Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • نامور محققین ہند کی عربی و اسلامی سرمائے کے تئیں خدمات (قسط اول)

    ترجمہ:آفاق احمد شبیر احمد سنابلی

    ہندوستان میں عربی ذخائر کی نشرو اشاعت کا آغاز اٹھارہویں صدی عیسوی کے اخیر میں ہوا ، یعنی جب کلکتہ میں کمپوز کیے ہوئے حروف پر کتابوں کی طباعت کے لیے پرنٹنگ پریس قائم کیے گئے ۔ یہاں سے پہلے پہل شائع ہونے والی کتابوں میں:
    [السراجیۃ فی الفرائض للسجاوندی:۱۷۹۳م، الہدایۃ للمرغینانی:۱۸۰۷م، الفصول الإبقراطیۃ:۱۸۳۲م، ألف لیلۃ ولیلۃ:۱۸۳۹۔۱۸۴۲م، فہرسۃ الطوسی: ۱۸۵۳م، تاریخ الخلفاء للسیوطی:۱۸۵۶م]
    الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر۔(م۱۸۵۶ھ) وغیرہ جیسی مختلف فنون میں بنیادی مآخذکی حیثیت رکھنے والی کتابیں شائع کی گئیں ۔ ان کتابوں کی تصحیح وتحقیق کا فریضہ انجام دینے والے جلیل القدر علماء تھے جن میں مولانا کبیر الدین احمد ، مولانا سلیمان غلام مخدوم ،مولانا عبداللہ ،مولانا عبد الحق ،غلام قادر،محمد وجیہ عبد الحق وغیرہم قابل ذکر ہیں۔
    اس کے بعد ہندوستان کے دیگرشہروں میں بھی متعدد پرنٹنگ پریس قائم کیے گئے جہاں سے کتابیں لیتھو پرشائع ہوتی تھیں۔
    جیسے لکھنؤمیں مطبع نول کشور،بھوپال میں مطبع صدیقی اور مطبع شاہجہانی ،دہلی میں مطبع فاروقی اور مطبع احمدی ،کانپور میں مطبع نظامی ،آرہ میں مطبع خلیلی ، امرتسر میں مطبع دار الکتب والسنۃ ، ممبئی میں مطبع نخبۃ الاخبار وغیرہ ۔
    اگران مطابع سے شائع ہونے والی اہم کتابوں کا ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہو جائے گا، بہر حال ان میں سے ہر مطبع کا لغت،ادب،تاریخ،طب ،فلسفہ،اسلامی کتب اور شرعی علوم وغیرہ کی کتابیں شائع کرنے میں نمایاں کردار رہا ہے۔ان کتابوں کی تصحیح اور مراجعہ کبار علماء کرتے تھے ۔ ایسی تعلیقات چڑھاتے تھے جن سے کتاب کے رازہائے سربستہ نمایاں ہو جاتے اوران میں موجود پیچیدگیاں ختم ہوجاتیں اورمعانی ومطالب واضح ہوجاتے۔
    چنانچہ حیدرآباد میں ’’دائرۃ المعارف النظامیہ‘‘ (جو بعد میں دائرۃ المعارف العثمانیہ کے نام سے معروف ہوا) نے(۱۳۰۸ھ) میں اپنے قیام کے ابتدائی دورسے ہی مختلف فنون کے اہم مآخذکے انتخاب اور ان کے جملہ قلمی نسخوں (مخطوطات)کو اکٹھاکرنے اور ان کی فوٹو کاپی جمع کرنے کا اہتمام کیا ، اس کے بعد ایک علمی ٹیم کے ذریعہ ان کتابوں کی تحقیق اورنشرواشاعت کا بیڑااٹھایا جس کے صدر ’’تذکرۃ النوادر‘‘کے مؤلف محمد ہاشم ندوی رحمہ اللہ ہوا کرتے تھے ۔مولانا ہاشم ندوی رحمہ اللہ نے کتابوں کی اشاعت کے لیے پروگرام مرتب کیا اور ہند اور بیرون ہند سے علماء اور اسکالرکو اکٹھا کیا نیز عربی ذخائر سے دلچسپی رکھنے والے مستشرقین سے بھی رابطہ کیا ۔
    دائرۃ المعارف مشرق میں وہ پہلا علمی مرکز ہے جس نے عربی ذخائر میں سے ایسی چیدہ اور عمدہ کتابوں کی نشر واشاعت کا کام کیا جن سے دنیا کا کوئی عربی مکتبہ خالی نہیں ۔وہاں سے شائع شدہ کتابیں مشرق ومغرب میں اعتماد اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔اسلامی اور عربی علوم میں ریسرچ وتحقیق کرنے والا کوئی اسکالر اور محقق ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کی شہرت تفصیل کی محتاج نہیں ہے ۔
    آئیے اب اس میدان میں چند انفرادی کاوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
    ہندوستان کے کئی معروف ومشہور علماء ومحققین ہیں جنہوں نے عربی ذخائر کی تحقیق وتدوین کو اپنا مشغلہ بنایا اور اپنی پوری زندگی ان ذخائر کی نشرواشاعت میں وقف کردی۔ان پر اس کی محبت وخدمت اس طرح غالب رہی کہ انہوں نے اس راستہ میں قیمتی سے قیمتی چیز خرچ کردی۔ایسے علماء کی تعداد ان کے علمی آثار وتحقیقات کے تتبع کے بعد پچاس سے زائد پہنچتی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے مستشرقین اور عرب کے منہج سے متاثر ہوئے بغیر اپنا مستقل ایک منہج بنایا۔اور ان میں سے بعض نے مستشرقین کے منہج کو اپنایا البتہ اس میں انہوں نے بعض امور کا اضافہ بھی کیا۔ اور ان میں بعض عربی جامعات سے فارغ التحصیل تھے لہٰذاانہوں نے وہاں پر رائج منہج کو اپنایا۔
    ان علماء کو علوم و فنون کے اعتبار سے چند گروہوں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔ان میں سے کچھ لوگوں نے مشرقی علوم حدیث، تفسیر اور فقہ پر توجہ دی اور ان میں سے کچھ لوگوں نے لغت ،ادب اور شعر پر توجہ دی، اورکچھ نے تاریخ، فلسفہ، طب وغیرہ کی کتابوں کی تحقیق کی ۔
    البتہ اس مختصر مضمون میں میدانِ تحقیق سے جُڑے ان تمام لوگوں کی خدمات پر روشنی ڈالنا ناممکن ہے۔لہٰذا یہاں ہم صرف ان نامور اور بلند پایہ محققین کے تذکرے پر اکتفا کریں گے جن کی شہرت پوری دنیا میں ہے ،اس لئے کہ انہوں نے اسلامی عربی علمی ورثہ کی تحقیق میں اپنے عظیم کارہائے نمایاں سے عربی مکتبات کو مالا مال کر دیااور پہلی بار بنیادی مآخذ کی خدمت کرکے انہیں منصئہ شہود پرلے کر آئے۔
    ان میں سے میں نے صرف دس علماء کا انتخاب کیا ہے ،جن میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے حدیث اور علوم ِحدیث کی کتابوں کی تحقیق کی، اور بعض لوگوں نے لغت، ادب ، اور شعر کی کتابوں کی خدمت کی ،اورکچھ لوگوں نے کتبِ تاریخ اور انساب وغیرہ کی طرف اپنی توجہ مبذول فرمائی۔
    میں ان حضرات کی بعض تحقیقات اور شائع شدہ کتابوں کی انتہائی اہم اور نمایاں خصوصیات ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا جو ان میں سے ہر ایک کے مابہ الامتیاز پہلو کواجاگر کرنے کے لیے کافی ہوں گے ۔ان شاء اللہ ۔
    ۱۔ علامہ محدث ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (ت ۱۳۲۹ھ ؍۱۹۱۱م)
    ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے حدیث کی کتابوں پر توجہ دی اور انہیں خریدنے کے لئے بہت پیسے خرچ کئے۔پھر ان کے پاس نادر مخطوطات پر مشتمل ایک بڑی لائبریری تیار ہوگئی جو بعد میں پٹنہ کے خدا بخش لائبریری میں منتقل کردی گئی۔سب سے پہلے آپ نے ہی ’’سنن الدارقطنی‘‘کو اپنی تعلیق کے ساتھ ’’التعلیق المغنی‘‘کے نام سے شائع کیاجس میں انہوں نے احادیث کی تخریج کی ہے اور اسانید پر کلام بھی کیا ہے۔
    ’’سنن ابی داؤد‘‘ سے ان کو بڑی دلچسپی تھی چنانچہ اس کے گیارہ قلمی نسخے اکٹھا کیے جن کو بنیاد بنا کر’’ سنن ابو داؤد‘‘ کی تحقیق کی۔ تحفۃ الأشراف اور اس وقت کے دوسرے مخطوط مصادر کی مدد سے سنن ابی داؤد کی ’’لؤلؤی‘‘والی روایت کو دیگر روایات سے الگ کیا۔اسی طرح کتاب کے نسخے باہم خلط ملط (گڈمڈ)تھے لہٰذا انہوں نے ہر ہر نسخے کی تمییز کی اور زائد احادیث کو نسخ کی نشان دہی کرتے ہوئے درج کیا ۔پھر ’’عون المعبود علٰی سنن أبی داؤد ‘‘ کے نام سے سنن ابوداؤد کی ایک متوسط شرح لکھی ، جو علماء اورطلبہ کے مابین مشہورو معروف ہے۔ نیز’’غایۃ المقصود ‘‘ کے نام سے ابوداؤد کی ایک مفصل شرح لکھی تھی جس کا صرف ایک ہی جزء ان کی زندگی میں شائع ہو سکا تھا۔(۱)اس کے دو جزء بعد میں شائع ہوئے۔ اگر یہ شرح مکمل ہوتی تو ۳۲،اجزاء پر مشتمل ہوتی۔اسی شرح کے مقدمہ میں انہوں نے پہلی مرتبہ’’رسالۃ أبی داؤدإلی أہل مکۃ‘‘کو بھی شائع کیا۔شرح کے حاشیہ میں انہوں نے پہلی مرتبہ امام منذری کی کتاب ’’مختصر السنن‘‘کا کچھ حصہ اور ابن القیم کی کتاب ’’تہذیب السنن ‘‘بھی شائع کی۔
    اسی طرح علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ نے دوسری کتابیں بھی شائع کیں، مثلا ًامام بخاری کی ’’خلق أفعال العباد ‘‘،امام سیوطی کی ’’إسعاف المبطا برجال المؤطا‘‘، اور اپنے شیخ محدث حسین بن محسن الانصاری کے بعض رسائل وغیرہ۔میں نے ان کی مذکورہ خدمات اور ان کے علاوہ دیگر خدمات کا تذکرہ اپنی کتاب ’’حیاۃ المحدث شمس الحق العظیم آبادی وأعمالہ‘‘میں کیا ہے جو جامعہ سلفیہ بنارس سے شائع ہوئی ہے۔
    ۲۔ علامہ محدث عبد التواب ملتانی رحمہ اللہ( ۱۳۶۶ھ؍۱۹۴۶م)
    بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے قلتِ مال اور مطلوبہ وسائل کی کمیابی کے باوجود سنت کی خدمت اور اس کی نشرواشاعت کی۔انہوں نے ہی پہلی مرتبہ ’’(مصنف)ابن أبی شیبہ ‘‘کے تین اجزا ء شائع کئے۔اسی طرح محمد بن نصر المروزی کی’’مختصر قیام اللیل و قیام رمضان و کتاب الوتر۲‘‘ (اختصار المقریزی)اور باغندی کی ’’مسندعمربن عبدالعزیز ‘‘ابن القیم کی ’’تحفۃالمودود بأحکام المولود‘‘ ’’حاشیۃ السندی علی صحیح مسلم‘‘وغیرہ جیسی تقریباً بیس کتابوں کی تحقیق کی ۔ اور ان ساری کتابوں کی طباعت لیتھو پر ہوئی ۔ انہوں نے خود ہی ان کتابوں کی تصحیح کی اور ان پر تعلیق چڑھائی ساتھ ہی ان کے اندرکتب حدیث ،تاریخ ، رجال سے نادر فوائد بھی نقل کئے۔
