Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ضلالت ودہریت کی خوگر شاعری

    شعر وشاعری اظہار وبیان کا ایک لطیف ذریعہ ہے،ذوق جمال کی تسکین کا سامان ہے،اشعار ادبی وفکری رعنائی کا مظہر ہوتے ہیں،کم الفاظ میں معانی کی بہتات ہوتی ہے،بعض اشعار کے رشتۂ الفاظ میں حکمت ودانائی کی موتیاں پروئی ہوتی ہیں،بعض تو معانی دقیقہ اور لطائف بدیعہ کا شاہکار ہوتے ہیں،نثر کے طول وعرض میں بٹھایا ہوا موزوں شعر دروبست میں نکھار پیدا کر دیتا ہے،اشعار مضامین کے حسن و دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں،برمحل اشعار سے طبعیت شاد ہوتی ہے،شعروشاعری کا ہر کوئی اسیر ہوتا ہے،میر تقی میرنے خوب کہا ہے۔
    عجب ہوتے ہیں شاعر بھی، میں اس فرقے کا عاشق ہوں
    کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
    شعر اگر بامقصد اور تعمیری خیالات کا ترجمان ہو تو نہ صرف قابل قدرہے بلکہ وہ ضرب المثل بن جاتا ہے،کبھی کبھی کوئی شعر اس قدر اعلیٰ معنویت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ زبان زد عام ہوتا ہے اور تکیۂ کلام بن جاتا ہے،صنف شاعری کی تمام خوبیوں کے باوجود اس کوچے میں بعض رویے ادب کے دامن کو داغدار کرتے ہیں،اشعار میں انحرافات اور دین مخالف مواد کی بھرمار ہوتی ہے،انحرافات بھی ایسے کہ کبھی کبھار غاؤون یعنی گمراہوں کی سرحد بھی پیچھے چھوٹ جاتی ہے،بات اگر مسلم شعراء کی کریں تو ان کا قلم بھی شرک والحاد کی چراگاہ میں منہ مارتا نظرآتا ہے،وہ الحاد ودہریت کے گندے پانیوں میں ڈوبے ہوتے ہیں،مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ کسی کتاب کا حجم بھی کم پڑجائے،درج ذیل سطور میں ایسی ہی شاعرانہ آوارگی اور ادبی ضلالتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
    شاعروں نے دین کے مسلمات اورعقائد واعمال کا تذکرہ بڑے تحقیر و استہزاء کے ساتھ کیا ہے،قلم کی دھار کو دین کی آفاقی سچائیوں کی شہ رگ پر آزمایا ہے،دین اور دین سے جڑی چیزوں کا جم کر مذاق اڑایا ہے،نوبت بایں جا رسید کہ شاعروں کا دینی اقدار و روایات پر گاج گرانا ایک فیشن بن چکا ہے،لب ولہجہ کے سحر اور قافیہ پیمائی کے طلسم سے مسحور ذہن اسے گوارا بھی کرلیتا ہے لیکن مذہبی طبقہ پیچ وتاب کھاتا ہے،لبرل لوگ تو دین مخالف شعر سن کر جھوم جھوم جاتے ہیں،عرش ملسیانی کی ایک غزل کے دو شعر پڑھیے اور معاملے کی نزاکت کا ادراک کیجئے۔
    فردوس کے چشموں کی روانی پہ نہ جا
    اے شیخ! تُو منت کی کہانی پہ نہ جا
    اس وہم کو چھوڑ اپنے بڑھاپے ہی کو دیکھ
    حُورانِ بہشتی کی جوانی پہ نہ جا
    جنت ہرمسلمان کا جزو ایمان ہے اس کے بارے میں شک بھی سر مایۂ یقین کی بربادی ہے،جنت کی نعمتیں لا فانی ہیں،ہمارے تصور سے کہیں اعلیٰ وارفع ہیں،اسی طرح دوزخ عذاب کا گھر ہے اور نافرمانوں کا ٹھکانہ ہے،مگر شاعر کو یہ سب افسانہ لگتاہے،خواب وخیال لگتا ہے،اس نے جنت ودوزخ کا مذاق اڑایا ہے،ان پر پھبتی کسی ہے،بلکہ جابجا قلم کا نزلہ گرایا ہے،یقین نہیں آتا ہے تو درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے:
    ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا
    بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا
    تری دنیا میں صبر و شکر سے ہم نے بسر کر لی
    تری دنیا سے بڑھ کر بھی ترے دوزخ میں کیا ہوگا
    بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر
    اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا
    ہر وہ بات جو دین وشریعت سے علاقہ رکھتی ہے، وہ ان کی نظروں میں قابل مذمت اور لائق تمسخر ہے،اپنا فن چمکانے اور سستی شہرت کے لیے وہ ہر ذلت سے گزر جاتے ہیں،نماز ،روزہ، حج اورزکوٰۃ تو اسلام کے عظیم شعار ہیں،مگر شاعروں نے ان کو بھی اپنی بے چین طبعیت کی سان پر چڑھادیا ہے،ذیل کی مثالیں غور سے پڑھیے اور اندازہ کیجیے کہ فکر نامراد نے کفر وزندقہ کے کن چوٹیوں پر جست لگائی ہے؟
    نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے
    سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے
    محمد علی جوہر
    ایک شاعر تھوڑا اور آگے بڑھ کے کہتا ہے۔
    دستور عبادت کا دنیا سے نرالا ہو
    اک ہاتھ میں مالا ہو اک ہاتھ میں پیالہ ہو
    پوجیں گے سلیقے سے انداز مگر اپنا
    ہو یادِ خدا دل میں ساقی نے سنبھالا ہو
    ایک دوسرے صاحب بھی اپنے فاسد ذوق کا اظہارکچھ اس طرح کرتے ہیں۔
    نماز اپنی اگرچہ کبھی قضا نہ ہوئی
    ادا کسی کی جو دیکھی تو پھر ادا نہ ہوئی
    عبدالرحمان احسان دہلوی
    اس پورے مذموم سلسلے کو پڑھیے تو لگتا ہے جیسے مقابلہ آرائی جاری ہے،ہر بعد میں آنے والا شاعر پچھلا ریکارڈ توڑ دینا چاہتا ہو،ایک سے بڑھ کر ایک حیران کردینے والے نمونے ہیں،چنانچہ اس شعر میں ٹھٹول کا درجۂ حرارت ناپئے اور عقل انسانی کا ماتم کیجئے۔
    پیتا نہیں شراب کبھی بے وضو کیے
    قالب میں میرے روح کسی پارسا کی ہے
    رمضان اور روزہ کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ جم کر طنز وتعریض کے تیر پھینکے گئے،شقاوت وبد بختی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی،شعر کو دیکھنے کے بعد لگتا ہے حساب وکتاب اور آخرت تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں،امداد علی بحر کہتا ہے۔
    زاہدو دعوت رنداں ہے شراب اور کباب
    کبھی میخانے میں بھی روزہ کشائی ہو جائے
    ایک دوسرے شعر میں ایک تیر سے دو نشانہ لیا ہے روزہ اور واعظ دونوں کی خبر لی ہے ۔
    تیس دن کے لیے ترک مے وساقی کرلوں
    واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کرلوں
    حج و زیارت بھی اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے لہٰذا شاعروں نے اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے اور الگ الگ انداز سے خراج تحسین پیش کیا ہے،مثالوں سے اندازہ لگائیے کہ الحاد کے کیڑے سلسلۂ الفاظ میں کیسے رینگ رہے ہیں؟
    حصر کعبہ پہ کیا ہے دیر سہی
    حج کا موسم نہیں تو سیر سہی
    بیخود موہانی
    ایک اور شعر میں زمزم ہی کا مذاق اڑایا ہے:
    آپ نے اچھا کیا تطہیر خواہش ہی نہ کی
    ورنہ زمزم چشمۂ ناپاک ہوتا غالباً
    راہی فدائی
    ارکان خمسہ میں صرف زکوٰۃ بچتی تھی لیکن شاعروں نے زکوٰۃ پر بھی کرم فرمائی کی ہے،ذرا بھی مروت نہیں برتی،غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کہاں اور کس سیاق میں زکوٰۃ کا ذکر لیے بیٹھے ہیں؟ضلالت کی کھیتی کو کیسے کھاد فراہم کی ہے؟شعر پڑھئے!
    اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی
    دو مال کی زکوٰۃ کہ دولت زیادہ ہو
    جرات قلندر بخش
    زلف محبوب کی پیچ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ چن چن کر اور ڈھونڈ ڈھونڈ کے شریعت کی ایک ایک علامت پر کمان چڑھائی ہے،قرآن تو اسلام کا منبع ومصدر ہے پھر قرآن کیسے بچ سکتاتھا؟غضب کا ستم ڈھایا ہے،کہیں غاؤون کے خوگر شاعر نے قرآن سے بدلہ تو نہیں لیا ہے؟مخمل میں ٹاٹ کا پیوند کس سلیقے سے لگایا ہے؟شعر دیکھئے:
    کسی کا رخ ہمیں قرآن کا جواب ملا
    خدا کا شکر ہے بت صاحب کتاب ملا
    حاتم علی مہر
    ایک اور شعر ملاحظہ ہو۔
    رخ ہاتھ پہ رکھا نہ کرو وقت تکلم
    ہر بات میں قرآن اٹھایا نہیں جاتا
    سخی لکھنوی
    چونکہ اس کافرانہ اور شاعرانہ خرمستیوں کے سب سے بڑے دشمن علماء اور دیندار طبقہ تھا،اس لیے اپنے اشعار میں جم کر ان کی دھلائی کی ہے،لفظوں کی آڑ میں ہر طرح کا طنز اور ہر طرح کی دشنام طرازی کی ہے،کچھ نمونے پڑھیے اور افسوس کیجئے۔
    جناب شیخ نے جب پی تو منہ بنا کے کہا
    مزہ بھی تلخ ہے کچھ بو بھی خوشگوار نہیں
    ایک نمونہ اور دیکھئے:
    خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
    مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
    اکبر الہٰ آبادی
    جب تمام چوٹیاں سر کرلیں تو یاجوج ماجوج کی طرح آسمان پر بھی حملہ آور ہوگئے،جی ہاں اللہ کے ذات وصفات پر بھی انگشت نمائی کی ہے،تک بندی اور قافیہ پیمائی کا شوق رفتہ رفتہ انہیں الحاد کی آخری منزل تک لے آیاہے،لیجیے اور دیکھیے کہ مذکورہ اشعار میں فکری آوارگی کا پارہ کتنی ڈگری پر ہے؟
    ناز خیالوی کہتے ہیں:
    یہ برائی، وہ بھلائی، یہ جہنم، وہ بہشت
    اس اُلٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
    جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
    عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
    دے کر انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
    اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
    اس قسم کے شاعر اور اس قبیل کے اشعار خواہ کتنے ہی مرتبۂ کمال کو پہونچے ہوئے ہوں،خواہ کتنی ہی بہترین فنکاری اور نکتہ آفرینی کرتے ہوں،کتنے ہی شاہکار کیوں نہ ہوں؟ہمارے یہاں ان کے لیے داد وتحسین نہیں بلکہ نفرت و حقارت ہے،غصہ وانکار ہے،ایک ٹولہ اگر چہ اسے دقیانوسیت اورتنگ نظری کہے گا،اسے زبان وادب اور آزادیٔ فکر کا معاملہ کہہ کر نظر انداز کرے گا،دورازکار تاویلات کے ذریعہ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے مگر ہم اس قسم کے اشعارکو پائے چوبیں سے ٹھکراتے ہیں ،اس طرح کے کلام کو پرکاہ کی بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں،دین کے ساتھ ٹھٹھا کرنے والے ہمارے لئے کسی عزت و تکریم کے مستحق نہیں ہیں،سلیم الفکر شعراء کو چا ہیے کہ وہ ایسے گھٹیا درجے کے اشعار کا اشعار میں جواب دیں،ایسے ہر شاعر وغزل گو کی خبر لیں جو ناموس دین کے ساتھ دھینگا مستی کرتے ہوں،اپنے فن سے دین کا دفاع کریں،جس طرح حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا کرتے تھے، تاکہ اس طرح کی شاعری کرنے والوں کا حوصلہ ٹوٹے اور دین کی عزت وناموس کی حفاظت کا حق ادا ہو۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings