-
اسلام میں خطبہ ٔ جمعہ کی اہمیت یوں تو مسلمان کانفرنسوں اور اجتماعات اور وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں بے شمار خطبے محاضرات اور تقریریں سنتے رہتے ہیں ، لیکن اہمیت ، تاثیر اور اجروثواب کے اعتبار سے کوئی بھی خطبہ یا تقریر خطبۂ جمعہ کا مقابلہ نہیںکرسکتی کیونکہ اس کی خصوصی اہمیت وفضیلت اور اس کی امتیازی شان سے متعلق قرآن وسنت میں بہت سارے نصوص موجود ہیں ، مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت خطبۂ جمعہ کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں پاتی ، یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان جمعہ کے دن مسجد اس وقت پہنچتے ہیں جب خطیب آدھا خطبہ پیش کرچکا ہوتا ہے یا خطبہ ختم کررہا ہوتاہے ۔ مسلم عوام کوخطبۂ جمعہ کی اہمیت وفادیت بتانے کی غرض سے میں نے یہ مضمون بہت اختصار سے تحریر کیا ہے ۔ سب سے پہلے خطبۂ جمعہ کی تعریف پیش کی ہے اس کے بعد اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے خطبۂ جمعہ اہمیت وفضیلت کوقرآن سنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
خطبۂ جمعہ کی تعریف : ایسا خطبہ ہے جو جمعہ کی نماز سے پہلے جامع مسجد کے منبر سے خطیب پیش کرتا ہے ،اور خطبۂ جمعہ نماز جمعہ کی صحت کے لیے شرط ہے ۔ائمہ اربعہ میں سے ہر ایک کا یہی قول ہے ۔[ بدایۃ المجتہد:ج:۱،ص:۱۷۰]
خطبۂ جمعہ کا مقام ومرتبہ : ۱۔ خطبۂ جمعہ ہفتہ کے سب سے عظیم دن مشروع ہے ،اور نماز جمعہ کی صحت کے لیے خطبۂ جمعہ شرط ہے اور خطبۂ جمعہ نمازِ جمعہ سے پہلے پیش کیا جاتا ہے ، بلکہ اس خطبہ کو فضیلت ہی جمعہ کے دن کی نسبت کی وجہ سے ملی ہے ، اور اس خطبہ کا نام خطبۂ جمعہ دیا جاناہی اس کی عظمت ورفعت کی سب سے پہلی وبنیادی دلیل ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے خطبۂ جمعہ کو جمعہ کے دن کی خصوصیات میں شمار کیا ہے، تمام علماء امت کے درمیان یہ متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جمعہ کا دن ہفتہ کے تمام دنوں میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت اور افضل دن ہے،اور جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے ان میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال:’’خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’ان دنوں میں بہتر دن ، جن میں سورج نکلتا ہے، جمعہ کا دن ہے کہ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی میں جنت میں گئے اور اسی میں وہاں سے نکلے اور قیامت نہ ہو گی مگر اسی دن‘‘
[صحیح مسلم :۱۹۷۷]
۲۔راجح قول کے مطابق خطبۂ جمعہ نماز جمعہ کی صحت کے لیے شرط ہے ۔
۳۔اللہ رب العزت نے جمعہ کے دن خطبہ کو افضل قرار دیا ہے اور جو لوگ جمعہ کے دن خطبۂ جمعہ سے غافل ہوکر کسی اور کام میں لگے رہتے ہیں ان کی مذمت بیان کی ہے، اللہ کا فرمان ہے :
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَي ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْواً انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِماً قُلْ مَا عِندَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرَّازِقِين}
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو، پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو ،اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے‘‘
[الجمعۃ : ۹۔۱۱]
امام قرطبی رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے علماء نے بھی اسی بات کو راجح قرارا دیا ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ میں ذکر سے مراد خطبۂ جمعہ ہی ہے۔
۴۔نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ جمعہ کی ذمہ داری خود لی اور پوری زندگی آپ ہی جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے ، جمعہ کے دن نماز جمعہ کی امامت اور خطبہ کا نبی ﷺ کا خود اہتمام فرمانا بھی خطبۂ جمعہ کی شان کو دوبالا کردیتا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَقْعُدُ، ثُمَّ يَقُومُ كَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ:’’ نبی کریم ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو‘‘
[صحیح بخاری:۹۲۰]
اس بات کی دلیل کہ نبی ﷺ پوری زندگی خود خطبۂ جمعہ کی ذمہ داری سنبھالتے رہے یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں جمعہ کے جو خطبے دیئے ہیں ان کی تعداد دوہزار تک پہنچتی ہے ۔
عن جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ :’’ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ قَائِمًا، فَمَنْ نَبَّأَكَ أَنَّهُ كَانَ يَخْطُبُ جَالِسًا فَقَدْ كَذَبَ، فَقَدْ وَاللَّهِ صَلَّيْتُ مَعَهُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفَيْ صَلَاةٍ ‘‘
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:’’ رسول اللہ ﷺ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھتے، پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور کھڑے کھڑے پڑھتے، اور جس نے تم سے کہا کہ خطبہ بیٹھ کر پڑھتے، اس نے اللہ کی قسم!جھوٹ کہا، میں نے آپ ﷺ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ (جمعہ ) نمازیں پڑھی ہیں‘‘
[صحیح مسلم :۱۹۹۶]
۵۔نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ جمعہ کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ ہجرت کے موقع پرخود مدینہ پہنچنے سے پہلے اپنے جلیل القدر صحابی مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیج دیا تھا تاکہ مدینہ کے لوگوں کو جاکر دین کی تعلیم دیں ، وہاں مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا ،اور انہی کے یہاں نبی ﷺ کے حکم سے سب سے پہلا جمعہ قائم کیا گیا ۔
نبی ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین نے جمعہ کا اہتمام فرمایا ، اس کے بعدبنو امیہ کے بادشاہوں نے اہتمام کیا، اس کے بعد بنو عباس کے خلفاء نے جمعہ کا اہتمام فرمایا ، اس کے بعد اسی طرح حکومت اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا لیکن کبھی بھی جمعہ کا اہتمام نہیں رکا اور آج حال یہ ہے کی ایک ہی شہر میں اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے سینکڑوں اور ہزاروں مساجد قائم ہیں جہاں باقاعدہ خطبۂ جمعہ اور نماز جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔
۶۔ خطبۂ جمعہ دعوت الی اللہ اور اصلاح امت کاسب سے اہم و سب سے مؤثر ذریعہ ہے جس کے چند اسباب حسب ذیل ہیں ۔
۱۔خطبۂ جمعہ ایک دینی فریضہ ہے اور علماء امت اسے دینی فریضہ ہی سمجھ کر انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے جمعہ کے خطباء خطبۂ جمعہ کے لئے خصوصی تیار ی کر تے ہیں اور اذان جمعہ سے پہلے ہی پورے اہتمام اور جوش و جذبہ کے ساتھ منبر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔
۲۔ جتنی خاموشی اور سکون سے سامعین کو خطبۂ جمعہ سننے کاموقع ملتا ہے اتنی خاموشی اور سکون بڑے بڑے کانفرنسوں اور دینی واصلاحی اجتماعات اور دروس میں نظر نہیں آتی ۔
۳۔ جتنے بھی سامعین جمعہ کے روز خطبۂ جمعہ سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں ان کے سامنے چونکہ صرف ایک ہی خطیب ہوتا ہے اس لیے اسے بغور سننے اور سمجھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ، اس کے برخلاف بڑے بڑے اجتماعات اور بڑی بڑی کانفرنسوں میں جہاں بہت سارے خطباء باری باری خطاب کرتے ہیں وہاں ہر سامع صرف اپنی پسند کے خطیب کی باری کا انتظار کرتا ہے اس کے علاوہ جتنے بھی خطباء اسٹیج پر آتے ہیں ان کے خطابات کو توجہ اور دلجمعی سے سننے کی کوشش نہیں کرتا۔
۴۔ چونکہ سامعین کی اکثریت جمعہ کے دن خصوصی غسل،عمدہ و خوبصورت لباس اور خوشبو وغیرہ کا اہتمام کرکے آتی ہے اس لیے ان کا ذہن خطبہ سننے کے لیے بالکل تیار ہوتا ہے اور مختصر وقت میں خالص کتاب وسنت کی روشنی میں خطبہ سننے کے بعد اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ان کا جس قدر تزکیہ ہوتا ہے وہ دیگر پروگراموں،کانفرنسوں اور دینی جلسوں کے خطبات کے ذریعہ نہیں ہوپاتا ۔
۷۔خطبۂ جمعہ کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خطبہ بطور خاص کسی بلند جگہ منبر وغیرہ یااونچی جگہ پر چڑھ کردیا جاتا ہے ۔
نبی ﷺ کے خطبہ کے لیے بھی ایک منبر تھا جس پر چڑھ کر آپ خطبہ دیا کرتے تھے ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا:’’ أَنّ النَّبِيّﷺ كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَي شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ، فَقَالَتْ:امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَوْ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَلَا نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا، قَالَ: إِنْ شِئْتُمْ فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَي الْمِنْبَرِ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ صِيَاحَ الصَّبِيِّ، ثُمَّ نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّنُ قَالَ:كَانَتْ تَبْكِي عَلَي مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ عِنْدَهَا‘‘
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت (کے تنے) کے پاس کھڑے ہوتے یا (بیان کیا کہ)کھجور کے درخت کے پاس۔ پھر ایک انصاری عورت نے یا کسی صحابی نے کہا: یا رسول اللہ!کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک منبر تیار کر دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اگر تمہارا جی چاہے تو کر دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر تیار کر دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ اس منبر پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ نبی کریم ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ جس طرح بچوں کو چپ کرنے کے لیے لوریاں دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب ہوتا تھا‘‘
[صحیح بخاری: ۳۵۸۴]
۸۔ اسلام میںخطبۂ جمعہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ خطبۂ جمعہ کے دوران خطبہ کو غور سے سننا ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے دورانِ خطبہ کسی بات کرنے والے کو منع کرنے کو بھی نبی ﷺ نے لغوبات قرار دیا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَقَدْ لَغِيتَ ‘‘قَالَ أَبُو الزِّنَادِ:’’هِيَ لُغَةُ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَإِنَّمَا هُوَ فَقَدْ لَغَوْتَ‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’جب تو اپنے ساتھی سے کہے چپ رہ جمعہ کے دن اور امام خطبہ پڑھتا ہے تو تو نے لغو بات کی‘‘
[صحیح مسلم :۱۹۸۶، صحیح بخاری: ۹۳۴]
۹۔جمعہ کے دن حاضری لینے والے فرشتے بھی خطبۂ جمعہ شروع ہوتے ہی اپنا رجسٹر لپیٹ لیتے ہیں ، اور وہ بھی خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَي كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِكَةُ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ وَجَاء ُوا يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والے اور پھر اس کے بعد آنے والوں کو نمبر وار لکھتے جاتے ہیں۔ پھر جب امام (خطبے کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر (خطبہ )سننے لگ جاتے ہیں‘‘
[ صحیح بخاری:۳۲۱۱]
۱۰۔ خطبۂ جمعہ کے دوران کتنا بھی اہم تجارتی قافلہ کیوں نہ آجائے خطبہ کو چھوڑ کر سامان تجارت خریدنا سراسر حرام ہے ۔
{وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ}
’’اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے‘‘[ الجمعۃ: ۱۱]
مذکورہ آیت کریمہ کے شان نزول سے متعلق صحیح بخاری کی ایک روایت پیش خدمت ہے :
عن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَال:’’أَقْبَلَت عِيرٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ النَّاسُ إِلَّا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا‘‘
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ :’’جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے‘‘
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ’’وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها ‘‘یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔[سورۃ الجمعۃ: ۱۱]
۱۱۔ خطبۂ جمعہ خاموشی سے بغور سننے اورامام کے ساتھ باجماعت نماز جمعہ اداکرنے سے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہِ صغیرہ مٹادیئے جاتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوء َ، ثُمَّ أَتَي الْجُمُعَةَ فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ، وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَي فَقَدْ لَغَا ‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو وضو کرے اور خوب وضو کرے، پھر جمعہ میں آئے خطبہ سنے اور چپ رہے، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ بخشے جائیں گے۔ اور تین دن کے اور زیادہ اور جو کنکریوں سے کھیلے اس نے بے فائدہ کام کیا‘‘
[ صحیح مسلم :۱۹۸۸]
صحیح مسلم کی حدیث :۱۹۸۷۔میں نماز جمعہ باجماعت ادا کرنے کا تذکرہ ان الفاظ ’’ثم یصلی معہ ‘‘ کے ساتھ موجود ہے ۔
۱۲۔ خطبۂ جمعہ عیدین کے خطبوں سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ عیدین کا خطبہ عیدین کی نماز کے بعد دیاجاتا ہے اور خطبۂ جمعہ نماز جمعہ سے پہلے دیا جاتا ہے ، اسی طرح عیدین کا خطبہ سننا سنت اور جمعہ کا خطبہ سننا واجب ہے ۔
(فتاوی الشبکۃ الاسلامیۃ ج :۱۱ ص : ۱۲۱۰۰ ،ترقیم الشاملۃ)میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ عید کاخطبہ سنت ہے ، اس میں حاضر ہونا اور اس کا سننا واجب نہیں اسی طرح سے اگر کوئی شخص اس میں حاضر نہ ہوسکے تو ایسے شخص کے لئے اس خطبہ کو لوٹانا بھی واجب نہیں ہے ۔
دليل :عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ:’’شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّهِ ﷺ الْعِيدَ، فَلَمَّا قَضَي الصَّلَاةَ، قَال:إِنَّا نَخْطُبُ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ‘‘
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا:ہم خطبہ دیں گے تو جو شخص خطبہ سننے کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے جائے‘‘
[ سنن ابودائود: ۱۱۱۵] علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔
آخر میں دعاہے کہ رب کریم ہم مسلمانوں کو خطبۂ جمعہ کی اہمیت کو بغور سننے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