ کی توہین کرتے ہیں ، اورجب ان کے خلاف احتجاج کیاجائے تو جواب یہ دیتے ہیں کہ مسلمان بھی ہمارے معبودوں اورہماری مقدس ہستیوں کی توہین کرتے ہیں،پھر اگران کے نبی ﷺ کے بارے میں ہم نے زبان کھول دی توکون ساجرم کیا؟
ان کے اس جواب پرکچھ بھولے بھالے مسلمان بھی حیران ہوجاتے ہیں ،اوریہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخرہم بھی تو دوسروں کے خلاف بولتے رہتے ہیں پھریہ سوچ کرتسلی کرلیتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اس لئے ہمیں بولنے کا حق ہے اوردوسرے لوگ باطل پرہیں اس لئے ہم انہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
حالانکہ یہ سوچ اسلام کے سراسرخلاف ہے ، دراصل یہ لوگ توہین اور تردید کا فرق نہیں سمجھ پارہے اورخلط مبحث کے شکارہیں۔
اسلام میں یہ تعلیم توہے کہ غلط کو غلط کہا جائے یعنی باطل کی تردید کی جائے لیکن اسلام اس کی اجازت قطعاً نہیں دیتا کہ اہل باطل کی توہین کی جائے ،اس لیے تردید کاجواب توہین سے دینا اوراسلام اورمسلمانوں پردوسروں کی توہین کا الزام لگانا سراسرنا انصافی ہے۔
قرآن مجید معبودانِ باطلہ کے رد سے بھراہواہے لیکن معبودانِ باطلہ کی توہین میں پورے قرآن میں ایک حرف بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس قرآن نے صراحت کے ساتھ اس بات سے منع کردیا ہے کہ معبودانِ باطلہ پرسب وشتم کیاجائے یاان کی توہین کی جائے ، ارشاد ہے:
{وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَالِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَي رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
’’اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے ‘‘ [ الأنعام:۱۰۸]
غورکریں کہ وہ معبودانِ باطلہ جنہیں اللہ کے بالمقابل کھڑا کیا گیا ہے جب ان کی توہین کی اجازت اسلام میں نہیں ہے تو بھلاکسی اورکی توہین کی اجازت اسلام کیسے دے سکتاہے؟
اسلام کی نظرمیں انسانیت کاسب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور قرآن میں متعدد مقامات پرصراحت کے ساتھ اسے تمام انسانوں کا عدوٌّ مبین کہا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود شیطان پربھی سب وشتم کی اجازت اسلام میں نہیں، بلکہ اللہ کے نبی ﷺ نے پوری صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو اس بات سے روک دیا کہ وہ شیطان پرسب وشتم کریں ،حدیث رسول ﷺ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’ لَا تَسُبُّوا الشَّيْطَانَ وَتَعَوَّذُوا بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهِ ‘‘
یعنی اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا:’’کہ شیطان کو گالی نہ دو بلکہ اس کے شرسے اللہ کی پناہ طلب کرو ‘‘ [المخلصیات: رقم: ۱۵۷۲، وصححہ الالبانی علی شرط البخاری فی الصحیحیۃ :رقم:۲۴۲۲]
غورکریں جو اسلام ، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ’’شیطان‘‘پرسب وشتم کی اجازت نہیں دیتا کیا وہ اپنے متبعین کو یہ تعلیم دے سکتا ہے کہ اپنے مخالفین پرسب وشتم کرو یاان کی توہین کرو؟
صرف یہی نہیں کہ اسلام نے دوسروں پرسب وشتم سے منع کیا ہے بلکہ اسلام نے کسی کو یہ بھی اجازت نہیں کی کہ وہ اپنے آپ پرسب وشتم کرے حالانکہ یہ انسان کا اپنا معاملہ ہے جس میں کسی دوسرے کے لیے ایذا رسانی بھی نہیں ہے ۔ چنانچہ حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ خَبُثَتْ نَفْسِي، وَلَكِنْ لِيَقُلْ لَقِسَتْ نَفْسِي ‘‘
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میرانفس خبیث ہوگیا بلکہ یوں کہے میرانفس سستی وکاہلی کاشکارہوگیا ‘‘[بخاری:کتاب الادب:باب لایقل خبثت نفسی :رقم:۶۱۷۹]
الغرض یہ کہ اسلامی تعلیمات میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کسی پرشب وشتم کیا جائے چاہے وہ اپنے ہوں یاپرائے ، موافقین ہوں یامخالفین۔
ہاں اسلام غلط کو غلط کہنے اورباطل کورد کرنے کاحکم دیتا ہے ، اور اگرکوئی غیرمسلم اسلام کوبھی غلط کہے اوراسے باطل کہہ کررد کردے تو اس کے لئے وہ آزادہے۔
لیکن اسلام میں کسی کی توہین کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورنہ ہی دوسروں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ اسلام اوراللہ کے نبی ﷺ کے خلاف زبان درازی کریں یاسب وشتم اوراہانت کریں ۔
اگرکوئی اللہ کے نبی ﷺ کونہیں مانتاتو نہ مانے اس میں وہ آزاد ہے لیکن اگرکوئی اللہ کے نبی ﷺ کی توہین کرتاہے تووہ قطعاً آزاد نہیں بلکہ اسلام میں اس کے لئے سزائے موت ہے ۔
اسلام ادیانِ باطلہ کی تردید کرتا ہے ، اوردوسروں کو بھی آزادی دیتاہے کہ اگر وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تو وہ اسے ردکرسکتے ہیں کوئی زوزبردستی نہیں ہے۔ ارشادہے:
{لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَي لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللّٰهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ }
’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے ‘‘ [البقرۃ : ۲۵۶]
لیکن اسلام دوسرے کسی بھی مذہب یا اس کے رہنماں کی توہین نہیں کرتا اس لئے دوسروں کوبھی اس بات کاحق نہیں کہ وہ اسلام یا نبی اکرم ﷺ کی توہین کریں۔
ضروری ہے کہ توہین اور تردید کے فرق کوسمجھاجائے اوراپنے مخالفین کی صرف تردید کی جائے نہ کی توہین ۔