    ۳۔ شیخ عبد الصمد شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ (ت۱۴۱۶ھ؍۱۹۹۶م)
    جو امام مزی رحمۃ اللہ کی ’’تحفۃ الأشراف‘‘ کو۱۴جلدوں میں شاندارعلمی تحقیق کے ساتھ شائع کرنے کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے۔جو بھی اس ایڈیشن کو دیکھے گا اسے معلوم ہوگا کہ اس میں چند ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر مطبوعہ کتابوں میں نہیں ہیں ان میں سے چندخصوصیات درج ذیل ہیں:
    راویوں کے ہر طبقے (صحابی، تابعی، تبع تابعی)کی وضاحت کے لیے انہوں نے ایک یا دو یا تین ستاروں کا نشان استعمال کیا ہے اور ایک مخصوص انداز میں حروف کو چھوٹا اور بڑا رکھا ہے ، اور ہر حدیث سے پہلے اس کا نمبر ڈال دیا ہے اور اس نمبر کے نیچے کتب ِحدیث کے رموز کو بھی ذکر کردیا ہے اور یہ حدیث احادیث کی کس کس کتاب میں پائی جاتی ہے متن کے اندر اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے جس میں کتاب کاعنوان اور قوسین کے درمیان با ب نمبر ذکر کردیا ہے ۔
    اسی طرح حاشیہ میں ابن حجر کی کتاب ’’النکت الظراف علی الأطراف‘‘کو منتقَد مقامات میں شائع کیا۔ نیز خطا، تحریف یا سقط سے آگاہ کرنے کے لیے انہوں نے بعض جگہوں پر تعلیق بھی چڑھائی ہے۔ اور اس مقصد سے کہ حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے اوران کا حوالہ دینے میں آسانی ہو، اسی طرح ایک کام یہ بھی انہوں نے کیا کہ ان کے اندر موجود کتب وابواب کے عناوین اور ہر ہر کتاب اور باب نمبرایک مستقل جلد میں درج کردیا۔
    ’’تحفۃ الأشراف ‘‘کی تحقیق کے دوران انہوں نے امام نسائی کی (السنن الکبریٰکو تلاش کیا جس پر امام مزی نے اعتماد کیا ہے، چنانچہ انہوں نے سننِ کبریٰ کے قلمی نسخوں کو جمع کرکے اس کی تحقیق کی اور تین جلدوں میں اسے پہلی بار شائع کیا۔
    شیخ عبد الصمد رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ الاسلام کی کتابوں کی طرف خصوصی توجہ دی، چنانچہ انہوں نے ہی پہلی بار ’’الرد علی المنطقیین‘‘’’مجموعۃ تفسیر شیخ الاسلام لست سور‘‘’’قاعدۃ فی أنواع الإستفتاح فی الصلاۃ‘‘وغیرہ کو شائع کیا اور ان پر ایسی دقیق تعلیقات چڑھائیں جن سے شیخ الاسلام کی کتابوں کے ساتھ ان کے لگاؤ اور ان میں بحث کردہ موضوعات کی تحقیق کے تئیں ان کی دلچسپی اور اہتمام کا بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ان میں سے (کسوف شمس) سورج گرہن سے متعلق ایک موضوع پر ان کی تعلیق بطور مثال پیش کرتا ہوں۔ عہد نبوی میں نبی کریم ﷺکے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت جو سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا تھا اس کی تاریخِ وقوع کے سلسلے میں ابن تیمیہ نے واقدی اور فقہاء میں جنہوں نے واقدی کی پیروی کی تھی ان پر رد کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے کہ ماہرین فلکیات کے نزدیک یہ حساب پر مبنی ہے ،لہٰذا جو رائے ان کے حساب کے برخلاف ہوگی اس پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا۔پھر محقق (شیخ عبد الصمد رحمۃ اللہ علیہ )نے علم فلکیات کے ماہر ایک ہندو فلکی کی طرف رجوع کیا اور اس سے عہد ِنبوی میں سورج گرہن کی تاریخ فلکی حساب سے نکالنے کی درخواست کی چنانچہ اس فلکی ماہر نے فلکی حساب لگانے کے بعد وہی نتیجہ نکالا جس نتیجہ پر پہنچ کرابن تیمیہ نے واقدی اور ان کی موافقت کرنے والوں کی تردید کی تھی، اس طرح شیخ الاسلام کے رائے کی تائید ہوتی ہے۔
    ۴۔ سنت کی خدمت کرنے والے بڑے محققین میں علامہ محدث حبیب الرحمان اعظمی رحمۃ اللہ (۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۲) علیہ بھی ہیں۔
    انہوں نے حدیث کی کئی ایک بنیادی کتابوں کی تحقیق کی ہے اور ان پر مفید تعلیقات اور حواشی بھی درج فرمائے ہیں۔
    ان بنیادی کتابوں میںمسند الحمیدی،السنن والآثار لسعید بن منصور،اجزاء میں ،مصنف عبد الرزاق،مصنف بن أبی شیبہ کے چار اجزاء ،الزہد والرقائق لابن مبارک،المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ لابن حجر،کشف الاستارعن زوائد مسند البزار للہیثمیاور’’جامع الاصول لابن الأثیر ‘‘کا تکملہ، جو کتاب کاتیسرا فن ہے اور اس سے پہلے شائع نہیں ہوا تھا۔
    کتب حدیث کے ساتھ ان کی دلچسپی اور شغف کے تعلق سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے’’کشف الاستار‘‘کا ایک مخطوطہ کسی کے پاس دیکھا جو۷۸۰ھ کالکھا ہوا تھاانہوں نے اس سے منہ مانگی رقم دے کر خرید لیا۔ایسے ہی ’’مسند الحارث بن أبی اسامۃ ‘‘کا اصل نسخہ انہیں ہندوستان میں کہیں ملا اور اسے نقل کرڈالا تاکہ اس کی بھی تحقیق کریں لیکن اسے منظرِ عام پر لانے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
    تحقیق و تعلیق میں ان کے منہج کا ذکر مختصر طور پر اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ وہ متن کو اپنے پاس دستیاب نسخوں کی روشنی میں اوردوسرے مآخذکی طرف رجوع کرنے کے بعد درج فرماتے اوراحادیث و آثار کی مختصرا ًتخریج بھی کرتے ہیں۔ مآخذ اورکتابوں کی طرف احالہ بذریعہ رموز کرتے ہیں،اوہام و اخطاء سے بھی آگاہ کرتے ہیں، نسخوں کے درمیان موجود فروق میں سے صرف اہم فروق ہی کو ذکر کرتے ہیں۔ غلطیوں کی اصلاح اور نقص کی تکمیل کرتے ہیں تاکہ عبارت درست ہو جائے، تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود چونکہ ان کے پاس ان کتابوں کے دستیاب نسخے جن کی انہوں نے تحقیق کی ہے خراب قسم کے تھے لہٰذابعض کتابوں کے اندر اسانید ومتون سے متعلق غلطیاں باقی رہ گئیں خاص طورپر’’مصنف عبد الرزاق اور مسند الحمیدی‘‘میں۔چناچہ جب انہیں مسند حمیدی کامکتبہ ظاہر یہ کا قدیم نسخہ ملا تو بعض غلطیوں کاا ستدراک کیا اور ان تصحیحات کو کتاب سے ملحق کردیاتاہم تمام غلطیوں کا استدراک نہ کرسکے ، اور نہ ہی ان تعلیقات کو بدل سکے جن کی کمپوزنگ پہلے سے ہو چکی تھی، وہ اس سلسلہ میں معذور ہیں اور ان شاء اللہ ماجور بھی ہوں گے۔
    ۵۔ ان بڑے محققین میں پانچویں ابو الوفاء الأفغانی رحمۃ اللہ علیہ(۱۳۹۵ھ؍دھ؍۱۹۷۵م)ہیں۔ جو حیدرآباد میں مقیم تھے۔انہوں نے متقدمین ائمۂ احناف کے علمی ورثہ کی نشر واشاعت کے لیے ایک کمیٹی ’’احیاء المعارف النعمانیۃ‘‘کے نام سے قائم کی ۔ان اہم ترین کتابوں میں سے جن کی انہوں نے تحقیق کی اور انہیں شائع کیا:ابو یوسف کی تینوں کتابیں ’’کتاب الآثار‘‘’’اختلاف أبی حنیفۃ و ابن ابی لیلی‘‘اور ’’الرد علی سیر الأوزاعی‘‘اور محمد بن الحسن الشیبانی کی’’کتاب الآثار‘‘ اور’’کتاب الأصل‘‘اسی طرح’’مختصر الطحاوی ، أصول السرخسی اور’’ الصدر الشہید‘‘ کی ’’شرح کتاب النفقات للخصاف‘‘ وغیرہ ہیں۔
    تحقیق میں ان کا منہج یہ ہے کہ وہ احادیث ،آثار اور مسائل مختلف مآخذ اور کتابوں سے تخریج کرتے ہیں ، اور ان کتابوں سے بڑے لمبے لمبے نقول ذکرتے ہیں ۔محمد بن الحسن الشیبانی کی ’’کتاب الآثار اور الأصل‘‘میں تو کافی طویل تاہم مفید تعلیقات چڑھائی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس طرزپر تحقیق مکمل نہ کرسکے ،جن کتابوں کی انہوں نے تحقیق کی ہے ان پر بڑا طویل مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں اس کتاب کی اہمیت اور اس کے مقام کو بیان کیا ہے، نیز مؤلفِ کتاب کی سوانح حیات بھی قلمبند کیا ہے ،اور کتابوں کے قلمی نسخوں کا وصف بھی بیان کیا ہے۔
    جو چیز قابل گرفت ہے وہ یہ کہ انہوں نے’’اختلاف أبی حنیفۃ و ابن ابی لیلیٰ، الرد علی سیرالأوزاعی‘‘کو امام شافعی کی کتاب ’’الأم‘‘سے اخذ کیا ہے اور امام شافعی کے ابویوسف پر جو ردود تھے اسے انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیے بغیر حذف کردیا ہے ، انہوں نے مقدمہ میں ان دونوں کتابوں کے قلمی نسخوں کا بھی تذکرہ نہیں کیا ہے اس لیے کہ دنیا کے کسی بھی مکتبہ میں ان کے قلمی نسخوں کا کوئی وجود نہیں۔ علمی امانت کا تقاضا ہے کہ اس بات کی صراحت کردی جائے کہ یہ دونوں کتابیں امام شافعی کی کتاب سے ماخوذ ہیں، ساتھ ہی علمی امانت کا تقاضہ تھا کہ ان دونوں کتابوں کے مسائل پر امام شافعی کی تعقیب کو برقرار رکھتے پھر حاشیہ میں اس کا مناقشہ کرتے۔
    حدیث اورفقہ کے میدان میں خدمات انجام دینے والوں میں سے انہی پانچ شخصیات کے تذکرے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ دوسرے ان پانچ لوگوں کا ذکر جنہوں نے لغت، ادب ،تاریخ، انساب وغیرہ کے میدان میں خدمات انجام دیں، آنے والی دوسری قسط میں کریں گے۔(ان شاء اللہ ) جاری ہے …………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings