Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • میراث میں مسئلہ عول پر اعتراض اور اس کا جواب

    قرآن میں مذکور کسی چیز کو جب کلی طور پر کسی فن اور اس کے تقاضے سے جوڑدیاجاتاہے تو بلاوجہ کے اعتراضات جنم لیتے ہیں ، اب ایسے اعتراضات کے جوابات پرتوانائی صرف کرنے سے بہترہے کہ ان کی بنیاد جس مقدمہ پرقائم ہے قرآن کو اس سے بری قرار دے دیا جائے اور آیات کے اصل مقصود کی وضاحت کی جائے۔
    مثلاً قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کا ایک بادشاہ کے ساتھ جو مکالمہ ہے اسے بعض اہل علم نے کلی طور پر مناظرہ کانام دے دیا ، پھر اعتراض کھڑا ہواکہ ابراہیم علیہ السلام نے جو پہلی دلیل دی تھی کہ میرا رب موت وحیات دینے والا ہے وہ دلیل تواپنی جگہ پر بالکل درست تھی ، جسے بادشاہ سمجھ نہیں سکا ۔ تو اب اصول مناظرہ کی رو سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی اس دلیل پر قائم رہنا چاہئے ،وغیرہ وغیرہ ۔
    دراصل بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ مکالمہ وہ فنی مناظرہ نہیں ہے جس میں مقصود سامنے والے کو چپ کرانا ہوتا ہے ، بلکہ اثبات حق کا ایک طریقہ ہے جس میں مقصود سامنے والے کو تسلی کرانا ہے ، اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پہلی دلیل کو یہ سمجھ نہیں سکا تو انہوں نے اس دلیل کو چھوڑ کردوسری دلیل پیش کردی تاکہ اس کی تسلی کا سامان ہوجائے ، اس کی مثال ڈاکٹر کے علاج جیسی ہے کہ ایک ڈاکٹر مریض کو مرض کے مطابق بالکل درست دوا دیتا ہے ، لیکن جب یہ دیکھتا ہے کہ گرچہ دوا درست ہے لیکن اس کا جسم اس دوا کا متحمل نہیں ہے ، تو ڈاکٹر دوابدل کردوسری ایسی دوا تجویزکرتاہے جسے مریض کا جسم قبول کرسکے ، یہی کام ابراہیم علیہ السلام نے کیا ۔ لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کا یہ مکالمہ فنی مناظرہ ہے ہی نہیں ، جسے تصور کرکے طرح طرح کے اعتراضات کھڑے کئے جاتے ہیں۔
    قرآن میں مذکور احکام میراث کے ساتھ آج کل بردرز حضرات بھی یہی کررہے ہیں، چنانچہ انہوں نے اسے کلی طور سے حساب اور ریاضی تصورکرلیا، اوریہ سمجھ لیا کہ قرآن نے وارثین کے جو حصص (Shares)، کسر (Fraction) میں بتلائے ہیں ان سب کا مجموعہ لازمی طورپر ایک صحیح عدد ( Integer) ہوناچاہئے۔
    یہ مان لینے کی صورت میں اشکال یہ پیداہواکہ بعض صورتوں میں قرآن کے مطابق بتائے گئے وارثین کے حصوں کو جب جمع کیا جاتا ہے تووہ ایک صحیح عدد نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے ۔
    مثلاً:
    ایک عورت فوت ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کا شوہر اور اس کی دو بہنیں ہوں ۔ تواس صورت میں قرآن نے شوہر کا حصہ ، ترکہ کا آدھا بتلایا ہے اور دو بہنوں کاحصہ ، ترکہ کا دوتہائی بتلایا ہے۔ اب آدھا اور دوتہائی جوڑا جائے تو یہ ایک صحیح عدد سے بڑھ جاتا ہے اور یہ ریاضی کے اصول کے خلاف ہے ۔
    ٭ غیر مسلمین کا اعتراض اور بردرز حضرات کا جواب:
    یادرہے کہ اس بات کو غیر مسلمین بہت اچھالتے ہیں اور کہتے ہیں قرآن میں ریاضی کی غلطی ہے ۔ اب غیر مسلموں کے اس اعتراض کا بردرز حضرات جواب دیتے ہیں تو وہ اس مقدمہ پر کوئی نکیر نہیں کرتے کہ وراثت کے ان احکام کو مکمل فن ریاضی سے کیونکر جوڑدیا گیا ؟بلکہ وہ اس مقدمہ کو برقرار رکھتے ہوئے یوں جواب دیتے ہیں کہ پہلے شوہر کو کل ترکہ کا آدھا حصہ دیا جائے گا اس کے بعد جومال بچے گا اس میں سے دوتہائی بہنوں کو دیا جائے گا ، پھر بہنوں کو دینے کے بعد جو مال باقی بچ جائے گا وہ قریبی مذکر کو دیاجائے گا۔
    یعنی مذکورہ مثال میں اگر ترکہ بارہ( 12) لاکھ ہو تو آدھا یعنی چھ(6) لاکھ شوہر کو ملے گا ، باقی جو چھ لاکھ بچے گا اس میں سے دوتہائی یعنی چار(4) لاکھ بہنوں کو دیاجائے گا، اور پھر جو دو( 2) لاکھ بچے گا وہ حدیث کے مطابق قریبی مذکر رشتہ دار کو دیا جائے گا ۔
    اس طرح کے جواب سے غیر مسلم اس لئے چپ ہوجاتاہے کیونکہ وہ صرف ریاضی جانتاہے ،قرآن اورعربی زبان سے ناواقف ہوتاہے ۔
    اس جواب کو اگر کوئی قرآنی الفاظ وتصریحات کی روشنی میں دیکھے تو ہرگزتسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ:
    اولاً:
    اس جواب میں پہلے شوہر کو کل ترکہ کا آدھا دیاجارہاہے ، اب یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ پہلے بہنو ں کو کل ترکہ کا دوتہائی کیوں نہیں دیاگیا ؟اور اس کی کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی۔
    ثانیاً:
    اس جواب میں شوہر کو تو کل ترکہ کا آدھا دیا گیاہے ، لیکن بہنوں کو دوتہائی کل ترکہ سے نہیں دیا گیا ہے ،جبکہ قرآن نے جس طرح شوہر کو کل ترکہ کا نصف حصہ دینے کے لئے کہاہے ، ٹھیک اسی طرح سے بہنوں کو بھی کل ترکہ کا دوتہائی حصہ دینے کو کہا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں دونوں سے متعلق آیات:
    ٭ شوہر کا حصہ کل ترکہ کا آدھا ہوگا ، اللہ فرماتا ہے:
    {وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ}
    ’’تمہاری بیویوں کی اگر اولاد نہ ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ تمہارا ہے‘‘
    [النساء:۱۲ ]
    ٭ دو بہنوں کا حصہ بھی کل ترکہ کادو تہائی ہوگا،اللہ فرماتا ہے:
    {فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ}
    ’’اگر دو بہنیں ہوں تو چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی حصہ ان دو بہنوں کا ہے‘‘
    [النساء :۱۷۶]
    غور کریں کہ قرآن نے جس طرح شوہر کو کل ترکہ کا آدھا دینے کے لئے کہا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح بہنوں کو بھی کل ترکہ کا دو تہائی دینے کو کہا ہے ۔
    قرآن کے الفاظ (مِمَّا تَرَکَ ) پر غور کریں، بات بہت واضح ہے، کہ قرآن میت کے چھوڑے ہوئے مال سے(یعنی کل ترکہ سے ) دو تہائی بہنوں کو دینے کی بات کررہا ہے،جبکہ بردرز حضرات کے جواب میں شوہر کو آدھا تو کل ترکہ سے دیا جارہاہے، لیکن بہنوں کو کل ترکہ سے دو تہائی نہیں دیا گیاہے بلکہ شوہر کو دینے کے بعد جو بچا تھا اس کا دو تہائی دیا گیاہے ۔ اور یہ بات قرآن کے صریح خلاف ہے ۔
