Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • یہودیت اور شیعیت:نام الگ مگر کام ایک

    محترم قارئین! ذیل کے چند سطور میں ہم ’’شیعیت‘‘کا موازنہ اس قوم سے کر رہے ہیں جسے اللہ نے سب سے بدترین قوم کہا ہے، جن پر اللہ کا غضب ہے، جو مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن ہیں،جنہوں نے اللہ کے انبیاء کو پریشان کیا، اللہ کی ذات پر الزامات لگائے ، اللہ کی کتاب کو تبدیل کرکے رکھ دیااور جو لوگ اپنے مفاد کے حصول کے لیے ہر ممکنہ حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں، میری مراد’’یہودیت‘‘ہے، اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شیعہ دراصل کافر ہیں، قومِ یہود کے پروردہ اور انہی کی ایجاد کردہ ہیں اور یہ حقیقت تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ سانپ کا بچہ سپولا (سانپ) ہی ہوتا ہے، وہ انسان تو ہونے سے رہا۔
    یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں:
    ۱۔ دین میں غلو اور مبالغہ آرائی: یہودیوں کی سب سے پہلی صفت جو شیعوں نے اختیار کی وہ ’’غلو‘‘اور’’مبالغہ‘‘ ہے…جیسا کہ اللہ یہودیوں کے تعلق سے کہتا ہے:
    {وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ابْنُ اللّٰه}
    ’’یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں…‘‘
    [التوبۃ:۳۰]
    یہودیوں نے ایک نیک اور صالح انسان کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا، حالانکہ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی کسی کا باپ، نہ ہی اسے ان سب چیزوں کی ضرورت ہے ،جس طرح یہودیوں نے اللہ کے بندے عزیر علیہ السلام کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیا ایسے ہی شیعوں نے اپنے ’’ائمہ معصومین‘‘کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیتے ہوئے یہودی نسل سے ہونے کی ایک مضبوط دلیل پیش کی، ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ائمہ نبی اور رسول ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں، انبیاء و رسل ہی کی طرح امت پر ان کی اطاعت فرض ہوتی ہے اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے یہ تمام انبیاء سے افضل اور رسول اکرم ﷺ کے برابر ہیں…
    چنانچہ ایران کا مقتدر شیعی رہنما آیت اللہ خمینی کہتا ہے:
    ’’وَاِنَّ مِنْ ضَرُوْرِيَّاتِ مَذْهَبِنَا أَنَّ لِاَئِمَّتِنَا مَقَاماً لَا يَبْلُغُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ‘‘
    ’’یعنی ہمارے مذہب (شیعیت)کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے کہ جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘[الحکومۃ الاسلامیۃ آیت اللّٰہ خمینی :۵۲]
    اسی طرح سے تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر ہر چیز پر اللہ کی حکومت ہے اور تمام چیزیں اس کی مطیع و منقاد ہیں اور یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں، صرف اللہ کی ہے…لیکن اہلِ تشیع کا غلو اور مبالغہ سے بھرپور یہ عقیدہ ہے کہ:
    ’’فَاِنَّ لِلْاِمَامِ مَقَاماً مَحْمُوْداً وَدَرَجَةً سَامِيَةً وَخِلَافَةً تَكْوِيْنِيَّةً تَخْضَعُ لِوِلَايَتِهَا وَ سَيْطَرَتِهَا جَمِيْعُ ذَرَّاتِ الْكَوْنِ‘‘
    ’’مطلب امام کو مقامِ محمود، بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم اور اقتدار کے آگے سرنگوں ہے‘‘[الحکومۃ الإسلامیۃ:۵۲] نعوذ باللّٰہ من ذالک
    دیکھیں کس قدر ائمہ کی شان میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے، بھلا بتائیں کیا ایسی صورت میں اِن میں اور اُن میں کوئی فرق رہ جاتا ہے؟؟
    ۲۔ اپنے دینی رہنماؤں کو اللہ کے اختیارات سے متّصف کرنا:
    یہ وہ دوسری صفت ہے جو شیعوں نے یہودی قوم سے وراثت میں حاصل کی ہے، اللہ یہودیوں کی اس صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
    ’’اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰه‘‘
    ’’کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں اور علماء کو اپنا رب بنا لیا…‘‘[التوبۃ :۳۱]
    یہ مذموم اور مشرکانہ عقیدہ شیعوں کے یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ ’’اصول کافی‘‘کے دو اقتباس آپ ملاحظہ کریں:
    ۱۔ محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن علی نقی (نویں امام) سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ:
    ’’اے محمد! اللہ ازل سے اپنی وحدانیت میں منفرد رہا، پھر اس نے محمد ﷺ، علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کو پیدا کیا، پھر یہ لوگ ہزاروں سال باقی رہے، اس کے بعد اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا، پھر مخلوقات کی تخلیق پر ان حضرات کو گواہ بنایا اور ان کی اطاعت ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان حضرات کے حوالے کر دیئے، اب یہ حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کر دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں حرام کر دیتے ہیں، اور یہ وہی چاہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے…‘‘[الصافی شرح اصول کافی جزء:۳، جلد :۲، ص:۱۴۹]
    واضح رہے کہ اس روایت میں محمد، علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں۔
    ۲۔ اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے:
    ’’وِلَايَتُنَا وِلَايَةُ اللّٰه اَلَّتِي لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ اِلَّا بِهَا‘‘
    ’’ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت) بعینہٖ اللہ کی ولایت و حاکمیت جیسی ہے، جو نبی بھی اللہ کی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم دے کر بھیجا گیا‘‘[اصول کافی:۲۷۶]
    محترم قارئین! دیکھیں ان شیعی روایات کے مطابق ان کے تمام ائمہ الٰہی صفات کے مالک ہیں، انہیں ما کان و ما یکون کا علم ہے، کوئی بھی چیز ان سے مخفی نہیں، ان کے بارے میں غفلت، سہو اور نسیان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ کی حکومت جیسی ان کی بھی حکومت ہے، وہ دنیا و آخرت کے مالک ہیں، جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں محروم کر دیں، حلال و حرام کے فیصلے کی اتھارٹی بھی ان کے پاس ہے اور ان جیسے دوسرے مذموم اور مشرکانہ عقائد، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون…کیا اب بھی ان کے کافر ہونے میں کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟؟؟
    ۳۔ التباس اور کتمان حق:
    قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہود و نصاریٰ کے اندر جو خامیاں اور برائیاں ہیں ان میں سے ایک بری صفت یہ بھی ہے کہ وہ حق کو چھپانے والے اور دین کی سچی تعلیمات پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کا جرم کرنے والے ہیں۔جیسا کہ اللہ سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
    {یَآ اَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}
    ’’اے اہل کتاب! تم حق کو باطل سے کیوں ملاتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو، حالانکہ تمہیں معلوم ہے‘‘[آل عمران:۷۱]
    یہودیوں کی یہ مذموم صفت شیعہ قوم نے بھی اختیار کی، ان لوگوں نے بھی حق کو خلط ملط کرنے اور اسے چھپانے کا کام کیا بلکہ اس معاملے میں یہ اپنے گرو سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں، کیونکہ’’التباس‘‘اور’’کتمان حق‘‘شیعوں کے نزدیک باقاعدہ ’’تقیہ‘‘اور’’کتمان‘‘کے عنوان سے عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر اس معاملے میں یہودیوں اور شیعوں کے مابین کچھ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دنیاوی مفاد کے لیے حق کو باطل میں خلط ملط کرنے اور اللہ کی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے یا ہیں جبکہ ان کے یہ معنوی’’سپوت‘‘یعنی شیعہ حضرات اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لیے دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں اپنے باطل عقائد و نظریات کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، اس سلسلے کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیںبلکہ خود شیعہ علماء نے اس طرح کی مثالیں اپنی کتابوں میں درج کی ہیں۔
    تقیہ اور کتمان کے باب میں ہم یہاں پر شیعوں کی کتاب سے صرف ایک دلیل کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:
    قَالَ اَبُوْ جَعْفَر عَلَيْهِ السَّلَام:’’اَلتَّقِيَّةُ مِنْ دِيْنِيْ وَ دِيْنِيْ آبَائِيْ وَلَا اِيْمَانَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ‘‘
    امام باقر ابو جعفر نے فرمایا:’’تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے، جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں ہے‘‘[اصول کافی:۴۸۴]
    حقیقت یہ ہے کہ ’’تقیہ‘‘اور’’کتمان‘‘کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عقائد کو امت مسلمہ میں نافذ کرنے اور مسلمانوں کے درمیان نفاق و تفرقہ کی بیج بونے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور ذریعے سے ممکن نہ تھی، ظاہر ہے کہ یہودیت تو براہِ راست مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اثر انداز نہ ہو سکتی تھی اس لیے یہودیت نے شیعیت کے روپ میں ایک نئے فرقے کو جنم دیا اور جب یہ فرقہ جوان ہوا تو اس نے مسلمانوں کو مختلف کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں پوری طرح یہودیوں کی مدد کی اور ان کے لیے اپنے مشن میں کامیابی پانے کا ’’تقیہ‘‘اور ’’کتمان‘‘ سے بہتر کوئی اور راستہ نہ تھا اور آج حالت یہ ہے کہ کھلے عام یہ لوگ اپنے معتقدین پر ’’شیعیت‘‘یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت‘‘کی دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
    ۴۔ مسلمانوں سے شدید عداوت و دشمنی:
    اس صفت کے تعلق سے قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ ’’یہودی‘‘مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہیں۔
    اللہ کا فرمان ہے:
    {لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً للَّذِیْنَ آمَنُوْا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا}
    ’’تم مومنوں کا سب سے سخت دشمن ان لوگوں کو پاؤ گے جو یہودی ہیں اور ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا‘‘ [المائدۃ:۸۲]
    دیکھیں یہ ہے قرآن کی گواہی اور اللہ کی سچی بات۔ {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰه حَدِيْثاً}
    ’’اور اللہ سے زیادہ سچی بات والا کون ہوگا‘‘؟[سورۃ النساء:۸۷]
    یہودیوں کی مسلمانوں سے یہ عداوت و دشمنی ان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا وجود ختم کر دیں، چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں سے اپنی شدید دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ان لوگوں نے ’’شیعیت‘‘کے روپ میں آ کر عام مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت اور تبرّا کا محاذ کھول دیا، یہاں تک کہ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیر القرون کے مسلمانوں سے عام لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہر اُس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا،یہاں پر ہم اپنی اس بات کے ثبوت کے لیے خود شیعہ علماء کی کتابوں سے ہی چند مثالیں پیش کیے دیتے ہیں۔
    شیعوں کی مسلمانوں خصوصاً صحابہ سے دشمنی کی چند مثالیں:
    ۱۔ ابو بکر وعمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) تینوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ترک کر دینے کی وجہ سے ایمان و اسلام سے خارج اور مرتد ہو گئے۔[اصول کافی:۲۶۵]
    ۲۔ عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) نے رسول اکرم ﷺ کو زہر دے کر شہید کر دیا تھا۔[حیات القلوب، ملا باقر مجلسی:ص:۸۷۰]
    ۳۔ عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) دونوں بدبخت ہیں۔معاذ اللہ [حیات القلوب، ملا باقر مجلسی:۷۴۲]
    ۴۔ ان دونوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی لعنت ہو۔[کتاب الروضۃ، ابو جعفر کلیدی:۱۱۵]
    ۵۔ مہدی علیہ السلام جب ظاہر ہوں گے تو عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو زندہ کر کے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے۔[حق الیقین، ملا باقر مجلسی:۱۳۹]
    ۶۔ مہدی جب ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے پہلے سنّیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کارروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر کے نیست و نابود کر دیں گے۔[حق الیقین، ملا باقر مجلسی:۱۳۸]
    محترم قارئین! مذکورہ چند مثالیں صرف نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں ورنہ یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتوں کی فہرست لمبی ہے مگر آپ انہی چند مثالوں سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعیت اسلام اور عالم ِاسلام کے لیے کس قدر خطرناک گروپ ہے اور صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ان کے کس قدر گندے خیالات اور عقائد ہیں۔
    اللہ امت اسلام کو یہودیت اور شیعیت کی سازشوں اور چالوں سے محفوظ رکھے اور منہجِ صحابہ اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings