Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کامیابی کی کنجی:محنت یا سستی؟

    اسلام ہر مسلمان کو کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔دنیا وآخرت میں کامیابی کا راز جہد مسلسل بتاتا ہے،انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے، حرکت وعمل زندگی کی علامت ہے، انسان کی فطری کیفیت وحالت جدو جہد ہے۔ہر انسان اپنی پسندیدہ اشیاء اور اعلیٰ مقاصدکو پانے کے لیے محنت کرتا ہے، اسلام نے بھی اہل ایمان کو محنت کرنے کی تعلیم دی ہے، بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اعمال صالحہ سے محبت ہے اور کام سے راحت و سکون پاتے ہیں، کاہلی اور سستی حد درجہ معیوب چیز ہے اس سے انسان دنیا وآخرت دونوں جگہ ذلیل ہوجاتا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کاہلی اور سستی سے پناہ طلب کیا کرتے تھے:
    ’’اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ‘‘
    ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی سے،سستی سے، بزدلی سے، بخل،قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے‘‘
    [صحیح بخاری:۶۳۶۹]
    کاہلی اور سستی کو عربی میں’’الْکَسَل‘‘کہتے ہیں۔اس کا مطلب امام نووی رحمہ اللہ نے یوں بیان فرمایا ہے:
    ’’وَأَمَّا الْكَسَلُ فَهُوَ عَدَمُ انْبِعَاثِ النَّفْسِ لِلْخَيْرِ وَقِلَّةُ الرَّغْبَةِ مَعَ إِمْكَانِهِ‘‘
    ’’استطاعت کے باوجود نفس کا بھلائی کی طرف متوجہ نہ ہونا اور رغبت وخواہش کی کمی کو کسل کہا جاتا ہے‘‘
    [شرح مسلم امام نووی جزء:۱۷ص:۲۸ ]
    ’’الْکَسَل‘‘ یعنی سستی کا مطلب: ضروری اور واجبی کاموں کو انجام نہ دینا،ذمہ داری نہ نبھانا، امانتیں ضائع کر دینا، حقیر اور لایعنی چیزوں میں پڑے رہنا، بے حسی کی زندگی گزارنا وغیرہ ہے۔حالانکہ مقاصد کے حصول کے لیے حوصلہ مندی اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے، انبیاء کرام نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے انتھک کوششیں فرمائیں، رات دن ایک کردیا کیونکہ وہ انسانیت کے اعلیٰ ترین اسوہ تھے، سورۂ نوح میں اللہ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کے متنوع اسلوب جد وجہد کو بیان فرمایا ہے۔اور یہ پیغام پیش کیا ہے کہ کامیابی کے لیے جہد مسلسل، صبرِ جمیل،شرحِ صدر، وسعتِ نظر، ایمان ویقین،کام کی تکمیل اور جذبۂ قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
    محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے،ایک ذہین وفطین انسان کو بھی کاہلی اور سستی بیکار بنادیتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگادیتی ہے،خیر کی راہ میں جدوجہد انہی کا اسوہ ہے جو لوگ بھلائی کے حصول کے لیے محنت کو اپنا شعار بناتے ہیں، خونِ جگر جلاتے ہیں، سیلِ رواں کے مثل چلتے ہیں، ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں، تھک بیٹھنا اور ٹال مٹول کرنا ان کی زندگی میں نہیں ہوتاہے، وہ سراپا عمل ہوتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں۔
    چلے چلئے کہ چلنا ہی دلیل کامرانی ہے جو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں وہ منزل پا نہیں سکتے
    اور ایک متوسط ذہن کا انسان بھی اپنی محنت اور کدوکاوش سے ایسے بلند مقام پر فائز ہوجاتا ہے جہاں تک قابل ترین افراد کی بھی رسائی نہیں ہوپاتی ہے، کامیابی کسی کی جاگیر نہیں ہے یہ ان لوگوں کا انعام ہے جو لوگ خون جگر جلانے کا ہنر جانتے ہیں،جو قربانی کے خوگر ہوتے ہیں،جو مقاصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں،جن کے عزائم پہاڑوں سے زیادہ بلند اور مضبوط ہوتے ہیں۔سچ کہا ہے کسی شاعر نے:
    حوصلہ مند ہی پاتے ہیں نشان منزل ڈرنے والوں کی تو مرنے پہ نظر جاتی ہے
    محترم قارئین: دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی،مال دولت کی دوڑ ہو یا شرف وعزت کی، انسان کو کامیابی اس کی محنت کے بقدر ہی ملتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَي}
    ’’اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی‘‘
    [النجم:۳۹]
    عربی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے:
    بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي
    وَمَن رامَ العُلا مِن غَيرِ كَدٍ أضاعَ العُمرَ فى طَلَبِ المُحالِ
    بلند مقام بقدر محنت ہی حاصل ہوتا ہے اور جو سربلندی تلاش کرتا ہے وہ شب بیداری کرتا ہے، اور جو بغیر محنت ترقی وکامیابی تلاش کرتا ہے وہ ایک ناممکن چیز کو طلب کرنے میں اپنی زندگی برباد کرتا ہے۔
    سچی طلب، سچا جذبہ، اخلاص پر مبنی اِرادہ اور عزم مصمم انسان کو محنتی بنادیتا ہے،اور خالص محنت نیزدن ورات کی کدوکاوش مومن کو لائقِ جنت بنادیتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَي لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا}
    ’’اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی‘‘
    [الإسراء:۱۹]
    ایک مومن پوری زندگی صبر وشکر کے درمیان گزاردیتا ہے،اور یہ جفاکشی والی زندگی اس کے ایمان کی علامت ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے لمبی نماز ادا فرمائی اور پاؤں میں ورم آگیا اور جب آپ کو کہا گیا کہ اتنی زیادہ عبادت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کے پچھلے اور اگلے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں تو آپ نے ایک تاریخی جملہ فرمایا:
    ’’أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا‘‘ ’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘[صحیح مسلم :۲۸۱۹]
    قرآن کریم ایک مسلمان کو دین ودنیا کی تمام ضروریات کی تلاش کے لیے بھاگ دوڑ اور محنت کی تعلیم دیتا ہے،کسبِ معاش کے لیے بھی اور عبادت و نماز کے لیے بھی،جمعہ کی نماز کے لیے اللہ نے فرمایا:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَي ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
    ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو‘‘
    [الجمعۃ:۹]
    اور پھرفوراً دُنیاوی ضروریات کی تکمیل کے لیے نکل جانے کا بھی حکم فرمایا:
    {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
    ’’پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو‘‘
    [الجمعۃ:۱۰]
    آپ ذرا غور فرمائیں! اسلام میں سستی اور کاہلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،نماز کے وقت نماز کے لیے حاضر ہوں اور اس سے فارغ ہوکر روزی کی تلاش میں لگ جائیں،اعمالِ صالحہ کی ایک طویل فہرست ہے اور چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے اجر وثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے،تاکہ ایک مسلمان ہمیشہ بھلائی کے کاموں میں مشغول رہے، کیونکہ فراغت سے کاہلی جنم لیتی ہے، اور ہمتیں پست ہوجاتی ہیں، انسان کے ارادے کمزور پڑجاتے ہیں، طبیعت میں نشاط اور پھرتی مر جاتی ہے اور اس طرح سستی انسان کو برباد کردیتی ہے۔خود نبی اکرم ﷺکو اللہ نے ہر وقت مشغول رہنے کی تعلیم دی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ}’پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر‘‘ [الشرح:۷] اس آیت میں اللہ نے دنیوی کام سے فارغ ہوکر پھر عبادت میں محنت اور کدوکاوش کا حکم دیا ہے، بڑے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو فارغ پڑے رہتے ہیں، موبائل اور گیم اور چائے کے ہوٹلوں اور ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں، حالانکہ وقت ہی زندگی ہے اسے ضائع کرنا گویا زندگی کو برباد کرنا ہے، جب کوئی یہ کہتا ہے کہ چلو ٹائم پاس کرتے ہیں اور کسی لغو اور بے فائدہ عمل کی طرف بلاتا ہے تو سمجھو وہ زندگی برباد کرنے کی دعوت دیتاہے، لہٰذا ایک مسلمان کو سستی جیسی بری خصلت سے دور رہنا ضروری ہے، منافقین نماز جیسی عظیم عبادت میں سستی کرتے تھے اللہ نے ان کے اس عیب کو قرآن میں بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کاہلی وسستی سے بچتے رہیں اللہ نے فرمایا :
