Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ماہ محرم اور کربلائی فکر کی شورشیں

    محرم کی آمد کے ساتھ ہی فضا کا سکوت درہم برہم ہونے لگتا ہے،ڈھول اور با جوں کی گھن گرج گلی اور محلوں کا سکون غارت کردیتی ہے،اسٹیجوں پر بھی موسم باد و باراں شروع ہوجاتا ہے،سوگ اور ماتم کی نحوست عالم انسانیت پر چھاجاتی ہے،ایک جانکاہ تاریخی سانحہ اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ اعصاب پر سوار ہوتا ہے،کربلا اورشہادت حسین رضی اللہ عنہ کی تصویریں پردہ ٔذہن پرابھرنے لگتی ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ حادثۂ کربلا سے قومی بحران کی جوکھائی وجود میں آئی تھی وہ صدیوں کے ماتم کے بعد بھی پُر نہیں ہوئی؟رافضی ادیبوں کی خون آشام تحریریں اور مرثیہ نگاروں کے آنسؤوں میں تیرتے الفاظ بھی ملی تاریخ کے اس ناسور کو بھر نہ پائے ؟خون شہادت کے چھینٹے ابھی تک خشک نہیں ہوئے؟آخر کب تک کربلا کا سانحہ انسانیت کو خون کے آنسو رلاتا رہے گا؟دین اسلام کا وہ کون سا تقاضا تھاجس سے مجبور ہوکر نام نہاد اسلامیوں نے اس فتنۂ عالم رسا کا دہانہ امت پر وا کیا؟ایک زخم کو اتنا کریدا کہ شیعیت کی پوری حسیات اس میں سمٹ آئی، دیکھتے دیکھتے سوگ اور ماتم کے ایسے خونچکاں دروازے کھولے گئے کہ عقل انسانی حیران وششدر رہ گئی،اب بات گریبان پھاڑنے، بال نوچنے اور سینہ کوبی سے بہت آگے جاچکی ہے،اب یہ رسم بد تمیزی ترقی کرکے مقابلہ آرائی کے دور میں داخل ہوچکی ہے،جہاں شیعی حب حسین میں نشتر سے اپنے جسم کو لہو لہان کرتاہے اور خود سوزی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا ہے،دسویں محرم کو ہر گلی کوچے میں کربلا کا خیالی منظر دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے ،نام نہاد ماتم گاہیں بھی وجود میں آگئی ہوتی ہیں جہاں’’ہائے حسین‘‘اور’’یا حسین ہم نہ تھے‘‘کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ،حبّ آل بیت کا یہ خونی مظاہرہ شیعیت کی خونی پیاس کو دوآتشہ سے سہ آتشہ کردیتا ہے پھر انہیں تلاش ہوتی ہے انسانیت کے گرم اور تازہ لہو کی جو انہیں اہل سنت کے شریانوں سے فراہم ہوتی ہے،کئی سنی ممالک میں اس کربلائی مخلوق نے خونریزی کا جو بازار گرم کیا ہے وہ اس کی زندہ مثال ہے،انسانی تاریخ کو روافض نے جس طرح خون سے لالہ زار کیا ہے وہ ایک دردناک کہانی ہے،اس کا تذکرہ پھر کبھی،ابھی محرم میں شیعیت کا کچاچٹھا بیان کرنا مقصود ہے۔
    ماہ محرم میں رفض وتشیع کا فکری بہاؤ پوری اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کو حاشیے پر لا کھڑا کردیتا ہے،تبھی تو روزہ جو متفقہ طور پر سنت ِرسول اللہ تھا وہ نسیاًمنسیاً ہوجاتا ہے اورجگہ جگہ پانی کی سبیلیں لگا کر سنت ِروزہ پر کربلا کی پیاس کو ترجیح دی جاتی ہے،عقل وذہن کے تانے بانے کارزارِکربلا سے ایسے الجھادیئے جاتے ہیں کہ انسان کو آتش وآہن میں حسین اور ان کے