-
ہے شریعت ہی تیرا پاسباں اے مسلماں! اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لیے نکاح کوایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ بنایا ہے ، شریعت میں اس امر کی ترغیب بھی دلائی اور اس کے مختلف فوائد بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ شریعت نے بہت سی معاشرتی، اخلاقی اور روحانی مقاصد کے پیش نظر خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی ہے اسی لیے جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے مرد وعورت رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے آئے ہیں ، غرضیکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے لیے وضع کیے گئے ہر احکام میں ان کی فطرت اور طبیعت کو مد نظر رکھا ہے ۔
معلوم ہوا کہ نکاح کا حکم اُس حکمت والے رب کی جانب سے ہے جس نے دونوں جہاں بنائے ہیں ، مگر نکاح کے بھی کچھ ارکان و شروط ہیں ، شریعت نے صرف نکاح کا حکم نہیں دے دیا ہے بلکہ کب کی جائے؟ کس سے کی جائے ؟ کیسے کی جائے ؟ ایسی تمام باتیں سکھائی ہیں ،آج کل نوجوان لڑکیوں کی یہ خودسری اور گھر سے فرار ہوکر والدین کی اجازت اور مرضی کے خلاف اپنے خفیہ آشناؤں سے شادی رچا لینے کی وبا اور زحمت ہمارے معاشرے میں روز بروزترقی پر ہے اور بدقسمتی سے ہماری بہن بیٹیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ عشق و عاشقی میں مبتلا ہوکر ان کے ساتھ گھر سے فرار ہورہی ہیں اس بات سے بے خبر کہ یہ ملعون کافر ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔
یاد رہے عشق ایک برائی ہے اور تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ عشق نے کتنے ہی لوگوںسے نعمتوں کو چھین کر غم والم میں مقید کردیا، انتہائی اعلیٰ مرتبہ لوگوں کو ذلت و پستی کے نہایت عمیق گڑھے میں ڈھکیل دیا ، جیسا کہ آج کل بھی ہماری مسلمان بہنیں جو گھروں اور مذہب اسلام سے نکل کر کفر کی تاریکیوں میں جاتی ہیں وہ بھی دنیا کی ٹھوکریں ہی کھا رہی ہیں ، کہیں کسی کو دوسرے ملک میں بیچ دیا گیا ہے تو کہیں یہ سننے ملتا ہے کہ شادی کے بعد اذیت ہی اذیت ملی تو کہیں کوئی اپنے کافر شوہر کے لیے ناچ گانے سے پیسے جمع کرتی ہیں تو کہیں کوئی اور کام پر لگی ہوئی ہے ، غرضیکہ عشق کی تباہیوں کا احاطہ کرنا ایک مشکل امر ہے اور اس کی تباہی و بربادی عقل مندوں کے لیے عبرت ونصیحت ہے ۔
انگلش اخبار انڈین ایکسپریس کی ۱؍۱۲؍۲۰۱۷ء کی رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کی ایک متعصب اور متشدد جماعت نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندو جاگرن منچ نامی جماعت صرف چھ ماہ کے اندر ۲۱۰۰ مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں کے ساتھ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی اور اس تحریک کا نام بیٹی بچاؤ اور بہو لاؤ رکھا گیا ہے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
آج ہمارے معاشرے میں مسلم بیٹیوں کا کفر کی طرف رجحان بڑھتا جار ہا ہے ، موجودہ دور میں مسلمان نہ صرف دین واخلاق بلکہ اپنا تشخص بھی کھوتے جارہے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ مسلم گھرانوں میں پلی بڑھی لڑکیاں اللہ کے دشمن کافر کی محبت کے جال میں پھنسی جارہی ہیں؟ مسلم بیٹیاں ایسا باغیانہ قدم کیونکر اٹھارہی ہیں؟ ہمیشگی والی جنت کی راہ کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جہنم کے راستے کو کیوں اختیار کررہی ہیں ؟
غیر مسلموں کے ساتھ شادی کے واقعات کے بظاہر کئی اسباب نظر آتے ہیں لیکن دقیق نظری سے اگر جائز ہ لیں تو اصل سبب صرف اور صرف ایک ہے ،اگر اسے بہتر انداز میں سمجھ لیا جا ئے ،اس پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ سارے ہی مسائل حل ہو جائیں گے ، اور وہ ہے مسلمانوں میں دینی تعلیم کا بڑھتا ہوا فقدان ! صرف اسی سبب کی بنیاد پر اور تمام اسباب سامنے آتے ہیں ، اگر مسلمان اپنے آپ کی اصلاح کرلیں، اپنے اہل خانہ کی اصلاح کرلیں اور اسلامی شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزاریں تو ان شاء اللہ تمام غیر مسلمان بھی اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے بجز اس کے کہ وہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے پروپیگنڈے کرتے پھریں! اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللّٰهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ}
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں ‘‘
[التحریم:۶]
سبحان اللہ ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا بچنے بچانے کا ،اس کے ساتھ ساتھ ڈرایا بھی ہے مگر آج مسلمان ان تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں ، انہی تعلیمات سے صَرفِ نظر کی بنا پر مسلمانوں کی بیٹیاں آج آرایس ایس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں لگ گئی ہیں ، اگر انہیں اسلامی تعلیمات کا پتہ ہوتا والدین نے سکھایا ہوتا پڑھایا ہوتا کہ ایک مومن کے دنیا میں آنے کے کیا کیا مقاصد ہیں سمجھایا ہوتا تو آج یہ بیٹیاں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن سے کبھی محبت نا کرتیں اور نہ کبھی ان کے ساتھ اسلام سے فرارہوتیں ۔لہٰذا سب سے پہلے والدین کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے پھر اپنی اولاد کے لیے رول ماڈل بن کر ان کی بہتریں تربیت کرنی چاہیے ۔
انہی تعلیمات سے صَرف نظر کی بنا پر آج مسلمانوں کا گھرانہ بے برکتی اور بے سکونی کا شکار ہے، کئی والدین کے بارے میں سننے میں آتا ہے کہ وہ بچوں میں دو طرح کا رویہ رکھتے ہیں ،بچوں پر بے جا تشدد، سوتیلے تو سوتیلے سگے والدین بھی اپنے بچوں کے درمیان محبت کا رویہ قائم نہیں رکھتے ، فضول گالی گلوچ سے باتیں کرنا، بلاوجہ مارپیٹ ، جو کام محبت سے ہو سکتا ہے اس میں بھی سختی کرنا جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ والدین اپنے بچوں سے اس طرح محبت کرتے کہ جو ان کا حق تھا اور اپنی اولاد سے دوستی کرلیتے مگر اس طرح نہیں ہوتا تو بچے جو محبتوں کے پیاسے ہوتے ہیں وہ باہر کی محبتوں کو سچ مان کر محبت کرکے ایک غلط راہ پر نکل جاتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک دن وہ اس گھر کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ، آئیے میں نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کی ایک مثال پیش کرتی ہوں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور وطریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں : جب وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔[سنن ترمذی:۳۸۷۲،صحیح]
سبحان اللہ یہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔
انہی تعلیمات سے صَرف نظر کی بناء پر مسلمانوں کی زندگی آج بہت مشکل ہوگئی ہے ، یہ سب ان کے ہی ہاتھوں کا کیا دھرا ہے ، مسلمانوں نے دوسرے مذاہب کی رنگینیوں سے محفوظ ہوکر اپنے دین کے احکامات کو پیچھے چھوڑا اپنے اسلام کے طرزِ زندگی سے منہ موڑلیا، اسلام نے تعلیم دی تھی اپنی اولاد کی بلوغت کے بعد نکاح کرنے کی، مگر آج مسلمانوں کے گھروں کا جائزہ لیں تو کئی بیٹے اور بیٹیاں ملیں گے جن کے نکاح کا نام تک کہیںنہیں ، دین اسلام نے بیٹیوں کی رضامندی بھی نکاح میں شامل کیا کہ اگر بیٹی رضامندنہیں تو وہ نکاح نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فسخ کرادیا تھا ، مگر آج کے والدین اس فکر میںکہ ’’لوگ کیا کہیں گے ‘‘ ’’ہماری ناک اونچی رہے ‘‘ یہ ’’ہماری ذات برادری کے نہیں ‘‘ انہی باتوں میں رہ گئے اور بچوں پر زبردستی اپنے فیصلے ٹھونستے ہیں،آخر کار انجام یہی ہوتا ہے کہ ایسی شادیاں پائیدار نہیں بن پاتیں اور آخر کار طلاق اور خلع کی نوبت آپہنچتی ہے ۔
انہی تعلیمات سے صَرف نظر کی بناء پر آج اگر ایک ہال میں مسلم کی شادی اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ہال میں ہندوکی شادی ہو تو فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے طور طریقے کو اپنانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی ، اسلام نے تعلیم دی تھی کہ نکاح سادگی سے کریں مگر آج زناآسان اور نکاح مشکل ہوگیا ہے ، آج عام لوگوں کی شادیوں میں ہونے والی فضول خرچیاں پرانے نوابوں اور راجاؤں کی شادی میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات دے رہی ہیں۔ ھدانا اللّٰہ
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی ایسے ہی دھوم دھام کی شادیاں ہواکرتی تھیں، رقص وسرور کی محفلیں منعقد ہوتی تھیںاور نہ جانے کتنے رسوم و رواج ہوتے تھے ۔ مگر ان سب کے باوجود نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی اولاد کی شادیاں سادگی سے کیں۔ بے شک یہی نبی ہمارے اسوہ و نمونہ ہیں ،اور اسی طریقے کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اختیار کیا۔
وجوہات و اسباب شمار کرنے لگیں تو بے شمار ہیں مختصر یہ کہ وہ صرف اور صرف ’’دینی تعلیمات سے دوری ‘‘ ہے کہ اسے پڑھاجاتا ہے، پڑھایا جاتا ہے ،تسلیم بھی کیا جاتا ہے مگر عمل کا میدان خالی ہے ۔ آج کل لوگ بڑے زوروشور سے یہ آواز بلند کررہے ہیں’’ماں باپ کو بیٹی کے یہ پیغام سناؤ بیٹی کو خدا کے لیے تم دین سکھاؤ‘‘
لیکن مجھے شور بہت کھوکھلا سا محسوس ہوتا ہے ، کیا دین سے وابستہ عالمہ فاضلہ بیٹیاں گھر سے فرارنہیں ہوتیں؟ کیا نیک لڑکیاں کبھی نہیں فرارہوئیں؟ ہوئی ہیں، ہوتی ہیں !ہر وہ بہن بیٹی گمراہ ہوجاتی ہے جنہیں قدم قدم پر گائیڈکرنے والے باعمل گارجین میسر نہ ہوں ، یادرہے بچوں کو فقط دینی لبادہ اڑھا کر والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک مسلمان کے گھر کا ماحول دینی ہونا چاہیے ، گھر کے تمام افراد ہی ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں، دین میں ایک دوسرے کے مددگارہوں، عابدوزاہد بھی بری صحبت سے متاثر ہوجاتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ کو پڑھیں اورا ن کے طرززندگی کو اپنے آپ پر لاگو کریں، اپنی اصلاح کرلیں، اپنے گھر کے نظام کا جائزہ لیں آیا یہ سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ہے یا دورِجدیدکے ماڈرن طریقہ پر چلتا آرہا ہے ؟
آج کل لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ دنیوی تعلیم دینا، انہیں اچھا کھلانا پلانا ،ان کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کرنا ہی تربیت ہے، حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ گائے بکریوں جیسے جانوروں کی تربیت تو ہو سکتی ہے ، انسانوں کی تربیت نہیں ۔ اولاد صرف نعمت ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی طرف سے ایک بڑی امانت ہے جس امانت کا روزِ قیامت سوال ہوگا اور اس کا حق ادانہ کرنے کی صورت میں سخت ترین عذاب ہوسکتا ہے ۔
آئیے ہم قرآن کے نقطۂ نظر سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کیا ایک مسلم لڑکی کا نکاح غیر مسلم لڑکے سے ہو سکتا ہے؟ تو قرآن کا یہ کھلا پیغام ہے کہ نہ مسلم لڑکی کا نکاح غیر مسلم لڑکے سے اور نہ ہی غیر مسلم لڑکی کا نکاح مسلم لڑکے سے ہو سکتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّي يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّي يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَي النَّارِ وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَي الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ}
’’اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے ، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو۔اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں ، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا لگے ۔ یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے ، وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرمارہا ہے ،تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘
[النساء:۲۲۱]
اللہ رب العالمین کے ہر فیصلے میں عظیم حکمت پنہاں ہے !
عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی ، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے ، مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا ، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا مشرکہ بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہو جائے گی اور اختلافِ دین کے ہوتے ہوئے نا ممکن ہے کہ شوہر بیوی کا دل ملے، نا اتفاقی کی وجہ سے گھر میں رونق بھی نا ہوگی اور بچوں کی پرورش میں تمام عمر اختلاف ہوگا، ماں چاہے گی کہ بچہ میرے دین پر اور باپ چاہے گا کہ بچہ میرے دین پر تربیت پائے ، لہٰذا اس صورت میں نکاح کا مقصود ہی حاصل نہ ہوگا ، لہٰذا ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان عورت یا مرد اگرلونڈی ہو یا غلام ہو شرک کرنے والے آزاد مرد وعورت سے بہتر اور افضل ہیں اگر چہ ہمیں شرک کرنے والے مال و جمال کی وجہ سے پسند آجائیں کیونکہ سیرت صورت سے بہتر ہے ۔
لہٰذا ے مسلمانو! اپنے دین کو سمجھو اور ان پر عمل پیرا ہوجائو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو، اپنی بچیوں کا نکاح کسی کافر سے نہ کراؤ اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر سے ہونے دو، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئے کیونکہ مسلمان عورت کا کافر کی بیوی بن کر رہنا سخت بے غیرتی بھی ہے ، کفار ہمیشہ تمہیں کفر کی طرف رغبت دے کر دوزخ کی طرف بلاتے ہیں ، جب تمہارا ان سے سسرالی رشتہ قائم ہوجائے گا تو ان کو تمہیں گمراہ کرنے کا اور موقع ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے تمہیں استقامت، ایمان اور نیک اعمال کی رغبت دے کر جنت اور بخشش کی طرف بلارہا ہے، اسی لیے رب تعالیٰ نے کفار سے نکاح منع فر مادیا ہے جو کہ جہنم میں جانے کا سبب ہے، رب تو لوگوں کے لیے اپنے احکام اور آیات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں!
ہمیں معلوم ہوا کہ ضرورت اس بات کی ہے ہم قرآن و حدیث کا خو ب مطالعہ کریں اور اپنے اسلاف کی زندگی جیسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں، اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ مومن اللہ کا ولی اور کافر اللہ کا دشمن ہے لہٰذا ان میں کبھی بھی کسی صورت دوستی نہیں ہو سکتی۔
اللہ کی جانب سے کفار کے لیے کھلا پیغام ہے ۔
{إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبِینًا } ’’یقیناً کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں‘‘[النساء:۱۰۱]
{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَي جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ}
’’کافروں سے کہہ دیجئے ! کہ تم عنقریب مغلوب کیے جاؤگے اور جہنم کی طرف جمع کیے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے‘‘
[آل عمران:۱۲]
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ}
’’کافروں کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالیٰ سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی یہ تو جہنم کا ایندھن ہیں‘‘
[آل عمران:۱۰]
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْء ُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَي بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ }
’’جولوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے گو فدیے میں ہی تو بھی ہر گز قبول نہ کیا جائے گا ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے تکلیف دینے والا عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں ‘‘
[آل عمران:۹۱]
آئیے اخیر میں ایک واقعہ پڑھتے ہیں اسلام کی اس عظیم بیٹی کا جسے دنیا میںہی رب کی رضا کا سرٹیفیکٹ مل گیا تھا وہ شک وہ عظیم محترمہ رضی اللہ عنہا ہم سب کے لیے نمونہ ہیں ۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:’’خَطَبَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ:وَاللّٰهِ مَا مِثْلُكَ يَا أَبَا طَلْحَةَ يُرَدُّ، وَلَكِنَّكَ رَجُلٌ كَافِرٌ، وَأَنَا امْرَأَةٌ مُسْلِمَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَكَ، فَإِنْ تُسْلِمْ فَذَاكَ مَهْرِي وَمَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، فَأَسْلَمَ فَكَانَ ذَلِكَ مَهْرَهَا‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا ، تو انہوں نے کہا : اے ابوطلحہ! اللہ کی قسم ! تیرے جیسے شخص کا پیغام رد نہیں کیا جا سکتالیکن تو کافر ہے اور میں اسلام لا چکی ہوں،میرے لیے تجھ سے نکاح کرنا جائز نہیں ، اگر تو مسلمان ہوجائے تو یہی میرامہر ہوگااور میں تجھ سے اس کے علاوہ کوئی مہر نہ مانگوں گی‘‘
[سنن نسائی : ۳۳۴۱،صحیح]
سبحان اللہ ایسی ہوتی ہیں اسلام کی شہزادیاں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے تو فیق دے ۔ آمین