    {وَإِذَا قَامُوا إِلَي الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَي يُرَاء ُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللّٰهَ إِلَّا قَلِيلًا}
    ’’اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں ‘‘
    [النساء:۱۴۲]
    نماز جیسی پاک وصاف کردینے والی عبادت میں جو سستی اور کاہلی دکھائے اور نماز کی روح یعنی اللہ کا ذکر ہی تھوڑا کرے وہ بڑا برا انسان ہے، اللہ ہمیں ہرقسم کی کاہلی سے محفوظ رکھے ۔آمین
    انسان کی کامیابی میں دو چیزیں سب سے زیادہ اہم رول ادا کرتی ہیں، ایک جہدِ مسلسل دوسرا توفیقِ ربانی۔آپ کامیاب لوگوں کو پائیں گے کہ اپنے معمولی وسائل کے باوجود محنت اور توفیق سے منزل مقصود کو پاگئے اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن کاہلی اور بے توفیقی کی وجہ سے وہ کچھ بڑا نہ کرسکے۔اس لیے ایک سمجھدار طالب علم اور ذی فہم مسلمان کو جہد مسلسل اور توفیق ربانی کے ساتھ اپنے کاموں کا آغاز کرنا چاہیے۔کیونکہ یہی کام کرنے اور کامیاب ہونے کا ہنر ہے، پیارے رسول ﷺنے یہی سکھلایا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
    ’’احْرِصْ عَلَي مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ وَلَا تَعْجِزْ‘‘
    ’’حرص کرو اپنے نفع بخش کاموں پر اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور ہمت مت ہارو ‘‘
    [صحیح مسلم :۲۶۶۴]
    ’’احْرِصْ عَلَی مَا یَنْفَعُکَ‘‘ کامطلب ہے: آپ کا کام یقینی طور پر فائدہ مند ہو، لغو اور بیہودہ نہ ہو اور پھر اس کے لیے اپنی پوری طاقت لگادو۔اپنے آپ کو اپنے مشن پر لگادو کہ جس طرح مسافر کی حالت سے سب کو اس کے مسافر ہونے کا علم ہوجاتا ہے ایسے تمہاری حالت ہی تمہاری محنت کی گواہی دے۔
    ’’وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہ‘‘کا مطلب ہے: آپ کی محنت، ہنر مندی اور کام میں مہارت کے باوجود کامیابی کے لیے اللہ کے خاص مدد اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا شروع سے ہی اللہ کی توفیق اور مدد طلب کرتے رہو۔کیونکہ دنیا وآخرت کے تمام خیر کے کام اللہ کی توفیق اور نصرت وتائید سے ہی تکمیل پاتے ہیں۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺ جب کوئی اچھی چیز دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے ’’الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ‘‘ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی مہربانی سے تمام نیک کام پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں‘‘[إبن ماجہ :۳۸۰۳،حسن]
    ’’وَلَا تَعْجِزْ‘‘ کا مطلب: کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤ سست اور کاہل اور کمزور نہ بنو، پست ہمتی نہ دکھاؤ بلکہ بہادری کے ساتھ جو بھی خیر کا کام شروع کرو اسے پورا کرو۔
    نبی کریمﷺ کی تینوں باتیں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔اس طرح عمل کرنے والوں کے لیے کامیابی یقینی ہے۔ان شاء اللہ
    محترم قارئین: سستی وکاہلی دنیا وآخرت کی بربادی اور ذلت ورسوائی اور محرومی کا راستہ ہے، ایک انسان سستی کی وجہ سے بے شمار خیر سے محروم رہتا ہے،یہ صفت منافقین اور ان جیسے لوگوں کی ہے، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو خیر میں سبقت کرنے کی خوبی عطافرمائی تھی، وہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرتے تھے ۔ارشاد ربانی ہے:
    {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ}
    ’’یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے‘‘
    [الأنبیاء :۹۰]
    ’’اور اہل ایمان کو بھی اللہ نے بار بار ’’سارعوا‘‘’’سابقوا‘‘’’فاسعوا‘‘’’ففروا الی اللّٰہ‘‘کہہ کر سبقت کرنے کا حکم فرمایا ہے اوراہل ایمان کی اسی خوبی کواللہ نے یوں بیان فرمایا ہے:
    {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ}
    ’’یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ‘‘
    [المؤمنون:۶۱]
    حرکت میں برکت ہے،چستی پھرتی اور جدوجہد کامیابی کی کنجی ہے، انبیاء کرام اور اہل ایمان کی حیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں،ہجرت نبوی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری حیات مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ محنت اور جہدِ مسلسل ہی کامیابی کی راہ ہے۔اللہ کاوعدہ ہے کہ جو اخلاص کے ساتھ محنت کرتا ہے، مشقت برداشت کرتا ہے، اللہ اسے جنت کی راہ دکھاتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں ۔اللہ کا ارشاد ہے:
    {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}
    ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کا ساتھی ہے‘‘
    [العنکبوت:۶۹]
    کاہلی کے اسباب: ایمان کی کمی، بھلائی سے بے رغبتی اورخیر سے اکتاہٹ کاہلی کا بنیادی سبب ہے، منافقین ہر بھلائی سے جی چراتے تھے، سستی کرتے تھے،پیچھے رہتے تھے اس کا سبب یہی تھا کہ ان کو اللہ کا ڈر تھا اورنہ بھلائی سے محبت بلکہ انہیں نماز جیسی عبادت بڑی بھاری پڑتی تھی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ثقیل ہونے کا یہی سبب بتایا ہے اللہ کا ارشاد ہے:
    {وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَي الْخَاشِعِينَ }
    ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر ‘‘
    [البقرۃ:۱۴۵]
    پتہ چلا یہ سستی انسان کی دنیا وآخرت دونوں کے لیے تباہ کن ہے، یہ سستی جس قدر زیادہ ہوگی نقصان اسی کے بقدر ہوگا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک بار سستی اور ٹال مٹول کیا،اور غزوۂ تبوک سے بلا عذر پیچھے رہ گئے، اس کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا،پچاس دنوں کا مکمل بائیکاٹ جھیلنا پڑا،پھر اللہ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی۔اس سے اندازہ لگائیں کہ جن کی زندگی ہی سستی و کاہلی میں گزرتی ہے، کاہلی جن کی پہچان ہے اور دنیا میں انہیں کوئی سزا بھی نہیں مل رہی ہے ایسے لوگ آخرت میں بہت نقصان میں رہیں گے۔یہ بیماری آہستہ آہستہ انسان کے اندر داخل ہوتی ہے، انسان سستی کرتے کرتے ایک دن بالکل ہی پیچھے رہ جاتا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت اورفضل وکرم سے ہی محروم کردیتا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    ’’لايَزَالُ قَوْمٌ يَتَأَخَّرُونَ، حَتَّي يُؤَخِّرَهُمُ اللّٰهُ‘‘
    ’’اور جو لوگ پیچھے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں بھی ان کو پیچھے رکھے گا‘‘
    [صحیح مسلم :۹۸۲]
    اسی طرح پیٹ بھر بھر کر کھانا کھانا، بہت زیادہ نیند لینا،بار بار جمائی لینا،بے فکری اور غفلت کی زندگی گزارنا، ٹال مٹول کرنا، باعزت کاموں سے جی چرانا، یہ سب کاہلی اور سستی کو جنم دیتے ہیں اسی لیے چھینک کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کیونکہ اس سے انسان چستی ونشاط اور بدن میں ہلکا پن محسوس کرتا ہے،اور جمائی سے سستی آتی ہے اور اسی لیے اسے روکنے کی تعلیم دی گئی ہے:’’التَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاء َبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ ‘‘
    ’’جمائی شیطان کی طرف سے ہے (کیونکہ وہ سستی اور ثقل کی نشانی ہے اور امتلاء بطن کی) پھر جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو روکے جہاں تک ہو سکے۔ (یعنی منہ پر ہاتھ رکھے)‘‘
    [صحیح مسلم:۲۹۹۴]
    اسلام نے ان تمام اسباب سے روک دیا ہے جو انسان کو سست اور کاہل بناتے ہیں، اور ترغیب وترہیب کے ذریعہ انہیں متحرک اور فعال بنادیا ہے تاکہ وہ پوری زندگی شرح صدر اور اطمینان کے ساتھ عمل سے بھرپور زندگی گزاریں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ مجاہد اور جفاکش مؤمن کو محبوب رکھتا ہے۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings