Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اب بھی موقع ہے اندھیروں کا کرو کوئی علاج

    اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس نے تعلیم کا جنازہ نکال دیا ہے،اس تعلیمی بحران پر کل کا مورخ خون کے آنسو روئے گا،اہل قلم محرومی کا مرثیہ پڑھیں گے، حکمراں تو خوش ہیں کہ آن لائن تعلیم چل رہی ہے اور امتحان بھی ہورہا ہے،دوسری جماعتوں میں ترقی بھی ہورہی ہے، لیکن یہ دنیا کو بعد میں معلوم ہوگا کہ آن لائن تعلیم نے صرف پڑھا لکھا جاہل پیدا کیا ہے،ڈگری ہولڈرس کی شکل میں ان پڑھ جنم دیا ہے،آن لائن تعلیم کتنی کامیاب ہے یہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کے درمیان راز ہے،پڑھا نے والوں کو تنخواہ مل رہی ہے اور پڑھنے والوں کو پڑھائی کے جنجال سے نجات مل رہی ہے،اس لیے آن لائن تعلیم کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔
    یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ لاک ڈاؤن میں جب پابندیاں دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتی ہیں اور اَن لاک کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے تعلیم گاہ اور عبادت گاہ تک پہونچتا ہے تو اگلی لہر دستک دینے لگتی ہے،لاک ڈاؤن سے سب کے لیے راحت ہے سوائے تعلیم گاہوں اور عبادت گاہوں کے،کرونا وائرس کے ڈر کے پیشِ نظر صرف اسکولوں کو بند رکھنے کی لاجک سب کو اپیل بھی کرتی ہے،یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ بیماری سب سے کم بچوں پر اثرانداز ہوئی ہے،اموات میں بچوں کا فیصد صفرکے برابر ہے،پھر بھی اسکول ہی سب سے زیادہ بندی کے شکار ہیں ،اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں،شراب کی دوکانوں سے بھی گئی گزری تعلیم گاہیں ہیں، شراب خانے تو کھل سکتے ہیں لیکن اسکول نہیں کھل سکتے،بازاروں ،میلوں، جلسوںاور ریلیوں کی بھیڑ سے بیماری پھیلنے کا امکان نہیں ہے،صرف تعلیم گاہوں کو کھول دیا گیا تو قیامت آجائے گی،ایسا لگتا ہے کہ کرونا بڑھتے ہوئے تعلیمی رجحان کے خلاف ایک سازش ہے جسے میڈیا کے ذریعے پایۂ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔
    دوسرا سال بھی شروع ہو کر کرونا کے سائے میں اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے،زمینی صورتِ حال یہ ہے کہ بندی سے زچ ہو کر طلبہ کثیر تعداد میں تعلیم سے دست بردار ہورہے ہیں،اسکول سے طویل انقطاع طلبہ کے ترکِ تعلیم کا سبب بن رہا ہے،چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کو تعلیم کا نعم البدل سمجھ لیا گیا ہے،اسکولوں کی طرح دینی ادارے بھی کئی چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں،کثیر تعداد میں مدارس کے طلبہ امامت اور دوسرے مشاغل سے وابستہ ہوچکے ہیں،مشکلات کے اس کٹھن دور میں بیٹے کی چند روپئے کی آمدنی والدین کے لیے بہت بڑا سہارا بن چکی ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے حالات سے سمجھوتا کرچکے ہیں،بچوں کو مستقبل کی فکر کہاں ہوگی؟ان کادل تو چند پیسوں پر لٹو ہورہا ہے،ظاہر ہے جو بچے بقدرِ ضرورت خرچ پر گزارا کرتے تھے وہ جب تنخواہ پانے لگے تو کیرئیر کا دوررس خیال کیونکر آئے گا؟جو والدین پڑھائی کے لیے اولاد پر سختیاں کرتے تھے وہ بھی صورتِ حال کو دیکھ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،ایک نسل کا کیرئیر تباہ ہورہا ہے،مستقبل اندھیرے میں ڈوب رہا ہے،تعلیمی بیداری کے سارے گزشتہ دعوے اب مرثیوں میں تبدیل ہورہے ہیں،باربار طلبہ کو فون کیا جارہا ہے،والدین سے بات کی جارہی ہے لیکن کوئی ریسپانس نہیں مل رہا ہے،مدارس کے برسوں کی محنت پر پانی پھر رہا ہے،مدارس ایک طرف خطرناک معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں دوسری طرف طلبہ کا غیر تعلیمی رجحان طرح طرح کے اندیشے پیدا کررہا ہے۔
    مدارس آنے والے وقت میں غیر معمولی قحط سے دوچار ہونے والے ہیں،ایسے میں اہلِ مدارس کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں،وسیع پیمانے پر دینی تعلیم کی اہمیت سے عوام الناس کو آگاہ کرنا ہوگا،فارغینِ مدارس کے مستقبل کو یقینی بنانا ہوگا،مساجد ومدارس میں علماء کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا تدارک کرنا ہوگا،جب تک دینی تعلیم کے ساتھ روشن مستقبل اور اطمینان بخش زندگی وابستہ نہ ہوگی قلوب مدارس کی طرف راغب نہ ہوں گے،والدین کے لیے دینی تعلیم وجہ ترجیح نہیں بنے گی،اسکولوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی ادارے بھی آن لائن تعلیم شروع کرچکے ہیں،تجربہ بتاتا ہے کہ آن لائن تعلیم خانہ پری اور دل کی تسلی کی حد تک بہتر ہے،نتیجہ خیز تدریس کے لیے نہیں۔
    اس وقت طلبہ اور ان کے والدین کی ذہن سازی بہت ضروری ہے،اس کام کے لیے اگر ان کے گھروں پر جانا پڑے تو جانا چاہیے اور ترکِ تعلیم کے دوررس نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے،ہمت اور حوصلے کی تلقین کرنی چاہیے، رفاہی تنظیموں کی توجہ طلبہ کے ترکِ تعلیم کے بڑھتے رجحان کی طرف مبذول کرانا چاہئے،دینی اداروں کو فیسوں میں تخفیف کرنی ہوگی،اس وقت بھاری بھرکم فیس بھی رکاوٹ بن رہی ہے کیونکہ لوگوں کے حالات لاک ڈاؤن سے بہت خستہ ہوچکے ہیں،اس پیغام کے ساتھ سلسلۂ کلام موقوف کرتا ہوں۔

     

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings