-
تکبر وتعلّی ایک مذموم خصلت تکبر وتعلّی ،عجب پسندی ، انا ، انتہائی مذموم خصلت ہے ، اس کے بہت سے مفاسد ومضرات ہیں ، اس کے نتیجے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں ،یہ ایسی گھناؤنی صفت ہے جو انسان کے ذہن ودماغ کو ماؤف کر دیتی ہے ، وہ اگر قرآن وحدیث کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اپنے تعلی کے زعم میں اسے سو فیصد صحیح اور عین صواب سمجھتا ہے ، اس کی عقل اور دماغ اس طرح ماری جاتی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ اور اچھے اچھے علماء وجہابذۂ فن کو بھی علمی مجال میں بونا سمجھتا ہے ، اور اپنی سمجھ ورائے کو حرف آخر سمجھتا ہے بلکہ قرآن وحدیث کے عین مطابق گردانتا ہے ، اور اکابر علماء کاجب تذکرہ کرتا ہے تو سامعین کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اسے ان پر علمی برتری وتفوق حاصل ہے ، دوسرے کاجائزہ لیتا ہے ، دوسرے کا احتساب کرتا ہے دوسرے کی گردن ناپتا ہے ، دوسرے کی پگڑی اچھالتا ہے ، اپنی ہمہ دانی ، زبان آوری اور ثرثرہ بازی کاخبط ایسا سوار ہوتا ہے کہ خود احتسابی کی اسے توفیق نہیں ہوتی ، اپنی لیاقت کااتنا غرہ کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے نبوی طریق کو بالائے طاق رکھ کر برملا وبے باک ہوکر بھری مجلس میں لوگوں کو ان کی کوتاہیوں اور خامیوں پر ٹوک کر ان کی دل آزاری کرکے اپنی انا کو تسکین پہنچاتا ہے ، اسی عجب پسندی ،انا، اورتکبر نے بہت سارے انسانوں کو غارت کیا ،یہ ابلیسی اور شیطانی صفت جب کوئی اپناتا ہے تو اس کے اندر حسد ، بغض وکڑھن اورجلن سب پیدا ہوتا ہے ،پھر عداوت ودشمنی اور سرپھٹول تک معاملہ پہنچ جاتا ہے ، اور نسل درنسل یہ سلسلہ چلتا ہے اور جنگ بعاث کی تصویر پیش کرتا ہے ۔
اسی تکبر وتعلی کے بھنور میں جب ابلیس پھنسا تو امرالہٰی سے سرتابی کربیٹھا ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کا حکم دیا تو اس نے غرور وتکبر کااظہار کرتے ہوئے کہا:
{أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ}
’’کہ میں آدم سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے خاک سے بنایا ہے ‘‘
[الاعراف:۱۲]
مطلب یہ ہے کہ اس نے غلط قیاس کیا کہ میری تخلیق آگ سے ہے اور آگ کی خاصیت علو اور بلندی ہے اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے اور مٹی کی خاصیت پستی ہے ،اس لیے مجھے آدم پر بلندی وبرتری حاصل ہے پھر کیونکر میں خاکی آدم کو سجدہ کروں ؟ چنانچہ ابلیس کی یہ تعلّی اسے لے ڈوبی، اللہ نے اسے راندۂ درگاہ اور ملعون قرار دیا، فرمان الہٰی ہے :
{قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ۔وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَي يَوْمِ الدِّينِ}
’’فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیوں کہ تو راندہ درگاہ ہے ۔اور تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک‘‘
[الحجر:۳۴۔۳۵]
اسی کبر ونخوت وگھمنڈ نے قارون کو زمین کے اندر دھنسا دیا، اس کا کبر اتنا بڑھ چکا تھا کہ کہتا تھا:
{قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَي عِلْمٍ عِنْدِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ أَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا وَلَا يُسْأَلُ عَنْ ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ}
’’قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے۔ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی‘‘
[القصص:۷۸]
اللہ نے اسے بہت ساری دولت سے نوازا تھا پس اس نے استعلاء وتکبر کیا چنانچہ اس نے اظہار کبر کے لیے غیروں کے مقابلے میں اپنا کپڑا ایک بالشت لمبا بنا لیا تھا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا:
{فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِينَ}
’’(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا‘‘
[القصص:۸۱][بحوالہ تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن :ص: ۱۱۱۲۔۱۱۱۴]
اسی تعلی وتکبر کاشکار فرعون بھی تھا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاء َهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاء َهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ }
’’یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بیشک وشبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ‘‘
[القصص:۴]
فرعون اپنے آپ کو رب تک کہہ بیٹھا، چنانچہ اللہ نے اس کو دنیا وآخرت کے عذاب میں گرفتار کر لیا فرمان الٰہی ہے :
{فَأَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَي}
’’تو (سب سے بلند وبالا ) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا ‘‘
[النازعات :۲۵]
تکبر وگھمنڈ کا برا انجام اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ ایسا کرنے والا جنت سے محروم ہو گا ، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے :
{تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ}
’’آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے‘‘
[القصص:۸۳]
بہر کیف! تکبر و گھمنڈ ایک مذموم صفت ہے ، بری عادت ہے ،ہمارے اسلاف کی پوری تاریخ پڑھیے کبر وغرور وشیخی بگھارنا ان کے یہاں نہیں ملے گا ، وہ تو تواضع و انکساری کی دولت سے مالا مال تھے ، ان کے یہاں کسر نفسی تھی، جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
عن عياض بن حمار رضي اللّٰه عنه قال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’وَإِنَّ اللّٰهَ أَوْحَي إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّي لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَي أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِي أَحَدٌ عَلَي أَحَدٍ‘‘
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اللہ نے میری طرف وحی بھیجی کہ آپس میں تواضع اختیار کرو ،حتیٰ کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کسی پر زیادتی کرے ‘‘
[صحیح مسلم :۲۸۶۵]
دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
’’وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ‘‘
’’جو صرف اللہ کے کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند فرماتا ہے‘‘
[صحیح مسلم :۲۵۸۸]
اسی طرح ایک حدیث میں متکبر کو جہنم کی وعید سناتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:…’’أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ‘‘
حارثہ بن وہب سے روایت ہے کہ سول اللہ ﷺنے فرمایا:…’’کیا میں تمہیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں ؟ ہر سرکش، بخیل ، اور متکبر جہنمی ہے ‘‘
[صحیح بخاری:۶۰۷۱]
لیکن حیف صد حیف تکبر و گھمنڈ ہر قسم کے آدمی میں موجود ہے ، کوئی اپنے علم پر غرور کرتا ہے تو کوئی اپنے قلم پر ، کوئی اپنے حسن کا جلوہ دکھاتا ہے تو کوئی اپنی ،دولت جاہ ،حشم ،خویش و اقارب پر پھولے نہیں سماتا ، کوئی کہتا ہے میں فلاں خاندان کا ہوں اورکوئی کہتا ہے میں فلاں برادری کا ہوں ، الغرض سماج ومعاشرہ کے ہر طبقے میں گھمنڈ وتکبر اورسطوت وجلال کارواج ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اورکوڑا کرکٹ کاڈھیر سمجھنا زیادہ ہی آج کل عام ہوگیا ہے ، لیکن سب سے زیادہ افسوس کن امریہ ہے کہ یہ قبیح وشنیع خصلت آج پڑھے لکھے لوگوں میں بھی سرایت کر گئی ہے۔کچھ ایسے علماء بھی ہیں جو اپنے آپ کو اسلام کا پرچارک سمجھتے ہیں،قرآن وحدیث کی تعلیمات کا مبلغ سمجھتے ہیں ، مگر وہ صرف گفتارکے غازی ہیں کردار کے نہیں ، ان کے دعوے کھوکھلے ہوتے ہیں ، ان کا رہن سہن، ان کی نشست وبرخاست اورطرز تکلم بات چیت سے تعلی وتکبر کی بوآتی ہے ، ہر مجلس میں ’’میں‘‘ ’’میں ‘‘کی رٹ لگاتے ہیں ، اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے نہیں چوکتے، ہر مسئلہ میں اپنی زبان کھولتے ہیں (اگرچہ اس کاعلم نہ ہو ) مفتی ومستفتی افتاء کے شروط وآداب کاپاس ولحاظ نہیں رکھتے، فتوے کی زبان بالکل قینچی کی طرح چلاتے ہوئے حلال وحرام کافتوی ٹھونک دیتے ہیں حالانکہ حلال کی تعریف اگر ان سے پوچھ لیا جائے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے ، کچھ دن پہلے ایک جلیل القدر مفتی نے ’’مسلمانوں کا کفار کے مردوں کو جلانے کا حکم‘‘پر دلائل وشواہد وبرا ہین کے ساتھ اس مسئلہ کو دودوچار کیا تو اس طرح کے کچھ کم ظرفوں نے فوراً سخت نوٹس لیا اور دشنام طرازی اور گالیوں کابوچھار لگا دیا۔
اسی طرح ایک بہت بڑے عالم ، فن حدیث کے ماہر نے مشہور حدیث ’’لا عدوی ولا طیرۃ ‘‘کی صحیح تشریح مع حوالہ پیش کیا تو اسی طرح کے کسی آدمی نے اتنے گندے گندے الفاظ استعمال کیے کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا ، سچ کہا کسی شاعر نے :
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سبھی کو تکبر وتعلی سے دور رکھے ،اور اسوۂ نبوی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے آمین۔
٭٭٭