-
اولاد اور عدل َقالَ النَّبِيُّ ﷺ’’كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه‘‘
’’آپﷺ نے فرمایاتم سب نگراں ہو اور اپنی رعایا کے مسئول ہو ‘‘[صحیح بخاری:۸۹۳]
اسلامی معاشرے میں والدین اپنی اولاد پر نگراں ہیں ،ا س لیے وہ مسئول ہیں آیا اولاد کے درمیان عدل قائم کیا؟
’’إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللّٰهِ عَلَي مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘
’’عدل کرنے والے رحمن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے‘‘[صحیح مسلم :۱۸۲۷]
یوں تو عدل کو اپنے طرز زندگی کے ہر معاملے میں مقدم رکھنا چاہیے مگر اولاد کی پرورش میں اس کویوں بھی زیادہ ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ایک نسل کی پرورش ہمارے کندھوں پر رکھی گئی ہوتی ہے۔اس معاملے میں ذرا سی کوتاہی ایک بچے کو دوسرے پر فوقیت دینا ،ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے والدین جس بچے پر دوسری اولاد کی نسبت ڈانٹ ڈپٹ تادیب یا سختی سے کام لیتے ہیں اس بچے میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔سب سے پہلے تو مالی کفالت کا معاملہ ہے ،ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی گھر میں یہ صورت حال ہے کہ ایک اولاد پر رقم کھلے ہاتھ سے خرچ کی جارہی ہوتی ہے جبکہ اپنے ہی سگے دوسرے بچے کو اپنے مال سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ اخبارات میں اولاد کو عاق کرنے کی خبریں ایک مستقل صفحہ ہے جبکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
’’كَفَي بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ‘‘
’’کسی کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان افراد کو ضائع کردے جن کے ذمے کفالت کا ذمہ تھا‘‘ [سنن ابی داؤد:۱۶۹۲، حسن]
اسلام نے جو وراثت کا مستقل قانون بنایا ہے اس کی رو سے تو اولاد کو عاق کر کے وراثت سے محروم کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
بعض گھرانوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ دیگر بہن بھائی ذہین ہیں مگر کوئی ایک بچہ اچھی پوزیشن نہیں لارہا تو والدین مقابلے کی فضا پیدا کر کے اس بچے پر نفسیاتی دباؤ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں جس سے بچے کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہنے لگتی ہے۔جبکہ کسی گھرانے میں اولاد صرف اولاد نرینہ کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔بیٹیوں کی پیدائش پر چہرے کی متغیر رنگت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :’’مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ البَنَاتِ بِشَيْئٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ‘‘
’’جسے بیٹیوں کی آزمائش آئے اور وہ ان سے اچھا برتاؤ کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے آگ سے ڈھال بن جائیں گی‘‘[صحیح البخاری :۱۴۱۸]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں میں اور وہ جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے‘‘۔راویٔ حدیث محمد بن عبدالعزیز نے درمیانی اور شہادت والی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔[الادب المفرد:۸۹۴صحیح]
یہاں بھی معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے کہیں تو بیٹوں کو برتر سمجھا جاتا ہے اور کبھی بیٹیوں کی حد سے بڑھی محبت میں بیٹوں کو نظر انداز کرنا بھی معمول کی بات ہے۔بیٹیوں کی اچھی پرورش کے لئے یہ ضروری تو نہیں کہ بیٹوں پر توجہ و محبت کو یکسر پس پشت ڈال دیا جائے یا بیٹے کا حق مار کر بیٹی کو نوازا جائے ،والدین افہام و تفہیم، بصیرت سے کام لے کر بیٹا بیٹی دونوں کے درمیان عدل کا معاملہ انجام دے سکتے ہیں اور اولاد سے یکساں سلوک اسی قسم کے رویوں کا ہی متقاضی ہے۔
ابن عون نے ہمیں شعبی سے ،انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی ،انہوں نے کہا : میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا ،پھر مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو گواہ بنائیں ۔ آپ نے پوچھا :کیا تم نے اپنے سب بچوں کو یہ ( اسی طرح کا )تحفہ دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا :نہیں ۔آپ نے پوچھا :کیا تم ان سب سے اسی طرح کا نیک سلوک نہیں چاہتے جس طرح اس (بیٹے )سے چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا:کیوں نہیں!آپ ﷺ نے فرمایا:تو میں (ظلم پر )گواہ نہیں بنتا ۔(کیونکہ اس عمل کی بنا پر پہلے تمہاری طرف سے اور پھر جواباً ان کی طرف سے ظلم کا ارتکاب ہو گا) ۔ [صحیح مسلم:۴۱۸۶]
میڈیکل سائنس اور نفسیاتی معالج یہ باور کراچکے ہیں کہ جو والدین بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی میں سے ان کی نفسیاتی ٹریننگ اور علاج معالجے کا خرچ ضرور نکال کر رکھیں۔
ایک شخص کو نبی پاک ﷺ نے فرمایا اللہ نے تمہارے دل سے بچوں کی محبت نکال لی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ:’’أَتَانَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ صِبْيَانٌ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا‘‘
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا‘‘[سنن ابن ماجۃ:۳۷۰۰،صحیح]
غرض اسلام اولاد سے محبت عدل کا درس دیتا ہے۔اس درس پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم اپنے سرمایہ حیات کو ضیاع سے بچا سکتے ہیں۔