-
کیا دنیا سے حقیقی محبت کا وجود مٹ چکا ہے؟ ویب سیریز ، موویز ، فلموں اور ڈراموں کے ذریعہ محبت کو اتنا بدنام کیا گیا کہ اس کی اصل شکل تک بگاڑ کر رکھ دی گئی اور بچی ہوئی کسر ان نام کے عاشقوں نے پوری کر دی۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ لوگوں کا محبت پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا بلکہ حقیقی محبت کا تصور ہی ان کے ذہن سے بالکل مٹ چکا ہے ، کسی کے سامنے آپ حقیقی اور سچی محبت کا ذکر چھیڑیں تو وہ آپ کو حیرت بھری ترچھی نظروں سے یوں دیکھے گا جیسے آپ کسی دوسرے گرہ سے آئے ہوں یا آپ نے کسی ما فوق الفطرت شی کا ذکر کر دیا ہو۔
یہ سچ ہے کہ آج نوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ بلکہ اکثریت حرام محبت میں گرفتار ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم کسی چیز کی قلت کے سبب اس کے وجود کے ہی منکر ہو جائیں ، آج لوگوں کا عام ذہن ہی یہ بن گیا ہے کہ محبت صرف ناولوں ، قصے ، کہانیوں اور کتابوں میں پائی جاتی ہے حقیقی دنیا میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں محبت کل بھی پائی جاتی تھی ، آج بھی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی ان شاء اللہ کیونکہ مطلب و مفاد سے پاک خالص سچی محبت یہ اہل ایمان کی نشانی ہے لہٰذا جب تک لوگوں کے سینوں میں ایمان کی چنگاری جلتی رہے گی تب تک محبت بھی باقی رہے گی خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ ہاں مرورِ ایام اور اختلاف زمانہ کے ساتھ اس میں قلت و کثرت یا شدت و حدت کا فرق ضرور ہو سکتا ہے پر بلا کسی لالچ کے سچی محبت کرنے والے لوگ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں ، اب اگر آج ہمیں ایسے لوگ نہیں دکھائی دے رہے تو یہ ہماری قصورِ نظر کا کمال ہے۔
یہ ہماری کوتاہ نظری نہیں تو اور کیا ہے کہ اس روئے زمین پر بلا کسی لالچ سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی (جو ہر گھر میں پائی جاتی ہے)ماں کی محبت ہمیں دکھائی نہیں دے رہی، آپ کی تکلیف پر جو درد سے کراہ اٹھے، آپ کی خوشی سے جس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا جائے ،آپ کے کھانے سے جس کا پیٹ بھر جائے ، آپ کے کھانا نہ کھانے پر آپ کو جو اس طرح ڈانٹے جیسے کہ آپ نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو ، آپ کو روتا ہوا دیکھ جس کا کلیجہ پھٹ پڑے ، جو کبھی بھی آپ کو تکلیف میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکے ، آپ کے لیے جو تہجد میں دعائیں کرتی ہو ، آپ کے ایک دو بار فون ریسیو نہ کر پانے پر جو یکلخت گھبرا جاتی ہو اور تب تک قرار نہ پاتی ہو جب تک آپ اس کا فون ریسیو نہ کر لیں ، آپ کے لیے جو اپنا سب کچھ لٹانے بلکہ اپنی جان بھی دینے کو تیار ہو ، اس بے لوث و بے عوض محبت کو پھر آپ کیا نام دیں گے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر یہ محبت نہیں تو پھر محبت کہتے کسے ہیں؟ بلکہ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اگر یہ محبت نہیں تو پھر دنیا میں محبت کا وجود ہی نہیں ، پھر ہر محبت دکھاوا ہے اور ہر الفت دھوکا ہے۔
یہ ہماری قصور نظری ہی تو ہے کہ ہمیں اس باپ کا پیار پیار نہیں لگتا جو ساری عمر ہمارے لیے محنتیں کرتا ہے اور پھر اپنی ساری عمر کی کمائی ہمارے قدموں تلے رکھ کر خود راہِ اجل کا راہی بن جاتا ہے۔
یہ ہماری تنگ نظری ہی تو ہے کہ ہمیں بھائی بہن کی الفت الفت نہیں لگتی کہ جو بھائی دن بھر بہن کو تنگ کرتا ہے اسے چھیڑتا ہے اور پھر اس کے ذرا سے دور ہو جانے پر اس سے ملنے کو بے قرار ہو جاتا ہے۔
یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ بھائی خصوصاً بہن کے لیے اس کی پسند کی چیز لا کر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ میری ہے اسے کھانا مت ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہن اسے ضرور کھائے گی۔
یہ پیار نہیں تو اور کیا ہے کہ بھائی ہمیشہ بہن کو ڈانٹتا ہے کہ تم نے میرا لیپ ٹاپ یا موبائل میری بغیر اجازت کے کیوں استعمال کیا مگر پھر بھی وہ کبھی اس کا پاسورڈ نہیں بدلتا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بہن پھر سے اسے استعمال کرے گی۔
یہ ہماری کوتاہ نظری نہیں تو اور کیا ہے کہ بھائی بھائی کی محبت ہمیں محبت نہیں لگتی۔ وہ بھائی جو خصوصاََ بھائی کو چھوڑنے کے لیے ہی بائک باہر نکالتا ہے اور ظاہر یہ کرتا ہے کہ اسے اس طرف کوئی کام ہے اس لیے وہاں جا رہا ہے تو ساتھ میں اسے بھی لیتا جائے گا حالانکہ اسے کوئی کام نہیں ہوتا۔
وہ بھائی جو پورے سال کی جمع پونجی سے اپنے لیے لیپ ٹاپ خریدتا ہے اور پھر اسے اپنے چھوٹے بھائی کو گفٹ کر دیتا ہے۔
یہ ہماری کوتاہ نظری کا ہی کمال ہے کہ ہمیں دو دوستوں کی سچی محبت میں بھی مفاد نظر آتا ہے وہ دوست کہ جن کا آپس میں اسلام کے سوا کوئی اور رشتہ نہیں، جنہیں آپس میں ایک دوسرے سے نہ کوئی لالچ ہے نہ مفاد مگر پھر بھی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں اور ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں۔
وہ دوست کہ جن کے مابین ہزاروں کلومیٹر کی دوری ہونے کے باوجود ان کی محبت میں کمی نہیں آتی، جن کی محبت مرورِ ایام کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے۔
دراصل اس معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے محبت کے اس قدر وسیع مفہوم کو انتہائی تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ آج جب محبت کا نام لیا جائے تو لڑکا لڑکی کی محبت کے سوا کسی اور محبت کا ہمارے ذہنوں میں تصور ہی نہیں آتا بلکہ اب تو حالت اس قدر نازک ہو گئی ہے کہ جب بھی محبت کہا جائے تو صرف ناجائز محبت کا تصور ہی ہمارے ذہنوں میں آتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مرد و عورت کی باہمی محبت بھی محبت ہی کی ایک قسم ہے مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ صرف دو جسموں کے ملنے کا نام ہی محبت ہے بلکہ محبت اور بھی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ جیسے ماں بیٹی کی محبت،باپ بیٹے کی محبت،بھائی بھائی کی محبت،بھائی بہن کی محبت،دوستوں کی باہمی محبت وغیرہ۔
اور اگر آپ اب بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ مرد و عورت کی سچی اور جائز محبت کا وجود اس دنیا میں نہیں پایا جاتا تو میں کہوں گا کہ یہ آپ کی خام خیالی اور کوتاہ نظری ہے، کتنے جوڑے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جذبات کو صحیح رخ دیا اور اسلامی طریقے سے شادی کی اور آپس میں محبت سے رہ رہے ہیں بلکہ میں خود ذاتی طور پر ایسے بعض جوڑوں (میاں بیوی) کو جانتا ہوں جو ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے ہیں ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے ہیں ایک دوسرے پر مرتے ہیں اور حد درجہ ایک دوسرے پر قربان ہیں،ایک دوسرے کو نماز کی اور دیگر خیر کے کاموں کی تلقین کرتے ہیں۔ برائیوں سے روکتے ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان کی محبت اسلامی محبت ہے جس کا بروز قیامت انہیں ثواب ملنے والا ہے ان شاء اللہ۔
لہٰذا یہ کہنا کہ محبت صرف غم کا نام ہے اس کو سوز و الفت سے تعبیر کرنا یہ سراسر زیادتی ہے، ہاں یہ کسی شخص کے ذاتی تجربات ضرور ہو سکتے ہیں جس کو دنیا میں حقیقی محبت کرنے والے لوگ نہ ملے ہوں لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، مکمل تصویر نہیں۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ محبت میں درد نہیں ملتے یا اس راہ میں کانٹے نہیں یا یہ راستہ بہت آسان ہے ،نہیں!ہر گز نہیں!
لیکن ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ محبت کے اس سفر میں اگر ہم سفر اچھا، سچا اور حقیقی محبت کرنے والا مل جائے تو راہ کے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں، سورج کی چلچلاتی دھوپ بھی نسیمِ صبح کی مانند لگتی ہے اور راستہ باوجود مشکل کے آسان ہو جاتا ہے۔
نوٹ: یہ بعض باتیں صرف بعض انسانوں کی آپسی محبت کے پس منظر میں مختصراً زیر قلم آ گئی ہیں ورنہ اگر رب کی، حوروں کی ، فرشتوں کی، دیگر مخلوقات کی یا صرف تمام بنی آدم کی محبت کا تذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے تو الگ سے کئی سارے مضامین بلکہ ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہوگی۔
٭٭٭
٭