-
کامیابی کی کنجی:محنت یا سستی (دوسری اور آخری قسط) {وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةَ، وَلَا يُحَافِظُکاہلی کا علاج :
محترم قارئین : سستی اور کاہلی انسان کو خیر سے محروم کرتی ہے،عذاب الٰہی کا مستحق بناتی ہے یہ ایک خطرناک اور تباہ کن بیماری ہے، یہ منافقین کی پہچان ہے، نبی اکرم ﷺنے زندگی بھر اس سے پناہ طلب فرمائی ہے، سستی کی شناعت وقباحت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ منافقین کے اخلاق کا حصہ ہے،سستی سے ہمیں دور رہنا ہے خصوصاً جب کہ فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے اجتناب اور حقوق العباد کی تکمیل کا معاملہ ہو،اس لیے جو لوگ سستی اور کاہلی کرتے ہیں اور اس کے عادی ہوگئے ہیں انہیں اللہ سے سچی توبہ کرنا چاہیے۔
توبہ یہ ان کے سابقہ تمام گناہوں اور اس کے برے اثرات سے پاک کردے گا،ان کا دل کاہلی کے کالے اثرات سے دھل کر بالکل روشن ہوجائے گا۔نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَائُ فِي قَلْبِهِ،فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ،صُقِلَ قَلْبُهُ،فَإِنْ زَادَ زَادَتْ‘‘
’’جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے‘‘
[سنن ابن ماجہ:۴۲۴۴،حسن]
سستی وکاہلی کا اعتراف واقرار اور اس پر احساسِ ندامت وشرمندگی اور سستی سے دوری کا عزم وارادہ اور رب سے توبہ واستغفار پہلا قدم ہے جس سے آپ کاہلی کی منحوس عادت سے نجات پاسکتے ہیں، توبہ سے اللہ تعالیٰ فلاح اور کامیابی کے راستے کھول دیتا ہے، اللہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو خیر کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔{وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ}’’اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے‘‘[الشوریٰ:۱۳]
۱۔سستی وکاہلی سے اللہ کی پناہ طلب کرنا: نبی کریم ﷺ بہت زیادہ سستی سے پناہ طلب کرتے تھے، سستی کے علاج کے لیے اس دعا کا کثرت سے اہتمام کرنا ہے:
’’اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ، وَالْجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ‘‘
’’اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم، عاجزی، سستی، بخل، بزدلی، قرض داری کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے ‘‘
[البخاری:۲۸۹۳]
۲۔ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرنا: مسلمان کو بھلائی سے روکنا شیطان کا بنیادی کام ہے، وہ وسوسے کے ذریعے ایک مسلمان کو کاہل اور سست بنادیتا ہے تاکہ مسلمان بھلائی نہ کریں، سستی اور غفلت کی زندگی گزاریں، اس کے وسوسہ کا مقابلہ تعوذ سے کرنا ہے یعنی ’’أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ‘‘پڑھیں جب بھی وسوسہ آئے، بھلائی کے کاموں میں سستی محسوس ہو اس کا ورد کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَليم}
’’اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والااور جاننے والاہے‘‘
[فصلت:۳۶]
یہ تعوذ ایک عظیم دعا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کو شیطان کے وساوس سے بچاتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے، سستی شیطان کا بڑا ہتھیار ہے ،وہ اس سے لوگوں کو بھلائی سے روکتا ہے اور وہ تمام چیزیں جو لوگوں میں سستی پیدا کریںشیطان کو محبوب ہیں، انہی میں سے ایک جمائی بھی ہے اور جمائی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اس سے سستی پیدا ہوتی ہے اور چھینک اللہ کو پسند ہے کیونکہ اس سے بدن میں نشاط اور چستی پھرتی جنم لیتی ہے۔دیکھیے شریعت کی تعلیم کیا ہے’’التَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاء َبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ‘‘ ’’جمائی شیطان کی طرف سے ہے (کیونکہ وہ سستی اور ثقل کی نشانی ہے اور امتلاء بدن کی) پھر جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو روکے جہاں تک ہو سکے۔ (یعنی منہ پر ہاتھ رکھے)‘‘[صحیح مسلم :۷۴۹۰]
۳۔ صبح کا آغاز ذکر،وضواورنماز سے کرنا: شیطان انسان کو پورا دن سست وکاہل اور ناخوش رکھنا چاہتا ہے اس لیے رات کو ہی اس کے سر کے پیچھے گدی پر تین گرہیں لگادیتا ہے ،اس کی تفصیل اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیں :
’’يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَي قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ، إِذَا هُوَ نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ فَارْقُدْ، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللّٰهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ صَلَّي انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ‘‘
’’شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے، پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند،خوش مزاج رہتا ہے ورنہ سست اور بدباطن رہتا ہے‘‘[البخاری:۱۱۴۲]
دن بھر چاق وچوبند، فرحاں وشاداں اور خیر میں سبقت کرنے والا بننے کا طریقہ یہ ہے کہ دن کا آغاز اللہ کے ذکر، وضو اور نماز کے ذریعہ کریں،جو لوگ ایسا نہیں کرتے اور فجر کی نماز تک ضائع کردیتے ہیں وہ دن بھر سست رہتے ہیں اور اندر سے خوش بھی نہیں رہتے ہیں، مزید اللہ کی توفیق سے بھی محروم رہتے ہیں اور شیطان کے زیر اثر رہتے ہیں کیونکہ سستی کی تینوں شیطانی گرہیں بندھی رہتی ہیں۔
۴۔ باطن کی اصلاح: کاہلی سے نجات کے لیے باطن کی اصلاح لازمی ہے کیونکہ انسان کے کام کی درستی نیت اور فکر کی درستی پر موقوف ہے،آپ کی بہتر سوچ اور اچھا ارادہ آپ کے کام کو بہتر بنادیتا ہے، بعض لوگ صرف اپنی منفی سوچ اور بد نیتی کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں حالانکہ ان کے پاس خوش رہنے کے لیے بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں،اس پہلو سے میں دو باتیں پیش کرتا ہوں،ایک کا تعلق سوچ وفکر سے ہے اور دوسرے کا تعلق نیت اورارادے سے ہے۔
پہلی بات: آرام: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آرام کی زندگی بہتر زندگی ہے تو یہ آپ کی ناسمجھی ہے کیونکہ جس کاہلی کو آپ آرام سمجھ رہے ہو اگر وہ نعمت ہوتی تو یہ نعمت نبی اکرم ﷺاور صحابۂ کرام کو ضرور ملتی ،لیکن یہ عذاب ہے ،یہی آرام کرنے اور بیٹھے رہنے والی زندگی منافقین کو ملی تھی، وہ اس آرام والی لائف پر بڑے خوش تھے اور دوسروں کو بھی اسی آرام کی تلقین کرتے تھے ۔اللہ نے فرمایا:
{فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللّٰهِ وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ}
’’پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ ﷺکے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجیے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے‘‘
[التوبۃ:۸۱]
اور تمام انبیاء کرام جفاکش اور محنتی شخصیات تھیں اور اہل ایمان کا شعار بھی جدوجہد اور محنت ہی رہا ہے، مولانا ابو الکلام آزاد نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے ’’طلب وسعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو‘‘(غبار خاطر: ص:۷۱)جدوجہد کی لذت سے کاہل ہمیشہ محروم رہتے ہیں، دراصل راحت وسکون کا لطف انہی کو ملتا ہے جو محنت کرتے ہیں،ان کے لیے کوئی سکون نہیں جو محنت نہیں کرتے ہیں،ایمان وعمل اور صبر واستقامت اور محنت وجفاکشی کے بعد جب جنتی جنت میں جائیں گے تب کیا کہیں گے آپ بغور یہ آیت پڑھیں:
{وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَائُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ}
’’یہ کہیں گے کہ اللہ کاشکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے‘‘
[الزمر:۷۴]
’’فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ‘‘ ذرا اس جملہ پر غور کریں تو بالکل صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ جنت کی نعمتوں سے وہی سرفراز ہوں گے جو دنیا میں باعمل زندگی گزارتے رہے، یہ جنت دراصل انہی محنتی لوگوں کا انعام ہے اورجوکاہل اور کام چور ہیں تو انہیں نعمت نہیں بلکہ سزا ملے گی۔
دوسری بات: بھلائی کی لالچ : بعض لوگوں کی نیت ہمیشہ خراب رہتی ہے اور یقین کی کمی، دنیا کی محبت کا غلبہ، کبر وغرور کی وجہ سے وہ حسن نیت سے محروم رہتے ہیں، ان کو خیر اور علم نافع کی کوئی طلب اور حرص نہیں ہوتی ہے،جب کہ حسن نیت اور بھلائی کے حرص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سارے خیر عطا فرماتا ہے بلکہ سچے اور خالص ارادے پر ایمان وہدایت کے راستے کھلتے ہیں۔
{وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ}
’’اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنا دے تو ضرور روگردانی کریں گے بے رخی کرتے ہوئے‘‘[الأنفال:۲۳]
اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ فهذا يدل على أن عدم الفهم فى أكثر الناس اليوم عدلا منه سبحانه لما يعلم فى قلوبهم من عدم الحرص على تعلم الدين فتبين أن من أعظم الأسباب الموجبة لكون الإنسان من شر الدواب هو عدم الحرص على تعلم الدين‘‘
’’اس سے پتہ چلتاہے کہ آج زیادہ تر لوگوں میں ناسمجھی اللہ کی طرف سے عدل وانصاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی یہ بات جان لی ہے کہ ان کے اندر دین سیکھنے کی کوئی لالچ نہیں ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کوسب سے بدترین جانور بنانے میں سب سے بڑا اور لازمی سبب دین سیکھنے کی لالچ نہ ہونا ہے‘‘
[مفید المستفید: ص: ۱۱۴]
کاہلی کو دور کرنے کے لیے اپنے ارادے کو نیک بنانا ہوگا اور خیر کے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کوخیر کی توفیق عطا فرمائے ۔
۵۔ محنتی لوگوں سے دوستی: صحبتوں کا رنگ بڑا گہرا ہوتا ہے، کاہلوں کی دوستی انسان کو کاہل بنادیتی ہے،دوستوں کا اثر ہر چیز کو متاثر کرتا ہے ،نبی کریم ﷺنے لوہار کی مجلس کو بری دوستی اور عطر فروش کی مجلس کو اچھی دوستی سے تشبیہ دی ہے، لہٰذا کاہلوں سے فوراً دوری اپنائیں اور سیرت وسوانح کی کتابوں کے ذریعہ انبیاء ،صالحین، علماء ، محدثین اور اسلاف کرام کی ہم نشینی اختیار کریں، ان کے نقوش وآثار کی اتباع کریں اور صالح دوستوں سے دوستی کریں ،یہی اصلاح کا طریقہ ہے،اللہ نے انبیاء اور صالحین کے قصے اسی لیے بیان فرمائے ہیں۔
۶۔ عزم مصمم: کاہلی کا ایک سبب ارادے کی کمزوری ہے،اس کا علاج عزم مصمم اور پختہ ارادہ ہے،عمل کا پہلا قدم ہے مضبوط ارادہ،جب آپ غور وفکر اور مشورہ کے بعد کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کریں اور تردد بالکل نہ کریں اور کام کو پورا کریں،اللہ نے نبی اکرم ﷺسے فرمایا:
’’فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ‘‘
’’پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘
[آل عمران:۱۵۹]
مضبوط ارادہ، محکم فیصلہ نیکی کی راہ پر ثبات قدمی اور جہد مسلسل یہ بڑی خوبی ہے، اللہ نے پانچ انبیاء کرام کو اولوالعزم(صبر ومحنت اور مضبوط ارادہ والے) کا خطاب عطا کیا:
{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ}
’’پس (اے پیغمبر!) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا‘‘[احقاف:۳۵]
ارادے کی پختگی اور ہدایت پر ثبات قدمی کے لیے یہ دعاء پڑھتے رہیں:
’’يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَي دِينِكَ‘‘
’’اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘[سنن ترمذی:صحیح:۳۵۲۲]
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ}
’’اے ہمارے رب!ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والاہے‘‘[آل عمران:۸]
۷۔ خیر میں سبقت کرنا: دنیا میں لوگوں کے پاس کئی راستے ہیں، ایک مسلمان کو اللہ نے خیر کا راستہ چننے کا حکم دیا ہے اور نیکی کا راستہ وہی اختیار کرتا ہے جسے اللہ اور آخرت کا ڈر ہو،اللہ کا ارشاد ہے:
{وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيعًا إِنَّ اللّٰهَ عَلَي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ}
’’ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم نیکیوں کی طرف دوڑو، جہاں کہیں بھی تم ہوگے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘[البقرۃ:۱۴۸]
حساب کے دن پر یقین اور اللہ کی قدرت اور عظمت کا احساس کاہلی کو جڑ سے مٹادیتا ہے اسی لیے مومن خیر میں سبقت کرنے والا ہوتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کا ڈر اور آخرت کا خوف ہوتا ہے، اس کے برعکس منافق اور کاہل دونوں کو نہ اللہ کا ڈر ہوتا ہے نہ رب سے ملاقات کا خوف،اس لیے نماز جیسی عبادت بھی ان پر گراں ہوتی ہے،اللہ نے فرمایا:
{وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَي الْخَاشِعِينَ}
’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر‘‘[البقرہ:۴۵]
آخرت پر یقین مومن کا بے حد قیمتی سرمایہ ہے جو مومن کو خیر کے لیے آمادہ کرتا رہتا ہے اور قرآن کو اس کے لیے رحمت اور ہدایت بنادیتا ہے، اللہ نے فرمایا:
{هٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًي وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ}
’’یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت کی باتیں اور ہدایت ورحمت ہے اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے‘‘ [الجاثیۃ:۲۰]
۸۔ فرائض کو اول وقت پر ادا کرنا: کاہلی کا آغاز تسویف یعنی ابھی کرتا ہوں،تھوڑی دیر بعد کرتا ہوں، کرلوں گا، کل کروں گا، تھوڑا سا آرام کرلوں پھر جاتا ہوں، ایسے تاخیر والے الفاظ کے ذریعہ آدمی اپنی سستی کا آغاز کرتا ہے اور ایک دن بالکل کاہل بن جاتا ہے، ہمیں کاہلی کا علاج یوں کرنا ہے کہ فرائض کو پورے آداب کے ساتھ وقت پر ادا کرنا ہے ،جیسا کہ نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے :
’’كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِهِ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَي الصَّلَاةِ‘‘
’’نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لیے چلے جاتے تھے‘‘[البخاری:۶۷۶]
۹۔ شیطان اور نفس امارہ: شیطان اور نفس دونوں انسان کو آرام پسند اور کاہل بناتے ہیں، ان کا مقابلہ کیے بغیر آپ حرکت وعمل کے خوگر اور خیر میں سبقت کرہی نہیں سکتے ہیں، شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھنے کا سب سے طاقت ور طریقہ اللہ کا ذکر ہے،آپ ہمیشہ اللہ کا ذکر تے رہیں، صبح وشام کے اذکار، تلاوتِ قرآن، قرآن وسنت سے ثابت شدہ اذکار پڑھتے رہیں اور اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہروقت اللہ کو یاد کریں۔
نفس ہمیشہ انسان کو خواہشات کے لیے اکساتا اور ابھارتا رہتا ہے ،شہوات کے پیچھے پیچھے بھاگنا، من مانی زندگی گزارنا،جو کچھ بھی نفس کہے ویسا ہی کرنااورنفس کو معبود بنالینا گمراہی ہے۔
’’وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًي مِنَ اللّٰهِ‘‘
’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے‘‘ [القصص: ۵۰]
اور اس کا انجام جہنم ہے،نفس کو قابو میں رکھنے کے لیے اللہ کا تقویٰ سب سے طاقت ور چیز ہے،اللہ تعالیٰ نے نفس کی مرغوب چیزوں کا ذکر کر کے تقویٰ اور متقین کے اوصاف کا ذکر کیا ہے، لہٰذا نفس کو کنٹرول میں رکھیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں تاکہ نفس کے شر سے محفوظ رہیں،اس تعلق سے سورہ آل عمران کی آیت ۱۴تا ۱۷کی تفسیر دیکھیں۔
۱۰۔ وضو کا اہتمام: ظاہری وباطنی پاکیزگی مومن کو چست بنادیتی ہے،سستی وکاہلی دور کردیتی ہے، پاکیزہ انسان رب سے قریب ہوجاتا ہے اور گندہ انسان شیطان سے قریب ہوتا ہے،وضو سے بدن نشیط اور مزاج درست اور گناہ معاف ہوتے ہیں،اگر آپ چست رہنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ یا اکثر اوقات باوضو رہا کریںاور جب بھی سستی محسوس کریں فوراً کامل وضو کرلیا کریں، اس سے آپ ہروقت نشیط اور فریش رہیں گے، یہ بڑی کامل حالت ہے ،اللہ کے نبی نے فرمایا:
{وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةَ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَي الْوُضُوئِ إِلَّا مُؤْمِنٌ}
’’اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے‘‘[سنن إبن ماجۃ:۲۷۷، صحیح]
بار بار وضو کے لیے اٹھنا،کامل وضو کرنااورظاہر وباطن کی پاکیزگی کے لیے کوشش کرنا،کاہلی دور کرنے کا نہایت ہی کامیاب اور اعلیٰ طریقہ ہے اور یہ مومن کے ایمان کی دلیل ہے۔لہٰذا آپ باوضو رہنے کی کوشش کریں۔
آخر میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم سب کو خیر میں سبقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کاہلی جیسی بری عادت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
٭٭٭ عَلَي الْوُضُوئِ إِلَّا مُؤْمِنٌ}