رفقاء کی مظلومانہ شہادت کے سوا کچھ دکھا ئی نہیں دیتا،کبھی وہ پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں،کبھی زخموں سے چور نظر آتے ہیں ،کبھی ستر سالہ بزرگ ہونے کے باوجود بہادرانہ صفوں کی صفیں الٹتے نظر آتے ہیں، کبھی گھوڑوں کے کھروں سے روندے جاتے ہیں،کبھی خاک وخون میں ان کی سربریدہ لاش نظر آتی ہے،پتہ نہیں اچانک یزید کے مسلم فوج کو کیا ہوجاتا ہے کہ وہ رحم ومروت کے سارے تقاضے بھول کر درندہ بن جاتے ہیں اور سفاکیت کے سارے ریکارڈ توڑڈالتے ہیں،وہ اتنے سنگ دل اور کٹھور بن جاتے ہیں کہ انھیں نواسۂ رسول اور بچوں پر ذرا بھی ترس نہیں آتا، ہر دسویں محرم کو ایک گھمسان کے رن کے بعد نوحہ وماتم کا مانسون گزرجاتا ہے اور شیعیت کی بے چین روح کو جیسے قرار آجاتا ہے۔
    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
    افسوس اپنوں کی محبت نے کیا ستم ڈھایا ہے؟آل بیت کے چاہنے والوں نے پوری دنیا میں حسین کی شہادت کو تماشہ بنادیاہے،گلی گلی حسین کی قربانی کو رسوا کیاہے،آل بیت سے ہونے کی سزا یہ دی گئی کہ ایک بار خاک وخون میں تڑپانے کے بعد بخشا نہیں گیا بلکہ بار بار انہیں خاک وخون میں تڑپایا جاتاہے۔
    ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
    آل بیت کی محبت کا قائل کون نہیں؟ناموسِ خانوادۂ رسول پر مر مٹنے کا شیدائی کون نہیں؟لیکن یہ محبت دنیوی اغراض ومقاصد کی اسیر بن جائے ،شرک وبدعات کا عنوان بن جائے،کون اسلامی تعلیمات پر یقین رکھنے والا ایسا چاہے گا؟ حب آل بیت شریعت کی پاسداری کا جذبہ ہے نہ کہ شریعت کی جگ ہنسائی کا ذریعہ۔
    جنون عقیدت اتنا بے لگام ہوا کہ تکمیل ِشریعت کے پچاس سال بعد کا واقعہ شریعت اور وحی آسمانی سے زیادہ اہم ترین قرار پاگیا،اس واقعے کے گرد وپیش میں خرافات کا ایک نا پیدا کنار جنگل پھیلا دیا گیا،بیانِ واقعات میں مبالغہ آرائی انتہاؤں کو چھونے لگی،ان کی دور بین نگاہوں نے خون کی بارش بھی دیکھی،جابجاپتھروں کے نیچے جمے ہوئے خون کا مشاہدہ بھی کیا،آسمان کا لہو رنگ اشک بھی دیکھا،زمین کا شق ہوتا کلیجہ بھی دیکھا،سیدہ فاطمہ بھی عالم ِبرزخ سے نکل کر میدانِ کربلا میں وہ جگہ صاف کرتی نظر آئیں جہاں بیٹا شہید ہوکر گرنے والا تھا،لفظوں پر تو تمہاری حکمرانی ہے،رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا ہنر تم کو آتاہے،تمہارا گلشن ِفکر تمہارے اسی ہنر سے پھلتا پھولتا رہا،اسی نقطۂ نظر کے ساتھ فکر ِشیعیت ماہ وسال کی مسافت طے کرتی رہی، اورماہِ محرم شرک وبدعت سے گھرتا چلا گیا۔
    ایک حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی اسلامی تاریخ اور قربانیوں کا نقطۂ عروج قرار پائی،باقی اسلامی جنگوں کی مایہ ناز شہادتیں طاق ِنسیاں کے حوالے کردی گئیں،پھرسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ پربھی نگاہ ناز نہیں ٹھہرتی،وہ حمزہ رضی اللہ عنہ جنہیں بے رحمانہ شہید کیا گیا اور جن کی کٹی پھٹی لاش کو دیکھ کر چشم ِنبوت سے موج اشک بہہ پڑا تھا،کئی تکبیرات کے ساتھ نبیﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی،لیکن آلِ بیت کا یہ مظلوم شہید بھی کربلاکی مخلوق کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتا، شہادتِ حسین پرآنسؤوں کا سمندر لنڈھانے والوں کو بئر معونہ کے ستر شہید صحابہ بھی نہیں بھاتے؟آہ !انہیں پیاس سے تڑپتا ہوا وہ عثمان بھی نظر نہ آیا جو نبی کی ایک آواز پر بئر رومہ کو خرید کراہل مدینہ پر وقف کردیتا ہے۔اسی عثمان پر شیعوں کے باوا آدم ابن سبا کے آدمیوں نے بئر رومہ کا پانی روک دیا تھا۔
    لوگوں کی پیاس جس نے بجھائی تمام عمر سنتے ہیں آج پیاس سے وہ شخص مرگیا
    اب اس عمر کے ساتھ تم انصاف کیوں کرنے لگے جس نے آتش کدۂ ایران کو ٹھنڈا کردیا تھا،یہی توتھا جو تمہارے ایران میں دین مجوسیت کی بساط کو الٹ رہا تھا،ظاہرہے تمہارے مذہب کے قاتل کو شہید نہیں طاغوت ہی ہونا چاہیے، دور نہ جائیے،حسن رضی االلہ عنہ کی شہادت پر غور کرلیجیے،کیاوہ شہید ِاسلام نہیں تھے؟اورکیا وہ جنت کے سردار نہیں تھے؟ کیا وہ آلِ بیت میں سے نہیں تھے؟ لیکن اس شہادت پر بھی شیعیت کے قلزم ِاشک میں کبھی طغیانی نہیں دیکھی گئی،پوری دنیائے شیعیت شہادتِ حسن پر چین کی بانسری بجا رہی ہے،یہ دوہرا کردار اس لیے کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے عالمِ شباب میں اس نواسۂ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا تھا،کیونکہ ان کی معاویہ سے صلح نے شیعیت کے نظام فکر کی چولیں ہلا دی تھیں،سبائی فتنہ کے تار پود بکھیر دیئے تھے،اگر اس صلح کے مطابق حالات اور واقعات چل پڑتے تو رفض وتشیع کو فرضی شریعت کی عمارت کھڑی کرنے کیلئے اینٹیں دستیاب نہیں ہوتیں،اسی لیے انہوں نے مستقبل میں صلح کے ہر اقدام کو سبوتاژ کردیا،یہی موت کے سوداگر تھے جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے پاس پہنچنے سے پہلے شہید کرڈالاتھا تاکہ حسن کی طرح یہ بھی صلح نہ کرلیں اور ہمارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے،حسین کا قتل ضروری ہوگیاتھا نہیں تو کوفیوں کی شامت آجاتی،بلاوجہ لڑائی چھیڑکر نواسۂ رسول کو قتل کرڈالا،خطوط کے ثبوت مٹانے کے لیے خیموں کو آگ لگا دی،اور آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسو سجالیے، پھر منکرات وموضوعات کی ایسی باد صرصر چلائی کہ اصل واقعہ کہیں گم ہوکر رہ گیا،یزید بے چارہ مفت میں پھنس گیا،قتل ِحسین کا داغ اپنے دامن سے مٹانے کے لیے اس سے مناسب بہانہ اور کیا تھاکہ ساراکچرا اٹھا کر حاکم ِوقت کے سر ڈال دو،رنگ آمیزی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو،یہ یہودی ذہن کام کرگیا اور لفظی پینترے بازیاں جھوٹ کو سچ بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔
    اگریقین نہ آئے تو شہادت کے بعد کی تاریخ پڑھ ڈالیے ایک زمانے تک لوگوں نے یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل مانا ہی نہیں تھا،اس بات کی سچائی کے لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا وہ جواب ہی کافی ہے جو انہوں نے ایک کوفی کو دیا تھا،جس نے حالت احرام میں مچھر مارنے کا کفارہ پوچھا تھا،آپ نے فرمایا نواسۂ رسول کو ماردیا تو کفارہ نہیں پوچھا اب آیا ہے مچھر مارنے کا کفارہ پوچھنے،اگر اس المیے کی اصل داستاں سامنے ہے تو یہ بھی دیکھ لیجیے گاکہ لٹا پٹا یہ قافلہ یزید ہی کے گھر پہنچتاہے،اس قافلے کو احترام سے رکھا جاتا ہے،یزید حادثے کے بعد جشن نہیں منا رہا ہے بلکہ بار باراظہارافسوس کررہا ہے،ایسے ہی رورہا تھا جیسے بھائی بھائی کے لیے روتا ہے،محمد بن حنفیہ حسین کے بھائی یزید کی تعریف بھی کررہے ہیں، دونوں خاندانوں میں مستقبل میں رشتہ داریاں چلی ہیں،حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کی یزید کے خاندان سے اور یزید کی حسین کے خاندان سے،اگر یزید حسین کا قاتل تھا تو نواسۂ رسول کے خاندان نے یہ رواداری اور قربت کیوں دکھائی،کیا وہ اتنے بے حس تھے کہ اپنوں کے قاتلوں سے یارانے بڑھاتے چلے گئے؟ہر گز نہیں،یہاں تو پشتہا پشت سے خطرناک قسم کی خاندانی دشمنی دکھائی گئی جو نزولِ قرآن کے ایمان افروز دور میں بھی زیر زمین چلتی رہی،موقع پاکر اس دشمنی نے بال وپر نکالے،بالآخر حسین اس خاندانی دشمنی کی نذر ہوگئے،دھیرے دھیرے اس فسانے پر رائے عامہ ہموار کرلیا گیا،اورخطرناک قسم کی اسلام دشمنی حبِّ آل ِبیت کے جلو میں تخریب کا سفر طے کرتی رہی۔
    کون کہتا ہے کہ یہ کربلا کا ماتم ہے،یہ شہادت کا سوگ ہے،نہیں بالکل نہیں،یہ تو جشن ہے،چراغاں ہے، یہ تو مسرتوں کا اظہار ہے، تبھی توڈھول اور باجوں کی فلک شگاف آوازیں ہیں،کھانے اور پینے کی تقریبات ہیں،میلے اور ٹھیلے ہیں،جلوس اور جھنڈیاں ہیں،شربت اور شیرینیاں ہیں،حلوے اور ٹھنڈے پانی کی سبیلیں ہیں،اے حبِّ آلِ بیت کے متوالو!یہ کیسا ماتم ہے کہ تمہارے طرزِ عمل پر جشن کا گماں گزرتا ہے،لذت کام و دہن کا سامان لگتا ہے،پینے پلانے کا دور چلتا ہے۔
    محرم تو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے،وہ اسلامی سال جس کی بنیادواقعۂ ہجرت پر رکھی گئی تھی،جبکہ تاریخ اسلام کے بڑے بڑے واقعات موجود تھے جن کی طرف اس سن کو منسوب کیا جا سکتا تھا لیکن ہجرت کے اندر جو مضمرات تھے، یا ایثار وفداکاری کے جو شاندار جذبات تھے،وہ نظرِ انتخاب ادھر مبذول کررہے تھے،مقصد یہ تھا کہ جب جب اسلامی سال کا پہلا مہینہ طلوع ہوگا تو امت نبی اور صحابہ کی ہجرتیں یاد کرے گی،اسلام کے عروج کی تصویر سامنے آئے گی اور دین کے لیے جذبۂ قربانی انگڑائی لے گا،لیکن
    یہ امت روایات میں کھوگئی حقیقت خرافات میں کھو گئی
    اب سن ہجری کا پیغام پس منظر میں چلا گیا،اور افسانہ کربلا کی نیرنگیاں آگے بڑھ گئیں،اب غارِ ثور کی وہ تین راتیں کسے یاد رہ گئیں جن کے بارے میں فاروق اعظم کہاکرتے تھے ابوبکر! غار کی وہ تین راتیں دے دو اور حیاتِ عمر کی ساری نیکیاں لے لو،اب مکے اور مدینے کے راستوں میں لڑھکتا اور ٹھوکریں کھاتا ہواوہ بھوکا پیاسا صہیب کسے یاد آئے گاجس کے بارے میں زبان حق ترجمان نے کہا تھا ’’ربح البیع یا ابا یحییٰ‘‘،ابو یحییٰ پورا سرمایۂ حیات لٹا کر جنت کا سوداکرنا مبارک ہو۔ام سلمہ اور ابوسلمہ کی مصیبتیں کسے یاد آئیں گی؟ اب دردِ ہجرت کا مارا بسترِ مرض پر تڑپتا ہوابلال کسے یاد آئے گا جو مدینے میں مکہ کے پہاڑوں اور چشموں کو یاد کرکے روتا تھا اور کہتا تھا۔
    ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل
    وهل أردن يوما مياهمجنة وهل تبدون ليشامة وطفيل
    کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل گھاس ہوتی۔
    کاش! ایک دن میں مجنہ کے چشمے پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل پہاڑوں کو دیکھ سکتا۔
    سچ تو یہ ہے کہ واقعۂ ہجرت بہ تمام وکمال اپنے دامن میں مصائب وآلام کے ایسے ایسے ہزاروں طوفان سموئے ہوئے ہے کہ کربلا کا شور کسی دور جزیرے سے آتا محسوس ہوگا،لیکن منہجِ سلف نے افراط وتفریط سے روکا تھااور عدل کی باگ نے ہمارے قلم کو پکڑا تھا، اس لیے ہمارے ادیبوں اورشاعروں نے جذبات کے خاموش سمندر میں کبھی سنامی اٹھانے کی کوشش نہیں کی،ایمان کی تازگی اور جذبۂ عمل کی تحریک کے لیے بیانِ واقعات ہی پر اکتفا کرتے رہ گئے۔
    ماہ محرم کی شیعی گورکھ دھندوں میں بریلویت شیعوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہے،یہ وہی بریلویت ہے جس نے شرک کے چوپٹ دروازے امت پر کھول رکھے ہیں،شریعتِ محمدیہ کو قبروں اور مزاروں کے رحم وکرم پررکھ چھوڑا ہے، یہ اگر شیعیت کی ذہنی غلام نہ بنتی تو کیا کرتی؟ دونوں کی سرشت قبوری افتاد طبع کی خوگر ہے،بزرگوں کی ہڈیوں کی تجارت کرنے والے یہ مردہ فروش تھے،ایک نہ ایک دن یہ یکسانیت انہیں تشیع کی بارگاہ میں سجدہ ریز کرنے ہی والی تھی،سو بریلویت کی دیرینہ آرزو برآئی۔
    اس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کیاذلیل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
    بریلویت کہاں کہاں شیعیت سے بغلگیر ہوئی ہے؟ یہ سلسلہ دراز ہے،شیعی قربت کی گرمجوشی نے عظمتِ صحابہ پر بھی پتھر اچھالے ہیں،امیر معاویہ، عمروبن عاص مروان وغیرہم تو معتوب تھے ہی لیکن مرورِ ایام کے ساتھ فہرست طویل ہوتی جارہی ہے،وہ دن دور نہیں جب شوخ اور تلون مزاج بریلوی روافض کی خوشنودی کے لیے اکابرین صحابہ پر بھی حملہ آور ہوجائیں گے،شیخین پر بھی ایسے ہی زبان درازی کریں گے جیسے شیعہ کرتے ہیں،پھر دیکھنا محرم کے پرجوش نوحہ و ماتم میں تبراکے سارے ریکارڈ ٹوٹیں گے،حبِّ آلِ بیت کی ساری شیعی جنوں خیزیاں بھی بریلوی قلابازیوں کے سامنے شرماجائیں گی۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings