Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سورہ کہف دورفتن کا ایک محفوظ قلعہ

    (پانچویں قسط)

    عتیق الرحمن عبید الرحمن سلفی (اسلامک انفارمیشن سینٹر، ممبئی )

    حکومت وبادشاہت اسلام کی نظر میں:

    انسانی معاشرہ ہمیشہ سے قیادت اور سیادت کا محتاج رہا ہے تاکہ اپنے معاملات اور مسائل کو بآسانی حل کرسکے،اور دشمنوں سے اپنا بچاؤکرسکے،کیونکہ سماج کی اصلاح وفساد میں بادشاہوں اور صاحب اقتدار شخصیات کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں،اگر وہ عادل اور صاحب ایمان ہوں تو سماج میں امن و سکون رہتا ہے،اور اگر وہ ظالم ہوں تو سماج کو تباہی کی راہ پر لگا دیتے ہیں،سورہ کہف کے آغازمیں آپ نے دیکھا کہ اصحاب کہف جو ایمان،توحید،اصلاح،امن وسلامتی کے داعی تھے،لیکن بادشاہ اور رؤساء قوم برے اور ظالم تھے،اس لئے انہیں اپنے دین وایمان کی حفاظت کیلئے غار میں روپوش ہونا پڑا،اسی لئے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ حکومت وبادشاہت کے اصلی حق دار اللہ کے صالح بندے ہیں، اور اللہ تعالیٰ بطور انعام اور آزمائش انہیں عطا فرماتا ہے، البتہ اپنی حکمت ومشیت سے بسا اوقات ظالم ترین شخص کو بھی اللہ حاکم بنادیتا ہے۔جیسے فرعون،نمرود کو بنایا۔اللہ کا فرمان ہے:

    {قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَن تَشَاء ُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء ُ}

    ’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ!اے تمام جہان کے مالک!تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘[آل عمران:۲۶]

    عہدہ ومنصب،نعمت یامصیبت:

    عہدہ اور منصب اس شخص کیلئے نعمت ہے جو اس کا اہل ہو،جو سماج میں عدل وانصاف قائم کرنا چاہتاہو،لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے،مسائل حل کرنے،امن وسکون کا ماحول بنانے کا خواہاں ہو،اور منصب کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی ادا کرسکتا ہو،ایسے حکمرانوں اور منصب داروں کیلئے پیارے رسول ﷺ کی یہ حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:

    ’’إنَّ المُقْسِطِينَ عِنْدَ اللّٰهِ علٰی مَنابِرَ مِن نُورٍ، عن يَمِينِ الرَّحْمَنِ عزَّ وجلَّ ،وكِلْتا يَدَيْهِ يَمِينٌ، الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فى حُكْمِهِمْ وأَهْلِيهِمْ وما ولوا‘‘

    ’’جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ عزوجل کے پاس منبروں پر ہوں گے پروردگار کے دا ہنی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے)اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حکم کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جائے اس میں انصاف کرتے ہیں‘‘[صحیح مسلم :۱۸۲۷]

    نااہلوں کا مناصب اور عہدوں پر فائز ہونا قیامت کی نشانی اور سماج کی بربادی کی پہچان ہے،اسی لئے نااہلوں کو اس سے دور رہنا چاہیے،اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو ہر قسم کی ذمہ داریوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی تھی،آپ ﷺ نے فرمایا:

    يَا أَبا ذَرٍّ، إنَّكَ ضَعِيفٌ، وإنَّها أَمانَةُ، وإنَّها يَومَ القِيامَةِ خِزْيٌ وَنَدامَةٌ، إلّا مَن أَخَذَها بحَقِّها، وَأَدّي الذى عليه فِيها‘‘

    ’’اے ابوذر!تو ناتواں ہے اور یہ امانت ہے (یعنی بندوں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سب حاکم کو ادا کرنے ہوتے ہیں)اور قیامت کے دن خدمت سے سوائے رسوائی اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں مگر جو اس کے حق ادا کرے اور راستی سے کام لے‘‘[صحیح مسلم:۱۸۲۵]

    یہ حدیث رسولﷺبھی دل کی گہرائی سے،پوری بصیرت سے پڑھنی چاہئے اور دنیا میں ہی اپنے انجام کو معلوم کرنا چاہئے۔نبی ﷺنے فرمایا:

    ’’ما مِن عَبْدٍ اسْتَرْعاهُ اللّٰهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْها بنَصِيحَةٍ، إلَّا لَمْ يَجِدْ رائِحَةَ الجَنَّةِ‘‘

    ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘[صحیح بخاری:۷۱۵۰]

    عہدہ کا فتنہ:

     عوامی مسئولیت اور ذمہ داری صالح اور باصلاحیت انسان کیلئے ایک نعمت ہے،بڑے بڑے اہم سماجی کام اس سے پورے ہوسکتے ہیں جو انفرادی طور پر ممکن نہیں ہیں،اسی لئے ’’امام عادل‘‘(انصاف کرنے والا بادشاہ )کو عرش الہٰی کے سائے میں جگہ ملے گی،اگر کوئی عہدہ اور منصب ملنے پر تکبر میں مبتلا ہوجائے،حقوق ضائع کرنے لگے،لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنے لگے،کمزوروں پر اتیاچار کرنے لگے ایسے ظالم حکمراں کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا،عہدہ کا یہ فتنہ تمام مناصب کے لئے عام ہے،مسجد،مدرسہ،سینٹر،اسکول،یونیورسٹی،کارپوریٹس،کہیں بھی آپ ذمہ دار ہیں تو آپ آزمائش میں ہیں بغیر حق کی ادائیگی کے نجات نہیں ملے گی۔

    قصۂ ذوالقرنین :

    اللہ نے مشرکین مکہ کے سوال پوچھنے پر ذوالقرنین کے حیات مبارکہ کے درخشاں اور قابل عبرت ونصیحت پہلو کو بیان فرمایا ہے،کیونکہ قرآنی قصوں کا مقصد عبرت ونصیحت ہے،اسی لئے قرآن نے ذوالقرنین کی حیات سے متعلق وہی بیان کیا جس کی ہمیں ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

    {وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِی الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا}

    ’’آپ سے ذوالقرنین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں‘‘[الکہف:۸۳]

    ذوالقرنین کی بادشاہت اور طاقت وقوت کا بیان:

    اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری دنیا کی بادشاہت عطا فرمائی تھی،آپ کو تمام وسائل اور ذرائع عطافرمایا،جس کی آپ کو ضرورت تھی ،انتہاء مشرق ومغرب تک کا سفر اور پوری دنیا پر حکمرانی کا شرف آپ کو ملا ، فرمان الہٰی ہے:

    {إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْئٍ سَبَبًا}

    ’’ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے سامان بھی عنایت کردئے تھے‘‘[الکہف:۸۴]

    ذرا غور فرمائیں!  اللہ نے ذوالقرنین کو ہر چیز کے اسباب اور ذرائع عطا فرمائے تھے، جسمانی، ذہنی، مالی، افرادی، لسانی،علمی،تمام وسائل جن سے زبردست بادشاہت کا قیام اور پھیلاؤ ہوسکے اللہ نے ذوالقرنین کو عطا فرمایا تھا۔

    اللہ نے ذوالقرنین کے تین سفروں کا ذکر فرمایا ہے،ذوالقرنین کی عظیم سلطنت،دلکش شخصیت،مضبوط کردار،پختہ ایمان اور بہت کچھ انہی اسفار میں پوشیدہ ہے،سفر وسیلۂ ظفر بھی ہے اور اخلاق وکردار کے ناپنے کا پیمانہ بھی ہے۔آئیے قرآن کی روشنی میں ان سفروں کو پڑھتے ہیں۔

    پہلا سفر:  ذوالقرنین کو اللہ نے اسباب اور وسائل بے شمار عطا فرمائے تھے،انہی کا استعمال کرتے ہوئے اس نے سفر کا آغاز کیا،پہلا سفر مشرق کی طرف کیا،تاکہ ظلم کو روک سکے،لوگوں کو انصاف دلاسکے،عدل قائم کرسکے،فتوحات پر فتوحات کرتے ہوئے وہ مشرق کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ وہ آخری آبادی تک پہونچ گیا،جس کے آگے تاحد نگاہ صرف پانی ہی پانی نظر آرہا تھا،اس نے سورج کو دیکھا گویا سورج گندلے،سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    {حَتّٰي إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ }

    ’’یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا‘‘[الکہف:۸۶]

    وہیں ایک فاسق اور ظالم قوم پر اسے فتح ملی،اللہ نے ذوالقرنین کو غلبہ دے کر فیصلہ کا اختیار دیا کہ اس قوم کے ساتھ جیسا چاہو ویسا برتاؤکرو ،اللہ نے فرمایا:

    {وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا}

    ’’اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا، ہم نے فرما دیا کہ اے ذوالقرنین!یا تو تو انہیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے‘‘[الکہف:۸۶]

    لیکن ذوالقرنین ایک کشادہ دل،عدل وانصاف کرنے والا اور اصول پسند بادشاہ تھا،اس نے ایک عدل پر مبنی قانون پیش کیا۔اللہ نے ارشاد فرمایا:

    {قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَي رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُكْرًا، وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء ً الْحُسْنَي وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا}

    ’’اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے، پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت تر عذاب دے گا۔اور رہا وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو اس کے لیے بدلے میں بھلائی ہے اورعنقریب ہم اسے اپنے کام میں سے سراسر آسانی کا حکم دیں گے‘‘[الکہف:۸۷۔۸۸]

    دوسرا سفر:   اللہ نے فرمایا:

    {ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا}’’پھر وہ اور راہ کے پیچھے لگا‘‘[الکہف:۹۲]

    یعنی اب مغرب سے فارغ ہوکر مشرق کے سفر پر روانہ ہوا،یہ اس کا دوسرا بڑا اور اہم سفر تھا،یہاں تک کہ وہ مشرق کی آخری آبادی تک پہنچ گیا،یہاں اس نے ایک ایسی قوم کو پایا جو بے حد غیر مہذب،جاہل،نادار،وسائل سے محروم، صحرا نشین لوگ تھے،جن پر سورج طلوع ہوتا تھا لیکن اس کی تپش سے بچاؤ کے لئے ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔اللہ نے ارشاد فرمایا:

    {حَتّٰی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا}

    ’’یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی ‘‘[الکہف:۹۰]

     اس قوم کے ساتھ بھی ذوالقرنین نے عدل وانصاف اور احسان کا معاملہ فرمایا،اور جتنے بھی وسائل وذرائع اس کے پاس تھے سب کا بہترین استعمال کیا،اس کے کارناموں،طاقت وقوت،اسباب ووسائل کا پورا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔اللہ کا فرمان ہے:

    {كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا}

    ’’واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے‘‘[الکہف:۹۱]

    تیسرا سفر:  حرکت وعمل کا پیکر،جہد مسلسل،عمل پیہم کا خوگر یہ صالح بادشاہ پھر ایک اور سفر پر نکل گیا،یہاں تک کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دو مضبوط پہاڑ تھے اور ان کے درمیان ایک گھاٹی تھی اور پہاڑ کی دوسری طرف ایک ایسی قوم آباد تھی جنہیں صرف اپنی زبان کا علم تھا وہ ذوالقرنین کی گفتگو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے، لیکن وہ لوگ یاجوج ماجوج کے فساد اور قتل وغارت گری،لوٹ مار سے حد درجہ پریشان تھے،انہوں نے ذوالقرنین سے کہا کہ یاجوج ماجوج بہت بڑے فسادی ہیں،ہم آپ کو مال ودولت عطا کردیں،اس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار قائم کردیں،ذوالقرنین کا جواب آیت میں ملاحظہ فرمائیں:

    {قَالَ مَا مَكَّنِّی فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِی بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا}

    ’’اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو۔میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنادیتا ہوں‘‘[الکہف:۹۵]

    اپنی رعایا کی حفاظت،مفسدین پر کڑی پابندی،مضبوط دفاع ایک بادشاہ اور حکمراں کی ذمہ داری ہوتی ہے،وہی اس مسلم عادل بادشاہ نے بھی کیا، انہوں نے دیوار کا مطالبہ کیا لیکن اس نے مضبوط باندھ کا انتظام فرمایا،اور کام شروع کردیا۔آیت کریمہ اس طرح ہے:

    {آتُونِی زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتّٰي إِذَا سَاوَی بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتّٰي إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا}

    ’’مجھے لوہے کی چادریں لادو۔ یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا، تو فرمایا میرے پاس لاؤ اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں ‘‘[الکہف:۹۶]

    اس طرح یہ عظیم کام ذوالقرنین اور اس مظلوم قوم کے باہمی تعاون سے مکمل ہوااور اتنا مستحکم اور مضبوط بنا کہ اس کو توڑ کر یااس پر چڑھ کر یاجوج ماجوج کیلئے انسانی آبادی تک پہنچنا ناممکن ہوگیا ۔ اللہ نے فرمایا:

    {فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا}

    ’’پس تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ان میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے‘‘[الکہف:۹۷]

    اس طرح فسادی قوم یاجوج ماجوج کو قید کردیا گیا،اور انسانیت کی دفاع اور حفاظت کا ایک بہت عظیم اور بے مثال کام پورا ہوگیا تو ذوالقرنین نے ایک بہت بڑی بات کہی جسے قرآن کریم نے ایک آیت میں بیان فرمایا ہے،قصہ ذوالقرنین کا خاتمہ بھی اسی آیت پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    {قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّی فَإِذَا جَائَ وَعْدُ رَبِّی جَعَلَهُ دَكَّائَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّی حَقًّا}

    ’’کہا یہ صرف میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا، بیشک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے‘‘[الکہف:۹۸]

    یہ ہے ذوالقرنین کے متعلق قرآنی بیان،جسے اللہ نے اختصار کے ساتھ آیت نمبر ۸۳تا ۹۸ میں بیان فرمایا ہے۔

    اہل علم کے یہاں بڑی بڑی بحثیں موجود ہیں لیکن ان سب سے صرف نظر میں نے صرف قرآنی بیان پر اکتفا کیا ہے،اور الحمد للہ عبرت ونصیحت کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔

    عبرت ونصیحت کے مرکزی پہلو:

    منصب ملنے پر جو بادشاہ یا ذمہ داران،یا رؤساء قوم کبر وغرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں،خدمت خلق کی بجائے ان پر ظلم کرنے لگتے ہیں،حقوق ادا کرنے کی بجائے ضائع اور غصب کرنے لگتے ہیں،ایسے لوگ بہت بدترین ہیں اور ان کا انجام بھی بہت برا ہے،موسیٰ وخضر علیہما السلام کے قصہ میں ایک ظالم بادشاہ کا ذکر ہے جس کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ غریبوں کی اچھی کشتیوں کو زبردستی چھین لینا اس کا کام ہے،کمزوروں پر ظلم ،قساوت قلبی کی انتہا ہے۔اور ذوالقرنین کی طرح حکومت وطاقت ملنے پر عدل وانصاف،خدمت خلق،رعایا کی خبر گیری اسلامی تعلیم ہے،اور یہی اس قصہ کا مرکزی درس ہے۔

    نصائح وعبر:

     میں نصائح کو بہت اختصار سے پیش کررہاہوں۔یہ نصیحتیں ہمیں ایک نئی اور روشن صبح کا تحفہ دیں گی۔ان شاء اللہ

    پہلی نصیحت:  بادشاہت اور قوت وطاقت،اسباب وذرائع اللہ ہی عطا فرماتا ہے،اور وہ چھین کر ذلیل بھی کرتا ہے،اس لئے فرعون کی طرح کبر وغرور میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ ذوالقرنین کی طرح شکر گزار بننا چاہئے۔

    دوسری نصیحت:  اللہ کے عطا کردہ وسائل کا پوری مہارت کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے، جسمانی، علمی، ذہنی، مالی، افرادی،ملکی تمام ذرائع کا خوب خوب استعمال کرنا چاہئے،یہی اس کی شکر گزاری ہے،کاہلی اور سستی سے ہزار بار اللہ کی پناہ،ذوالقرنین کو اللہ نے اسباب دئیے اور انہوں نے اسباب کا استعمال کرکے دعوت الی اللہ اور نظام عدل کو عالمی سطح پر پہنچایا،آج ہمارے پاس مال ہے،افراد ہیں،علماء اور مدارس ہیں،عوام کی قوت ہے،لیکن ان کا بہترین استعمال ہمیں نہیں آتا ہے،اسباب وذرائع کا درست استعمال کرناذوالقرنین کی ایک عظیم صفت ہے۔

    تیسری نصیحت:  اپنے مشن کے لئے فداراکاری،جانفشانی،قربانی اور طویل جد وجہد کا خوگر ہونا۔

    ذوالقرنین کا مقصد حیات دعوت الی اللہ،امر بالمعروف،نہی عن المنکر،قیام عدل،ظلم وجور کا خاتمہ،مظلوم کی فریاد رسی وغیرہ تھا،اس کے لئے بڑے بڑے اسفار کئے،مسلسل اور بے انتہاء کئے،اس راہ میں ہر قسم کی تکلیفوں اور مصائب وآلام کو جھیلا،تکمیل مقصد کے لئے کسی چیز کو آڑے نہیں آنے دیا،اسی لئے تو مشرق ومغرب کی آخری آبادیوں تک پہنچ کر بھی دم نہیں لیا،ایک انتہا پر پہنچ کر دوسری سمت مڑ گیا،تیسری سمت مڑ گیا،لیکن سفر جاری رکھا، جدوجہد کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے۔

