Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تعریف میں غلو اور مبالغہ آرائی کا بڑھتا ہوا رجحان

    کسی کی مد ح وتعریف میں حد سے تجاوز اور مبالغہ آرائی شرعامذموم ہے، کیونکہ عموماً اس میں جھوٹ کاشائبہ ہوتا ہے اور ممدوح کو اس کی حیثیت سے زیادہ بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو ایک قسم کا ظلم اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
    عام طور پر اس مبالغہ آرائی کا اصل محرک دنیوی مفاد یا احساس کمتری ہوتا ہے، جو رفتہ رفتہ تملق وچاپلوسی اور جبیں سائی کاروپ دھار لیتا ہے، جس کے نتیجے میں مادح کا وقار مجروح، ثقاہت متزلزل اور شخصیت مخدوش ہوجاتی ہے۔
    غزالی رحمہ اللہ مدح کی بعض خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’تعریف کرنے والا کبھی حدسے تجاوز کرنے کی وجہ سے جھوٹ میں واقع ہوجاتاہے اور کبھی اس کے اندر دکھاوا پیدا ہوجاتا ہے، کیونکہ تعریف کرکے وہ ممدوح سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں محبت نہ ہو، نیز تعریف میں جو کچھ کہہ رہا ہے ممکن ہے دل سے نہ کہہ رہا ہو، نتیجۃً وہ منافق اور دکھاوے والا بندہ بن جاتا ہے‘‘ (إحیاء علوم الدین:۳؍۱۵۹)
    مزید برآں کسی کی بیجا ستائش یا تعریف میں مبالغہ آرائی خود اس کے حق میں زہر ہلاہل سے کم نہیں، کیونکہ بہت ممکن ہے وہ اپنی بیجا ستائش یا مبالغہ آمیز تعریف سن کر کبرو غرور میں مبتلا ہو جائے،عجب وخود پسندی کا اسے روگ لگ جائے، تعلی وخود ستائی اس کا شیوہ بن جائے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں زمزمہ سنجی کے بجائے دوسروں پر اپنی فوقیت وبرتری کا اظہار کرنا شروع کردے اور انہیں اپنے سامنے ہیچ تصور کرنے لگے، جس کے نتیجے میں وہ دینی، اخلاقی اور روحانی موت کا شکار ہو جائے۔
    یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے ایسی تعریف کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے نیز اسے ہلاکت اور قتل سے تعبیر کیا ہے۔
    ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
    سمع النبى ﷺ رجلاً يُثني على رجلٍ ويُطريه فى مَدحه، فقال:’’أهلكتم أو قَطعتم ظهرَ الرجل‘‘
    نبی ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی خوب بڑھا چڑھا کر تعریف کرتے ہوئے سنا تو فرمایا:’’تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا ۔یا فرمایا کہ:تم نے اس کی کمر توڑ دی‘‘
    [صحیح بخاری:۲۶۶۳، صحیح مسلم :۳۰۰۱]
    صحیح بخاری کے شارح علامہ ابن بطال لکھتے ہیں:’’نبی ﷺ نے یہ بات اس لیے فرمائی تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی زیادہ تعریف سن کر خود فریبی کا شکار ہو جائے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ لوگوں کی نگاہوں میں اس کا وہی مقام ہے جو تعریف کرنے والے نے بیان کیا ہے، جس کے نتیجے میں مزید کار خیر سے رک جائے اور شیطان اس پر اپنا حربہ استعمال کرکے خود پسندی میں مبتلا کردے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے لیے تواضع کرنا چھوڑ دے‘‘[شرح صحیح البخاری: ۸؍۴۸]
    اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کے سامنے ایک شخص نے کسی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا:
    ’’ويْحَك، قطعتَ عنقَ صاحبك، قطعتَ عنقَ صاحبك -مرارًا- إذا كان أحدُكم مادحًا صاحبَه لا محالةَ، فليقل:أحسب فلانًا، واللّٰه حسيبه، ولا أزكي على اللّٰه أحدًا، أحسبه -إن كان يعلم ذاك- كذا وكذا‘‘
    ’’تمہارا برا ہو، تم نے اپنے ساتھی کی گردن مار دی۔ یہ بات آپ نے کئی بار دہرا ئی۔ اگر تم میں سے کسی کو اپنے بھائی کی تعریف کرنی ہی ہو تو وہ یہ کہے:اس کے بارے میں میرا یہ خیال ہے۔ حقیقت حال سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ میرا گمان یہ ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس کے بارے میں وہی بات کہے جس سے واقف ہو‘‘
    [صحیح بخاری:۲۶۶۲، صحیح مسلم:۳۰۰۰]
    اسی طرح نبی ﷺ نے باہم ایک دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
    ’’إياكم والتمادح، فإنه الذبح‘‘
    ’’باہم ایک دوسرے کی تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ یہ ذبح ہے‘‘
    [سنن ابن ماجہ :۳۷۴۳،مسند احمد :۱۶۸۳۷، سند حسن ]
    حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
    ’’هو تفاعل من المدح، أي:المبالَغ‘‘
    ’’تمادُح یہ لفظ مدح سے تفاعل کا صیغہ ہے، اور یہاں اس سے مراد مبالغہ آمیز تعریف ہے‘‘
    [فتح الباری :۱۰؍ ۴۷۶]
    علاوہ ازیں نبی ﷺ نے خود اپنی ذات کی مدح وثناء میں غلو ومبالغہ آرائی سے بالکلیہ منع فرمایاہے، ارشاد نبوی ہے:
    ’’لا تُطروني كما أَطَرَت النَّصاري ابنَ مريم، فإنما أنا عبدُه، فقولوا:عبدُ اللّٰه، ورسولُه‘‘
    ’’مجھے حد سے زیادہ نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم کو حد سے زیادہ بڑھادیا۔ میں اس کا بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو‘‘
    [صحیح بخاری :۳۴۴۵]
    ’’الإطراء ‘‘کے معنی ہیں:کسی کی تعریف میں حد سے تجاوز کرنا اور جھوٹ بولنا۔ [النہایۃ فی غریب الحدیث :۳؍ ۱۲۳]
    یعنی میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو اور مجھے ایسے اوصاف سے متصف نہ کرو جو میرے اندر نہیں ہیں، جیسا کہ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔
    یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے کسی کو اس کے مقام سے اوپر اٹھایا اور اس کو کسی ایسی خوبی سے متصف کیا جو اس کے اندر نہیں ہے، تو وہ ظالم اورگنہگار ہوگا، کیونکہ اگر ایسا کرنا کسی کے حق میں جائز ہوتا تو کائنات میں اس کے سب سے زیادہ مستحق ہمارے پیارے نبی محمد ﷺہوتے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس کو جو مقام عطا کیا ہے اس کو اسی مقام پر رکھاجائے، اس سے آگے نہ بڑھایا جائے۔ دیکھیں:[التوضیح لشرح الجامع الصحیح لابن الملقن: ۲۸؍۴۰۱]
    اسی طرح عملی طور پر بھی نبی ﷺ نے اپنی تعریف میں مبالغہ آرائی کو کبھی بھی پسند نہیں فرمایا، چنانچہ اگر کوئی شخص آپ کی تعریف میں غلو سے کام لیتا تو اس کو فورا ًمنع فرمادیتے اور مبالغہ آرائی پر ٹوک دیا کرتے تھے۔
    ایک بار نبی ﷺ رُبَیِّع بنت معوذرضی اللہ عنہاکے گھر تشریف لے گئے، اور عین اسی وقت ان کے گھر میں کچھ بچیاں دف بجاکر جنگ بدر میں شہید ہونے والے اپنے آباء کے محاسن بیان کرنے لگیں، اسی دوران ایک بچی نے یہ کہہ دیا:
    ’’وفينا نبيٌّ يَعلمُ ما فى غدٍ‘‘
    ’’ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جو یہ بھی جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے‘‘
    یہ سن کر آپ ﷺنے اس بچی کو فوراً ٹوکا اور فرمایا:
    ’’دعي هذه، وقولي بالذي كنت تقولين‘‘
    ’’اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھی‘‘
    دیکھیں:[صحیح بخاری:۵۱۴۷]
    آپ ﷺنے اس بچی کو اس لیے ٹوکا کیونکہ اس نے آپ کی مدح میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے آپ کو علم غیب کی صفت سے متصف کردیا، جب کہ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے، لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کے منہ پر اس کی تعریف کرنا جائز ہے، بشرطیکہ حقیقت کے دائرے میں ہو اور مبالغہ سے خالی ہو۔ دیکھیں: [فتح الباری لابن حجر:۹؍۲۰۳]
    اسی طرح جب وفدِ بنی عامر نے نبی ﷺ کی تعریف میں مبالغہ آرائی اور تکلف کا مظاہرہ کیا، تو آپ نے انہیں ٹوک دیا۔
    عبد اللہ بن الشِّخّیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں: میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا:
    ’’أنتَ سيّدُنا، فقال:السَّيدُ اللّٰه۔قلنا:وأفضلُنا فَضْلاً، وأعظَمُنا طَوْلاً، فقال:قولوا بِقَولكم، أو بعضِ قولكم، ولا يَسْتَجْرِيَنَّكُم الشَيطانُ‘‘
    ’’اے اللہ کے رسول آپ ہمارے (سید) سردار ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (حقیقی) سردار تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔ ہم نے پھر کہا:آپ ہم میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ داد ودہش کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ باتیں کہو یا ان میں سے کچھ چھوڑدو، لیکن دیکھو کہیں شیطان تم پر غالب نہ آجائے اور تمہیں اپنا وکیل بنالے‘‘
    [سنن ابو داؤد :۴۸۰۶سند صحیح ]
    جب نبی ﷺنے دیکھا کہ یہ لوگ آپ کی تعریف میں مبالغہ اور تکلف سے کام لے رہے ہیں تو اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اور اس بات سے آگاہ کیا کہ اس طرح کا تکلف اور مبالغہ آرائی شیطان کی طرف سے ہے۔
    غور کرنے کا مقام ہے کہ نبی ﷺ کو اپنے بارے میں کسی قسم کے عجب وغرور یا فتنہ میں مبتلا ہونے کا قطعاً کوئی اندیشہ نہیں تھا، اس کے باوجود اگر کوئی شخص آپ کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیتا تو اسے برجستہ ٹوک دیتے اور اپنی تعریف میں حد اعتدال سے تجاوز کو قطعا ًبرداشت نہیں کرتے تھے۔
    لہٰذا کسی کی تعریف وتوصیف میں صرف وہی خوبیاں ذکر کی جائیں جو فی الواقع اس کے اندر موجود ہوں اور اسے صرف انہی القاب سے پکاراجائے جن کا وہ مستحق ہو، نیز اس کی خدمات اور کارناموں پر صرف اتنا ہی خراج تحسین پیش کیا جائے جتنا اس کا حق بنتا ہو۔
    لیکن افسوس کہ آج کل شخصیات کی مدح وستائش میں زمین وآسمان کے قلابے ملانا اور بھاری بھرکم القاب کا انبار لگا دینا عام ہوتا جارہا ہے،’’محقق العصر‘‘، ’’فقیہ امت‘‘، ’’محدث‘‘اور ’’علامہ‘‘جیسے عظیم علمی القاب بے معنیٰ ہوکر رہ گئے ہیں، عوام کالانعام تو کجا، بہت سارے طلبہء علم ان القاب کے اطلاق میں اس قدر تساہل کے شکار ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور تعریف وتوصیف میں مبالغہ آرائی سے دور رکھے، آمین۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings