-
بڑے سے بڑے عالم کی بات جوتے کی نوک پر بعض علماء بالخصوص مقررین حضرات نے اہل حدیث عوام میں یہ ڈائلاگ بازی بہت عام کی ہے کہ ہمارا بڑے سے بڑا عالم بھی اگر قرآن وحدیث کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو ہم اس کی بات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ، اس ڈائلاگ بازی نے عوام کو مجتہد تو بنایا ہی ہے ، ساتھ ہی علماء کے مقام ومنزلت کو بھی ان کے جوتے کی نوک پررکھ دیا ہے ، آج دیکھ لیں ان کی نظر میں (گرچہ ان کی نظر ہی غلط ہو)کوئی بھی عالم کسی مسئلہ میں غلطی کرتے ہوئے پایاجاتاہے، تو یہ جوتے کی نوک سے ہی اس کی خاطر تواضع کرتے ہیں ، نہ صرف قول بلکہ صاحبِ قول بھی ان کے جوتے کی نوک پر نظر آتا ہے ۔
اس میں ان علماء کا بھی استثناء نہیں ہے جنہوں نے اس سلیقۂ اختلاف کی داغ بیل ڈالی ہے ۔ بلکہ جس طرح’’أول من تهون الزَّانِيَة فِي عينه الَّذِي يَزْنِي بهَا‘‘ کا معاملہ ہے ، ٹھیک اسی طرح عوام کے جوتے پر سب سے پہلے انہی علماء کو جگہ ملتی ہے جو اس طرح کی ڈائلاگ بازی سکھلاتے ہیں ، اگر انہیں شک ہو تو خود سے اختلاف کرنے والوں کا لب ولہجہ ملاحظہ فرمالیں۔
یادرہے کہ بڑے سے بڑا عالم اگر واقعی قرآن وحدیث کے خلاف کوئی بات کرے گا تو یا تو اسے متعلقہ مسئلہ میں دلیل کا علم نہیں ہوگا ، یا دلیل کے فہم میں اس سے خطا ہوئی ہوگی ۔ دریں صورت اس کی خطا اجتہادی خطا ہوگی اور اللہ کے نبی ﷺ نے اجتہادی خطا پر بھی ایک اجر کی بشارت دی ہے ۔ یہ اجر دراصل نیک نیتی اور حق کی تلاش میں کی گئی کوشش پر ہے ، گرچہ حق تک رسائی نہیں ہوسکی۔
کہاں غلطی کرنے کے باوجود بھی علماء کا یہ احترام!اور کہاں جوتے کی نوک کا تمغہ؟سبحان اللہ!
اگر کوئی عالم محض اپنے بارے میں اس طرح کی بات کردے تو تواضعا ًاس کی گنجائش نکل سکتی ہے ، لیکن دوسرے اور وہ بھی بڑے سے بڑے علماء کے بارے میں اس طرح کی ڈائلاگ بازی کرنا ادب اختلاف کا کون سا ضابطہ ہے؟؟؟
اس طرح کی ڈائلاگ بازی ہی نے دینی مسائل پر بات کرنے والے عالم اور غیر عالم کا حقیقی فرق مٹا دیا ہے ، آج عوام کی نظر میں عالم کی اضافی خوبی صرف یہ ہے کہ اس کے پاس نصوص کا علم زیادہ ہے بس !بالفاظ دیگر ان کی نظر میں عالم نصوص بتلانے والا محض ایک سافٹ ویئر ہے جو سرچ انجن کے طور پراستعمال کیا جانا چاہیے ، حالانکہ عالم اور غیر عالم میں اصل فرق استدلال واستنباط کی صلاحیت کا ہے ، یہ صلاحیت صرف علماء کے پاس ہے ، گرچہ بہت سے مسائل میں انہیں دلائل کا علم نہ ہو ، لیکن غیر عالم گرچہ کتابوں کا بوجھ سر پر لاد لے لیکن وہ استدلال و استنباط کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے۔
استدلال واستنباط کی یہی وہ صلاحیت ہے جسے بروئے کار لانے پر ایک عالم کو اس وقت بھی ایک اجر ملتا ہے جب وہ خطا کر جاتا ہے ، اس لیے بڑے سے بڑا عالم اگر غلطی کرجائے تو بھی اس کی محنت قابل قدر ہوگی بلکہ عنداللہ قابل اجر بھی ہوگی ، اور اس کی بات رد تو کی جائے گی مگر جوتے کی نوک پر ہر گز نہیں رکھی جائے گی ، بلکہ اسلام کی فقہی تاریخ کا ایک حصہ ہوگی ، حتی کہ اگر سابقہ اجماع کے خلاف نہ ہو تو آئندہ اس مسئلہ میں انعقادِ اجماع کے خلاف ایک مضبوط چٹان ثابت ہوگی۔