    نیزاس میں بہنوں کا سخت خسارہ ہے کیونکہ انہیں کل مال سے دوتہائی نہیں دیا جاتاہے بلکہ شوہر کو دینے کے بعد باقی بچے مال کا دوتہائی دیا جاتا ہے۔
    علاوہ بریں اگر بردرز حضرات کا ضابطہ درست مان لیا جائے تو پھر ہرمسئلہ میں اسی ضابطہ پر عمل کرنا ہوگا یعنی پہلے شوہر کا حصہ کل مال سے دینا ہوگا اور اسے دینے کے بعد جو بچے گا اس سے باقی وارثین کو حصہ دینا ہوگا۔
    مثلاً ایک عورت بارہ لاکھ چھوڑ کر فوت ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کا شوہر ،اس کی بیٹی اور اس کا بھائی ہو ، تو اصل قانون میراث سے شوہر کو چوتھائی یعنی تین لاکھ ملے گا، بیٹی کو آدھا یعنی چھ لاکھ ملے گا، اور بھائی کو باقی یعنی تین لاکھ ملے گا۔
    لیکن بردرزحضرات کے مذکورہ ضابطے کے مطابق، پہلے شوہرکو چوتھائی یعنی تین لاکھ ملے گا، اس کے بعد باقی مال یعنی نولاکھ کا آدھا یعنی ساڑھے چارلاکھ بیٹی کو ملے گا، اور بچا ہوایعنی ساڑے چارلاکھ بھائی کو ملے گا۔
    اب موازنہ کیجئے کہ اس ضابطہ سے بیٹی پرکتنا بڑا ظلم ہورہاہے۔
    اسے کہتے ہیں بارش سے بھاگنا اور پرنالے کے نیچے آکر کھڑے ہوجانا۔
    ٭ اعتراض کا درست جواب :
    اس اعتراض کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض جس مقدمہ پر کھڑا ہے وہ مقدمہ ہی باطل ہے ، یعنی قرآن نے عین ریاضی کے اصول پر وارثین کے حصے نہیں بیان کئے ہیں ، یعنی قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ وارثین کے حصوں کا مجموعہ لازمی طور پر ایک صحیح عدد ہونا چاہئے ۔ بلکہ قرآن نے اصلاً وارثین کی استحقاقی قوت بیان کی ہے، اوراس کے لئے ان کا ایک حق متعین کردیا ہے ، قطع نظر اس کے کہ وارثین کی تعداد کیا ہے اور ترکہ کے بالمقابل ان کی نوعیت کیاہے۔
    ٭ اب اگر وارثین کی نوعیت ایسی ہو کہ ترکہ کی رقم ان کے متعین حقوق کے موافق ہو ، تو ہر وارث کو اتنا ملے گا جتنا اس کا متعین حق ہے۔علم میراث میں اس مسئلہ کو مسئلہ عادلہ کہا جاتاہے۔
    مثلاًایک عورت فوت ہوئی اور پیچھے اپنے شوہر اور ایک سگی بہن کو چھوڑا تو شوہر کو آدھا اور بہن کو آدھا ملے گا۔یہاں دونوں وارث کے متعین حقوق ترکہ کے موافق ہیں ۔
    ٭ اور اگر وارثین کی نوعیت ایسی ہو کہ ترکہ کی رقم کے بالمقابل ان کے متعین حقوق کم ہوں ، تو ہروارث کو اس کے متعین حق کے ساتھ ساتھ اس کی استحقاقی قوت کی نسبت سے مزید مال ملے گا۔ علم میراث میں اس مسئلہ کو مسئلہ ناقصہ کہا جاتاہے۔
    مثلاً ایک عورت فوت ہوئی اور پیچھے ایک سگی بہن اور ماں کو چھوڑا ، تویہاں بہن کامتعین حق آدھا اور ماں کا متعین حق ایک تہائی ہے ۔ یعنی یہاں دونوں کے حقوق ، ترکہ کے بالمقابل کم ہیں ، اس لئے ان دونوں کو ان کے متعین حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے استحقاقی قوت کی نسبت سے مزید مال دیا جائے گا۔
    مثلا ًترکہ بارہ لاکھ ہو تو بہن کو آدھا یعنی چھ لاکھ کے ساتھ ساتھ مزید ایک لاکھ بیس ہزار اورملے گا، یعنی کل سات لاکھ بیس ہزار ملیں گے۔ اور ماں کو تہائی یعنی چار لاکھ کے ساتھ ساتھ مزید اسّی ہزار اورملے گا ، یعنی کل چارلاکھ اسّی ہزار ملیں گے۔
    ٭ اوراگر وارثین کی نوعیت ایسی ہو کہ ترکہ کے بالمقابل ان کے متعین حقوق زائد ہوں ، تو ہروارث کو اس کے استحقاقی قوت کی نسبت سے اس کے متعین حق سے کچھ کم مال ملے گا۔علم میراث میں اس مسئلہ کو مسئلہ عائلہ کہاجاتاہے۔
    مثلاً شروع میں پیش کردہ مثال کو لیں یعنی ایک عورت فوت ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کا شوہر اور اس کی دو بہنیں ہوں ۔
    تو یہاں شوہر کا متعین حق آدھا ہے اور دوبہنوں کا متعین حق دوتہائی ہے ،یعنی یہاں وارثین کے حقوق ترکہ کے بالمقابل زائد ہیں ،اس لئے یہاں وارثین کو ان کے استحقاقی قوت کی نسبت سے ان کے متعین حق سے کچھ کم مال ملے گا۔مثلاً ترکہ بارہ لاکھ ہو تو شوہر کو آدھا یعنی چھ لاکھ کی جگہ پانچ لاکھ کچھ ہزار ملیں گے ، اور دونوں بہنوں کو دوتہائی یعنی آٹھ لاکھ کی جگہ چھ لاکھ کچھ ہزار ملیں گے ۔
    یہ ہے قرآن میں بیان کردہ وارثین کے حقوق کا مفہوم ۔اس کو مکمل فن ریاضی اور اس کے تقاضے سے جوڑکردیکھنا درست نہیں ہے۔
    قرآن کا مقصود یہ ہرگزنہیں ہے کہ سارے وارثین کے مقررہ حصوں کا مجموعہ لازمی طور پر ایک صحیح عدد ہوناچاہئے بلکہ قرآن نے وارثین کے متعین حصص بتاکر ان کی استحقاقی قوت بتلائی ہے ۔
    اب آئیے اسی چیز کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
    ٭ ایک مثال سے جواب کی وضاحت:
    فرض کریں کسی کلاس میں پانچ طلبہ ہوں اور کوئی آدمی بارہ ہزارروپے دے کر کہے کہ یہ پوری رقم اس کلاس میں ممتاز نمبرات سے پاس ہونے والوں کے مابین تقسیم کردی جائے ، اس طرح کہ جو پہلے نمبر پر ہوگا اس رقم میں اس کاآدھا حق ہوگا،جو دوسرے نمبر پرہوگا اس رقم میں اس کا تہائی حق ہوگا،اور جو تیسرے نمبر پرہوگا اس رقم میں اس کاچھٹا حق ہوگا۔رقم دہندہ یہ تاکید کردے کہ یہ ساری رقم ممتاز نمبرات سے پاس ہونے والوں کو ہی دی جائے۔
    ٭ اب اگر واقعی تین طلبہ ممتاز ہوں اوربالترتیب پہلے ، دوسرے اور تیسرے نمبر پرہوں۔
    توپہلے نمبر پر آنے والے طالب علم کو چھ ہزار ملیں گے۔
    اور دوسرے نمبر پر آنے والے طالب علم چار ہزار ملیں گے۔
    اور تیسرے نمبر پر آنیوالے طالب علم کو دوہزار ملیں گے۔
    فرائض میں جب اس طرح کی صورت ہوتی ہے تو اسے مسئلہ عادلہ کہتے ہیں۔
    ٭ لیکن فرض کریں کہ اس کلاس میں دو طلبہ ممتاز نمبرات سے پاس ہوتے ہیں ایک کا پہلا نمبر ہوتا ہے اور دوسرے کا دوسرا ، اور باقی سب فیل ہوجاتے ہیں ۔
    تو اب ظاہر ہے کہ رقم دہندہ کی تاکید کے مطابق یہ ساری رقم انہیں دونوں طلبہ کو دینی ہوگی ۔لیکن ان دونوں کا جو حق ہے رقم اس سے زائد ہے ۔اس لئے ان کے حقوق کی نسبت سے ساری رقم انہیں دونوں میں تقسیم کردی جائے گی ،اس طرح کہ:
    پہلے نمبر پر آنے والے کو چھ ہزار کی جگہ، سات ہزار دوسو روپے ملیں گے۔(یعنی ایک ہزار دوسو روپے اس کے حق سے زائد ملیں گے)
    اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو چار ہزار کی جگہ ، چارہزار آٹھ سو ملیں گے ۔(یعنی آٹھ سو روپے اس کے حق سے زائد ملیں گے)
    فرائض میں جب اس طرح کی صورت ہوتی ہے تو اسے مسئلہ ناقصہ کہتے ہیں۔
    ٭ اب ایک اور صورت فرض کریں کہ مذکورہ کلاس میں چار طلبہ ممتاز نمبرات سے پاس ہوجاتے ہیں ، ایک پہلے نمبر پر ہوتا ہے ، اور دویکساں طور پر دوسرے نمبر پر ہوتے ہیں ، اور چوتھا تیسرے نمبر پر ہوتاہے۔
    اب اس صورت میں پہلے نمبر والے طالب علم کا حق آدھا ہے، اور دوسرے نمبر پر آنے والے دونوں طلباء میں سے ہر ایک کا حق ایک تہائی ہے ، اور تیسرے نمبر پرآنے والے طالب علم کا حق چھٹا ہے ۔ لیکن اس صورت میں سب کو ان کے متعین حقوق کے مطابق دینا ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ اگر پہلے نمبر والے کو آدھا یعنی چھ ہزار دے دیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے دونوں طلباء میں سے ایک کو تہائی یعنی چار چارہزار دے دیں ، تویہیں پررقم کم پڑ جاتی ہے اور تیسرے نمبر والے کے لئے تو رقم بچتی ہی نہیں ہے۔
    اب یہاں ایسا ہرگزنہیں کرسکتے کہ پہلے نمبر پر آنے والے کوتو کل مال سے آدھا دیں اور دیگر طلباء کو باقی بچے آدھے مال سے تہائی یا چھٹا حصہ دیں۔
    بلکہ ایسی صورت میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر طالب علم کے مطلوبہ حصے سے ان کے استحقاق کی نسبت سے کچھ رقم کردی جائے ۔
    اس اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے کو چھ ہزار کی جگہ ، چار ہزار پانچ سو روپے ملیں گے۔(یعنی اسے اس کے متعین حق سے ڈیڑھ ہزار کم ملیں گے)
    اور دوسرے نمبرپر آنے والے دونوں طلباء میں سے ہر ایک کو چارہزار کی جگہ، تین ہزار ملیں گے (یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کے متعین حق سے ایک ہزار کم ملیں گے)
    اور تیسرے نمبر پر آنے والے طالب علم کو دوہزار کی جگہ ، پندرہ سو ملیں گے (یعنی اسے اس کے متعین حق سے پانچ سو روپے کم ملیں گے)
    فرائض میں جب اس طرح کی صورت ہوتی ہے تو اسے مسئلہ عائلہ کہتے ہیں۔
    اب ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ رقم دہندہ نے رقم دینے کے بعد ممتاز طلبہ کے جو متعین حقوق بتلائے ہیں،کیا اس کا مقصود یہ تھا کہ ان سارے حقوق کا مجموعہ ایک صحیح عدد ہونا چاہئے ؟
    اور اگر مستحقین طلباء کی تعداد کم ہوجائے یا بڑھ جائے تو کیا یہ کہیں گے کہ رقم دہندہ حساب اور ریاضی سے ناواقف تھا؟اوراس نے حقوق متعین کرنے میں ریاضی کی غلطی کردی ہے ؟
    ظاہر ہے کہ یہاں یہی کہاجائے گا کہ رقم دہندہ کا مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ کون کس مقدار کی رقم کا مستحق ہے ۔
    یہی معاملہ قرآن میں متعین کردہ وارثین کے حقوق کا ہے ،قرآن کا مقصود یہ ہرگزنہیں ہے کہ ان حقوق کا مجموعہ ایک صحیح عدد ہونا چاہئے بلکہ مقصد صرف یہ بتلانا ہے کہ کون وارث کتنی مقدار کا حق رکھتاہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings