-
خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق ( آٹھویں قسط) دیگر مضامین,Latest magazine,اہم مضامین,جولائی 2021,حضرت مولانا ارشادا لحق اثری حفظہ اللہ,منتخب مضامین(۵)…اہل بیت کے ساتھ ان کی زندگی ہی میں نہیں ، ان کی وفات کے بعد بھی ان کا لحاظ اور پاس رکھنے کا اندازہ اس سے کیجئے کہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیٹی کے لئے رشتے کا پیغام بھیجا ، چنانچہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ جناب حسن رحمہ اللہ سے ملے تو فرمایا : ’’وَاللّٰهِ مَا مِنْ نَسَبٍ، وَلَا سَبَبٍ، وَلَا صِهْرٍ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَبَبِكُمْ وَصِهْرِكُمْ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’فَاطِمَةُ مُضْغَةٌ مِنِّي، يَقْبِضُنِي مَا قَبَضَهَا،وَيَبْسُطُنِي مَا بَسَطَهَا،وَإِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي، وَسَبَبِي، وَصِهْرِي‘‘، وَعِنْدَكَ ابْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُكَ لَقَبَضَهَا ذَلِكَ قَالَ: فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ۔
’’اللہ کی قسم ، نہ کوئی نسب نہ کوئی سبب اور نہ کوئی سسرال میرے ہاں محبوب ہے تمہارے سبب و نسب اور تمہارے سسرال سے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا: ’’فاطمہ میرے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اس کی تکلیف میری تکلیف ہے اور اس کی خوشی میری خوشی ہے اور بلاشبہ قیامت کے روز سب انساب منقطع ہوجائیں گے ، سوائے میرے نسب ، میرے سبب اور میرے سسر ہونے کے ‘‘اورتیرے ہاں(پہلے ہی)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہے اور اگر میں اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کروں( تو کسی وجہ سے اگر کوئی ناگواری ہوئی تو ) کہیں اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو تکلیف نہ ہو ۔ یہ سن کر حسن بن حسن ان کا عذر قبول کرکے چلے گئے‘‘ [مسند الامام احمد :رقم :۱۸۹۰۷، فضائل الصحابۃ لأحمد:رقم :۱۳۳۳، مستدرک للحاکم :۳؍۱۵۸،وصححہ]
غور فرمائیے کہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کون سی بیٹی تھیں ، بیٹی نہیں ، بلکہ ان کی پوتی فاطمہ بنت حسین بن علی رضی اللہ عنہا تھیں ۔ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی ان کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے حسن بن حسن سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنے سے معذرت کی ۔ گویا جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں صحابہ ان کی قرابت داری کا احساس کرتے تھے ، ان کی وفات کے بعد بھی انہیں اس کا احساس تھا۔
(۶) …قرابت داروں کی پاس داری اور حمایت کا ایک واقعہ یہ بھی ہے جسے حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازیبا بات کی تو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’تعرف صاحب هذا القبر؟ هو محمد بن عبد اللّٰه بن عبد المطلب، وعلي بن أبي طالب بن عبد المطلب، فلا تذكر عليا إلا بخير، فإنك إن أبغضته آذيت هذا فى قبره‘‘۔
’’تم اس قبر والے کو جانتے پہچانتے ہو ؟ وہ محمد (ﷺ) بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں اور علی (رضی اللہ عنہ ) بن ابی طالب بن عبد المطلب ہیں(یعنی دونوں میں یہ خاندانی قرابت ہے )،اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کے ساتھ ہی کرو۔ اگر تو ان سے بغض رکھے گا تو اس قبر والے کو تو تکلیف دے گا ‘‘[فضائل الصحابۃ لأحمد :رقم :۱۰۸۹، اسنادہ صحیح]
(۷) …یہی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ہیں کہ ان کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ رحمہا اللہ ملاقات کے لئے گئیں تو وہ ان سے بے حد عزت و احترام سے پیش آئے اور فرمایا :
’’يا بنت علي! واللّٰه ما على ظهر الارض أهل بيت أحب الي منكم ، ولأنتم أحب الي من أهل بيتي‘‘۔
’’اے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ! اللہ کی قسم سرزمین پر کوئی گھرانہ ایسا نہیں جو تم سے زیادہ محبوب ہو اور تم میرے اہل بیت سے زیادہ مجھے محبوب ہو‘‘[ابن سعد:۷؍۳۲۷]
اس سے اندازہ کیجئے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ، جو خلفائے راشدین میں شمار ہوتے ہیں، ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی کتنی قدر و منزلت تھی ! اس لیے کہ اس گھرانے کو رسول اللہ ﷺ سے قرابت داری کا شرف حاصل تھا۔
(۸) … حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے ۔ آپ کاتب وحی تھے اور اصحاب فتویٰ میں شمار ہوتے تھے۔
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کی ذمہ داری انہیں سونپی تھی۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک بار گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی رکاب تھام لی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے رسول اللہ ﷺ کے عم زاد ! یوں نہ کریں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہمیں اپنے علماء سے اسی طرح حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ ادھر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کیا کیا ،راوی کا بیان ہے کہ:
’’قبل زيد بن ثابت يد ابن عباس و قال : هكذا أمرنا أن نفعل بأهل بيت نبينا‘‘
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور فرمایا : ہمیں اپنے نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘[المعرفۃ والتاریخ للفسوی:۱؍۴۸۴، طبرانی ، مجمع:۹؍۳۴۵]
یہ ہے قدردانی اہل بیت کی اور آنحضرت ﷺ کے قرابت داروں کی !
(۸) … حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے مرض الموت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جو وصیتیں فرمائیں ، ان میں یہ بھی فرمایا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مطالبہ کیا تھا کہ مجھے آپ کے حجرے میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے تو انہوں نے میری گزارش قبول کرلی۔ شاید انہوں نے مجھ سے حیا کرتے ہوئے اجازت دی ہو، اس لئے جب میں فوت ہوجاؤں تو جا کر ان سے اس کی دوبارہ اجازت لینا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ قوم یعنی بنو امیہ حجرے میں دفن ہونے سے روکے گی۔ اگر ایسا ہوا تو بقیع میں مجھے دفن کردینا ۔ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کی گئی تو انہوں نے فرمایا :
’’نعم و كرامة‘‘ ’’ہاں، عزت و تکریم کے ساتھ ‘‘[السیر:۳؍۲۷۹، البدایۃ مختصراً :۸؍۴۴، الاستیعاب]
اندازہ کیجئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کس خوش دلی سے اپنے حجرۂ مبارکہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دی! یہ تو بنو امیہ تھے جنہوں نے اس پر عمل نہ ہونے دیا ، حتیٰ کہ جنگ و جدال کی نوبت آگئی۔ حضرت ابو ہریرہ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جھگڑے سے اجتناب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور انہوں نے مشورہ تسلیم کرکے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بقیع میں ان کی والدہ کی قبر کے قریب دفن کردیا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس اجازت نامے کے بعد ان کے مابین نفرتوں کے بیج روافض نے بوئے ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں ۔
(۹) … عہد فاروقی میں ایک بار یمن سے کپڑے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولاد کو پوشاکیں عطا فرمائیں ۔
ان میں سے کوئی پوشاک ایسی نہ تھی جو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے شایان شان ہو۔چنانچہ انہوں نے یمن کے نائب کے پاس ایک صاحب کو بھیجا کہ دونوں صاحبزادگان کے لئے لباس تیار کرواکر لاؤ ، چنانچہ وہ وہاں سے لباس لایا تو وہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو پہنایا اور فرمایا :
’’الآن طابت نفسي‘‘’’اب میرا دل خوش ہوا ہے‘‘[سیر اعلام النبلاء:۲؍۲۶۳، البدایۃ:۸؍۲۰۷، ابن عساکر، ابن سعد وغیرہ]
(۱۰)…حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو خصوصی لباس ہی نہیں پہنایا ، بلکہ مال غنیمت میں سے بھی ان کا وہی حصہ مقرر کیا جو ان کے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقرر تھا، جیسا کہ پہلے باحوالہ ہم نقل کرآئے ہیں ۔ بلکہ جب مدائن فتح ہوا اور بادشاہ یزدگرد کی بیٹیاں دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ طیبہ آئیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی سب سے خوبصورت بیٹی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دی جس سے جناب علی زین العابدین رحمہ اللہ پیدا ہوئے ، ایک بیٹی اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو دی ، اس سے سالم پیدا ہوئے اور ایک بیٹی جناب محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دی جس سے قاسم پیدا ہوئے۔[تہذیب التھذیب لابن الحجر:۳؍۴۳۸]
شیعوں کی مشہور کتاب اصول کافی (باب الحجہ) میں تو یہ قصہ بڑی رنگ آمیزی سے نقل ہواہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی انہی نوازشات کے پس منظر میں لکھتے ہیں :
’’وقد ثبت أن عمر بن الخطاب كان يكرمهما ويحملهما و يعطيهما كما يؤتي أباهما‘‘
’’بے شک یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں کی تکریم کرتے ، انہیں اٹھاتے اور انہیں اسی طرح مال وغیرہ دیتے جیسے ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیتے تھے ‘‘[البدایۃ:۸؍۲۰۷]
(۱۱) … حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تکریم کا ذکر پہلے ہوا ہے،اسی حوالے سے یہ بھی دیکھئے جسے حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے :’’ان العباس بن عبد المطلب لم يمر بعمر ولا بعثمان و هما راكبان الا نزلا، حتي يجوز العباس اجلالاله، ويقولان:عم النبى ﷺ‘‘
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ جب کبھی حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے اور وہ دونوں سواری پر ہوتے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم میں دونوں سواری سے اتر جاتے ، تاآنکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرجاتے اور وہ دونوں فرماتے:نبی کریم ﷺ کے چچا ہیں ‘‘[الاستیعاب:۲؍۳۶۰]
یہی قصہ حافظ ذہبی نے (سیر اعلام النبلاء :۲؍۹۳) میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے(البدایہ:۷؍۱۶۲) میں اور حافظ ابن حجر نے( تہذیب التہذیب :۵؍۱۲۳)میں ذکر کیا ہے۔
(۱۲)…امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے قاسم بن محمد بن ابو بکر سے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک نیا کام کیا جسے پسند کیا گیا اور وہ یہ کہ ایک شخص کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جھگڑا ہوا تو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا استخفاف کیا جس کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے مارا ۔ اس بارے میں ان سے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے جواباً فرمایا:
’’أيفخم رسول اللّٰه ﷺ عمه و أرخص فى الاستخفاف به ! لقد خالف رسول اللّٰه ﷺ من رضي فعل ذالك فرضي به منه‘‘
’’رسول اللہ ﷺ نے تو اپنے چچا کی تعظیم کریں اور میں ان کے استخفاف کی اجازت دے دوں! جو شخص اس کے عمل پر راضی ہوا اور اسے پسند کیا ، اس نے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی ‘‘[تاریخ بن جریر الطبری:۴؍۴۰۰]
تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جب ۳۲ہجری میں فوت ہوئے تو ان کی نماز جنازہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔
(۱۳) …حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عظمت پر تمام اہل سنت متفق ہیں ۔
وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ احادیث کے حافظ اور سب سے زیادہ احادیث کی روایت کرنے والے تھے ۔ ایک جنازے میں وہ جارہے تھے ، اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے ۔ راہ چلتے ہوئے جو مٹی ان کے پاؤں پر پڑرہی تھی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے رومال سے اس مٹی کو صاف کیا ۔ [السیر:۳؍۲۸۲]
(۱۴) …اہل بیت سے محبت اور ان کی عظمت ہی کی بنا پر بعض محدثین نے آنحضرت ﷺ کے خاندان کے اہل علم کی روایات کو پہلے ذکر کیا ہے ، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی ’’الجامع الصحیح المسند‘‘ یعنی صحیح بخاری کا آغاز امام عبد اللہ بن زبیر حمیدی کی حدیث ’’انما الاعمال بالنیات…الخ‘‘ سے کیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام حمیدی رحمہ اللہ قریشی ہیں اور ان کا نسب آنحضرت ﷺ کے جدّاعلیٰ ’’قصی‘‘ سے جا ملتا ہے ۔ انحضرت ﷺ نے فرمایا :’’قدمواقريشا‘‘’’قریش کو آگے کرو‘‘ اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عظیم الشان کتاب کا آغاز امام حمیدی رحمہ اللہ کی حدیث سے کیا ہے۔[فتح الباری:۱؍۱۰]
(۱۵)…اسی طرح امام بقی بن مخلد نے ’’المسند‘‘لکھی تو امام یحییٰ اللیثی رحمہ اللہ کے بیٹے عبید اللہ اور اسحاق رحمہما اللہ ان کے پاس حاضر ہوئے اور احتجاج کیا کہ آپ ابو مصعب احمد بن ابو بکر زہری رحمہ اللہ اور یحییٰ بن بکیر کی روایات ہمارے والد کی روایات سے پہلے کیوں لائے ہیں ؟ ہمارے والد کی روایات پہلے ذکر کرتے۔ امام بقی بن مخلد نے فرمایا کہ ابو مصعب زہری کی روایات پہلے اس لیے ذکر کی ہیں کہ وہ قریشی ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’قریشی کو آگے کرو‘‘ اور رہی یحییٰ بن بکیر کی روایات تو وہ عمر میں بڑے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے :’’بڑے کو بڑا بناؤ‘‘یعنی اسے آگے کرو۔[الصلۃ لابن بشکوال :۱؍۱۰۰]
غور فرمائیے کہ حضرات محدثین رحمہم اللہ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں کس قدر سرگرم تھے اور آپ کے خاندان کی کتنی تکریم و تعظیم کرتے تھے۔
(۱۶) … امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی عشرۂ مبشرہ رضی اللہ عنہم کی مسانید کے بعد صرف چار صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات لائے، پھر اہل بیت کی روایات لائے ہیں ، چنانچہ پہلے حضرت حسن کی ، پھر حضرت حسین کی ، پھر حضرت عقیل بن ابی طالب کی ، پھر حضرت جعفر کی ، پھر حضرت عبد اللہ بن جعفر کی ، پھر حضرت عباس کی اور پھر ان کی اولاد کی روایات لائے ہیں ، رضی اللہ عنہم اجمعین
اسی طرح جب ’’مسند النساء‘‘ کی روایات کا آغاز کیا تو اس کی ابتدا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی احادیث سے فرمائی ۔
امام احمد رحمہ اللہ اس بارے میں کس قدر حساس تھے ، اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ان کے فرزندامام عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’رأيت أبي اذا جاء الشيخ والحدث من قريش أو غيرهم من الاشراف ، لا يخرج من باب المسجد حتي يخرجهم ، فيتقدمونه، ثم يخرج بعدهم ‘‘
’’میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ جب خاندان قریش میں سے کوئی شیخ یا جوان یا ان کے علاوہ اشراف میں سے کوئی ان کے پاس آتا تو وہ مسجد کے دروازے سے نہ نکلتے ، پہلے انہیں نکلنے دیتے ۔ انہیں آگے کرتے،پھر ان کے بعد خود نکلتے‘‘[الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب:رقم :۸۰۱]
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ مرض الموت میں مبتلا تھے ، لوگ بکثرت ملاقات کے لئے آتے مگر اکثر کو ملنے کی اجازت نہ دیتے جن میں بغداد کے قاضی اور امراء بھی ہوتے۔ لیکن جب بنو ہاشم میں سے کوئی ملاقات کے لیے آتا تو انہیں ملنے کی اجازت دے دیتے۔ [السیرللذھبی:۱۱؍۳۳۶، مناقب الامام احمد ازابن جوزی:ص:۴۰۵]
اندازہ کیجیے کہ امام صاحب کے نزدیک خاندان ہاشم کی قدر و منزلت کیا ہے ، اس لیے کہ یہ خاندان رسول اللہ ﷺ کا خاندان تھا، جیسا کہ پہلے ہم عرض کر آئے ہیں۔
اس سے بھی عجیب تر بات وہ ہے جسے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کو خلیفہ معتصم کے جلادوں نے جوکوڑے مارے تھے، ان سے ان کے جسم کا چمڑا بے حس اور مردہ ہوگیا تھا۔ طبیب اس کے علاج کے لیے آیا تو اس نے بتلایا کہ اس بے جان چمڑے کو کاٹنے کے علاوہ علاج ممکن نہیں۔ طبیب کے نشتر سے تکلیف ہوتی تو امام صاحب اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیتے اور فرماتے:
’’اللهم اغفر للمعتصم‘‘ ’’اے اللہ ! معتصم کو معاف فرمادے‘‘
اور یہ دعا بتکرار کرتے رہے، تا آنکہ طبیب نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ بعد میں طبیب نے کہا کہ لوگ جب کسی امتحان میں مبتلا کیے جاتے ہیں تو وہ ظالم کے لیے بددعا کرتے ہیں ، مگر آپ کو میں نے دیکھا کہ آپ مسلسل معتصم کے لیے دعا کرتے رہے ہیں ؟ امام صاحب کا جواب پڑھیے ،فرماتے ہیں :
’’اني فكرت فيما تقول، وهو ابن عم رسول اللّٰه ﷺ فكرهت ان آتي يوم القيامة و بيني وبين أحد من قرابته خصومة، وهو مني فى حل‘‘
’’تم نے جو کچھ کہا میں نے اس میں غور کیا ہے۔ معتصم رسول اللہ ﷺ کے چچا کا بیٹا ہے ، میں نے ناپسند جانا کہ میں قیامت کے روز آؤں اور میرے اور آنحضرت ﷺ کے کسی قرابت دار کے مابین جھگڑا ہو۔ وہ میری طرف سے آزاد اور بری الذمہ ہے‘‘[روضۃ العقلاء:ص:۱۶۵]
جس سے امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے قرابت داروں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’الصواعق المحرقۃ‘‘ کے تتمے و ذیل میں اہل بیت کے مناقب اور ان کے خصائص میں تمام رطب ویابس جمع کردیا ہے اور بہت سی حکایات و رؤیا اسی حوالے سے ذکر کیے ہیں ، شائقین اس کی طرف مراجعت فرمائیں ۔
انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جعفر بن سلیمان (والی ٔمدینہ طیبہ) نے امام مالک رحمہ اللہ پر اس قدر ظلم و جبر کیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور اسی حالت میں انہیں گھر لایا گیا۔جب ہوش آیا تو انہوں نے حاضرین سے فرمایا :’’میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے کوڑے مارنے والوں کو معاف کردیا ہے ‘‘۔ اس کے بارے میں ان سے عرض کیا گیا کہ یہ معاف کرنا کس بنا پر ؟ انہوں نے فرمایا : ’’میں ڈرتا ہوں کہ میں مرجاؤں اور میری ملاقات نبی کریم ﷺ سے ہوتو مجھے ان سے حیا آئے گی کہ میری وجہ سے ان کی آل کے بعض افراد کو آگ میں ڈال دیا جائے ۔
خلیفہ منصور جب مدینہ طیبہ آیا تو اس نے امام مالک رحمہ اللہ کی دلجوئی کے لیے کہا کہ کوڑے مارنے والے سے آپ بدلہ لے لیں۔ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ! اللہ کی قسم میں نے تو آنحضرتﷺ کی قرابت داری کی بنا پر اسے اس وقت معاف کردیا تھا جب وہ کوڑا میرے جسم سے اوپر اٹھاتا تھا۔[الصواعق:ص:۱۸۰،۲۳۸]
اسی طرح بعض حفاظ سے منقول ہے کہ خلیفہ متوکل کے دور میں ایک عورت نے متوکل کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہے ، یعنی سادات میں سے ہے جنہیں آج بھی ’’الشریف ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ تو متوکل نے کہا : اس کی تصدیق کون کرے گا؟ کہاگیا: اس بارے میں حضرت علی رضا رحمہ اللہ سے دریافت کیا جائے ، چنانچہ وہ تشریف لائے تو انہو ں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو درندوں پر حرام قراردیا ہے ، اسے درندوں کے سامنے ڈال کر دیکھ لو۔ جب اس عورت کو یہ بات کہی گئی تو وہ اپنے دعوے سے منحرف ہوگئی ۔
متوکل سے کہا گیا کہ انہی سے اس بارے میں تجربہ کر لیجیے ، چنانچہ اس نے تین شیر منگوائے اور انہیں محل کے صحن میں کھلا چھوڑ دیا گیا اور حضرت علی رضا رحمہ اللہ کو بلوا بھیجا۔ وہ تشریف لائے اور محل کا دروازہ بند کردیا گیا تو شیر ان کے گرد گھومنے لگے اور وہ انہیں پیا ر کرنے لگے ۔ انہو ں نے فرمایا : تم مجھے مارنا چاہتے تھے ؟ اور فرمایا : اس کا تذکرہ آگے نہ کرنا۔
مورخ مسعودی نے کہا ہے کہ یہ قصہ حضرت علی رضا رحمہ اللہ کا نہیں ، بلکہ ان کے بیٹے حضرت حسن عسکری رحمہ اللہ کا ہے ۔[الصواعق:ص:۲۰۵]
اس کی تائید آگے ان کے ترجمے میں علامہ ابن حجر مکی نے کی ہے اور مزید لکھاہے کہ اسی قسم کا معاملہ خلیفہ رشید نے حضرت یحییٰ بن عبد اللہ بن حسن مثنی بن حسن سبط سے کیا تھا اور بھوکے شیر وں نے انہیں کچھ نہ کہا اور ان کے قریب قریب گھومتے پھرتے رہے ۔[ایضاً:ص:۲۰۷ ]واللّٰہ اعلم
سادات کی جان پہچان اور ان کی قدر دانی ہی کی بنا پر ایک دور میں سادات کے لیے سبز لباس تجویز کیا گیا، پھر سبز پگڑی اور بعد میں پگڑی پر سبز پٹی پر اکتفا کیا جانے لگا ۔ حضرت علی رضا رحمہ اللہ نے تو خلفائے بنو عباس سے بھی کہا کہ سبز لباس پہنو ، مگر اس پر عمل نہ ہو پایا۔ مامون نے انہیں اپنے بعد خلافت کے لیے نامزد کردیا تھا ، مگر حضرت علی رضا مامون کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے ۔[الصواعق :ص:۱۸۵، التاج المکلل:ص:۲۹۸،وغیرہ]اور ان کے مشورہ پر عمل نہ ہو پایا ۔
خلفائے بنو عباس سیاہ لباس پہنتے تھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں جو سیاہ لباس پہننے کی مذمت میں ان کے ائمہ کے اقوال ہیں، وہ غالباً خلفائے بنو عباس کے اسی لباس کے تناظر میں ہیں۔
ہم نے یہ چند واقعات اس پس منظر میں لکھے ہیں کہ بتلایا جائے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف اہل سنت کے نزدیک اہل بیت کی قدرومنزلت کیا ہے ۔ رہے ان کے مناقب یا اہل بیت کے ہاں صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم اور ان کے فضائل و مناقب کا اعتراف تو یہ ایک طویل بحث ہے جو ہمارا موضوع نہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بالخصوص اہل بیت کی تکریم و تعظیم کی اور ان سے محبت کی ہمیں توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العالمین