    چوتھی نصیحت:  سب کے ساتھ عدل کا معاملہ کرنا،مجرمین کو سزا اور اچھے لوگوں کی تکریم کرنا۔

    بہتر سماج کی تشکیل اور پرامن و پرسکون معاشرہ کے لئے اس سے بہتر قانون نہیں ہوسکتا ہے،کہ مفسدین کو سزا دی جائے،ان پر بندش لگائی جائے،مجرمین کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں اور نافذ کیا جائے،نیز صالح اور امن پسند لوگوں کا احترام ہو،حوصلہ افزائی ہو،خاص رعایت ہو،آسانی اور سہولیات مہیا ہو،اسی سے سماج میں شر مٹے گا اور امن وسلامتی کو فروغ حاصل ہوگا۔

    پانچویں نصیحت:  تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا۔

    ذوالقرنین نے اپنے ان تینوں سفر میں تعلیم وتربیت کا پورا اہتمام کیا،پہلے سفر کی انتہا میں جس قوم سے سامنا ہوا ان کے لئے بنایا ہوا قانون اس بات کا اعلان تھا کہ ظلم کروگے تو ہم اس دنیا میں بھی سزا دیں گے اور آخرت میں بھی سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ توبہ واستغفار اور اصلاح کی طرف بلیغ دعوت ہے،تاکہ مجرمین میں سدھار پیدا ہواور ایمان واعمال صالحہ پر آخرت میں جنت کی بشارت اور دنیا میں آسانی کی خوشخبری امن پسند لوگوں کے لئے استقامت کی تلقین ہے۔ذوالقرنین یہاں کے لوگوں کی تربیت کرکے خود نئے سفر پر اور نئی مہم پر نکل گیا۔دوسری جگہ بھی اس نے ایسا ہی کیااور تیسری جگہ بھی اس نے قوم کے ہاتھوں سارے کام کروا کر خود اپنا دفاع اور بندھ بنانے کا کام سکھادیا تاکہ وہ ہمیشہ کسی کے محتاج نہ رہیں بلکہ اپنا کام خود کر لیا کریں۔

    چھٹی نصیحت: بے نیازی اختیار کرنا۔

    ایک ذمہ دار شخص کا بے نیاز اور حرص ولالچ سے دور رہنا بہت مؤثر ہوتا ہے،حریص اور لالچی ہونا سخت تباہ کن ہوتا ہے، پیارے رسول ﷺ نے سچ فرمایا:

    ’’مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ‘‘

    ’’دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے‘‘[سنن ترمذی:۲۳۷۶،صحیح]

    یاجوج ماجوج سے پریشان حال قوم نے ذوالقرنین سے کہا کہ ہم آپ کیلئے ٹیکس اور لفافے کا انتظام کردیتے ہیں، آپ ایک دیوار بنادیں،ذوالقرنین نے بلا معاوضہ اس سے بہتر دیوار بنادیااور کہا کہ:میرے پاس اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے ہمیں آپ کے مال ودولت کی ضرورت نہیں ہے۔مجبور اور پریشان حال لوگوں کو بلیک میل کرنا،مجبوری کافائدہ اٹھانا ایک عام بات ہوگئی ہے،حالانکہ اخلاق کا میزان یہی ہے، ذوالقرنین نے مظلوم اور پریشان قوم کاکام بھی اعلیٰ طور پر پورا کیا،تعلیم بھی دیا،دفاع کا طریقہ بھی سکھایا،وہ بھی بلا معاوضہ،سبحان اللہ!کیا بے نیازی اور کشادہ دلی ہے۔

    تواضع:  یہ بہت بنیادی نصیحت ہے،انسان کے پاس علم ، مال یامنصب کی شکل میں جتنی نعمت بھی موجود ہے،یا جو کچھ بھی کارنامے انجام دے رہا ہے،سب کو اللہ کی رحمت سمجھے،اور اپنے دین ایمان پر قائم رہے،کبر وغرور میں مبتلا نہ ہو، اتنے فتوحات اور اتنا محکم اور مضبوط دیوار قائم کرنے کے بعد اسے اپنے رب کی رحمت اور فضل وکرم کہنااور قیامت کے قیام اور اللہ کے وعدوں کا ذکر بہت بڑی بات ہے،کیونکہ یہاں معمولی عہدہ،منصب،کامیابی ملنے کے بعد اکثر لوگ بگڑ جاتے ہیں،ظلم و سرکشی کی راہ اپنالیتے ہیں۔

    اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے۔  آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings