Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ترکی،شریفی اور سعودی عہدحکومت میں حج

    اس مضمون میں سرزمین حجاز پر گزرے ہوئے تین ادوار کی جھلک دکھائی گئی ہے۔اس کے ذریعہ قاری تینوں ادوار کے درمیان موازنہ کرکے یہ جان سکتے ہیںکہ کون سادور حجاج کرام اور وہاں کی عوام کے لیے بہتر ہے ۔
    حجاز میں جب ترکوں کی حکومت تھی ۔ ۱۹۰۸ء میںسلطان عبد الحمید وہاں کے حاکم تھے ۔ تو اس وقت جو عازمین ِحج بحری جہاز کے ذریعہ کا مران پہنچتے تو انہیں وہاں دس دنوں کے لیے اتار دیا جاتا تھا ۔ وہاں پر ڈاکٹرتمام مردوں عورتوںکو قطار میں کھڑا کرکے ان کی آنکھوں کا معائنہ کرتا تھا ۔اسلام میں چونکہ کوئی غیر محرم آدمی کسی عورت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے ہندوستان کی بعض عورتوں نے ڈاکٹر کو منہ دکھانے سے انکار کردیا ۔ اس کی وجہ سے ڈاکٹر نے ان کاپانی بند کردیا ، دوسرے دن ان عورتوں نے مجبور ہوکر چہرہ کھول کر اپنی آنکھوں کا معائنہ کروایا ۔حالانکہ جب حج کرنے والوں میں مرد عورت دونوں ہوتے ہیں تو دونوں کے الگ الگ ڈاکٹر ہونے چاہئے تھے ۔ تاکہ مردوں کا معائنہ مرد ڈاکٹرکرے اور عورتوں کا معائنہ عورت ڈاکٹر کرے ۔
    اسی طرح عازمین حج کے لیے اس وقت کا یہ اصول بھی پریشان کن تھا کہ اگرکسی قافلہ میںکوئی مرد یا عورت بیمار ہوجاتی تو اس کوشفاخانہ منتقل کردیاجاتا اور مریض کے ساتھ کسی کو رہنے کی اجازت نہیںدی جاتی تھی ۔مریضوں کو روک لیاجاتا تھا ، صحت مندوں کو جدہ روانہ کردیا جاتا تھا ۔ اگر مریضوں میں سے کوئی مر جاتا تو اس کو وہیں کامران میں دفن کردیا جاتا تھا اور ورثاء کو کچھ خبر بھی نہیں دی جاتی تھی ۔ اور اگر مریض ٹھیک ہوجاتا تھا تو بعد میں اس کو جدہ بھیج دیا جاتا تھا۔
    اسی طرح ترکی اور شریفی دونوں عہد میں چوری ، ڈکیتی ،رہزنی اور قتل وغارت گری عام تھی ۔ منیٰ ،مزدلفہ اور عرفات کا سفر پرخطر تھا ۔ حاجیوں کے قافلوں کو لوٹ لیاجاتا تھا ۔ مزدلفہ کی رات میں چورحاجیوں کا سامان چوری کرلیتے تھے ۔ اسی طرح مکہ اور مدینہ کا راستہ بھی بہت خطرناک تھا ۔ کوئی بھی قافلہ مکہ سے مدینہ یا مدینہ سے مکہ جارہا ہوتا، اچانک پہاڑوں کی طرف سے ہوائی فائرنگ ہونے لگتی ۔ فوراً اونٹوں کے ہانکنے والے جو دراصل بدوئوں اور معلموں کے ایجنٹ ہوتے تھے ،وہ اس طرف جاتے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد یہ خبر لاتے کہ رہزن فی حاجی ایک روپیہ یا زیادہ مانگ رہے ہیں ورنہ مار ڈالیں گے ۔ جان ومال کو بچانے کے لیے حاجی لوگ جمع کرکے اتنی رقم دے دیا کرتے تھے ۔ تھوڑی دور آگے جاتے تو دوسرا گروہ گھیر لیتا ۔ اس گروہ کو بھی حاجی لوگ کچھ دے کر چھٹکارا حاصل کرتے ۔ اسی طرح مدینہ پہنچتے پہنچتے کئی مرتبہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی تھیں ،یہاں تک کہ اچھی رقم حاجیوں کی اسی میں ختم ہوجاتی تھی ۔
    حجاز میں جب سلطان محمد کی حکومت تھی ۔تو اس دور میں غیر شرعی اعمال عام تھے ۔ حج کے دوران مزدلفہ کی رات میں ترک حکومت کی طرف سے پوری رات آتش بازی کی جاتی تھی ۔ سلطان محمد کی پورے قد کی تصویر جدہ ، مکہ معظمہ اور منیٰ میںنصب کی جاتی تھی ۔ جدہ اور مکہ معظمہ میں گراموفون باجے کی آوازیں کثرت سے آتی تھیں ۔ حقہ نوشی کاعام رواج تھا ، حقہ نوشی میں مست لوگ نمازیں چھوڑ دیا کرتے تھے ۔
    ترکی اورشریفی دونوں ادوار میںپانی کی بھی بڑی قلت تھی ۔ ۱۹۱۹ء میں حجاز سے ترکوں کی حکومت ختم ہوگئی تھی ۔ شریف حسین وہاں کاخود مختار حاکم تھا ۔شریف حسین کے دور میں بڑی بد نظمی تھی ۔ سواری کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا ، حجاج کرام اونٹوں کی سواری کیا کرتے تھے ، راستے میں پانی کا کوئی انتظام نہیں رہتا تھا ۔ اسی سال جدہ سے عازمین حج اونٹوں پر سفر کرکے مکہ جارہے تھے ۔ سفر کی صعوبت ، سورج کی تپش اور پیاس کی شدت کی وجہ سے تقریباً پانچ سو عازمین حج اونٹوں سے گر کر مرگئے ۔ ان کے کفن دفن کا بھی انتظام نہ ہوسکا ، جھاڑیوں میں پھینک دیئے گئے۔
    ترکی اور شریفی دونوں ادوار میں شرک وبدعت کا دور دورہ تھا۔ قبر پرستی عروج پر تھی ۔ مدینہ میں جنت البقیع نامی قبرستان میں قبر پرستی کا یہ عالم تھا کہ صحابۂ کرام کی قبروں پر بڑے بڑے قبے بنے ہوئے تھے ۔ ان قبروں کے سامنے سجدے کیے جاتے تھے ، ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا تھا ۔ یہ صرف صحابہ کی قبروں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کے چچا ابوطالب جن کا انتقال کفر کی حالت میں ہوا تھا ان کی قبر پر بھی سجدے کیے جاتے تھے ۔
    ترکی اور شریفی ادوار میں مسلمانوں کے اختلاف کا یہ عالم تھا کہ خانۂ کعبہ جس کی طرف منہ کرکے تمام مسلمان نما ز ادا کرتے ہیں ، حج وعمرہ کے موقع پر جس گھر کا طواف کیا جاتا ہے ،وہاں پر مسلمانوں کے چار مصلے قائم تھے ۔ اختلاف ونفرت کی وجہ سے جب ایک فرقہ والوں کی نماز ہوتی تھی تو دوسرے فرقہ والے اپنے امام کی نماز کا انتظار کرتے تھے ۔ مغرب کی نماز کا وقت چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لئے اس وقت کی نماز کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ تمام فرقے والے اپنے اپنے اماموں کے پیچھے ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے اور آواز ایک دوسرے سے ٹکرایا کرتی تھی جس کی وجہ سے کبھی کبھی دوسرے امام کی تکبیر کی آواز سن کر دوسرے فرقہ والے رکوع و سجدہ سے اٹھ جایا کرتے تھے ۔ لیکن ۱۹۲۶ء میںجب حجاز پر آل سعود کی حکومت قائم ہوئی اور شاہ عبد العزیز یہاں کے حکمراں ہوئے تو انہوں نے سارے مصلے ختم کردئے اور قرآن کریم کی اس آیت: { وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّي} (یعنی مقام ابراہیم کو جائے مصلیٰ بنائو ) پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک مصلیٰ کو باقی رکھا اور سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا ۔
    اسی طرح شاہ عبد العزیز کے حاکم بننے کے بعد اللہ کے فضل سے ترکی اورشریفی عہدکی تمام برائیوں کا خاتمہ ہوگیا ۔ قبر پرستی کو ختم کردیا گیا ۔ صحابۂ کرام کی قبروں پر جو قبے تھے ،وہ سب ڈھا دیئے گئے ۔پورے حجاز سے شرک و بدعت اور قبر پرستی کا خاتمہ ہوگیا ۔ چوری ، ڈکیتی ، قتل و غارت گری کا نام مٹ گیا اور پورے ملک میں امن وامان کا دور دورا ہو گیا۔ پانی کی بے حد فراوانی ہوگئی ۔ اور اب دن بدن حاجیوں کے آرام وآسائش میں اضافہ ہوتے جارہا ہے ۔ سعودی حکومت حاجیوں کے آرام اورسکون کے لیے دن ورات کوشاں رہتی ہے ۔ جگہ جگہ حاجیوں کو ٹھنڈا اور صاف پانی مفت تقسیم کیا جاتا ہے اور حاجیوں کے آرام وسکون اور گرمی کی تکلیف سے بچانے کے لیے منیٰ اور عرفات کے خیموں میں ایئر کنڈیشن نصب کردیئے گئے ہیں ۔ منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ جانے کے لیے وسیع وعریض خوبصورت سڑکیں بن گئی ہیں۔ منیٰ سے عرفات جانے کے لیے ریلوے کا بھی انتظام کردیاگیا تاکہ حجاج کرام آسانی کے ساتھ کم وقت میں یہ سفر طے کرسکیں ۔ کثیر تعدا د میں منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں صاف ستھرے بیت الخلاء اور وضوخانے تعمیر کردیئے گئے ہیں۔حج کے ایام میں سعودی حکومت کی طرف سے جگہ جگہ سعودی پولس اور مختلف زبانوں کے جاننے والے رضاکار اپنی خدمت پیش کرنے لئے تیار کھڑے رہتے ہیں ۔اور حاجیوں کی خدمت کو وہ لوگ اپنے لیے بڑی خوش نصیبی سمجھتے ہیں ۔
    قارئین کرام ! آپ لوگ اس مختصرمضمون کے ذریعہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودی دور حکومت امت مسلمہ کے لیے کس قدر بہتر اور مفید ہے ۔آج پوری دنیا کے مسلمان پورے امن وامان کے ساتھ سعودیہ عربیہ جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ حج جیسے مقدس فریضہ کو ادا کرکے اپنے وطن واپس لوٹ آتے ہیں ۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings